قاریہ باجی
قسط 4
اب جنوری کا مہینہ شروع ہوچکا تھا۔ سخت سردیاں زوڑ پکڑ رہی تھیں اور راتوں کو رضائی یا کمبل لیئے بغیر سونا محال تھا سردیوں میں للے کو بڑی گرمی چڑھتی ہے وہ عورت کے جسم کی تلاش میں ھوتا ہے۔
میری خواری دن بدن بڑھتی جا رہی تھی لیکن قاریہ باجی نے اس دن کے بعد سے اب تک کچھ نہ کیا تھا میرے ساتھ۔ مجھے بھی اب عجیب سا لگنے لگا تھا اور میں سوچنے لگا تھا یہ باجی بھی بڑی چالاک ہے۔ شاید اس نے مجھے اس دن خوش کرنے کے لئے یہ سب کر دیا تھا کہ میں کسی کو نہ بتاؤں۔
پھر ایک دن اسکول میں مجھے میرے دوست قاسم نے شییشی کی ایک بوتل دی میں نے قاسم سے پوچھا یہ کیا ہے؟
قاسم نے کہا جانی یہ سانڈے کا تیل ہے۔
اس سے روزانہ سونے سے پہلے لنڈ کی مالش
کرنا پھر دیکھنا تیرا لنڈ کیسے بڑا ہوتا ہے میں تو خوش ہی ہوگیا تھا کہ واہ اب لنڈ کی مالش کرونگا۔
گھر جاکر بیگ رکھ کر میں باتھ روم میں گھسا اور قاسم کی دی ہوئی شیشی کی بوتل میں سے تیل نکال کر اپنے ساڑھے چار انچ کے للے کی مالش کرنے لگا جب میں لنڈ کی ٹوپی پر ہاتھ پھیرتا تو مجھے انتہائی لذت اور سرور ملتا میں نے تقریبًا پانچ منٹ تک لنڈ کی مالش کی اور باہر نکل گیا ۔ ٹائم۔دیکھا تو ڈیڑھ بج رہے تھے۔
سپارہ پڑھنے جانے کا ٹائم ہونے والا تھا امی
نے کھانا لگایا میں نے کھانا کھایا۔ پھر سپارہ اور ٹیوشن پڑھنے چلا گیا۔
پھر ان دنوں کچھ ایسا ہوا جو بہت تکلیف
دہ تھا۔ امام نورالدین صاحب کی طبیعت خراب ہوگئی تھی ۔ جو کہ دو ہفتوں تک بیمار رہے، الٹی ، موشن ، بخار سر درد اور زکام نے انکو بہت کمزور کردیا تھا۔ مسجد میں امامت بھی اب قاری صاحب کا بھائی کرواتا تھا۔ باجی کو امام صاحب کی طبیعت کے خرابی کا دکھ بڑا تھا وہ بہت اداس رہنے لگیں تھیں۔
تقریبًا دو ہفتوں بعد امام صاحب صحتیاب ہو کر چلنے پھرنے لگے تھے۔ امام صاحب اب صحتیاب ہوگئے تھے اور مسجد کی امامت کروانے اور مسجد کے انتظامی معاملات دیکھنے کے لئے بھی مسجد میں وقت دینے لگے تھے۔
ان دنوں قاسم کے دیے ہوئے سانڈے کے تیل سے میں نے خوب اپنے لنڈ کی مالش اور میرا لنڈ ساڑھے چار انچ سے بڑا ہوکر سوا پانچ انچ کا ہوگیا تھا اور تھوڑا موٹا بھی ہوگیا تھا۔ اب میرا لنڈ کھڑا ہوتا تھا تو مجھے لنڈ کو دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی تھی کہ عمر کے ساتھ ساتھ میرا للا بھی بڑا ہو رہا ہے۔
میں معمول کے مطابق قاریہ باجی کے گھر ٹیوشن اور سپارہ پڑھنے گیا۔ چار بجے باقی بچوں کی چھٹی کے بعد میں ٹیوشن پڑھنے لگا۔ ٹیوشن میں اب تین بچے پڑھتے تھے جو کہ چھوٹے ہی تھے۔
اس وقت امام صاحب بھی گھر پر نہیں تھے ۔ باجی باتھ روم میں تھیں۔ میں کچن میں اٹھ کر پانی پینے گیا۔ باجی ایک دم باتھ روم سے نکلیں اور کچن کی طرف آنے لگیں انکو شاید پتہ نہیں تھا میں کچن میں ہی ہوں ۔ میں جیسے ہی پانی پی کر مڑا اور کچن سے باہر نکلنے لگا تو میں اور باجی آپس میں ٹکرا گئے۔
میرا سر انکی گردن پر اور منہ انکے چادر
