Qariya baji - Episode 3

باجی قاریہ 


قسط 3

گھر جاکر میں سیدھا اپنے کمرے میں گھس گیا اور صوفے پر لیٹ گیا۔ دروازہ بند کرلیا اور آج ہوئے واقعے کے بارے میں سوچنے لگا ۔ مجھے ندامت ہورہی تھی کہ اس لنڈ صاحب نے تو آج مجھے مروا دینا تھا میری تو جان حلق میں آگئی تھی۔

اکثر زندگیوں میں آگ لگانے کی وجہ یہ لنڈ اور پھدی بنتے ہیں ورنہ تو سب کی زندگیاں ٹھیک ٹھاک چل رہی ھوتی ہیں۔۔میں سوچوں میں گم تھا کہ میری آنکھ لگ

گئی اور اس وقت کھلی جب امی دروازہ بجا رہیں تھیں ۔

میں نے ٹائم دیکھا تو تین بج رہے تھے میں

نے دروازہ کھولا تو امی باہر کھڑی امی کہنے لگی محسن ٹیوشن سے آتے ہی سو گیا تو اور آج جمعہ پڑھنے بھی نہیں گیا۔

میں نے کہا امی آج تھکا ہوا تھا بہت نیند

آرہی تھی۔

امی نے کہا اچھا بیٹا لیکن جمعہ نہیں چھوڑتے۔ چل نہا دھو کر فریش ہوجا کھانا لگاتی ہو۔ آج میں نے بریانی اور تیرا من پسند حلوہ یعنی گاجر کا حلوہ بنایا ہے چل جلدی نہا دھو لے اور یہ کپڑے بھی بدل

میں جی امی کہہ کر باتھروم میں گھس گیا کپڑے اتار کر نہانے لگا میری نظر پھر لنڈ

پر پڑی۔ پیشاب کرتے ہوئے نجانے کیوں آج میرے لنڈ میں درد ہو رہا تھا۔ یہ سب پتہ نہیں باجی کی ڈانٹ کی وجہ سے تھا یا میرے بیش بہا رونے کی وجہ سے میں نہا دھو کر باہر نکلا کھانا وغیرہ کھایا پھر باہر دوستوں میں کھیلنے نکل گیا گھر اکر پیپر یاد کرنے لگا اور پھر سو گیا۔


اگلے دن صبح دس بجے اٹھا تھوڑی دیر پیپر یاد کیا اور ناشتہ کیا اور ساڑھے گیارہ۔بجے گھر سے ٹیوشن کےلئے نکلنے لگا۔ مجھے یہ یاد نہیں تھا کہ باجی نے مجھے ساڑھے باڑہ بجے بلایا تھا میں سمجھا ساڑھے

گیارہ بجے بلایا تھا۔ یہ ہفتے کا دن تھا ہفتے کے دن گھر پر امام صاحب اور باجی کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوتا تھا۔ انکے بچے سارے پڑھنے گئے ہوتے تھے مدرسے۔۔


میں گھر سے نکل رہا تھا امام صاحب مجھے راستے میں ملے میں نے امام صاحب کو سلام کیا امام صاحب نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور پوچھا پییر کی تیاری ٹھیک چل رہی ہے بیٹے محسن؟


میں نے جواب دیا جی ہاں۔

امام صاحب نے شاباشی دی آور پھر مسکرا کر آگے بڑھ گئے

شاید آمام صاحب کسی ضروری کام سے

جارہے تھے۔ باجی کے گھر پہنچا تو دروازہ تھوڑا سا کھلا تھا شاید باجی بند کرنا بھول گئیں تھیں یا کنڈی لگانا۔

میں اندر داخل ہوا تو مجھے کچھ کھسر پھسر کی آواز سنائی دی۔ میں صحن میں سے ہوکر کمرے میں داخل ہونے ہی والا تھا کہ مجھے کمرے کے اندر ایک سے زائد لوگوں کے موجود ہونے کا احساس ہوا۔ میں نے سوچا اس وقت تو باجی ہی ہونگی گھر میں اور کھسر پھسر بھی ہورہی تھی یا کسی کی سانسوں کی آواز تھی۔ میں نے چپکے سے دیکھا تو کمرے کا دروازہ پوری طرح بند نہیں تھا تھوڑا کھلا تھا اور اندر کا منظر دیکھ کر تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

کیا دیکھتا ہوں کہ میری قاریہ باجی ایک نوجوان کے ساتھ جسکی عمر تیس برس ہوگی لگ بھگ اسکے ساتھ چوما چاٹی کررہی تھی۔ وہ لڑکا باجی کو بہت بری طرح چوم رہا تھا ہونٹوں کو گالوں کو اور باجی کی گانڈ کو دبا رہا تھا۔ 

مجھے اس آدمی کی شکل سہی سے نظر نہیں آرہی تھی۔ سر پر ٹوپی بھی پہن رکھی تھی اور داڑھی بھی تھی۔

باجی بھی اسکے ہونٹوں کو چوس رہی تھیں باجی کی گانڈ مجھے نظر نہیں آرہی تھیں کیونکہ اس پر ابھی چادر تھی اور وہ چادر کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر باجی کے چوتڑوں کو دبا رہا تھا مہسل رہا تھا۔

میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا باجی ایسا کیسے کر سکتی ہیں۔ پھر میرے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ انکو اپنی موجودگی کا احساس دلایا جائے لیکن میں ڈر بھی رہا تھا۔ میں نے ہمت کرکے کمرے کا دروازہ آرام سے کھٹکھٹایا اور سائڈ میں ہوگیا۔

