قاریہ باجی
قسط 1
یہ کہانی شروع ہوتی ہے آج سے بیس سال قبل سے جب میری عمر گیارہ سال تھی اب اکتیس سال ہے۔
میرے گھر میں پانچ لوگ ہیں میرے امی شہناز ۔ میرے ابو افتخار اور میری دو بڑی بہنیں بشرٰی اور عروبہ،
بشرٰی مجھ سے نو سال بڑی ہے جبکہ عروبہ مجھ سے سات سال بڑی ہے۔ بشرٰی باجی بیس سال کی عروبہ باجی اٹھارہ سال کی اور میں گیارہ سال کا۔ میں کافی سال بعد پیدا ہوا تھا کیونکہ امی ابو نے مجھے بہت دعاؤں اور منتوں سے رب سے مانگا تھا۔
میں بچپن سے ہی شرارتی طبیعت کا تھا
اکلوتا ہونے کے باعث گھر کا لاڈالا تھا۔ میری بہنیں مجھ پر جان نچھاور کرتی تھیں اور مجھے بے حد پیار دیتی تھیں۔ ہمارا گھر کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں تھا۔
میرے ابو کی پرچون کی دکان ہے اور میری
امی ہاؤس وائف ہیں میری بڑی بہن اس وقت یونیورسٹی کے پہلے ائیر میں ہے اور دوسری بہن عروبہ کالج کے سیکنڈ ائیر میں اور میں چوتھی جماعت میں۔
تو دوستوں آتے ہیں کہانی کے اصل رخ پر میں ہنستا کھیلتا شرارتی طبعیت کا بچہ تھا لیکن بچے سے جوان ہونے کی طرف رغبت بہت پرکشش اور لذت آمیز تھی۔ میں صبح اسکول جاتا تھا اور دوپہر کو سپارہ پڑھنے باجی شائستہ کے پاس جاتا۔
باجی شائستہ کا تعارف آپکو کرواتا چلوں کہ وہ ہمارے محلے میں مسجد کے امام صاحب کی بیوی ہیں۔ امام صاحب ایک نیک شریف دار آدمی ہیں۔ تمام محلے والے انکی عزت کرتے ہیں ۔ میں اور محلے کہ کچھ بچے امام صاحب کے پاس سپارہ پڑھنے جایا کرتے تھے ویسے تو مجھے امام صاحب کے پاس پڑھتے ہوئے تین سال ہو چکے تھے۔ نورانی قاعدہ بھی ختم امام صاحب نے کروایا تھا کیونکہ وہ تجوید اور تلفظ کے ساتھ پڑھاتے تھے اور کبھی کبھی میری باجی یعنی قاریہ شائستہ بھی پڑھا لیا کرتی تھی۔
میں اب قرآن شریف پر تھا اور اب بچوں کو اکثر و بیشتر باجی شائستہ ہی پڑھایا کرتی تھیں کیونکہ امام صاحب کی مسجد کی مصروفیت بہت زیادہ ہوگئیں تھیں اور پھر انہیں روز کہیں نہ کہیں بیان کے لئے یا کسی کا نکاح پڑھانے جانا ہوتا تھا۔
میں بچوں میں سب سے بڑا تھا ورنہ تمام بچے جو باجی کے پاس پڑھنے آتے تھے وہ تقریبًا چھوٹے تھے پانچ سے لیکر آٹھ سال تک کے تھے۔ بس میں ہی گیارہ سال کا تھا کیونکہ امام صاحب کی میرے ابو سے اچھی سلام دعا تھی۔
امام صاحب مجھے بڑا پسند کرتے تھے اور مجھ پر خاصا پیار جتاتے تھے اور اپنے بچوں کی طرح چاہتے تھے باوجود اسکے کہ
میں اب بڑا ہو رہا تھا گیارہ سال کا ہوگیا تھا
باوجود اسکے کہ امام صاحب اپنے گھر میں پردے کا بڑا خیال کرتے تھے لیکن میں اب بھی باجی کے پاس پڑھتا تھا کیونکہ میں انکے لئے انکے بچے کی طرح تھا اور اکثر انکے گھر کے کام بھی کر دیا کرتا تھا۔ باہر سے دکان سے سودا سلف النا وغیرہ وغیرہ۔
