Maa ka badilah - Episode 7

ماں کا بدلہ


قسط 7


میں نے امی کے چوتڑوں پہ ہلکا ہلکا کاٹنا شروع کیا تو امی کے منہ سے سسکی نکلی اور انہوں نے جسم کو ہلکا سا جھٹکا دیا اور بولیں اوئے کنجر اب اس عمر میں ماں کو طلاق دلوایا گا کمینے ۔۔مجھے ان کی یہ بات بالکل سمجھ نہ آئی میں نے پھر ہلکا سا کاٹا اور چومتا گیا وہ پھر بولیں علی بیٹا کاٹو نہیں نا دانت کے نشان پڑ جائیں گے اور تیرے باپ نے مجھے گھر سے نکال دینا ہے مجھے پھر ان کی اس بات کی سمجھ آئی اور مین ان کی کمر کو پکڑے چوم رہا تھا کہ وہ سیدھی ہو گئین اور اپنی شلوار کھینچ کر اوپر کر لی اور پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ مجھے دیکھنے لگیں میری حالت یوں ہو گئی جیسے بچے سے اس کا من پسند کھلونا چھین لیا گیا ہو میں نے اسی طرح پاؤں کے بل بیٹھے ان کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پہ دبی دبی مسکراہٹ تھی مجھے اپنی طرف دیکھتا ہوا پا کر وہ بولیں گندہ بچہ ماں اور رکھیل کے فرق کو ہی بھول گیا ہے بدتمیز انسان ۔ امی آپ میری رکھیل کیسے ہو سکتی ہو میں نے اس طرح ظاہر کیا کہ مجھے ان کی بات بری لگی ہو اور واقعی مجھے ان کی بات بہت بری لگی تھی مجھ میں ان کے لیے ہوس یا پیار تو تھا لیکن اس گندے الفاظ کے ساتھ تو بالکل بھی نہین ۔ میرے ردعمل پہ وہ ہنس کہ بولیں یہ گندے کام کوئی اپنی ہی ماں سے کرتا ہے جو جناب کر رہے ہیں اور شرما بھی نہیں رہے بدتمیز۔ میں اوپر اٹھا اور اپنے بازو ان کے کندھوں پہ رکھ دیئے اور ان کی آنکھوں میں دیکھنے لگا ان کی بڑی بڑی جھیل سی آنکھوں میں محبت اور ممتا کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا ان کے موٹے موٹی سرخ ہونٹ اور پھولے ہوئے گلابی گال بہت ہی پیارے لگ رہے تھے ۔ میں نے آگے ہو کر ان کے گال پہ پیار دینے کی کوشش کی تو وہ چہرہ پیچھے کرتے ہوئے ہنستی ہوئی بولیں گندے ابھی بنڈ چاٹ رہے تھے ابھی وہی ہونٹ میرے چہرے پہ مت لگاو بدتمیز اور ہنسنے لگ گئیں ۔ میں بھی تھوڑا شرمسار ہوا اور ان کو چھوڑ دیا اور واش بیسن کے پاس جا کہ منہ دھعنے اور کلی کرنے لگ گیا وہ بھی باتھ میں کھڑی مجھے دیکھتی رہیں جب میں منہ دھو کر فارغ ہوا اور ان کی طرف دیکھا تو وہ وہیں خاموش کھڑی تھیں اور میری جانب دیکھ رہی تھیں میں نے بھی ان کی طرف دیکھا اور ان کے قریب ہونے لگا انہوں نے مجھے پاس آتا دیکھا اور بھاگ کر کمرے میں چلی گئیں ان کے اس طرح بھاگنے سے ان کے گداز وجود میں جو ہلچل ہوئی اس نے میرے سارے وجود کو ایک تازگی کا احساس دے دیا اور میں بھی ان کے پیچھے چلتا ہوا کمرے میں آ گیا۔ وہ صوفے پہ گرنے کے انداز میں بیٹھ گئیں اور ایک انگلی سے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے بولیں اوئے بدتمیز خبردار میرے قریب نا آنا لیکن مزے کی بات یہ تھی کہ ان کے چہرے پہ غصے کا نام و نشان تک نا تھا