مجھے لگا جیسے اندر وہ دونوں چونک گئے

ہوں۔ تقریبًا آدھے منٹ بعد دروازہ کھلا اور میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ شخص امام نورالدین صاحب کا چھوٹا بھائی ظہیر الدین تھا۔ میں سر جھکائے کھڑا تھا پھر میں نے آنکھ اٹھا کر اوپر دیکھا باجی نے اچھی طرح چادر لے رکھی تھی۔ باجی ڈری سہمی لگ رہیں تھیں، باجی نے مجھے کہا تممممم؟؟ تم تمہیں تو میں نے ساڑھے بارہ پر آنے کا کہا تھا نا ؟،،،،، پھر اتنا جلدی کیوں آئے

میں نے جواب دیا باجی آپنے ساڑھے گیارہ کا کہا تھا شاید، لیکن مجھے یاد نہیں رہا تھا ٹائم ساڑھے بارہ یا ساڑھے گیارہ۔

باجی نے کہا اچھا بسس بسس۔،،،، جاؤ جا کر دوسرے کمرے میں بیٹھو اور کام کرنا شروع کرو، ٹیسٹ لونگی تھوڑی دیر میں اور سنونگی

میں سر جھکائے دوسرے کمرے میں چلا

گیا۔۔ لیکن کمرے ساتھ ساتھ ہونے کے ساتھ

مجھے انکی آواز آرہی تھی وہ بات چیت

کررہے تھے۔

باجی اس پر غّصہ کر رہی تھی کہ تمہیں کہا بھی تھا دروازہ دیکھ لینا بند ہے یا نہیں تم نے کنڈی بھی نہیں لگائی اتنی جلدی کیا تھی تمہیں

باجی کا دیور ظہیر الدین کہنے لگا پتہ نہیں

جلدی جلدی میں لگانا بھول گیا۔

باجی کہنے لگیں ظہیر مجھے ڈر لگ رہا ہے کہیں محسن نے ہمیں دیکھ تو نہیں لیا؟

ظہیر نے کہا دیکھ بھی لیا تو تم اسے دھمکا دینا کہ خبردار کسی کو بتایا تو۔ اور میں بھی اسکو سمجھا دونگا لیکن پہلے تم اس سے پوچھنا کہ تم نے کچھ دیکھا تو نہیں اور کیا دیکھ رہے تھے؟

تھوڑی دیر بعد ظہیر مجھے باہر جاتا ہوا دکھائی دیا جو گیٹ کھول کر گھر سے باہر

چلا گیا۔ 

ظہیر الدین کے جانے کے بعد باجی کمرے میں آئیں۔ میں نیچے چادر پر بیٹھا پڑھ رہا تھا۔ باجی آئیں اور چارپائی پر بیٹھ گئی۔ باجی بار بار اپنے ہاتھوں کو مسل رہی تھیں۔ باجی نے مجھے بلایا محسن ادھر آؤ۔

میں باجی کے پاس سر جھکا کر کھڑا ہوگیا۔

اور باجی نے پوچھا تم کب سے کمرے کے باہر کھڑے ہوئے تھے سچ بتانا۔

میری آواز اندر ہی دب گئی تھی ایسا لگ رہا

تھا۔ میرے منہ سے کچھ بھی لفظ نہیں نکل پا رہے تھے۔ باجی نے پھر کہا میں تم سے کچھ پوچھ رہی ہوں۔ کیا تم نے اندر کچھ دیکھا تھا؟

میرے چپ رہنے پر باجی نے پھر جھڑک کر

کہا بتاؤ گے اب؟

میں نے کانپتے لبوں سے کہا ججج جی وہ باجی۔۔ آپ اور قاری صاحب کے بھائی جو کر رہے تھے میں نے دیکھ لیا تھا۔ 

میں نے اب باجی کی طرف دیکھا تو باجی

ڈری سہمی لگ رہیں تھیں۔

باجی کے چپ رہنے پر میں نے کہا لیکن میں کسی کو نہیں بتاؤں گا آپ فکر نہ کریں۔میری یہ بات سن کر باجی کا ڈر تھوڑا دور

ہوا۔

باجی نے کہا اصل میں دیکھو محسن میں تمہیں پوری بات بتاؤں گی لیکن تم وعدہ۔کرو کے کسی کو نہیں بتاؤ گے تم پر بھروسہ کررہی ہوں اگر تم یہ میرا راز راز رکھو گے۔

میں نے سر ہلا کر جواب دیا جی باجی میں

وعدہ کرتا ہوں۔۔

باجی نے کہا ادھر میرے پاس بیٹھو میں چپ چاپ باجی کے پاس چارپائی پر بیٹھ گیا۔ باجی نے بات شروع کی اور کہا مجھے معاف کر دینا میں نے اس دن تمہیں تھپڑ مارا بس مجھے غّصہ آگیا تھا۔

میں چپ رہا مجھے لگ رہا تھا اب باجی اپنی غلطی چھپانے کے لئے مجھے مکھن لگا رہیں تاکہ باجی کی اپنے دیور ظہیر کے ساتھ معاشقے پر پردہ رہے۔

باجی نے ظہیر کے بارے میں بتایا کہ اصل میں اس کمبخت نے ہی مجھے اکسایا تھا گمراہ کیا اور میں بہک گئی۔۔

میں نے جب دیکھا کہ باجی اب بلا خوف و خطر ایک دوست کی طرح مجھے اپنے بارے میں سب کچھ بتا رہی ہیں۔

پھر میں نے بھی تھوڑی ہمت کی اور باجی سے پوچھا۔

باجی لیکن آپنے قاری ظہیر صاحب کے ساتھ یہ سب کیوں کیا اور یہ امام صاحب کو تو پتہ نہیں ہوگا نا اس بارے میں؟

میں نے باجی کی طرف دیکھا اور باجی نے میری طرف حیرت بھری نظروں سے دیکھا اور پھر بولیں کہ نہیں امام صاحب کو نہیں پتہ ظہیر کے ساتھ ایسا کام کرنے کی وجہ بھی بس بہت بڑی تھی ۔