تو دوستوں یہاں اپنی قاریہ کا تعارف کرواتا چلوں کہ وہ ایک اڑتیس برس کی خوبرو عورت تھی اور پٹھانی ہونے کی وجہ سے رنگت بھی کافی گوری تھی۔
قاریہ باجی شائستہ ہ اور امام نورالدین صاحب کی شادی کو تقریبًا سولہ سال ھو چکے تھے اور انکے چار بچے تھے تین بیٹیاں اور ایک بیٹا،
بیٹیوں کے نام ۔
صالحہ عمر پندرہ سال۔
حفصہ عمر تیرہ سال۔
سلمٰی عمر دس سال۔
اور ایک چھ سال کا بیٹا ادریس تھا۔
میری قاریہ باجی شائستہ ایک معلمہ خاتون تھیں اور انہوں نے دینی تعلیم کا آٹھ سال کا عالمہ کا کورس کر رکھا تھا اور دنیوی تعلیم میں بھی وہ انٹر تک پڑھیں لکھیں تھیں جبکہ امام نورالدین صاحب میٹرک تک پڑھے لکھے تھے اور مفتی تھے سب لوگ انکو احترامًا مفتی صاحب کہہ کر پکارتے تھے۔ شب و روز بیت رہے تھے اور میں گیارہ سال
کا ہو چکا تھا۔ زندگی ہنستی کھیلتی گزر رہی تھی۔ صبح کو اسکول دوپہر کو مدرسے اور پھر شام کو کھیلنا۔ گھر میں پیسوں کی کوئی کمی نہیں تھی میرے ابو افتخار کا اچھا پرچون کا کاروبار چل رہا تھا۔
اب میری امی نے مجھے قاریہ باجی شائستہ کے پاس سپارہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ ٹیوشن بھی لگا دیا تھا تاکہ اسکول کا ہوم ورک وغیرہ ہوسکے اور دونوں طرف پڑھائی پر دھیان بٹتا رہے لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ میرا دھیان پڑھائی کی بھول بھلیوں میں سیکس کی بھول بھلیوں تک جا پہنچے گا۔ میں دو سے چار تک قاریہ باجی شائستہ کے پاس مدرسے پڑھتا تھا اور پھر چار سے چھ
تک ٹیوشن ۔ اس طرح اب مجھے کھیلنے کا ٹائم بہت کم ملنے لگا تھا۔
بس رات کو گھر آکر ٹی وی دیکھتا تھا یا کمپیوٹر پر گیم کھیل لیا کرتا تھا۔۔
قاریہ باجی کے گھر میں دو ہی کمرے تھے ایک جس میں باجی کے بچے سوتے تھے، اور ایک میں وہ اور امام صاحب سوتے تھے۔ ایک باتھ روم تھا چھوٹی سی ایک گیلری اور صحن بھی تھا۔ یعنی گھر اتنا چھوٹا بھی نہیں بس ٹھیک ٹھاک تھا۔
ہمارے گھر میں تو چار کمرے تھے اچھا
خاصا تھا۔ یہ تو آپکو پتہ ہی ہوگا کہ مسجد کے امام صاحب کی تنخواہ کتنی کم ہوتی ہے اور لوگ کبھی کبھی تحفتًا کوئی چیز دے جایا کرتے ہیں اور امام صاحب کے گھر کا خرچہ اکثر محلے والے پورا کیا کرتے ہیں لیکن اس زمانے میں لوگوں کے دل کہاں اتنے سخی تھے۔ اب ایسا ہونے لگا کہ قرآن کا سبق تو امام صاحب پڑھا دیا کرتے تھے چار بجے تک پھر امام صاحب باہر چلے جایا کرتے تھے یا نماز وغیرہ کی امامت کا وقت ہو جاتا تھا یا درس و تدریس میں مشغول رہتے تھے۔
پھر باجی شائستہ ہمیں ٹیوشن پڑھایا کرتی
