Maa ka badilah - Episode 8

ماں کا بدلہ


قسط 8


میں فارغ ہوتے ہی امی پہ گرتا گیا اور ان کا جسم بھی ڈھیلا پڑتا گیا مجھے لن کے ارد گرد ان کی پھدی کی چکناہٹ واضح محسوس ہو رہی تھی میں نے امی کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہاں ایک شرمیلی سی آسودگی رقص کر رہی تھی اور ان کی بند آنکھیں بھی مسکرا رہی تھیں ۔ میں نے چھوٹی بہن کی طرفدیکھا تو وہ سو رہی تھی میں ابھی اس کی طرف دیکھ رہا تھا کہ امی بولیں بڑی جلدی خیال آیا ہے کہ کوئی اور بھی اس کمرےمیں ہے اگر وہ دیکھ لیتی تو ۔ان کی آنکھیں بند ہی تھیں اور سانس نارمل انداز سے چل رہی تھی میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ آپ کو بھی نہیں یاد رہا نا اور اگر دیکھ بھی لیتی تو یہی سمجھتی کہ میں آپ سے پیار کر رہا ہوں اور اس میں کوئی جھوٹ تو نہیں ہے ۔ امی نے شرمیلی مسکان سے کہا بدتمیز بس باتیں ہی بناتے ہو چلو اب نیچے اترو میں نہا لوں تمہارے ابا بھی آتے ہوں گے میرا لن ابھی ان کی پھدی میں تھا اور آہستہ سے سکڑ رہا تھا۔ میں نے ان کے چہرے کو ہاتھ میں تھام کر کہا کیا اب بھی آپ یہی کہو گی کہ مجھے کچھ نہیں آتا؟ امی نے میری طرف دیکھا اور ہنستے ہوئے بولیں بدتمیز کنجر زیادہ باتیں نا کرو اور نیچے اترو اب گدھے کہیں کے۔ میں بھی ہنس پڑا اور ہاتھ آگے بڑھا کر ان کے ایک ممے کو ہاتھ میں پکڑ کر ہلکا سا دبا دیا اور ان کے اوپر سے نیچے اترنے کے لیے لن کو ان کی پھدی سےباہر کھینچا جیسے ہی میرا لن ان کی ہھدی سے باہر نکلا انہوں نے تیزی سے ایک ہاتھ نیچے کر کہ اپنی پھدی پہ رکھا اور جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئیں میں نے ان کی طرف دیکھا تو بولیں اب جلدی سے نہا لو اور دیکھو کوئی نشان تو نہیں اور خود بھی مڑ کہ بیڈ کی طرف دیکھنے لگ گئیں ۔ان کے ننگے وجود کو دیکھتے میرا پھر موڈ بن رہا تھا جیسے ہی میں نے ان کی طرف اس نظر سے دیکھا وہ ایک دم میرھ طرف مڑتے ہوئے بولیں بدتمیز چلو بس اب اور کچھ بھی نہیں کرنا اور باتھ کی طرف دوڑنے کے انداز میں گھس گئیں میں بھی ان کے پیچھے پیچھے باتھ کی طرف بڑا تو انہوں نے مجھے دیکھ کر ہنستے ہوئے باتھ کا دروازہ بند کرنے کی کوشش کی مگر میں نے آرام سے وہ کوشش ناکام بنا دی اور دروازہ کھول کر اندر جانے کی کوشش کرنے لگا لیکن وہ دروازے کے پیچھے کھڑی ہو کہ ہنستے ہوئے دروازہ بند کرنے کی کوشش کرنے لگیں اور بولین بھ شرم سب کچھ تو کر چکے ہو اب مجھے نہانے دو مجھے تنگ کرو گے تو اگلی باد کچھ نہیں دوں گی۔ میں نے دروازہ اندر کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا امی تنگ کون حرامی کر رہا ہے میں تو سب کچھ کھولنے کے چکر میں ہوں ۔ اندر سے امی نے ہنستے ہوئے کہا اففف کتنا بدتمیز بیٹا ہے کاش اس رات میں چوپا لگا لیتی یا گانڈ ہی مروا لیتی تو آج یہ دن نا دیکھنا پڑتا ۔ میں نے دروازے کو زور لگاتے ہوئے کہا افسوس کیوں کر رہی ہیں یہ دونوں کام آپ اب بھی کر سکتی ہو اور میں پوری مدد کروں گا