میں نے پوچھا کیا وجہ تھی باجی؟

باجی کچھ دیر سوچنے کے بعد مجھے بتانے لگیں دیکھو مجھے پتہ ہے تم بھی اب بچے نہیں ہو اور اس دن جو ہوا اس دن کے بعد سے تو میں خیر تمہیں بچہ نہیں سمجھتی اس لئے میں تمہیں بتا رہی ہوں تاکہ تم میری مجبوری کو سمجھو۔

اب سنو! میرے اور امام نورالدین صاحب کے بیچ میں ہمبستری وغیرہ بالکل ٹھیک چل رہی تھی اور ایک میاں بیوی کے درمیان جو ازدواجی تعلق ہوتا ہے وہ بالکل ٹھیک تھا لیکن پچھلے ایک سال سے امام صاحب کے اس چیز میں اتنی سختی نہیں رہی اور عمر بھی انکی اب پچاس کے قریب ہوگئی ہے اور اس لئے مجھے شدید خواہش پیدا ہوتی تھی سیکس کی اور امام صاحب جلد ہی فارغ ہو جاتے تھے اور مجھے ادھورا چھوڑ دیتے تھے۔

میں فارغ نہیں ہوتی تھی یعنی میری منی نہیں نکلتی تھی اور میرے شوہر یعنی تمہارے امام صاحب کی منی دو منٹ میں ہی نکل جاتی تھی۔ اس طرح انکا وہ چیز کمزور پڑ گیا تھا۔

میں نے باجی سے پوچھا باجی وہ کیا؟ 


باجی نے میری طرف دیکھا اور کہا ارے یار وہ عضو تناسل جسکو لڑکے لنڈ بھی بولتے ہیں۔


باجی کے منہ سے لنڈ کا لفظ سن کر مجھے عجیب سی فیلنگز ہونے لگیں دل ہی دل میں۔


پھر باجی نے کہا بس کیا بتاؤں پھر امام صاحب میرے ساتھ دو دو ہفتوں میں ایک بار سیکس کرنے لگے اور مجھے مزہ نہیں آتا تھا میرے جسم کی بھوک نہیں مرتی تھی پھر امام صاحب اور میرے درمیان کبھی کبھی تلخ کالمی ہونے لگی اور امام صاحب الٹا مجھے ڈانٹ دیا کرتے تھے اور ابھی بھی حالات ٹھیک نہیں ہمارے درمیان۔


اچھا تو اس لئے پھر اپنے ظہیر کے ساتھ یہ سب کیا ؟ میں نے پوچھا۔

باجی نے ایک بار میری طرف دیکھا اور کہا ہاں لیکن میں ایسی نہیں تھی میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اپنے دیور کے ساتھ منہ کالا کرونگی بس ظہیر الدین نے ہی مجھ پر داؤ لگایا تھا۔

میرا دل بھی اسکی طرف مائل ہونے لگا تھا کیونکہ ظہیر ایک خوبرو جوان ہے لیکن میں قسم کھاتی ہوں اب تک میں نے ظہیر کے ساتھ سیکس نہیں کیا ہے۔۔ بس اوپر اوپر سے ہی ظہیر مجھے فارغ کر دیتا ہے اور مجھے سکون ملتا ہے۔۔

پھر باجی کچھ دیر کے لئے خاموش ہوگئیں۔ 


میں دل ہی دل میں کچھ سوچ میں مگن ہوگیا اور اب میرے دل میں ایک بات آرہی تھی کہ اب تو باجی میری گرفت میں ہیں کیونکہ وہ واقعہ بھی مجھے پتہ ہے اور باجی کو ڈر بھی ہے کہیں میں انکا پول نہ کھول دوں۔ اس سے اچھا موقع مجھے نہیں مل سکتا تھا۔


ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﮐﭽھ دﯾﺮ ﺧﺎﻣﻮش رﮨﻨﮯ ﭘﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺧﺎﻣﻮش ﺗﮭﺎ۔

ﯾﮧ اﭼﮭﺎ ﻣﻮﻗﻊ ﺳﻤﺠھ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﭽھ ﺳﻮچ ﺳﻤﺠھ ﮐﺮ داؤ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺎ۔ اور ﮐﮩﺎ ﺑﺎﺟﯽ اﯾﺴﺎ ﺳﮑﻮن آپ ﭼﺎﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ آﭘﮑﻮ دے ﺳﮑﺘﺎ ﮨﻮں۔

 ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ اﯾﮏ دم ﻣﯿﺮی ﻃﺮف ﺣﯿﺮاﻧﯽ ﺳﮯ دﯾﮑﮭﺎ اور ﻣﯿﺮا ذو ﻣﻌﻨﯽ ﺟﻮاب ﺳﻦ کر ﺑﻮﻟﯽ۔ ﮐﯿﺎااا ۔ ﮐﯿﺎ ﻣﻄﻠﺐ، کیسا سکون؟ ﺣﯿﺮاﻧﯽ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ دﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ وﮨﯽ ﺟﻮ آپ اﭼﮭﯽ ﻃﺮح ﺳﮯ ﺳﻤﺠھ رﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﯿﺴﺎ ﺳﮑﻮن۔

ﺑﺎﺟﯽ ﺧﺎﻣﻮش رﮨﯿﮟ۔ ﺑﺎﺟﯽ ﻣﯿﺮی ﻃﺮف دﯾﮑھ رﮨﯽ ﺗﮭﯽ

 میرے ﮨﻮﻧﭧ ﺧﺸﮏ ﭘﮍ ﭼﮑﮯ تھے. ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎﯾﺎ ﮨﻮا ﺗﮭﺎ۔

اﭼﺎﻧﮏ ﻣﺠﮭﮯ اﭘﻨﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﺎ ﮨﺎتھ ﻣﺤﺴﻮس ﮨﻮا ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﮬﺎتھ ﺳﺮ ﮐﮯ اوﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﮔﺮدن واﻟﯽ ﺳﺎﺋﮉ ﭘﺮ ﺗﮭﺎ ۔ ﭘﯿﭽﮭﮯ واﻟﮯ ﺑﺎﻟﻮں ﮐﯽ ﺳﺎﺋﮉ ﭘﺮ ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ ﮨﺎتھ ﭘﮭﯿﺮا ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﻮ اﯾﮏ ﻧﻈﺮ اﭨﮭﺎ ﮐﺮ دﯾﮑﮭﺎ۔

ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﭼﮩﺮے ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺂﺛﺮات ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﮯ۔ اﯾﮏ دم ﺑﺎﺟﯽ اﭨﮭﯿﮟ اور ﮐﭽﻦ ﮐﯽ ﻃﺮف ﭼﻞ دﯾﮟ اور ﻣﯿﮟ ﻧﮯ دﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺗﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﭼﺎدر ﮐﻮ ﺳﯿﭧ ﮐﺮ ﮐﮯ اوﭘﺮ ﮐﺮﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ اور ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ داﺧﻞ ﮨﻮﮔﺌﯿﮟ ۔ ﻣﯿﮟ ﮔﮩﺮی ﺳﻮچ ﻣﯿﮟ ﮔﻢ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ ﮐﯿﻮں ﻣﺠﮭﮯ اب ڈاﻧﭩﺎ ﻧﮩﯿﮟ اور ﮐﯿﻮں ﻣﯿﺮے ﺑﺎﻟﻮں ﻣﯿﮟ ﮨﺎتھ ﭘﮭﯿﺮا اور ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻮاب دﯾﮯ ﺑﻐﯿﺮ ہی ﮐﯿﻮں ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯿﮟ ﮔﺌﯿﮟ.

ﻣﯿﺮے ﺷﯿﻄﺎﻧﯽ دﻣﺎغ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﯿﺎں ! ﯾﮩﯽ اﺷﺎرہ ﮨﮯ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﺎ ﭼﻠﻮ اﭘﻨﺎ ﻗﺪم ﺑﮍﮬﺎؤ۔ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ اﺧﺘﯿﺎر ﮨﻮ ﮐﺮ اﭨﮭﺎ اور رﻓﺘﮧ رﻓﺘﮧ ﮐﭽﻦ ﮐﯽ ﻃﺮف ﻗﺪم ﺑﮍﮬﺎ دﯾﺎ۔ ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ اﻓﻒ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﺎ ﻣﻨﻈﺮ ﮐﯿﺎ ﮐﻤﺎل ﺗﮭﺎ۔ اب ﺑﺎﺟﯽ ﮐﯽ ﭼﺎدر اﻧﮑﮯ ﭼﻮﺗﮍوں ﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﺑﻠﮑﮧ ﺳﺮ ﺳﮯ ﻟﯿﮑﺮ ﺻﺮف ﮐﻤﺮ ﮐﮯ اوﭘﺮ ﺣﺼﮯ ﺗﮏ ﺗﮭﯽ ۔ ﺳﻔﯿﺪ ﻗﻤﯿﺾ ﺷﻠﻮار ﭘﺮ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﯽ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﻮ ﻧﮑﻠﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮔﺎﻧﮉ۔ ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ ﻣﯿﺮے ﻗﺪﻣﻮں ﮐﯽ آﮨﭧ سے محسوس کر لیا تھا۔ کہ میں ﮐﭽﻦ ﮐﮯ دروازے ﭘﺮ ﮐﮭﮍا ﮨﻮں۔

باجی ﻧﮯ ﺗﺮﭼﮭﯽ ﻧﮕﺎﮨﻮں ﺳﮯ اﯾﮏ ﺑﺎر ﻣﮍ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ دﯾﮑﮭﺎ اور ﭘﮭﺮ آﮔﮯ ﮐﻮ ﻣﮍ ﮔﺌﯿﮟ ﺑﺎﺟﯽ ﺳﺎﻟﻦ ﺑﻨﺎ رﮨﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ۔ اب ﻣﺠﮭﮯ ڈر ﺑﮭﯽ ﻟﮓ رﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﺠﮭﮯ اس دن واﻻ ﺗﮭﭙﮍ ﯾﺎد آﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﺎﺟﯽ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﺗﮭﭙﮍ ﻧﮧ ﺟﮍ دﯾﮟ ﻣﯿﺮے ﻣﻨﮧ ﭘﺮ۔ ﻟﯿﮑﻦ اﮔﻠﮯ ﮨﯽ ﻟﻤﺤﮯ ﻣﯿﺮے دﻣﺎغ ﮐﮯ ﺷﯿﻄﺎن ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﺤﺴﻦ ﺑﯿﭩﺎ اب ﺑﺎﺟﯽ ﺗﮭﭙﮍ ﻣﺎرﻧﮯ ﮐﯽ ﺟﺮات ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮے ﮔﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺗﻢ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﻮ رﻧﮕﮯ ہاتھوں اﺳﮑﮯ دﯾﻮر ﻇﮩﯿﺮاﻟﺪﯾﻦ ﮐﮯ ﺳﺎتھ ﭘﮑﮍ ﭼﮑﮯ ھو آﮔﮯ ﺑﮍﮬﻮ۔

ﻣﺠﮭﮯ ﺷﯿﻄﺎن ﮐﯽ ﯾﮧ ﺑﺎت ﭨﮭﯿﮏ ﻟﮕﯽ اور ﻟﮩﺬ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻗﺪم آﮔﮯ ﺑﮍﮬﺎﯾﺎ اب ﻣﯿﺮا ﻟﻨﮉ ﻓﻞ ﺗﻦ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﮐﮧ ﭨﺮاوؤز ﻣﯿﮟ ﻓﻞ ﺟﻮﺑﻦ ﭘﺮ ﺗﮭﺎ۔ اور اج ﺗﻮ ﻗﻤﯿﺾ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ تھی آﮔﮯ۔ اب ﻣﯿﺮے اور ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ درﻣﯿﺎن ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ ﺗﯿﻦ ﭼﺎر اﻧﭻ ﮐﺎ ﻓﺎﺻﻠﮧ ﺗﮭﺎ۔