تھیں چار سے چھ بجے تک۔ شب و روز گزر رہے تھے میرے اسکول کے امتحان قریب آچکے تھے۔ قاریہ باجی نے میری بہت اچھی تیاری کروائی اور میں نمایاں نمبروں سے پاس ہوا اور دوسری پوزیشن حاصل کی۔ پڑھنے میں شروع سے ہی میں الائق اور ذہین تھا اور باجی شائستہ پڑھاتی بھی بہت اچھا تھیں۔
اب میں بارہ سال کا ہوگیا تھا اور نئی کلاس میں چلا گیا تھا پانچویں کالس میں اور یہ وہ وقت تھا جب میں بلوغت کو پہنچا اور لڑکپن سے جوانی کی طرف پہلا قدم رکھا۔
یہ بہت رفتہ رفتہ ہوا لیکن بڑا دلکش اور
سرور آمیز تھا۔
میں پانچویں کلاس کے لئے بھی قاریہ باجی کے پاس پڑھنا چاہتا تھا چنانچہ میری امی نے انکے پاس ہی میرے ٹیوشن کو جاری رکھا۔ کبھی کبھی سپارہ بھی پڑھا دیا کرتی تھیں۔ ایک دن قاریہ باجی نے کہا کہ؛
محسن بیٹا امی کو کہنا کہ فیس اب پندرہ سو دیا کریں بہت مہنگائی ہوگئی ہی اور تم اب نئی کلاس میں بھی چلے گئے ہو۔
میں نے احترامًا کہا جی باجی۔
میری فیس جو کہ پہلے بارہ سو تھی اب پندرہ سو کردی گئی۔
ہمارے لئے یہ دینا اتنا مشکل نہ تھا میری امی بھی جھٹ سے راضی ہوگئیں۔
بیس سال پہلے کے لحاظ سے پندرہ سو اتنے
کم بھی نہیں تھے۔ میری امی وقتًا فوقتًا قاریہ باجی کے گھر کچھ نہ کچھ بھجواتی رہتی تھیں۔ کبھی کھانے پینے کی چیزیں، کبھی تحفتًا کپڑے۔
بارہ سال کا تھا۔ اس عمر میں ہی کلاس میں کچھ بدمعاش اور چھچھورے قسم کے لڑکے ہوتے ہیں اسکول میں جو اپنے ساتھ ساتھ باقی بچوں کو بھی حرامی بناتے ہیں۔ میری کلاس میں بھی انتہاء کے حرامی لونڈے پڑھتے تھے۔ جنکے چکر میں پڑ کر مجھے وقت سے پہلے لنڈ چوت، گانڈ اور مموں کے۔بارےمیں پتہ چل گیا۔
جو دماغ پہلے معصوم بچہ تھا اب اس میں حرامی پن دوڑنے لگا لیکن ابھی اس قسم کا حرامی نہیں تھا جیسے کلاس کے باقی لڑکے تھے۔ وہ اسکول کے چھوکرے لونڈے چھچھورے تھے اور کچھ ہمارا علاقہ بھی ایسا ہی تھا کہ باہر کھیل کود کر انسان چھوٹی عمر میں ہی حرامی پن اور ٹپوری زبان سیکھ جاتا ہے۔۔
میرا دل بھی اب لڑکی ذات کی طرف دوسرے طریقے سے سوچنے لگا تھا اور ہر دوسری خوبصورت لڑکی کو دیکھ کر دل اسکی جانب مائل ہونے لگا تھا۔
اور میرے گندے دماغ کی انتہاء تب ہوئی جب میں نے قاریہ باجی کو پہلی بار گندی نظر سے دیکھا۔ لیکن دوستوں خود بتاؤ کیا جو ٹافی کھلی ہو اس پر مکھیاں نھیں بھنبھناتی؟ جو آم کی گٹھلی پڑی ہو کیا اس پر مکھیاں نہیں چڑھ دوڑتیں؟
میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ آئیے اس دن کی بات آپکو سناتا ہوں جب پہلی بار میں نے دوسری نظر سے اپنی قاریہ باجی کو دیکھا۔
