قاریہ باجی
قسط 2
باجی نے مجھے پانچ منٹ بعد کہا محسن بیٹا ہوگیا یاد ۔
یاد تو مجھے نشانات والا پہلے ہی تھا میں کتاب لے کر اٹھا اور باجی کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا۔ لیکن میری بدبختی کہ مجھے لنڈ کو چھپانے کا نہیں پتہ تھا ہر بار آج میں نے شرٹ اور ٹراؤزر پہن رکھا تھا۔ اس وقت میں انڈروئیر بھی نہیں پہنا کرتا تھا۔ میں باجی کو سبق سنانے لگا باجی کی نظر میرے لنڈ پر پڑی باجی سبق سن رہی تھیں اور مجھے دیکھ رہی تھی۔
میرا لنڈ صاحب کھڑا ہی رہا اور میں ادھر ادھر دیکھتے ہوئے باجی کو سبق سنا رہا تھا۔
کبھی باجی کو دیکھتا تو وہ مسلسل
میرے لنڈ کو دیکھ رہی تھیں اور کبھی مجھے سارا سبق سننے کے بعد باجی نے مجھ سے کہا تم بیٹھو اپنی جگہ پر میں
کچن سے آتی ہوں۔
مجھے نہیں سمجھ آرہا تھا باجی کیا سوچتی ہونگی میرے بارے میں باجی اٹھ کر کچن میں چلی گئیں لیکن باجی نے اچھی طرح چادر کو سر سے ٹانگوں تک دھانپ رکھا تھا۔
مجھے حیرت کا جھٹکا لگا جب باجی نے کچن میں جاتے ہوئے ایک لمحے کے لئے پیچھے مڑ کر مجھے دیکھا اور پھر کچن میں داخل ہوگئیں۔ میں سمجھ گیا تھا قاریہ باجی کو بھی پتہ چل چکا تھا کہ میں اب بڑا ہو رہا ہوں اور انکے جسم کو کن نظروں سے دیکھتا ہوں۔۔
دو منٹ بعد کچن سے باجی کی آواز آئی
محسن یہاں آؤ
میں کچن میں جانے لگا اور جاکر کچن کے دروازہ کے پاس کھڑا ہوگیا۔
باجی کا منہ دوسری طرف تھا باجی دوپہر کے لئے شاید سالن بنا رہیں تھیں اور باجی کی بیک سائڈ میری طرف تھی باجی نے اسی طرح چادر کو جسم سے ڈھکا ہوا تھا لیکن انکی گانڈ بڑی ہونے کی وجہ سے چوتڑ کی اٹھان پھر بھی تھوڑی نمایاں تھی۔
باجی کو پتہ چل چکا تھا میں دروازے پر
کھڑا ہوں۔ باجی ایک دم مڑی اور مجھے گھورنے لگیں میں نے ایک دم نظریں جھکا لیں۔ باجی نے مجھے کہا کہ تم اتنے شریف نہیں جتنا بنتے ہو۔
میری تو سانس رک گئی باجی کی ڈانٹ سن
کر۔
میں سر جھکائے کھڑا رہا۔ پھر میں نے ہمت کرکے پوچھا باجی مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی؟؟
باجی نے کہا نہیں کوئی غلطی نہیں ہوئی بس تم پر حیرانی ہورہی ہے۔ میں سر جھکائے کھڑا تھا ۔ باجی پھر مڑ کر سالن بنانے لگیں ۔
میں باجی کے پیچھے کھڑا تھا۔ باجی نیچے دراز میں سے سامان نکالنے کےلئے جھکیں تو انکی گانڈ اور میرے درمیان تھوڑا ہی فاصلہ رہ گیا۔
مجھے سمجھ نہیں آیا کہ باجی بے دھیانی میں جھکی ہیں یا جان بوجھ کر مجھے اکسانے کے لئے باجی ایک دم سے جب اٹھنے لگیں تو ایک دم سے انکی نرم گانڈ میری شلوار اور قمیض میں اٹھے ہوئے لوڑے کو رگڑتی ہوئی گئی۔۔۔
افففف ایک دم مجھے اتنا سرور مال کہ جسکا کوئی انمول نہیں تھا۔ لیکن یہ سرور بس ایک سیکنڈ کا تھا۔
اٹھتے ہی باجی ایک دم سے پیچھے مڑی اور
میں نے دیکھا باجی کی سانسیں تیز چل رہیں تھیں چھاتیاں دوپّٹہ کے اوپر سے ہی
اوپر نیچے ہورہیں تھیں۔