ﻣﯿﮟ ﺷﺮوﻋﺎت ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ڈر رﮨﺎ ﺗﮭﺎ، ﺑﺎﺟﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ اﭼﮭﯽ ﻃﺮح ﭘﺘﮧ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﮟ اﻧﮑﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﮭﮍا ہوں اﭼﺎﻧﮏ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﺧﻮد ﮨﯽ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﻮﺋﯽ اور ﻣﯿﺮے ﺳﺎتھ ﻟﮓ ﮔﺌﯽ ﻣﯿﮟ اس ﻃﺮح ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ اﭼﺎﻧﮏ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﮐچھ ﺳﻤﺠھ ﻧﮧ ﭘﺎﯾﺎ ﺑﺲ ﻣﺰے ﻣﯿﮟ ڈوب ﮔﯿﺎ اﻓﻒ ﺟﺐ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﻣﻮﭨﮯ ﭼﻮﺗﮍ ﻣﯿﺮے ﭨﺮاؤزر ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍے ﻟﻨﮉ ﮐﮯ ﺳﺎتھ ﻟﮓ ﮔﺌﮯ۔ ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ اﮔﻠﮯ ﮨﯽ ﻟﻤﺤﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﯿﺮے ﮨﺎتھ اﭘﻨﯽ ﮐﻤﺮ ﭘﺮ رﮐﮭ ﺪﯾﮯ۔

ﻣﯿﺮے اور ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﻗﺪ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﻮڑے ﮨﯽ اﻧﭻ ﮐﺎ ﻓﺎﺻﻠﮧ ﮨﻮﮔﺎ ﻣﯿﺮا ﺳﺮ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﯽ ﮔﺮدن ﺗﮏ آرﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﯽ ﺳﺮ اور ﮔﺮدن ﭼﺎدر ﺳﮯ ڈﮬﮑﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ آور ﻧﯿﭽﮯ ﻣﯿﺮے دوﻧﻮں ﮨﺎﺗﮭﻮں ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﭘﯿﭧ ﭘﺮ اور ﻣﯿﺮے ﮨﺎﺗﮭﻮں ﮐﮯ اوﭘﺮ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﮨﺎتھ اور ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺳﮯ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ اﺗﻨﮯ ﺑﮍے ﺑﮍے ﮔﻮل ﻣﭩﻮل ﭼﻮﺗﮍ ﻣﯿﺮے ﺳﺎڑﮬﮯ ﭼﺎر اﻧﭻ ﮐﮯ ﻟﻨﮉ ﮐﮯ ﺳﺎتھ ﭼﭙﮑﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ اب ﺑﺎﺟﯽ ﮐﻮ ﮐﺲ ﮐﺮ ﺟﭙﮭﯽ ڈال ﻟﯽ ﺗﮭﯽ اور ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺳﮯ ﻓﻞ اﻧﮑﮯ ﺳﺎتھ ﭼﭙﮏ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺑﺎﺟﯽ اﭘﻨﮯ ﺑﮭﺎری ﺑﮭﺮﮐﻢ ﭼﻮﺗﮍوں ﮐﻮ ﻣﯿﺮے ﻟﻨﮉ ﭘﺮ داﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ اور ﮔﻮل ﮔﻮل ﮔﮭﻤﺎ رﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺟﺴﮑﯽ وﺟﮧ ﺳﮯ اﻧﮑﯽ ﻗﻤﯿﺾ ﮔﺎﻧﮉ ﮐﯽ دڑاڑ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻨﺲ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮯ ﺣﺪ ﻣﺰہ ﻣﻞ رﮨﺎ ﺗﮭﺎ اﻓﻔﻔﻔﻒ۔ ﺑﺎﺟﯽ آﮔﮯ ﺳﮯ ﻣﯿﺮے ﮨﺎﺗﮭﻮں ﮐﻮ اﭘﻨﯽ ﻣﭩﮭﯿﻮں ﻣﯿﮟ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ زور ﺳﮯ اﭘﻨﮯ ﭘﯿﭧ ﭘﺮ دﺑﺎﯾﺎ ﮨﻮا ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﺳﺎتھ ﭼﭙﮑﺎ ﮨﻮا ﺗﮭﺎ۔

اﭼﺎﻧﮏ ﺑﺎﺟﯽ ﻣﯿﺮے ﮨﺎﺗﮭﻮں ﮐﻮ ﭘﮑﮍ ﮐرآﮨﺴﺘﮧ آﮨﺴﺘﮧ اوﭘﺮ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮔﺌﯿﮟ اور ﻣﯿﺮی دوﻧﻮں ﮨﺎتھ اﭘﻨﯽ ﭼﮭﺎﺗﯿﻮں ﭘﺮ رکھ دﯾﮯ اور ﻣﯿﺮے ﮨﺎﺗﮭﻮں ﮐﻮ اﭘﻨﮯ ﻣﻤﻮں ﯾﺮ دﺑﺎﻧﮯ ﻟﮕﯿﮟ ۔۔۔۔ اﻓﻔﻔﻒ ﮐﯿﺎ ﮐﻤﺎل ﻣﺰہ ﻣﻼ ﻣﺠﮭﮯ اﺳﻮﻗﺖ ﺟﺐ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﻣﻤﻮں ﭘﺮ ﮨﺎتھ ﭘﮭﯿﺮا۔ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﻣﻤﮯ ﺑﮩﺖ ﺑﮍے ﺗﮭﮯ ﭼﮭﺘﯿﺲ ﺳﺎﺋﺰ ﮐﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ اﻧﺪازہ ﻟﮕﺎﯾﺎ۔ ﻣﻤﮯ ﻣﯿﺮے ﮨﺎتھ ﻣﯿﮟ ﭘﻮرے ﻧﮩﯿﮟ آرﮨﮯ ﺗﮭﮯ اﯾﺴﺎ ﻟﮓ رﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺷﺎﯾﺪ ﯾﮧ ﺑﮍے ﺑﮍے ﺧﺮﺑﻮزے ﮨﯿﮟ۔

ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺳﮯ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﭼﻮﺗﮍ ﻣﯿﺮے ﻟﻨﮉ ﮐﮯ ﺳﺎتھ اور آﮔﮯ ﺳﮯ ﮨﺎتھ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﻣﻤﻮں ﭘﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻧﻮﭨﺲ ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺟﯽ آﮨﺴﺘﮧ آﮨﺴﺘﮧ ﺳﺴﮑﯿﺎں اور آہ آہ ﺑﮭﯽ ﮐﺮرﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔

اﺳﺴﺲ اﺳﯿﯿﯿﯿﯿﯽ۔ آہ آہ۔ ﻣﯿﮟ اور ﺑﺎﺟﯽ ،، اﻣﻤﻤﻤﻢ اﻓﻔﻔﻒ اﭘﻨﯽ ﻣﺴﺘﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺖ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ اﭼﺎﻧﮏ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ دروازے ﭘﺮ دﺳﺘﮏ ﮨﻮﺋﯽ اور ﺑﺎﺟﯽ اﯾﮏ دم ﺳﮯ آﮔﮯ ﮐﻮ ﮨﻮﺋﯿﮟ اور ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﭼﻮﻧﮏ ﮐﺮ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﻮا۔ ﺑﺎﺟﯽ ﻣﮍی اور ﮐﭽﻦ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﮔﯿﭧ ﮐﮭﻮﻟﻨﮯ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ذرا اﻧﺪر ﮐﻮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﮐﮭﮍا ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭼﭙﮑﮯ ﺳﮯ دﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺳﺎﻣﻨﮯ واﻟﮯ ﮔﮭﺮ ﺳﮯﺷﺎﯾﺪ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﻮرت ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﮨﺎتھ ﻣﯿﮟ ﮐچھ ﭘﻠﯿﭧ ﭘﮑﮍا رﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺷﺎﯾﺪ ﮐچھ دﯾﻨﮯ آﺋﯽ ﺗﮭﯽ اور ﺑﺎﺟﯽ ﺳﮯ ﮐﮭﮍی ﮨﻮ ﮐﺮ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﯽ.

دو ﻣﻨﭧ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﻮں ﮐﮯ ﺑﻌﺪ وہ ﻋﻮرت ﺟﺎﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻧﻈﺮ آﺋﯽ اور ﺑﺎﺟﯽ دروازہ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﮐﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﭽﻦ ﮐﯽ ﻃﺮف آﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻧﻈﺮ آﺋﯽ اﻧﺪر آﮐﺮ ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ ﭘﻠﯿﭧ ﺳﺎﺋﮉ ﻣﯿﮟ رﮐﮭﯽ اﺳﮑﮯ آﻧﺪر ﺑﺮﯾﺎﻧﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ ڈﮬﮏ ﮐﺮ رﮐﮭ ﺪی۔

ﭘﮭﺮ ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ ﻣﯿﺮی ﻃﺮف دﯾﮑﮭﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﯽ ﻃﺮف دﯾﮑﮭﺎ اور ﮨﻢ ﮐچھ ﺳﯿﮑﻨﮉ ﺗﮏ اﯾﮏ دؤﺳﺮے ﮐﻮ دﯾﮑﮭﺘﮯ رﮨﮯ ۔ ﭘﮭﺮ وہ ﮨﻮا ﺟﺲ ﮐﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻮﻗﻊ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ ۔ ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ آﮔﮯ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﮑﮍا اور ﺳﺮ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﺮﮐﮯ اﭘﻨﮯ ﻻل ﮔﻼﺑﯽ ﮨﻮﻧﭧ ﻣﯿﺮے ﮨﻮﻧﭩﻮں ﮐﮯ ﺳﺎتھ ﺟﻮڑ دﯾﮯ۔ ﻣﯿﺮے ﮨﻮﻧﭧ ﺗﻮ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﯿﮑﺴﯽ ﻓﻠﻤﻮں ﻣﯿﮟ ﺗﻮ اﺳﻄﺮح ﻟﮍﮐﺎ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﮐﺴﻨﮓ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ دﯾﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ آج ﯾﮧ اﺻﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮے ﺳﺎتھ ﮨﻮرﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺷﺮوع ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﺎ ﺗﮭﻮک ﻣﯿﺮے ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﮔﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﻣﺠﮭﮯ اﭼﮭﺎ ﻟﮕﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔ اور ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﭧ ﭼﻮﺳﻨﮯ ﮐﺎ ﺟﻮاب ﮨﻮﻧﭧ ﭼﻮس ﮐﺮ دﯾﻨﮯ ﻟﮕﺎ ۔ ﺑﺎﺟﯽ اور ﻣﯿﺮے ﮔﯿﻠﮯ ﮨﻮﻧﭧ آﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﺟﮍے ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ۔۔ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺟﯽ ﺳﮯ ﻗﺪ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﻮڑا ﭼﮭﻮﭨﺎ ﺗﮭﺎ اﺳﻠﺌﮯ ﺑﺎﺟﯽ ﺟﮭﮏ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﭼﻮس رﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﻣﯿﺮے ﮨﻮﻧﭩﻮں ﮐﻮ ﭼﻮم ﭼﺎٹ رﮨﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ۔ ﻣﯿﺮے دل ﻣﯿﮟ اﭼﺎﻧﮏ ﮐﯿﺎ ﺑﺎت آﺋﯽ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮨﺎتھ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻟﮯ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﮐﻮﻟﮩﻮں ﭘﺮ رﮐﮭﺪﯾﮯ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﭼﻮﺗﮍ ﭘﺮ ﮨﺎتھ ﭘﮍﺗﮯ ﮨﯽ اﯾﮏ دم ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ اﭘﻨﮯ ﮨﻮﻧﭧ ﻣجھ ﺳﮯ اﻟﮓ ﮐﯿﮯ ﻣﯿﺮی ﻃﺮف دﯾﮑﮭﺎ اور ﭘﮭﺮ اﭘﻨﮯ ﮨﺎتھ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻟﮯ ﺟﺎﮐﺮ ﻣﯿﺮے ﮨﺎتھ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ آﮔﮯ ﮐﺮدﯾﮯ اور اﭘﻨﮯ ﻣﻤﻮں ﭘﺮ رﮐﮭ ﺪﯾﮯ اب ﻣﯿﺮے ﮨﺎتھ ﺑﺎﺟﯽ کے مموں پر تھے