یہ نومبر 2002 کی بات ہے جب سردیوں کی آمد آمد تھی۔ میں معمول کے مطابق مدرسے اور ٹیوشن پڑھنے امام صاحب کے گھر پہنچا۔ امام صاحب ہمیں سپارہ پڑھا کر تھوڑی دیر بعد گھر سے باہر نکل گئے۔ کل ملا کر سپارہ پڑھنے والے اور ٹیوشن پڑھنے والے بچے تقریبًا تیرہ تھے اس وقت
لیکن ٹیوشن صرف پانچ ہی پڑھتے تھے تین لڑکیاں جو کہ سات آٹھ سال کی۔ تھیں اور ایک چھوٹا لڑکا جو نو سال کا تھا۔ جب سپارہ پڑھنے والے بچے چلے گئے، تو قاریہ باجی دوسرے کمرے سے آئیں اور ہمیں ٹیوشن پڑھانے لگیں، میں کتابیں نکال کر پڑھنے میں مشغول ہوگیا، جبکہ قاریہ باجی دوسرے بچوں کا کام چیک کرنے لگیں۔۔
باجی دوسرے بچوں کا کام چیک کرنے میں مشغول تھیں اسی دوران میری نظر باجی کی طرف پڑی تو میں نے دیکھا باجی کی چھاتیوں پر دوپّٹہ سہی طرح سے نہیں تھا چھاتیاں دکھ رہی تھیں جبکہ عام طور پر وہ سر اور چھاتیوں پر دوپّٹہ لے کر رکھتیں تھیں اور اپنے سینے کو اچھی طرح ڈھانک کر رکھتی تھی۔
سب بچے تو چھوٹے ہی تھے مجھے بھی وہ
بچہ ہی سمجھتی تھی اسلئے بے دھیانی میں شاید انکا دوپّٹہ ادھر ادھر ہوگیا تھا۔ پتہ نہیں ایسا کیا تھا جو میں بار بار قاریہ
باجی کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو رہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد باجی اٹھ کر کچن میں جانے
لگیں تو میں تو دیکھ کر حیران ہوگیا باجی
کی گانڈ کافی باہر کو نکلی ہوئی تھی اور
موٹی تازی تھی۔
اس وقت اندازہ لگانا مشکل تھا کہ باجی گانڈ کا سائز اور مموں کا سائز کیا ہوگا۔
میں نہ چاھتے ہوئے بھی گانڈ مٹکاتی باجی کو چند ہی سیکنڈ پیچھے سے دیکھ سکا بس۔ دو منٹ بعد باجی کچن میں سے چائے لے کر آگئیں اور پینے لگیں۔
یہ پہلی بار تھا جب میرے لنڈ نے کسی
عورت کے جسم کو دیکھ کر جھر جھری سی لی اور میرا لنڈ شلوار میں کھڑا ہوگیا میں نے کتاب گود میں رکھی ہوئی تھی اسلئے واضح نہ ہوسکا۔
میرے دماغ میں یہ نہیں سمجھ آرہا تھا یہ
مجھے کیا ہو رہا ھے۔
شلوار میں کھڑا ہوا میرے ساڑھے چار انچ کا لنڈ دو منٹ بعد شکر سے بیٹھ گیا۔ میں سہی غلط کا فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا نہ ہی گنا و ثواب کا کیونکہ اس عمر میں سہی غلط، حرام حلال، جائز ناجائز اور گناہ و ثواب کا فیصلہ کرنا دماغ کےلئے خاصہ مشکل ہوتا ہے یا ممکن ہوتا ہی نہیں۔ میں بار بار چور نظروں سے باجی کے جسم کو دیکھ رہا تھا۔
باقی بچوں کی ساڑھے پانچ تک چھٹی ہو چکی تھی صرف میں چھ بجے تک پڑھتا تھا کیونکہ میں پانچویں کلاس میں تھا سب بچوں کو چھٹی دینے کے بعد باجی مجھے پڑھانے لگیں میرا کام چیک کرنے لگیں۔
اسی دوران قاریہ باجی ایک بار پھر