میں لپٹے ہوئے مموں پر لگا تھا۔ باجی ایک دم پیچھے کو ہوئیں اور کہا افففف تم یہاں کیا کر رہے تھے کچن میں ؟؟
میں نے کہا باجی میں پانی پینے آیا تھا۔
باجی نے کہا اچھا جاؤ جاکر اپنی جگہ پر
بیٹھو۔
میں بیٹھ کر پڑھنے لگا ۔
تھوڑی دیر بعد کچن سے باجی کی آواز آئی محسن یہاں آؤ۔
میرے من میں لڈو پھوٹنے لگے اور میں نے سوچا آج شاید پھر سے باجی کے چوتڑوں کا مزہ ملے گا اس دن کی طرح میں بھاگ کر کچن میں گیا۔
باجی نے یکدم کہا آرام سے نہیں آسکتے ہو
کیا، بہت جلدی ہے تمہیں باجی نے کہا تم یہ اسٹول پکڑو میں اوپر چڑھ کر کچھ سامان نکالتی ہوں۔
میں نے کہا جی باجی۔
باجی آج خود ہی اسٹول پر چڑھ رہیں تھیں اور مجھے نہیں کہا۔
میں سوچنے لگا لگتا ہےکہ باجی کہ دل میں آج کوئی اور ہی پلین ہے۔
باجی اسٹول پر چڑھنے لگیں لیکن باجی کا وزن اتنا زیادہ تھا کہ اسٹول ہلنے لگا اور مجھ سے سنبھالا نہیں جا رہا تھا۔ ایک دم باجی نیچے کو اترنے لگیں اور لڑکھڑاتے ہوئے گرنے لگیں ایک دم میں نے باجی کو پکڑ لیا اور دھڑام سے دروازے کے ساتھ میں جا کر لگا اور باجی میرے آگے۔
میرا کھڑا لنڈ باجی کی گانڈ کے چوتڑوں کے بیچ میں گھس گیا۔ باجی ایک دم سے آگے کو ہوئی پھر پیچھے مڑ کر مجھے دیکھا اور شلوار اور قمیض میں اٹھے میرے لنڈ کو دیکھنے لگیں۔ باجی نے کچھ کہا تو نہیں اس بات پر، پھر باجی نے کہا تم اسٹول پر چڑھو مجھ سے تو چڑھا نہیں جاتا ۔
اب میں اسٹول پر چڑھا باجی اسٹول کو
پکڑے کھڑیں تھیں۔
میں باجی کو سامان اتار کر دینے لگا پھر
نیچے اتر گیا اور اسٹول سائڈ میں رکھ کر
باجی کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔ باجی کھانا
بنانے میں مصروف ہوگئیں۔
ایک منٹ گزر گیا تھا اور میں باجی کے پیچھے کھڑا تھا۔ باجی نے کہا اب تک گئے نہیں تم کمرے میں؟ باجی نے آگے کی طرف دیکھتے ہوئے ہی یہ بات کہی تھی۔
میں نے باجی کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور پتہ نہیں میرے دل میں کیا آئی میں آگے بڑھا اپنی قمیض آگے سے ہٹائی جس سے میرا سوا پانچ انچ کا لوڑا شلوار کے اوپر سے نظر آنے لگا۔
جو کہ میں نے آگے کو بڑھ کر باجی کے چوتڑوں کی لائن پر دبا دیا، باجی ایک دم سے ہلیں اور اپنی جگہ پر کھڑی رہ گئیں میں نے ہاتھ آگے کو کرکے باجی کے پیٹ پر رکھ دیے اب باجی مجھے کچھ نہیں کہہ رہی تھیں اور ہلکی ہلکی سیی سیی کر رہی تھی۔
باجی کا جسم ہل رہا تھا اور نیچے سے انکی گانڈ میرے لنڈ پر ہل رہی تھی۔ آج میں جھجھک نہیں رہا تھا اور باجی نے بھی کچھ نہیں کہا تھا۔ تھوڑی دیر ایسا کرنے کے بعد مجھے اپنے لنڈ پر باجی کا ہاتھ محسوس ہوا۔
افففف باجی کا نرم و ملائم ہاتھ جب۔میرے شلوار میں اٹھے لوڑے پر پڑا تو وہ مزہ ناقابِل بیان تھا۔
میں ایک دم سے سسکی لینے لگا آہ باجی میرے لنڈ پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔ پھر ایک دم دوسرے کمرے میں سے باجی کے بیٹے ادریس کی آواز آئی "مورے ڈوڈے