ﻟﯿﮑﻦ اﯾﮏ ﺑﺎت ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ اب ﺗﮏ دوپٹہ پہن رکھا ﺗﮭﺎ ﺷﺎﯾﺪ ﺷﺮم و ﺣﯿﺎ ﮐﯽ وﺟﮧ ﺳﮯ ﯾﺎ وہ ﺟﮭﺠﮭﮏ رﮨﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ اﺗﺎرﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﺎﺟﯽ ﻣﯿﺮے ﮨﺎﺗﮭﻮں ﯾﺮ ﮨﺎتھ رکھ ﮐﺮ اﭘﻨﮯ ﻣﻤﻮں ﭘﺮ دﺑﺎ رﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﻣﯿﮟ ﺳﻮچ رﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ ﻣﯿﺮے ﮨﺎتھ اﭘﻨﮯ ﮐﻮﻟﮩﻮں ﭘﺮ ﭘﮍﺗﮯ ﮨﯽ ﮨﭩﺎ ﮐﯿﻮں دﯾﮯ؟ اﺳﮑﯽ وﺟﮧ ﯾﺎ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺑﺎﺟﯽ ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮬﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ اﻧﮑﮯ ﮐﻮﻟﮩﻮں ﯾﺮ ﮨﺎتھ ﭘﮭﯿﺮوں ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺑﺎﺟﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺧﻮد ﺳﮯ ﮐچھ ﮐﺮﻧﮯ نہیں دﯾﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ

ﺑﺲ ﯾﺎ وہ ﯾﮧ ﭼﺎہ رﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺟﯿﺴﺎ وہ ﺧﻮد ﮐﺮرﮨﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﺑﺲ وہ ﮐﺮوں وہ آﻗﺎ اور ﻣﯿﮟ ﻏﻼم۔ ﺑﺲ ﺗﮭﻮڑی دﯾﺮ اور ﮨﻮﻧﭧ ﭼﺆﺳﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﺎﺟﯽ مجھ ﺳﮯ اﻟﮓ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺑﺎﺟﯽ اور ﮨﻢ اﯾﮏ دوﺳﺮے ﮐﯽ آﻧﮑﮭﻮں ﻣﯿﮟ دﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﮨﻤﺎری ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﺗﯿﺰ ﺗﯿﺰ ﭼﻞ رﮨﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ۔ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﭼﮩﺮے ﺳﮯ ﺷﮩﻮت ﻏﺎﻟﺐ ﺗﮭﯽ۔ ﻧﮧ ﮨﻨﺴﯽ ﺗﮭﮯ اور ﻧﮧ ﮨﯽ رﻧﺠﯿﺪہ ﭘﻦ ﺑﺲ ﻣجھ دﯾکھ رﮨﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ۔ ﭘﮭﺮ ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ ﻣﯿﺮے ﮨﺎتھ اﭘﻨﮯ ﻣﻤﻮں ﺳﮯ ﮨﭩﺎﺋﮯ۔ ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ دوﭘﭩﮯ ﺳﮯ اﭘﻨﺎ ﻣﻨﮧ ﺻﺎف ﮐﯿﺎ اور ﻣﺠﮭﮯ ﮐﮩﺎ ﺟﺎؤ ﺑﺎﺗھ روم ﻣﯿﮟ ﺟﺎﮐﺮ ﻣﻨﮧ دﮬﻮ ﻟﻮ اور ﮐﻤﺮے ﻣﯿﮟ ﺟﺎﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭو۔


میں ﺑﺎﺟﯽ ﮐﯽ ﺑﺎت ﺳﻦ ﮐﺮﮐﭽﻦ سے ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎﺋﮯ ﻓﻮرا ﻧﮑﻼ اور باتھ روم ﮔﯿﺎ ۔ ﮨﺎتھ ﻣﻨﮧ دﮬﻮﯾﺎ اور ﺟﺎﮐﺮ ﮐﻤﺮے ﻣﯿﮟ بیٹھ ﮔﯿﺎ۔ ﺑﺎﺟﯽ ﺗﮭﻮڑی دﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﮐﻤﺮے ﻣﯿﮟ آﺋﯿﮟ اور ﮐﮩﺎ ﭘﯿﭙﺮ ﯾﺎد ﮐﺮو ﺳﻨﻮﻧﮕﯽ ﺗﮭﻮڑی دﯾﺮ ﺑﻌﺪ۔ ﭘﮭﺮ ﮐﻤﺮے ﺳﮯ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯿﮟ آدﮬﮯ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﺎﺟﯽ آﺋﯿﮟ اور ﮐﮩﺎ ﺟﺎؤ آج ﮔﮭﺮ ﭼﻠﮯ ﺟﺎؤ اﻣﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﯽ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﭨﮭﯿﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ اور ﭘﯿﭙﺮ ﮐﯽ ﺗﯿﺎری ﮐﺮﺗﮯ رﮨﻮ۔