اٹھ کر کچن میں گئیں اور پھر انکی مٹکتی گانڈ کو دیکھ کر میرا ساڑھے چار انچ کا لنڈ سر اٹھانے لگا۔ باجی کچن میں شاید سالن بنا رہی تھیں۔ دو منٹ بعد باجی دوبارہ آگئیں دو منٹ بعد باجی کچن سے آگئیں اس وقت باجی کے گھر میں میں چھوٹی بیٹی سلمٰی اور چھوٹا بیٹا ادریس ہی تھا جو کہ دؤسرے کمرے میں سورہے تھے۔
باجی کی دونوں بڑی بیٹیاں صالحہ اور
حفصہ صبح جاکر شام کو ہی آتی تھیں
کیونکہ انکا مدرسہ اسلامی تھا جہاں وہ حفظ اور اسکول ساتھ ساتھ پڑھتیں تھیں
اس لئے وہ مغرب کے بعد آیا کرتیں تھیں۔
دوستوں کہتے ہیں نا عورت کی چھٹی حس بڑی تیز ہوتی ہے۔ کوئی مرد یا کوئی لڑکا اسکے جسم کو گھور رہا ہو یا چور نظروں سے دیکھ رہا ہو تو عورت جلد ہی بھانپ جاتی ہے اور یہی اس وقت ہوا۔
قاریہ باجی کو پتہ چل گیا تھا کہ میں اسکی چھاتی کی طرف بار بار عجیب نظروں سے دیکھ رہا ہوں ۔
قاریہ باجی نے کوئی ری ایکٹ تو نہیں کیا لیکن بس چپ چاپ میرا کام چیک کرتی رہیں اور اپنے دوپّٹہ کو سہی سے ڈھانک کر چھاتی پر کرلیا جس سے باجی کی چھاتیاں پوری طرح چھپ گئیں۔
تھوڑی دیر بعد باجی اٹھیں اور کچن میں سالن دیکھنے گئیں باجی کی گانڈ کو جاتا دیکھ کر میرا لنڈ ایک بار پھر شلوار میں کھڑا ہوگیا اور میں نے اپنے لنڈ کو دبایا تو
مجھے لذت اور سرور ملا۔
تھوڑی دیر بعد باجی کی کچن میں سے آواز آئی کہ محسن بیٹا یہاں آؤ،،،،،،،،
میں اٹھ کر کچن میں گیا تو میرا یہ دھیان
بھی نہیں تھا کہ میرا لنڈ شلوار میں کھڑا تو جو قمیض ٹائٹ ہونے کی وجہ سے قمیض کو آگے اٹھا رہا تھا۔۔
میں کچن میں پہنچا تو باجی نے کہا یہ اوپر اسٹول پر چڑھ کر کبڈ میں سے مصالحے نکالو ذرا۔
میں اتنا پاگل تھا کہ اپنے لنڈ کو چھپانا ہی بھول گیا جب میں اسٹول پر چڑھا تو میری آگے اٹھی ہوئی قمیض کو باجی نے دیکھ لیا تھا اور ایک دم میں نے نوٹس بھی کیا باجی کی سانس تیز ہوگئی تھیں۔
میں کبڈ میں سے مصالحے اتار کر باجی کو
دینے لگا اور نیچے اتر آیا اور اسٹول سائڈ پے رکھ دیا۔
باجی سالن میں مرچ مصالحہ جات ڈالنے لگیں اور میں قاریہ باجی کے پیچھے کھڑا تھا افففففففف
باجی فٹ قمیض نہیں پہنتی تھی لیکن گانڈ موٹی ہونے کی وجہ سے انکی قمیض ایسا لگتا تھا کہ فٹ ہے لیکن برقعہ وہ کافی کھلا پہنا کرتی تھیں باہر جاتے ہوئے۔ میں ایک منٹ تک باجی کے پیچھے کھڑا رہا ۔
باجی نے مجھے مڑ کر دیکھا اور کہا ابھی
تک یہیں کھڑے ہو جاؤ جاکر کمرے میں بیٹھو اور کام کرو۔۔
میں سر جھکائے چلتا ہوا جاکر کمرے میں
بیٹھ گیا۔
تھوڑی دیر بعد باجی کی کچن سے آواز آئی کہ محسن چھٹی کرو۔
پتہ نہیں کیوں آج میرا گھر جانے کا دل نہیں چاہ رہا تھا اور چھ بجنے کا ٹائم مجھے بوجھ سا لگ رہا تھا۔ کیا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ٹیوشن سے واپسی گھر جاتے ہوئے خوشی نہ ہو؟