امی دروازے کو دھکیل کر بند کرنے کی کوشش کر رہی تھیں اور میں دروازے کو اندر دھکیل کر کھول رہا تھا دروازے کو دھکا دیتے دیتے میں نے کہا امی کھول دو نا اب اندر آنے دو میری مراد دروازہ کھولنے سے تھی امی نے جواب دیا کھول بھی دی ہے اور ایک بار اندر بھی لے لیا ہے اب اور نہیں کرنے دوں گی اور بات ختم کر کے ہنسنے لگ گئی اور دروازے کو بند کرنے کے لیے اسی طرح دھکا لگانا جاری رکھا ۔ میں نے دروازے کو دھکیلتے ہوئے کہا امی جتنی دیر ادھر لگا رہی ہیں اتنی دیر میں پھر کام ہو بھی گیا ہوتا دروازہ کھول دیں نا پلیز میں نے باہر سے پھر آواز دی ۔ انہوں نے کہا بدتمیز اب بس بھی کر دو ایک بار بہت ہے پھر جب موقع ملے گا تو دیکھیں گے ۔ میں نے پھر منت بھرے لہجے میں کہا امی پلیزصرف دیکھنے دیں میں اور کچھ بھی نہیں کروں گا انہوں نے کہا مجھے پتہ ہے سب کچھ تم نہیں رہ سکو گے اور پھر انہوں نے دروازہ کھول دیا میں تیزی سے اندر داخل ہوا کہ ان کا ارادہ نا بدل جائے انہوں نے جب مجھے دوڑ کہ باتھ میں گھستے دیکھا تو منہ پہ ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگ گئیں اور بولیں علی بہت احتیاط کرنا کسی کو شک ہو گیا تو ہم جیتے جی مر جائیں گے اپنی کسی بھی حرکت سے ہماری یہ بے تکلفی کبھی ظاہر نا ہونے دینا میں نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں پریشانی کے آثار تھے اور کیوں نہ ہوتے کہ یہ کوئی عام بات تو نا تھی کہ مان اور بیٹے کا یوں تعلق بن جائے میں ان کے قریب ہوا اور ان کے ننگے جسم سے لپٹ گیا اور ان کے بھاری بھرکم متناسب بدن کو اپنی بانہوں کے گھیرے میں بھر لیا اور ان کے گال چومتے ہوئے کہا امی جیسا آپ کہو گی ویسا ہی ہو گا آپ بالکل بے فکر ہو جائیں کبھی کسی کو کچھ بھی پتہ نہیں چلے گا اور نا میری حرکت سے ایسا کچھ ظاہر ہو گا وہ میرے بازوں میں کسمساتے ہوئے بولیں میرا بچہ میرے لرل مجھے تم سے امید بھی یہی ہے کہ ماں کی لاج رکھو گے اور یہ راز راز ہی رہے گا جیسے میں نے تمہارا اور کلثوم کا رکھا تھا ۔میں نے امی کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی میں نے منہ اوپر کرتے ہوئے ان کے ہونٹ چوسنے چاہے تو انہوں نے اپنا چہرہ نیچے کرتے ہوئے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں میں پیوست کر دیے اور میرا نچلا ہونٹ اپنے سرخ میٹھے موٹے ہونٹوں میں بھر بھر کہ چوسنے لگیں میں نے بھی ان کے اوپری ہونٹ کو اپنے ہونٹوں میں بھر لیا اور اسے آب حیات سمجھ کر چوسنے لگ گیا اور ہونٹ چوستے چوستے میں ان کے گورے ننگے بدن کو سہلاتا گیا میں اپنے ہاتھ ان کے کندھوں کے نیچے تک لاتا اور پوری کمر پہ پھیرتے ہوئے ان کی گانڈ کی پہاڑیوں تک لے جاتا اور گانڈ کی پہاڑیوں کو ہاتھ میں دبا کر دبوچتا ان پہ ہلکا سا تھپڑ مارتا اور پھر دونوں ہاتھ اوپر لے آتا انہوں نے بھی اپنے بازو میرے گرد حائل کیے ہوئے تھے اور مجھے بے