میں ان کی طرف دیکھتے ان کی طرف بڑھتا گیا اور ان کی بات کا کوئی جواب نا دیا مجھے اپنے طرف بڑھتا دیکھ کر وہ پھر بولیں اوئے بے شرم میں نے تجھے منع کیا ہے مجھ سے دور رہو ورنہ میں ماروں گی انہوں نے پھر انگلی میری طرف کرتے ہوئے تنبہیہ کی لیکن میں ان کی طرف بڑھتا گیا انہوں نے جب دیکھ کہ میں ان کی طرف مسلسل بڑھا چلا جا رہا ہوں تو وہ صوفے پہ پاوں اوپر کر کہ کھڑی ہو گئیں اور صوفے کا چھوٹا کشن ہاتھ میں اٹھا لیا اور دھمکی بھرے انداز میں بولیں بدتمیز اب مجھ سے مار کھائے گا جو مجھے ہاتھ لگایا تو ۔ لیکن مجھے ان کا غصہ بناوٹی لگ رہا تھا تو میں ان کی طرف بڑھتا گیا اور ان کے قریب پہنچ کر ان کی طرف دیکھا وہ صوفے پہ کھڑی تھیں اس لیے وہ مجھ سے کافی اونچی لگ رہی تھیں میں نے آنکھیں اٹھا کر ان کی طرف دیکھا اور اپنے بازو وا کرتے ہوئے ان کی گانڈ کے گرد لپیٹ لیے میری کوشش تو کمر سے پکڑنے کی تھی لیکن کیونکہ وہ صوفے پہ تھیں تو میرے ہاتھ ان کی گانڈ کے گرد کس گئے اور میرا منہ سیدھا ان کےمموں کے درمیان لگ گیا میں نے اپنا منہ مموں کے درمیان رکھتے ہی ان کے مموں کو چومنا شروع کر دیا اور زبان درمیانی جگہ پہ رکھ کہ پھیری اور پھر ایک مما قمیض کے اوپر سے منہ میں لینے کی کوشش کی جیسے ہی میں نے ان کا مما منہ میں لیا وہ اچھل پڑین اور بولی گدھے اس عمر مین اب ماں کا طلاق دلوا کے رہے گا کیوں میرے کپڑے خراب کر رہا ہے اس سے تمہارے باپ کو ایک دم شک ہو جانا ہے ۔ سچ تو یہ کہ میں ہوش سے بیگانہ ہو چکا تھا اور اگر ہوش ہوتا بھی تو یہ باریکیاں ایک جوان ہوتے بچے کی پہنچ سے بہت باہر کی بات تھی تو میں نے منہ پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا امی تو قمیض اتار دو پھر خراب نہیں ہو گی نا اور ان کی آنکھ میں دیکھا تو انہوں نے ہاتھ میں سے کشن پھینکا اور بولی توبہ بدتمیزی کی بھی انتہا ہو گئی ہے امی بھی کہتے ہو اور ڈیمانڈ بھی دیکھو اپنی او لڑکے کچھ تو حیا کر لے ۔ میں نے کہا اب میرا اور کون ہے میں سبھی فرمائشیں آپ سے نا کروں اور کس سے کرون یہ کہتے ہوئے میں نے ایک ہاتھ سے ان کی موٹی گانڈ کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ ظاہر ہے بہت موٹی تھی اس کوشش میں ناکسمی کے بعد میں نے ہاتھ کو ان کی گانڈ کی دراڑ میں گھسایا اور منہ اوپر کر کہ ممے کو پھر منہ میں لینے کی کوشش کی انہون نے پھر اپنا مما میرے منہ سے چھڑا لیا اور بولیں بدتمیز سمجھا کرو نا کپڑے خراب ہو رہے ہیں ان کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا میں نے پیچھے ہٹتے ہوئے ان کی قمیض کا دامن اوپر کرناچاہا لیکن انہوں نے ہاتھ آگے کر کہ میری اس کوشش کو ناکام کر دیا اور بولیں علی بیٹا نہیں تمہارے ابو کسی بھی وقت آ سکتے ہیں اور پھر یہ چھوٹی بھی سوئی ہے یہ بھی اٹھ گئی تو مسئلہ بن سکتا ہے پلیز حد پار مت کرو ان کے لہجے میں لاچاری تھی ۔ میں نے امی کی طرف دیکھ کر کہا جتنی دیر آپ روکنے میں لگا رہی ہیں اتنی دیر میں تو میں دیکھ بھی لیتا ۔ میری یہ بات سن کر انہوں نے ایک ہاتھ اپنے منہ پہ رکھ لیا اور بولیں ہائے او ربا یہ لڑکا تو انتہائی گندہ ہو گیا ہے اس نے تو شرم و حیا ہی اتار کہ رکھ دی ہے میں نے ایک بار پھر ان کو گانڈ کے زرا نیچے سے بازو ڈال کر پکڑا اور اٹھانے کی کوشش کی انہوں نے توازن بگڑتے ہی میرے کندھوں پہ ہاتھ رکھ لیے اور بولیں اوئے بدتمیز کچھ حیا کر میرے بازو ان کی گانڈ کے گرد تھے اور ممے منہ پہ رگڑ کھا رہے تھے میں نے ان کو صوفے سے اٹھایا اور نیچے اس طرح چھوڑا کہ ان کی قمیض کا اگلا پچھلا دامن اوپر اٹھتا ان کے پیٹ اور کمر تک پہنچا اور میں نے بجلی کی تیزی سے ان کے دامن پکڑے اور ان کو اوپر اٹھانے کی کوشش کی مگر امی نے بازو اوپر نا کیے اور پھر بولیں علی بچے یہ جگہ ٹھیک نہیں ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے بہت غلط ہے پلیز رک جاو لیکن میں کیسے رکتا اس وقت تو مجھے یہی لگا اب کچھ نا کیا تو ساری عمر کچھ نہیں ملے گا۔


میرے مما پکڑنے اور پیار کرنے سے امی نے ایک سسکی بھری اور میرے سے چپک گئیں نیچے میرے لن نے بھی ان کی ران سے گلے ملتے ان کو سلامی پیش کی میرا لن جیسے ان کی ران سے ٹکرایا انہوں نے ایک جھٹکے سے اپنی ران پیچھے کی میں ان کے گال ہونٹوں کے درمیان بھر کہ باری باری چوس رہا تھا اور ایک ہاتھ سے انکا مما باری باری دباتا جا رہا تھا امی کی آنکھیں بند تھیں ۔ انہوں نے اپنا ایک ہاتھ غیر محسوس انداز میں نیچے کیا اور میرے لن کو ہاتھ سے ٹٹول کر پکڑا انہوں نے جیسے ہی میرے لن کو ہاتھ میں پکڑا تو میرے ساتھ ساتھ ان کے جسم کو بھی ایک جھٹکا لگا اور انہوں نے پکڑتے ہی میرے لن کو چھوڑ دیا لیکن مزے کی اس لہر نے میرے سارے وجود کو جکڑ لیا مجھے بے انتہا مزہ ملا تھا۔ میں نے ان کے گال چومتے ان کے ہونٹوں کو چومنے کی کوشش کی مگر انہوں نے اپنے ہونٹ آپس میں جوڑ کر سختی سے بند کر لیے لیکن میں نے ہونٹوں کے اوپر اپنے ہونٹ رکھ کر چوسنے شروع کر دئیے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن کی طرف کرنے کی کوشش کی جیسے ہی ان کا ہاتھ میرے لن سے ٹکرایا انہوں نے اپنا ہاتھ مجھ سے دور کرنے کی کوشش کی تا کہ میرا لن اس سے ٹچ نا ہو۔ ان کی حالت عجیب تھی وہ مجھے کچھ کرنے بھی نہین دے رہی تھیں مگر مجھے اس طرح روک بھی نہیں رہی تھیں مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ چاہتی کیا ہیں مگر میں یہ سوچنے کے بجائے جو مل رہا ہے اس سے لطف لو کی تھیوری پہ عمل پیرا ان کے ہونٹ چوستا جا رہا تھا اور ان کے ممے مسل رہا تھا ان کے جسم پہ شلوار اور برا تھی اور میں بھی مکمل لباس میں تھا اور مجھے جو مسئلہ درپیش تھا وہ لباس سے چھٹکارہ پانے کا تھا مجھے یہ خطرہ تھا کہ ایسا نا ہو وہ بے لباس ہونے سے منع کر دیں اور مجھے جو مل رہا ہے اس سے بھی جاؤں لیکن وہ کہتے ہیں کہ انسان زیادہ سے زیادہ کی طلب کرتا ہے تو میں نے بھی ان کے ہونٹ اور گال چومتے چومتے دونوں ہاتھ ان کی سائیڈز سے شلوار کو پکڑا اور ایک دم نیچے بیٹھتے ہوئے شلوار کو نیچے کرتا گیا اس طرح نیچے ہوتے ہوئے میں ان کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھتا گیا اور ان کی گوری سڈول رانیں اور بالوں سے صاف ستھری پھولی ہوئی پھدی دیکھ کر میں اپنے ہواس کھو بیٹھا اور پھدی کو سامنے پا کر میں نے اپنے ہونٹ پھدی کے ہونٹوں سے ملا دئیے۔ امی ابھی شلوار اترنے کے حملے سے نہیں سنبھلی تھیں اوپر سے اس وار نے تو ان کو چاروں شانے چت کر دیا ان کے منہ سے تیز سسکی نکلی اور انہوں نے میرا سر اپنی ٹانگوں میں دباتے ہوئے کہا افففف علی یہ کیا کر رہا ہے گندے پیچھے ہٹو لیکن ان کے ہاتھ میرے سر کو اپنی ٹانگوں کے درمیان دبا رہے تھے اور میں ان کی پھدی سے ہونٹ جوڑے یہ سوچ رہا تھا ان کی کس بات پہ یقین کروں اب جو اوپر والے ہونٹوں سے کہہ رہی ہیں یا جو نیچے والے لب بول رہے ہیں۔


وہ سامنے کھڑی تھیں اور میں ان کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھا ان کی پھدی کے اوپر حصے پہ پیار کیے جا رہا تھا اور یہ مجھ سمجھ آ گئی تھی کہ یہاں سے جڑے رہنے سے ہی کچھ ملنے کی امید ہے کیونکہ ان کا ری ایکشن پہلی بار ساتھ دینے والا بن رہا تھا اور وہ میرا سر اپنی ٹانگوں میں دبا رہی تھیں میں نے ہاتھ ان کی گانڈ کی گرد کستے ہوئے ان کی پھدی کے اوپری حصے کو چومنا اور زبان سے چاٹنا شروع کر دیا اور ایک ہاتھ سے ان کی گانڈ کے ایک حصے کو کھولتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے گانڈ کی گلی کے درمیانی حصہ کو ٹٹولنے لگ گیا امی کے منہ سے اففففف ہائےےےے اففف علی نہینننننن کی آوازیں نکل رہی تھیں اور وہ میرے سر کو اپنی ٹانگوں میں دبا رہی تھیں مجھے ان کی پھدی کے اوپری حصے کو چومتے اور ان کی گانڈ سے کھیلتے دو سے تین منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ امی کی سسکیوں اور آہوں کے درمیان ان کی لرزتی ہوئی آواز آئی علی پلیز مجھے بیڈ پہ بیٹھنے دو میری ٹانگوں سے جان نکل رہی ہے میں نے ان کی پھدی کو چومتے ہوئے ان کی شلوار کو پکڑا اور ان کے پاوں اوپر اٹھاتے ہوئے شلوار کو ان کے پاؤں سے نکال باہر کیا اور ان کی رانوں اور پھر پیٹ پہ پیار کرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور ان کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے ان کی کمر کے گرد بازو ڈال کر انہیں دیکھا۔ میری پیاری امی کےمنہ پہ پسینہ چمک رہا تھا اور ان کی پلکیں اور ہونٹ لرز رہے تھے ان کا چہرہ گلابی ہو رہا تھا مجھے اپنی طرف دیکھتے ہی انہوں نے زیر لب کہا گندہ بدتمیز اور پھر شرما کہ آنکھیں بند کر لیں میں نے امی کو اسی طرح پکڑے بیڈ کے قریب کیا اور انہیں کہا کہ بیڈ پہ بیٹھ جائین اور ان کو چھوڑ دیا امی گرنے والے انداز میں بیڈ پہ بیٹھیں اور پھر بیڈ پہ لیٹتی چلی گئیں کہ ان کی گانڈ بیڈ کے کونے پہ تھی لیکن اوپری حصہ سارا بیڈ پہ اور ٹانگیں بیڈ سے نیچے تھیں امی نے گہرے گہرے سانس لینا شروع کر دئیے اور سانس کے ساتھ ہی ان کے موٹے ممے اوپر نیچے ہونے لگےمیں نے اپنا لباس جلدی سے اتارا اور ننگا ہوتے ہی ان کے اوپر چڑھ گیا جیسے ہی امی نے مجھے اپنے اوپر محسوس کیا ان کے جسم کو ہلکا سا جھٹکا لگا اور وہ بولیں علی پلیز اپنی حد مت پار کرنا ایک حد میں ہی رہنا ۔ مجھے ان کی بات پہ ہنسی تو بہت ہوئی لیکن میں نے فرمانبرداری سے کہا اچھا امی بس تھوڑا ساپیار اور کرنا ہے اور یہ کہتے ہوئے ان کے مموں کے اوپری حصے پہ پیار دیا اور ساتھ ایک ہاتھ سے ان کے چہرے کو سہلانے لگا امی کے جسم پہ ایک برا تھی اور میرا سارا جسم ننگا تھا میں نے ہاتھ سے برا کو پکڑکر اوپر کیا تو مجھے یقین تھا وہ اوپر نہیں ہو گی لیکن مجھے حیرت کا جھٹکا لگا کہ برا ایک دم اترتی چلی گئی اور میں ایک لمحے کو حیران ہوا کہ اس کے ہک کیسے کھلے لیکن وقت کا تقاضا تھا کہ اسے حیرت میں ضائع نا کیا جائے تو میں نے ایک نظر مموں پہ ڈالی جو گنبد کی طرح امی کے سڈول پیٹ پہ اکڑے ہوئے تھے اور ان کے درمیان نپل پوری طرح اکڑے ہوئے تھے میں نے بھوکوں کی طرح جھپٹ کر ان کے ممے کی ایک نپل کو منہ میں بھرا تو امی نے ایک زوردار سسکی بھری اور بولیں علی پلیز کوئی نشان نا ڈالنا میرے جسم پہ فورا نشان پڑ جاتے ہیں اور میرے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگیں میں نے ان کی بات کا جواب نا دیا اور مما اسی طرح چوستا گیا وہ پھر بولیں بدتمیز میں کہیں بھاگی تو نہیں جا رہی آرام سے کرو ان کی اس بات نے مجھے حوصلہ دیا کہ اب معاملات کسی حد تک قابو میں آ چکے ہیں میں نے مما منہ سے باہر نکالا اور ان کے چہرے کی طرف دیکھا جو کہ سرخ ہو رہا تھا اور انہوں نے نچلے ہونٹ کو دانتوں کے نیچے دبا رکھا تھا مجھے اپنی طرف دیکھتے وہ شرما گئیں اور بولیں بدتمیز کچھ تو حیا کر لو تمہاری ماں ہوں میں ۔ میں نے ان کی طرف دیکھ کر کہا امی یہ شرم ہی تو کر رہا ہوں ساتھ ہی میں نے اپنے لن کو جو ان کی نرم رانوں کے درمیان دھنسا ہوا تھا ہلکا سا دھکا لگایا کیونکہ وہ بیڈ کے کونے پہ تھیں اور ان کی ٹانگیں بیڈ سے نیچے تھیں اور میں ان کے اوپر تھا تو وہ مجھے بولیں علی میں تھک گئی ہوں اس طرح اور مجھے بھی احساس ہوا کہ وہ آرام دہ پوزیشن میں نہیں ہیں تو میں ان کے اوپر سے کھسکتا ہوا نیچے ہوا اور ان کے کچھ کرنے سے پہلے ان کی دونوں ٹانگیں پنڈلیوں کے پاس سے پکڑ کر اوپر اٹھائیں اور ان کے گھٹنے فولڈ ہوتے ہوئے ان کے پیٹ سے لگے اور امی کے منہ سے نکلا اوئے بدتمیز بیغرت یہ کیا کر رہا ہے ۔ ان کی ٹانگیں اوپر ہوتے ہی ان کی رسیلی پھدی کا دلکش نظارہ میرے سامنے آیا اور ان کے دونوں سوراخ کھل کر سامنے آ گئے میں نے ان کی بات کا جواب دئیے بغیر اپنا منہ بجلی کی سی تیزی سے نیچے کیا اور ان کی پھدی کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں بھر کہ چوسنے لگ گیا امی کے منہ سے ایک زوردار سسسسسی پورے کمرے میں گونجی اور ان کا جسم لرز اٹھا میں نے اس ردعمل کو دیکھتےہوئے ان کی پھدی کے چوسنے کو تیز تر کر دیا اور پھدی کے ہونٹ چوستے چوستے زبان باہر نکالی اور پھدی کے ہونٹ پہ پھیری امی کے جسم کو ایک اور جھٹکا لگا اور ان کی گانڈ اور اوپر اٹھ گئی میں نے زبان پھدی کے دونون ہونٹوں پہ رگڑی اور پھر زبان کو گانڈ کے سوراخ پہ پھیرا جدھر سوراخ کا دہانہ تھا اس پہ زبان کو زور سے پھیرتے ہوئے پھدی کے سوراخ تک لایا امی کا جسم زور سے کانپا اور انہوں نے گانڈ کو اور اوپر اٹھا دیا اور سسکتے ہوئے بولیں علی یہ کیا کر رہا ہے گندے بچے کدھر زبان گھسا رہا ہے یہاں سے کیا پیار کر رہا ہے ایسا مت کر ۔ لیکن ان کا جسم یوں ردعمل دے رہا تھا کہ ان کو بہت مزہ مل رہا ہے۔


میں نے زبان باہر نکالتے ہوئے اسے تھوڑا گول کیا اور امی کی پھدی کے سوراخ پہ رکھتے ہوئے اندر دھکیلا تو زبان پھسلتی ہوئی ان کی پھدی میں اترتی گئی اور ان کے جسم کو ایک اور جھٹکا لگا اور وہ کانپ اور لرز اٹھیں اور لرزتی آواز میں بولیں اففف گندے یہ کیا کر رہے ہو میری جان نکل جائے گی اور ان کے ہاتھ میرے سر کے پیچھے سے مجھے اپنی پھدی پہ دباتے گئے اور ان کی ٹانگیں اور اوپر اٹھتی گئیں اور ان کا جسم کمان کی طرح مڑتا گیا میں نے ہاتھ ان کی گانڈ کی سائیدزپہ رکھے اور ان کی پھدی میں زبان کو اندر باہر کرتا گیا میری ناک ان کی پھدی کے اوپری حصے سے لگتی اور ٹھوڑی ان کی گانڈ کی موری پہ لگتی اور زبان پھدی کے لبعں سے رگڑ کھاتی ان کے اندر گھس جاتی ان کی پھدی گیلی ہو رہی تھی اور مجھے اس کا بہت مزہ آ رہا تھا میں نے جب دیکھا کہ امی اس کو بہت انجوائے کر رہی ہیں تو میں اور تیزی سے زبان کو حرکت دینے لگا اور ان کی پھدی کو چاٹنے لگا اور زبان کو پھدی کے اندر سے باہر نکالتا اور پھر پھدی کے ہونٹوں پہ پھیرتے ہوئے پھر پھدی میں گھسا دیتا اسی طرح کرتے میں نے زبان کو باہر نکالا اور پھر گانڈ کے سوراخ کے دھانے پہ رکھ کہ زبان کو دبایا تو زبان کی نوک گانڈ کی موری کو کھولتی ہوئی تھوڑی سی اندر گئی امی نے جیسے ہی زبان کو اپنی گانڈ کی موری میں اترتے محسوس کیا تو ان کے بھاری وجود میں ایک بھونچال آ گیا اور وہ زور سے بولیں افففف علی گندے بدتمیز ادھر تو زبان نا ڈال اب گندے۔ میں نے زبان کو اور زور سے ان کی موری میں گھسیڑنے کی کوشش جاری رکھی اور ان کی بات کا کوئی جواب نا دیا ۔ میں نے گانڈ کو چاٹتے ہوئے پھر پھدی پہ حملہ کیا اور چاٹنے لگا امی نے اب اپنی ٹانگیں خود اٹھا رکھی تھیں اور وہ مجھے کسی کام سے نہیں روک رہی تھیں میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھیں بند ہو چکی تھیں اور وہ پسینے سے بری طرح بھیگ چکی تھیں ۔ میں پھدی چوستے چوستے ان کے پیٹ کی طرف بڑھا اور اس پہ پیار کرتے کرتے ان کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھیں بند تھیں میں نے اپنا لن ان کی پھدی پہ رکھا اور امی کے پاوں کو اپنے چہرے کے قریب کیا اور پاوں کے تلوے چاٹنے لگ گیا امی مدہوش ہو چکی تھیں میں نے اپنا لن ان کی پھدی پہ رکھا اور امی کے چہرے کی طرف دیکھ کر پھدی پہ لن کا دباو ایک دم بڑھا دیا اور میرا لن ان کی گیلی پھدی کی دیواریں کھولتا ہوا آدھے سے زیادہ اندر دھنس گیا امی کا جسم ایک دم لرزا اور ان کے منہ سے نہیں کی چیخ نکلی اور انہوں نے تڑپ کر میرے نیچے سے نکلنے کی کوشش کی لیکن ان کی ٹانگیں میرے ہاتھ میں تھیں اور ان کے چوتڑ بیڈ کے کونے پہ تھے ان کو اس کوشش میں کوئی کامیابی نا ملی۔