لیکن مجھے نہیں ہورہی تھی اور اسکی وجہ میرے جسم میں اٹھنے والی سیکس کی آگ تھی جس نے میرے لوڑے کے تانے بانے ہلادیے تھے۔
میں گھر بوجھل قدموں کے ساتھ جارہا تھا گھر جاکر بیگ رکھا اور میں سیدھا باتھ روم میں گھس گیا پیشاب کرنے بیٹھا ہی تھا اپنے لنڈ کو ہاتھ میں پکڑا اور دیکھنے لگا میرا لنڈ اپنی عمر کے حساب سے زیادہ چھوٹا بھی نہیں تھا لیکن میرے اسکول کے
لڑکوں کے تو پانچ ساڑھے پانچ انچ کے لنڈ تھے تقریبًا سب کے کیونکہ وہ بڑے حرامی تھے اور مٹھ مارتے تھے جبکہ میں نے کبھی مٹھ نہیں لگائی تھی، جبکہ مٹھ کے بارے میں کلاس کے لڑکوں سے پتہ چل چکا تھا۔
بس اس طرح کافی دن گزر گئے اور کچھ خاص نہیں ہوا میں قاریہ باجی کے گھر سپارہ اور ٹیوشن پڑھنے جاتا رہا اور کچھ خاص نہیں ہوا۔۔ اب میں نے نوٹس کیا قاریہ باجی اپنے مموں پر اچھی طرح کپڑا ڈال کے رکھتی تھیں اور سر سے چھاتیوں کے نیچے تک موٹآ دوپّٹہ لیکر رکھتیں تھیں کیونکہ اب سردیاں شروع ہوگئیں تھیں ۔ یہ دسمبر کے دن تھے اور دوستوں آپکو تو معلوم ہوتا ہے کہ اکثر بیس پچیس سال کے نوجوان لونڈے سردیوں میں شادی کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں کیونکہ سردیوں میں سیکس کرنے کا مزہ ہی الگ ہوتا ہے۔ نرم گرم بستروں پر جب دو بدن ملتے ہیں تو سارے جسم کی سردی گرمی میں بدل جاتی ہے۔
دسمبر کے دن تھے۔ سردی بڑھ رہی تھی۔ اب میں کبھی کبھی کلاس کے لڑکوں کے ساتھ اور گلی کے آوارہ چھوکروں کے ساتھ پورن فلمیں دیکھنے لگا۔ سیکسی فلموں کا چسکا مجھے پڑ چکا تھا۔ اور اب میرے پاس دو سی ڈی بھی تھیں جنہیں میں گھر میں چھپ کر اپنے کمرے میں لگا کر دیکھا کرتا تھا۔ میرے جسم کی گرمی دن بدن بڑھ رہی تھی۔ اور میں جوانی میں داخل ہو رہا تھا یعنی ٹین ایج میں۔۔
زندگی پڑھائی میں گزر رہی تھی ساتھ ساتھ میری سوچوں کو سیکس والی سوچوں نے گھیر لیا تھا۔ اب میں آتی جاتی ہر دوسری لڑکی کو اور ہی نظروں سے دیکھنے لگا تھا ممے آور گانڈ دیکھنے کا مجھے چسکا لگ چکا تھا۔۔
میرے کالس فیلوز مٹھ مارتے تھے ننگی فلمیں دیکھتے تھے میں بھی انکے ساتھ دیکھا کرتا تھا۔
پھر میری پانچویں جماعت کے فرسٹ ٹرم کے پیپر قریب آگئے۔۔ پیپر شروع ھونے سے تین دن قبل چھٹیاں تھی ۔
قاریہ باجی نے مجھے صبح کے ٹائم ہی بلا لیا تھا کہ صبح کو بھی میں دو گھنٹے پڑھوں گا اور شام کو بھی باقی بچے صرف شام کے وقت ہی آتے تھے۔
باجی نے مجھے ہی صبح کے وقت بالایا
تھا۔۔ میرے من میں باجی کے بارے میں
عجیب خیالات دوڑنے لگے۔ چنانچہ میں صبح ناشتہ کرکے باجی کے گھر ٹیوشن پڑھنے چال گیا۔