میں نے باجی کی طرف دیکھا باجی نے میری قمیض کو دیکھا جہاں میرا ساڑھے چار انچ کا للا ابھی بھی کھڑا تھا۔ باجی نے غصے سے مجھے دیکھا اور تھپڑ جڑ دیا میرے منہ پر۔ اور کہا شرم نہیں آتی تمہیں بے شرم کہیں کے اپنی باجی پر گندی نظر رکھتے ہو اور یہ گندی حرکتیں کرتے ہو۔ میں امام صاحب سے تمہاری شکایت کرونگی اور تمہیں آج کے بعد میں نہیں پڑھاؤں گی تم گندے لڑکے ہو۔
باجی نے ایک دم سے مجھ پر الفاظوں کا سیلاب گرا دیا تھا جو میرے دل و دماغ اور
کھڑے پاؤں کے لئے سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔
میں ایک دم سے باجی کے پاؤں میں گر گیا اور معافی کی بھیک مانگنے لگا اور روتے ہوئے کہا،،،،،، باجی مجھے معاف کردیں مجھے نہیں پتہ یہ سب کیسے ہوگیا۔
باجی نے غصے سے کہا اچھا تمہیں اب بھی نہیں پتہ کہ کیا ہوا۔
اس دن بھی آئے تھے تو گھور گھور کر دیکھ رہے تھے میرے جسم کو۔
اور اب میں نوٹس کرتی ہوں کہ گندی نظر سے دیکھتے ہو اور ابھی یہ میرے پیچھے تم نے کیا کیا تھا؟؟ ہاں؟؟
میں نے بولا باجی قسم سے میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا تھا۔ آپ بس غلطی سے ٹچ ہوگئیں تھیں میرے ساتھ۔
آپ پلیز میری شکایت کسی سے بھی مت
کیجئے گا ۔ میں وعدہ کرتا ہوں آئندہ کبھی ایسا نہیں ہوگا اور آپ جو بولیں گی وہی ہوگا ۔
میں زمین پر سر جھکائے گڑگڑا رہا تھا اور
میرے آنسو باجی کے پاؤں پر گر گر رہے تھے۔
باجی کچھ دیر خاموش رہیں اور پھر باجی نے کہا اٹھو
اور میں روتے روتے اٹھ رہا تھا میری آنکھیں اور ناک دونوں بہہ رہیں تھیں۔ میں اٹھا اور سر جھکائے رو رہا تھا میری آنکھیں لال ھو چکیں تھیں۔
باجی نے دھیما آواز سے کہا جاؤ منہ دھو کر
آؤ آنسو صاف کرو اپنے۔
میں ہلکے قدموں کے ساتھ جا رہا تھا باتھروم کی طرف میں باتھروم میں گھسا
شیشے میں دیکھا تو میری آنکھیں سرخ اور
لال ہوچکیں تھیں ۔
میں نے کانپتے ہاتھوں سے منہ پر پانی کے
چھینٹے مارے اور باہر نکلا باہر نکلا تو باجی کمرے میں کھڑی تھیں باجی کے سامنے میں سر جھکا کر کھڑا ہوگیا۔
باجی نے کہا آج تمہیں معاف کررہی ہوں، تم اچھے لڑکے ہو اور امام صاحب بھی تمہیں پسند کرتے ہیں بہت یہ تو پتہ ہی ھے نا تمہیں؟؟
میں نے ہکلاتے ہوئے کہا ججججج جی باجی۔
باجی نے کہا بیٹھو اوپر چارپائی پر میں چارپائی پر بیٹھ گیا۔
اب سوا بارہ بج رہے تھے۔
باجی نے کہا چلو گھر جاؤ لیکن دس منٹ بعد جانا اور منہ ٹھیک رکھو ابھی بھی چہرہ لال ہو رہا ہے اور آنکھیں بھی گھر جاکر امی پوچھیں گی آنکھیں کیوں
لال ہورہی ہیں۔
میں بیٹھا رہا اور باجی کچن میں چلی گئیں
تھوڑی دیر بعد باجی نے کہا جاؤ گھر چلے جاؤ اب کل آنا۔ اور سنو کل ہفتہ ہے اور اب دو دن چھٹی ہے، پیر کو پیپر ہے نا تمہارا تو تم ایسا کرو کل ساڑھے بارہ پر آنا اور چھ تک پڑھاؤں گی۔
میں نے سر جھکاتے ہوئے حامی بھرنے کا۔اشارہ دیا اور پھر گھر چل دیا۔
جاری ہے