تحاشہ چومے جا رہی تھیں ان کی آنکھیں بند تھیں اور چہرے پہ ہلکا ہلکا پسینہ آیا ہوا تھا اور ان کے ممے تیز سانس لینے کی وجہ سےمجھے اپنی چھاتی پہ پھولتے محسوس ہو رہے تھے یہ وہ لزت کی ابتدا تھی کہ جس کی کوئی انتہا نہ تھی یہ وہ سرور تھا جس کے آگے تمام نشے ہار مان چکے تھے میں دیوانوں کی طرح ان کے ہونٹ چوستا جا رہا تھا اور وہ میرا ساتھ دئیے جا رہی تھیں کافی دیر ہونٹ چوسنے کے بعد میں نے ان کے ہونٹوں سے ہونٹ الگ کئیے اور ان کے مموں پہ ٹوٹ پڑا میں نے ان کا ایک مما منہ میں بھرنے کی ناکام کوشش کے بعد جتنا بھی منک میں آیاتھا اسے چوسنے لگ گیا اور دوسرے ممے کو ہاتھ میں لیکر مسلنے لگ گیا۔ امی کے ممے کلثوم آنٹی کی نسبت ٹھوس اور اچھی حالت میں تھے شائد ایک ہاتھ میں رہنے والی عورت کے جسم پہ کبھی خزاں نہیں آتی اس میں ایک کشش ہمیشہ رہتی ہے امی کی سسکیاں تیز ہوتی گئیں اور وہ مجھے اپنے ممے چوستے ہوئے بھاری پلکوں سے دیکھ رہی تھیں ان کی آنکھوں میں ایک خماری ایک مستی سی چھائی ہوئی تھی اور وہ میرا سر سہلاتی جا رہی تھیں اور تیز تیز سسکیاں بھر رہی تھیں اور میں ہوش ہ ہواس سے بےگانہ ہو کر ان کے ممے چوستا جا رہا تھا۔ اففف اب بس بھی کرو میرے دیوانے امی نے سسکتے ہوئے میرے سر پہ ہاتھ پھیرا اور مجھے اپنے آپ سے جوڑنے کی کوشش کی میں سمجھ گیا کہ اب وہ گرم ہو چکی ہیں میں نے ممے کی نپل کو دانت سے ہلکا سا کاٹا اور پھر دونوں ہونٹوں کے درمیاں ہلکا سا دبا کہ اپنے ہاتھ ان کے گانڈ کے گرد رکھتے ہوئے کہا امی جی ۔۔ اور گانڈ کو ہلکا سا دبا دیا ۔ امی نے ہلکی سی سسکی بھری اور بولیں بیٹا یہ بہت سکون کا کام ہے یہ گھر جا کہ دوں گی ابھی پلیز یہ گانڈ نہیں دے سکتی ۔ میں ان کی بات سے حیران رہ گیا کہ وہ میرے کہے بغیر ہی میری بات سمجھ گئی ہیں ۔ میں نے امی کو بانہوں میں بھرتے ہوئے کہا جیسے میری امی کہیں گی ویسا ہی ہو گا اور میں نے اوپر ہوتے ہوئے ان کے ہونٹ چوسنے شروع کر دئیے اور انہوں نے بھی میرے ہونٹوں کو اپنے نرم ہونٹوں میں دبا لیا 


میں نے ان کے ہونٹ چوستے ہوئے پھر ان کی کمر کو سہلانا شروع کیا تو ان کی سانسیں تیز ہوتی گئیں تھوڑی سی مزید لپس کسنگ کے بعد وہ اپنا منہ مجھ سے چھڑاتے ہوئے بولیں چھوٹی جاگ جائے گی اب بس بھی کر دو میرے دیوانے اور ان کے چہرے پہ عجیب سی مسکان تھی میں نے ان کی طرف دیکھا اور پھر اپنے اکڑے ہوئے لن کی جانب دیکھا اور ان کی طرف دیکھا تو وہ بھی میرے اکڑے ہوئے لن کو دیکھ کر مسکرا رہی تھیں ۔ میں نے کہا وہ ابھی سوئی ہوئی ہے آپ بھی دیکھ لیں امی نے اپنا نچلا ہونٹ ایک سائیڈ سے دانتوں کے نیچے دبایا اور دونوں بازو گردن کے پیچھے کر کہ بالوں کو سیٹ کرنے لگیں ان کے اس انداز سے ان کے ممے ابھر کر اور سامنے آ گئے میں نے جلدی سے آگے ہوتے ہوئے ان کا مما منہ میں بھر لیا ان کے منہ سے ہلکی سی سسکی نکلی لیکن ان کے چہرے پہ غصے کے بجائے مسکراہٹ تھی میں ان کا مما چوسنے لگا تو وہ بولیں