یہ جمعے کا دن تھا ۔
میں ساڑھے دس بجے ٹیوشن گیا۔ گھر میں امام صاحب اور صرف باجی تھے باقی تینوں بیٹیاں تو مدرسے گئے ہوئی تھیں اور چھوٹا بیٹا ادریس آج گھر پر ہی تھا اسکی چھٹی تھی، اسکے مدرسے میں جمعے والے دن ہوتی تھی جبکہ باجی کی بیٹیوں کی چھٹی کا دن اتوار کا ہوتا تھا۔
ادریس دوسرے کمرے میں تھا۔ میں گھر میں داخل ہوا اور جاکر کمرے میں بیٹھ کر پڑھنے لگا امام صاحب دوسرے کمرے سے آئے میں نے انکو سلام کیا۔ امام صاحب نے مسکرا کر میرے سلام کا جواب دیا اور پوچھا سناؤ محسن بیٹا کیسی چل رہی ہے پڑھائی ۔
میں نے جواب دیا جی بہت اچھی۔
امام صاحب نے کہا خوب بیٹا دل لگا کر پڑھو ۔ دین اور دنیا دونوں کی تعلیم حاصل
کرو اچھی طرح ۔
میں نے۔سر جھکا کر جی قاری صاحب
کا۔
لیکن امام صاحب کو کیا پتہ تھا کہ دین و دنیا کی تعلیم حاصل کرنے والا یہ لونڈہ محسن ساتھ ساتھ لنڈ کی تعلیم بھی حاصل کررہا تھا جو کہ معاشرے میں نظر آنے والی خوبرو حسیناؤں کو کیسی کیسی نظروں سے دیکھتا تھا۔
امام صاحب اپنی کتاب کا مطالعہ کرنے میں مصروف ہوگئے اور میں اپنا پیپر یاد کرنے میں مصروف تھا۔ تقریبًا گیارہ بج کر۔بیس منٹ پر امام صاحب مسجد کےلئے نکلے چونکہ آج جمعے کا دن تھا اس لئے امام صاحب وقت سے کافی پہلے ہی مسجد چلے
جایا کرتے تھے۔ جبکہ ادریس بعد میں جایا کرتا تھا۔ امام صاحب جب مسجد چلے گئے تو باجی اب تک دوسرے کمرے میں شاید کتاب کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھیں۔ پھر باجی آگئیں۔ اور باجی نے ایک نظر مجھ پر دیکھا اور پوچھا کون سا پیپر ہے پہلا
میں نے جواب دیا جی باجی اردو کا پیپر
ہے۔
باجی نے کہا اچھا یاد کرو۔ اور مجھے سمجھا نے لگ گئیں کتاب کھول کھول کر اور خاص نشانات لگا کر دے دیے۔ پھر باجی خود چارپائی پر بیٹھ گئیں اور کتاب کا مطالعہ کرنے لگیں جبکہ میں نیچے بیٹھا تھا زمین پر چادر بچھی ہوئی تھی۔
ساڑھے گیارہ ہوگئے تھے ۔ پڑھتے پڑھتے میرے دماغ میں باجی کے بارے میں خیالات آنے لگے جسکو روکنا میرے بس میں نہیں تھا۔ سبق یاد کرتے کرتے میں نظر اٹھا اٹھا کر باجی کو بھی دیکھ لیتا اور وہ بھی کبھی کبھی مجھے دیکھتیں۔ باجی نے کالے رنگ کی بڑی سی چادر لے رکھی تھی اور سفید شلوار قمیض پہنے ہوئے تھیں۔ باجی ہلکا لباس نہیں پہنتی تھیں ۔۔
دس منٹ بعد باجی اٹھ کر کچن میں گئیں اور صحن میں آگئیں پھر ادھر ادھر پھرنے لگیں۔ میں کمرے سے باجی کو دیکھ رہا تھا
باجی صحن میں چل پھر رہیں تھیں۔ پھر باجی دوبارہ آکر کمرے میں چارپائی پر بیٹھ گئیں۔
میرا لنڈ باجی کے بارے میں سوچ سوچ کر ایک بار پھر کھڑا ہوگیا۔
جاری ہے