امی کی آنکھیں پوری طرح کھل گئیں ان کے چہرے پہ درد اور کرب کے تاثرات تھے اور انہوں نے میری طرف عجیب سی نظروں سے دیکھا اور کپکپاتی آواز میں بولیں علی بہت غلط ہو گیا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا پلیز اسے باہر نکال لو میں ماں ہوں تمہاری ۔ ان کی بات سن کہ میں نے صورتحال کا جائزہ لیا تو وہ اگر چاہتیں تو میرے نیچے سے نکل بھی سکتی تھیں لیکن انہوں نے لن اندر جاتے ہوئے مزاحمت تو کی تھی لیکن اب ان کی پھدی مجھے اپنے لن کے گرد کھلتی اور بند ہوتی محسوس ہو رہی تھی اور ان کے ہاتھ بھی میرے کندھوں پہ تھے جب کہ ان کے چہرے سے تھوڑی پشیمانی جھلک رہی تھی میں نے ان کی بات سن کر لن کو تھوڑا پیچھے کھینچا جس سے ان کی پھدی کی دیواروں سے لن رگڑ کھاتا ہوا باہر کی طرف نکلا اس سے پہلے کہ لن کی ٹوپی باہر نکلتی میں نے پھر ایک زوردار دھکا لگا کہ لن ان کی پھدی میں اتار دیا میرا یہ دھکا لگنے سے ان کے ممے اوپر کی طرف اچھل کر واپس جگہ پہ آئے اور ان کے منہ سے بھی ہلکی سی سسکی نکلی میں نے مموں کی اچھل کود کے نظارے کو بہت انجوائے کیا اور پھر ایک دھکا لگایا ممے پھر اسی طرح اچھلے تو مجھے بہت مزہ آنے لگا میں نے پھر دھکوں کی سپیڈ تیز کرنا شروع کر دی اور ہر دھکے پہ ممے اچھلتے جاتے مجھے یہ منظر اتنا دلکش لگا کہ میں کچھ بولے بغیر ان کے مموں کو دیکھتے جھٹکے لگانے لگا امی ہلکی ہلکی سسک رہی تھیں اور ان کے ممے ہر دھکے پہ اچھلتے جا رہے تھے مجھے سرور کی ایک نئی منزل مل چکی تھی جس کی مجھے کوئی توقع نہ تھی اور برسوں پہلے امی کے جسم سے لزت کشید کرنے کا خواب اب جا کر شرمندہ تعبیر ہوا تھا سچ کہتے ہیں کہ لگن سچی ہو تو منزلیں خود قدم چومتی ہیں یہ الگ بات کہ لن کی لگن کو یہاں پھدی چوسے جا رہی تھی اور ماں بیٹا ایک نئے رشتے کے بندھن میں جکڑے جا چکے تھے لزتوں کی ایک انوکھی منزل تھی جس نے میری روح تک کو سرشار کر دیا تھا کلثوم آنٹی کے ساتھ جو مزہ ملا تھا وہ مجھے اس مزے کے مقابلے کچھ نہیں لگ رہا تھا یہ تو شائد روح کی تکمیل تھی ادھر امی کی سسکیاں تیز ہو چکی تھی ان کے گھٹنے فولڈ ہو کر ان کے پیٹ سے لگے ہوئے تھے اور میں کی پھدی میں لن گھسائے انہیں چودتا جا رہا تھا شائد اس چودائی کو پانچ منٹ گزرے یا اس سے بھی زیادہ کہ مجھے یوں لگا میرے جسم جا سارا خون سمٹ کر میری ٹانگوں کے درمیان جا رہا ہے ابھی میں اس سرور کو سوچ ہی رہا تھا کہ امی کے منہ سے کچھ بے معنی غراہٹین نکلنے لگیں اور انہوں نے مجھے اپنی ٹانگوں میں کس لیا اور بازو میرے گلے میں ڈالتے ہوئے مجھے اپنے اوپر دبوچ لیا ادھر میری بھی بس ہو گئی اور میں بھی ایک جھٹکا لگاتے ہوئے ان کی پھدی میں فارغ ہوتا گیا


 جاری ہے





*

Post a Comment (0)