ﻣﯿﮟ دل ﮨﯽ دل ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺑﺎﺟﯽ ﺗﻮ اﯾﺴﺎ ری اﯾﮑﭧ ﮐﺮرﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ اﺑﮭﯽ ﺗﮭﻮڑے دﯾﺮ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﻤﺎرے درﻣﯿﺎن ﮐچھ ﮨﻮا ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺳﺐ ﻧﺎرﻣﻞ ﺑﺎت ﺗﮭﯽ اور ﻋﺎم ﺗﮭﺎ۔ ﻟﯿﮑﻦ آج ﮐﺎ ﺟﻮ ﮨﻮا ﻣﯿﮟ اﺳﮯ ﮨﯽ اﭘﻨﯽ ﺧﻮش ﻗﺴﻤﺘﯽ ﺳﻤجھ رﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺗﮭﻮڑا ﻣﺰہ ﻣﺠﮭﮯ آﯾﺎ ﺗﮭﺎ وہ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﺮے ﻟﺌﮯ اس ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ اور ﺳﻮچ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﭘﮩﻼ ﺟﺴﻢ ﮐﺎ ﻣﺰہ ﻣﺠﮭﮯ اﭘﻨﯽ ﭨﯿﻮﺷﻦ اور ﺳﭙﺎرہ ﭘﮍﮬﺎﻧﮯ واﻟﯽ ﻗﺎرﯾﮧ ﺑﺎﺟﯽ ﺳﮯ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ۔

ﻣﯿﮟ آٹھ ﮔﯿﺎ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﺑﯿﮓ ﻣﯿﮟ رﮐﮭﯽ اور ﮔﮭﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﺆ ﺳﻼم ﮐﯿﺎ اور ﮔﯿﭧ ﮐﯽ ﻃﺮف ﺑﮍﮬﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﻮ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻣﮍ ﮐﺮ دﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ وہ ﮔﯿﭧ ﭘﺮ ﮨﯽ آرﮨﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮔﯿﭧ ﮐﮭﻮﻻ اور ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ۔ ﮔﮭﺮ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﻣﯿﮟ اﭘﻨﮯ روم ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺴﺎ اور ﮔﮩﺮی ﻧﯿﻨﺪ ﮐﯽ وادﯾﻮں ﻣﯿﮟ ﮐﮭﻮ ﮔﯿﺎ۔۔

میں سو کر اٹھا تو دیکھا پانچ 

بج رہے تھے۔ میں سیدھا باتھ روم میں گھسا اپنے لنڈ کو تھوڑا سہلایا اور غور سے دیکھنے لگا اس لنڈ پر باجی کی گانڈ لگی تھی آج اور باجی کافی دیر تک اس پر اپنے چوتڑ گھماتی رہیں تھیں۔ ان سوچوں نے مجھے مزے میں ڈال دیا تھا۔ میں بار بار باجی کے بارے میں سوچتا تھا۔ خیر میں پیشاب کرکے باتھ روم سے باہر نکال تو امی مجھے مسکرا کر دیکھ رہیں تھیں۔ امی کہنے لگی شہزادہ بیٹا آتے ہی سوگیا تھا ٹیوشن سے۔

امی نے پیار سے میرا ماتھا چوما اور کہا میں کھانا لگاتی ہوں بیٹھ جا کھانا تو کم از کم کھا لیا کر آتے ہی سوجاتا ہے۔

میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے لگا تھوڑی دیر بعد امی کھانا اور چائے لے کر آگئیں میں نے کھانا کھایا اور پھر سے پیپر کی تیاری کرنے میں مصروف ہوگیا۔

پیر کو میرا پہلا پییر تھا توار والے دن میں

ٹیوشن گیا نہیں تھا۔ پیپر شروع ہوگئے تھے جو کہ بارہ دن تک چلے۔

ان دنوں باجی اور میرے درمیان کچھ بھی نہیں ہوا اور وجہ یہ تھی کہ میں صبح گیارہ بجے ٹیوشن جاتا تھا پیپرز کی تیاری کی وجہ سے اور امام صاحب گھر پر ہی ہوتے تھے۔ پہلے تو امام صاحب باہر چلے جایا کرتے تھے لیکن ان دنوں گھر پر ہی تھے بس نماز کی امامت کروانے جایا کرتے تھے یا کبھی کبھی مسجد کا مؤذن کروایا دیا کرتا تھا امامت اور امام صاحب گھر پر ہی نماز ادا کرلیا کرتے تھے۔

امام صاحب کا بھائی ظہیر الدین بھی گھر

کبھی کبھی ہی آتا تھا۔ امام صاحب کی موجودگی میں تو بس وہ خیر ہی آتا تھا امام صاحب کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتا تھا دین کا سبق سیکھتا تھا۔ ظہیر الدین کا گھر بھی اسی محلے میں تھا۔ امام صاحب کے گھر سے تین گلیاں چھوڑ کر تھا۔ شادی اسکی بھی ہوچکی تھی اور اسکے دو بچے بھی تھے ایک بیٹا اور دوسری بیٹی دونوں ابھی چھوٹے چھوٹے تھے۔

ظہیر الدین کے گھر میں جا بھی چکا تھا باجی کبھی کسی کام سے بھیجا کرتی تھیں ظہیر الدین کی بیوی بھی باجی کی طرح بڑی خوبصورت تھی لیکن قاریہ باجی کی تو بات ہی الگ تھی۔

باجی تو ایک بھرپور پٹھانی عورت تھیں۔ ہر لحاظ سے مکمل خیر میرے پیپرز ختم ہوگئے اور دو دن بعد دوبارہ سے اسکول جانا تھا۔ اسکول شروع ہوگیا میں اب ٹیوشن اور

سپارہ پڑھنے اسی ٹائم پر دو بجے جانے لگا 


امام صاحب دوپہر کو بھی گھر میں ہوتے تھے اور دینی کتب کے مطالعے میں مشغول ہوتے تھے۔ 

 

جاری ہے


*

Post a Comment (0)