ٹھہرو زرا اب مجھے چھوٹی کو دیکھنے دو اور اپنا مما میرے منہ سے نکالتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھ گئیں اور دروازے کو ہلکا سا کھول کر باہر جھانکنے لگیں انہوں نے صرف چہرہ ہی دروازے کی جھری سے باہر نکالا اور باقی وجود دروازے کے پیچھے چھپاتے ہوئے باہر دیکھنے لگیں ان کے اس طرح دیکھنے سے وہ تھوڑی سی جھک گئیں اور میری نظر ان کے بھاری سڈول چوتڑوں پہ پڑی جو ان کی متناسب کمر سے نیچے پھولے ہوئے تھے اور اپنی حشر سامانیاں سامنے رکھے دعوت نظارہ دے رہے تھے میں امی کے قریب ہوا اور ان کے پیچھے سے ساتھ چپکتے ہوئے لن کو ان کی گانڈ میں پھنسا کر بازو ان کے بغلوں کے نیچے سے گزارتے ہوئے ان کے ممے ہاتھ میں پکڑ کر کھڑا ہو گیا امی کے جسم کو ایک جھٹکا لگا اور وہ دروازے سے پیچھے ہوتے ہوئے بولیں اففف میرے عاشق اب بس بھی کر دے لیکن یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنے بھاری چوتڑ میرے لن پہ اس طرح دبائے کہ لن ان کی گانڈ کی گہرائی میں لگتا ہوا نیچے پھدی کے ہونٹوں کی طرف بڑھا اور پھدی کے ہونٹوں سے ٹکرتا ہوا ان کی رانوں میں دب گیا لن کی اس حرکت سے ان کے ساتھ ساتھ میرے منہ سے بھی سسکی نکل گئی اور میں نے جزبات میں ڈوبے ہوئے لہجے میں کہا امی جی ایک بار پھر پلیز ۔۔ انہوں نے کچھ جواب دئیے بغیر آگے سے نیچے جھکنا شروع کر دیا اور بھاری وجود میرے بازوں سے چھڑواتے ہوئے اپنے گھٹنے زمیں پہ ٹیک کر اپنی گانڈ ہوا میں اٹھا دی اففففف کیا غضب کا نظارہ تھا گوری موٹی پھولی ہوئی گانڈ کے دو الگ الگ حصے اور درمیاں میں گہرا براون گول شکل کا سوراخ اور نیچے پھدی کے موٹے موٹے گہری گلابی ہونٹ اور اس پہ ہلکی ہلکی نمی ۔ میرے لن نے یہ منظر دیکھ کر ایک زوردار جھٹکا لیا اور مجھے لعن طعن کرنے لگا کہ اتنا حسین نظارہ سامنے ہے اور تم پھدو کھڑے دیکھ رہے ہو جلدی سے مجھے اپنی جائے پیدائش میں گھساو میں نے بھی لن کی فریاد پہ آگے ہوتے ہوئے اسے پھدی کے دہانہ پہ رکھ کر ہلکا سا دھکیلا تو وہ دیوانہ وار پھدی کی نرمی اور گرمی میں اترتا چلا گیا اور پورا اندر جا کہ مجھے بھی ساتھ اندر گھسنے کی ترغیب دینے لگا ادھر امی نے بھی جب لن کو پورا اپنے اندر محسوس کیا تو مڑ کر ایک قربان ہونے والے نظر سے میری طرف دیکھا اور مسکرا دیں اور آنکھ سے اشارہ کیا جیسے پوچھ رہی ہوں کیسا لگا؟؟ میں نے ان پہ صدقے واری ہوتے ہوئے لن کو باہر کھینچا اور پھر ایک زوردار جھٹکے سے پھدی میں اتار دیا میرا لن اندر جانے سے پچک اور میرا جسم ان کی گانڈ سے ٹکرانے سے تھپ کی آواز آئی اور ساتھ امی کی منہ سے اوئی کی آواز نکلی مجھے تو یہ آوازیں سن کر جیسے کچھ نشہ ہو گیا میں نے لن کو باہر کھینچا اور پھر اندر کیا تو پھر وہی پچک تھپ کی آواز گونجی اور ساتھ امی کی رسیلی آواز میں اوئی ۔۔ میں نے تو سب کچھ فراموش کرتے ہوئے امی میں دھکوں کی مشین چلا دی اور باتھ پچک تھپ اوئی پچک تھپ اوئی کی آوازوں سے گونجنے لگا میں سرور کی اس منزل پہ تھا جہاں سارے لطف ختم ہو جاتے ہیں وہ ایک انوکھا مزہ تھا میری امی گھٹنوں کے بل فرش پہ تھیں اور انہوں نے ہاتھ فرش پہ ٹیکے ہوئے تھے اور میں گھٹنوں کے بل ان کی کمر پکڑے ان کی پھدی میں لن اندر باہر کر رہا تھا ان کے گانڈ کی موری کھل اور بند ہو رہی تھی اور میرے جھٹکا لگانے سے ان کی موٹی گانڈ کی پھاڑیاں لرز اٹھتیں امی کی سسکیاں بھی جاری تھیں اور ہر جھٹکے پہ ان کے منہ سے اوئی اوئی نکل جاتا میں بھی لن کو لگاتار ان کی پھدی میں گھسائے جا رہا تھا لیکن کب تک۔۔ آخر کار مجھے اپنا سارا خون ٹانگوں کے درمیان سفر کرتا محسوس ہوا اور اس سے پہلے ہی امی کے منہ سے ہلکی سی غراہٹ نکلی اور ان کی گانڈ اچھل کر میرے ساتھ لگی اور ان کی پھدی نے میرے لن کو اپنی اندرونی دیواروں سے بھینچنا شروع کر دیا اور ان کے منہ سے مسلسل غراہٹیں نکلتی گئیں میرا لن بھی ان کی پھدی کے دباو سے ہار مان بیٹھا اور اس نے بھی امی کی پھدی کے اندر پچکاریاں مارنی شروع کر دیں اور میں ان کی پھدی میں فارغ ہوتا گیا ۔


امی نے میرے فارغ ہوتے ہی مڑ کر میری طرف دیکھا اور دھیمے لہجے میں بولیں اففف بدتمیز زرا بھی لحاظ اور شرم نہیں کی کہ تمہاری ماں ہو مجھے تو ایسے چود رہے تھے کہ جیسے تمہاری ہی بیوی ہوں ان کی آنکھوں سے چھلک رہا تھا کہ وہ بہت مزے میں ہیں میرا نیم اکڑا لن ان کی پھدی کے اندر موجود تھا جس کے گرد اب چپچپاہٹ ہو چکی تھی میں نے ان کی کمر کو پکڑتے ہوئے لن کو پھر ان کی پھدی میں ہلایا اور ہلکا سا دھکا مارا اور کہا آپ پہ ہزار بیویاں قربان مجھے آپ کی چاہت ہے مجھے اور کوئی نہیں چاہیے ہے ۔ امی نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا اوئے اب بس اب نا ہلانا یہ پھر کھڑا ہو جائے گا اور آگے ہو کر لن کو پھدی سے نکال دیا لن پھدی سے باہر نکلتے ہی مجھے امی کی پھدی کا کھلا سوراخ نظر آیا جس سے ہلکا ہلکا سفید پانی رس رہا تھا اور میرا لن بھی اسی پانی سے لتھڑا ہوا تھا امی نے لن کو باہر نکالا اور اوپر اٹھ گئیں میں نے بھی ان کی گانڈ پہ ہلکا سا تھپڑ مارا اور اٹھ کھڑا ہوا امی اٹھ کر میری طرف مڑیں اور بے ساختہ مجھے گلے سے لگا کر میرے گال پہ ایک پیار دیا اور پھت مجھ سے الگ ہوتے ہوئے بولیں چلو اب دیر ہو گئی ہے جلدی سے نہا لو باقی لوگ آ جائیں گے اور جلدی سے اپنے آپ کو صاف کرنے لگیں میں نے بھی شاور چلا دیا اور پھر خود کو صاف کرنے لگا ساتھ ان کے ہلکی چھیڑ چھاڑ بھی کرتا رہا نئا دھو کر ہم باہر نکلے اور کمرے میں آ گئے اور امی تولیہ سے بال خشک کرنے لگیں اور میں فرش پہ بچھے گدے پہ لیٹ گیا اور لیٹتے ہج میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گیا۔ جب میری آنکھ کھلی تو شام کا اندھیرا چھا چکا تھا اور باقی لوگ بھی آ چکے تھے میں اٹھ کر فریش ہوا اور سب سے گپ لگانے لگ گیا اور گپ لگاتے میں نے ایک دو بار امی کی طرف دیکھا لیکن وہ بالکل نارمل تھیں اور میں بھی نارمل انداز میں بیٹھا باتیں کرتا رہا اسی طرح ہمارا مری کا ٹرپ بہت شاندار رہا اور ہم گھوم پھر کر اپنےشہر واپس آ گئے اور پھر وہی روٹین شروع ہو گئی ۔ میں اور امی جب گھر اکیلے ہوتے تو ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ میں ان سے کر بھی لیتا لیکن کھل کر کچھ کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا اسی کشمکش میں مہینے سے اوپر ہو گیا کہ مجھے امی سے کھل کر کچھ کرنے کا موقع نا ملا ہونٹ چوس لینا ممے دبا لینا یا ان کے جسم کو چھو لینا اب یہ عام سی بات تھی جو ہم ہر روز موقع دیکھ کر کر لیا کرتے تھے لیکن کھل کر سیکس کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ پھر ایک دن ابو جب شام کو دفتر سے گھر واپس آئےتو انہوں نے بتایا کہ وہ دفتری کام کے سلسلہ میں کل کراچی جا رہے ہیں اور تین دن وہاں رہنا ہو گا تو یہ بات سنتے ہی میرے من میں لڈو پھوٹنے لگے لیکن میں اوپر سے معصوم بنا چپ چاپ ان کی باتیں سنتا رہا کھانا کھانے کے بعد امی نے ان کے کپڑے وغیرہ ایک بیگ میں ڈال دئیے اور پھر ہم سو گئے صبح سویرے جب میں جاگا تو ابو تیار تھے اور ناشتہ بھی کر چکے تھے مجھے دیکھ کر انہوں نے مجھے گھر اور امی کا خیال رکھنے کی ہدائت کی اور اسی دوران ان کی گاڑی اور باقی دفتری لوگ گیٹ پہ آ گئے اور ابو ان کے ساتھ گھر سے نکل پڑے۔ 


ہم نے ابو کو گیٹ سے الوداع کیا اور جب وہ گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوئے تو ہم اندر کی طرف مڑے میں نے گیٹ بند کیا تو امی چلتی ہوئی اندر کی طرف جا رہی تھیں میں گیٹ بند کر کہ دوڑا اور ان کے پیچھے سے جپھی ڈال لی اور اپنے بازو ان کے پیٹ کے گرد باندھ لیے میرا نیم اکڑا لن ان کی گانڈ کی گئرائی میں رگڑ کھانے لگا امی ہنستے ہوئے بولیں بدتمیز کچھ حیا کر باقی بچے بھی گھر ہیں سب اور یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنا آپ میری گرفت سے نکالنے کی کوشش کی حالات کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے میں نے بھی انہیں چھوڑ دیا اور کہا امی ابھی تو دن ہے رات کے بارے میں کیا خیال ہے میں نے ان کے پیچھے چلتے ہوئے ان کی گانڈ پہ ہلکی سی تھپکی دی ۔ امی نے مسکراتے ہوئے میری طرف مڑ کہ دیکھا اور بولیں اوئے بچت کا کوئی زریعہ نہیں ہے ان کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی میں نے بھی سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا جی بالکل بھی کوئی بچت نہیں ہو سکتی ۔ امی نے کہا اچھا چلو ابھی تو سب ناشتہ کرو اور نکلو شام میں دیکھیں گے کیا کرنا ہے اس کے بعد ہم نے ناشتہ کیا اور سکول کیطرف نکل گئے ۔ سکول سے واپسی پہ ہم نے کھانا کھایا اور پھر میں نے امی کے ساتھ برتن اٹھائے اس دوران ان سے چھیڑ چھاڑ چلتی رہی لیکن کوئی قابل زکر بات نا ہوئی کیونکہ امی نے کہا رات جب باقی بچے سو جائین گے تو پھر دیکھا جائے گا مجھے بھی امید تھی کہ ایسا ہی ہو گا اور میں بہت خوش تھا اسی طرح شام ہو گئی میں نے سکول کا کام کیا اور پھر شام میں ٹی وی دیکھتا امی اور باقی بہن بھائیوں سے روٹین کی گپ ہوتی رہی پھر ہم نے رات کا کھانا کھایا اور میں اپنے کمرے میں آ گیا اور امی کا انتظار کرنے لگا میرے زہہن میں یہی تھا کہ باقی بہن بھائی سو جائیں گے تو پھر امی کےپاس چلا جاؤں گا اور میں بستر پہ لیٹ کر امی کے فری ہونے کا انتظار کرنے لگا لیکن میری بدقسمتی کہ میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گیا رات کے کسی پہر میری آنکھ کھلی تو میں تیزی سے اٹھا اور وقت دیکھا تو رات کے دو بج رہے تھے میں جلدی سے امی کے کمرے کی طرف گیا اور ان کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ بے سدھ سو رہی تھیں ان کی ایک سائیڈ پہ چھوٹی اور دوسری سائیڈ پہ میرے دوسری بہن سوئی ہوئی تھیں امی بیڈ کے کونے پہ تھیں اور کروٹ کے بل لیٹی ہوئی تھیں پہلے تو میرا دل کیا کہ ان کو نا چھیڑوں مگر لن نے مجھے مجبور کیا اور میں نے ہاتھ آگے بڑھا کہ ان کی بھاری گانڈ کے اوپر رکھا اور اسے تھپتپھایا امی کے جسم میں ہلکی سی لرزش ہوئی اور وہ نیند میں ہی بولیں نہیں کریں نا مجھے سونے دیں اور اسی طرح کروٹ کے بل لیٹی رہیں میں سمجھ گیا کہ وہ نیند میں ابو کا سمجھ رہی ہیں میں ان کے پیچھے بیٹھا اور ان کے چوتڑوں سے شلوار اتار کر نیچے کرنے کی کوشش کی شلوار کچھ تو اتری کچھ ان کے بھاری وجود کے نیچے دب گئی اور میں نے جب شلوار کھینچی تو انہوں نے اسی طرح بند آنکھوں سے کہا افف نہیں کریں نا یار سونے دیں مجھے نیند آئی ہوئی ہے لیکن انہوں نے اپنا وجود اوپر اٹھایا تا کہ میں شلوار کو اتار سکوں میں نے شلوار ان کے گھٹنوں تک اتار دی اور کچھ بولے بغیر ان کی گانڈ اور کمر پہ ہاتھ پھیرنے لگ گیا انہوں نے کروٹ بدلی اور الٹی لیٹ گئیں اور پھر بولیں نہیں کریں نا یار اب سونے بھی دیں مجھے ۔ میں نے ان کی ٹانگوں کو تھوڑا پھیلایا اور ان کی گانڈ کے بھاری چوتڑوں کو ہاتھ سے کھولا اور زیروبلب کی روشنی میں ان کے حسین سراپے پہ ایک نظر دالتے ہوئے ان کے ایک چوتڑ کو چوم لیا اور پھر چوتڑوں کو کھولتے ہوئے منہ ان کی گانڈ کے درمیان گھسا کر زبان باہر نکالی اور ان کی پھدی اور گانڈ کے درمیانی حصہ پہ لگا دی میری زبان اپنے جسم پہ لگتے ہی امی ایک جھٹکے سے اوپر ہوئیں اور انہوں نے مجھے دیکھا اور اوپر اٹھ کر بیٹھ گئیں اور سرگوشی میں بولیں بدتمیز ادھر کیا کر رہے ہو ؟؟ میں نے ان کی طرف دیکھا اور ہونٹوں پہ زبان پھیری اور ساتھ اپنے اکڑے ہوئے لن کی طرف دیکھ کر کہا امی وہ میں سو گیا تھا کہیں ۔ انہوں نے اپنی ہنسی کنٹرول کرنے کے لیے منہ پہ ہاتھ رکھ لیا اور بولیں تو اچھا ہو گیا تھا نا میں آگے ہوا اور ان کے ممے پکڑنے کی کوشش کی امی نے مصنوعی غصے سے میری طرف دیکھا اور پھر سوئی ہوئی بہنوں کی طرف اشارہ کیا اور بیڈ سے نیچے اترنے لگیں میں ان کو نیچے اترتا دیکھ کر پیچھے ہٹ گیا 


جاری ہے




*

Post a Comment (0)