ورکا" یعنی (امی روٹی دو)۔
باجی اور میں ایک دم سے دوسرے سے الگ ہوئے اور مجھے دل ہی دل میں غّصہ آنے لگا۔ ادریس حرامی آج گھر پر ہی تھا اور میں سمجھ رہا تھا باجی کے علاوہ آج کوئی بھی نہیں گھر پر باجی پیچھے کو مڑیں باجی کے ماتھے یر پسینہ آرہا تھا۔
باجی نے کہا کمرے میں جاکر بیٹھو ادریس اٹھ گیا ہے۔
میں چپ چاپ کمرے میں جاکر بیٹھ گیا تھوڑی دیر بعد امام صاحب بھی آگئے اور پھر باجی نے چھٹی دے دی۔
گھر آکر میں سیدھا کمرے میں گھسا تو بشرٰی باجی اور عروبہ باجی بھی موجود
تھیں۔
بشرٰی باجی نے مجھے دیکھ کر پیار سے سر
پر ہاتھ پھیرا اور کہا محسن میرے چاند
پڑھائی ٹھیک جارہی ہے نا ؟؟
میں نے کہا جی آپی بالکل ٹھیک
آپی نے کہا گڈ دل لگا کر پڑھو پوزیشن لینی ہے اس بار پھر تم نے۔ میں مسکرا دیا ۔
آپی نے مجھے پیسے دیے اور میں باہر کھیلنے چال گیا۔۔
اب فروری کے دن شروع ہوگئے تھے۔ سخت سردیاں زور پر تھیں۔ اور اگلے مہینے سے سالانہ پیپر شروع ہونے تھے ۔
ان دنوں قاریہ باجی نے دوبارہ میرے ساتھ کچھ بھی نہیں کیا اور نہ ہی موقعہ ملتا تھا۔ مجھے بھی کبھی کبھی بڑا غّصہ آتا تھا یہ باجی بھی نہ بڑی ہی کوئی مکار عورت ہے۔ خود خود مزے لے کر جب دل چاہا کرلیا اور پھر بعد میں ایسی بن جاتی ہے کہ کچھ ہو ہی نہ ہمارے درمیان
خیر میرے پانچویں جماعت کے امتحان
قریب آگئے ۔
باجی عائشہ نے میری بہت اچھی تیاری
کروائی اور میں کلاس میں دوسری پوزیشن
لینے میں کامیاب ہوگیا۔۔ لیکن جس دن رزلٹ تھا وہ دن میری زندگی کا تکلیف دہ دن تھا
میں اور امی اسکول کے فنکشن سے رزلٹ
لیے خوشی خوشی گھر آرہے تھے کہ اچانک
خبر ملی دکان پر میرے ابو افتخار کو بیٹھے بیٹھے ہارٹ اٹیک ہوگیا۔ دکان ہمارے گھر سے تھوڑا ہی دور تھی۔ میں اور امی دوڑے دوکان پر پہنچے تو وہاں لوگوں کا رش تھا۔ ابو زمین پر گرے پڑے تھے اور لوگ انہیں سہارا دے رہے تھے ۔ امی نے یکدم ابو کو دیکھ کر چیخ و پکار شروع کردی۔
میں بارہ سال کا بچہ اس وقت اپنے باپ کو زمین پر گرا دیکھ کر رونے لگا ۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
میں ابو کے پاس بیٹھ گیا اور روتے روتے میرے منہ سے الفاظ نکل رہے تھے کہ ابو ٹھو ابو اٹھو کیا ہوگیا آپکو اتنے میں ایمبولینس آگئی اور آس پاس کے لوگ میرے ابو کو اٹھا کر ایمبولینس میں لٹانے لگے۔ میں اور امی ابو کے ساتھ بیٹھ گئے اور محلے کے تین پڑوسی ہمارے ساتھ جانے لگے۔ ہم جلدی جلدی ابو کو ہسپتال لے کر گئے لیکن ہسپتال وینٹی لیٹر پر لٹا کر جب وارڈ روم میں لے کر گئے تو ڈاکٹر نے دل کی دھڑکن چیک کرنے کے بعد کہا کہ انکا انتقال ہوچکا ہے۔
میری امی دھڑام سے زمین پر گرنے لگیں اور میں امی کو پکڑنے لگا۔
ہسپتال کا کمرہ رونے دھونے کی چیخوں سے گونج رہا تھا۔ ہمارے پڑوسی بھی رو رہے تھے۔ اتنے میں باجی بشرٰی اور عروبہ بھی آگئیں۔ امی کی حالت کو دیکھ کر وہ بھی سکتے کے عالم میں آگئیں۔
ابو کو وینٹی لیٹر پر مردہ پا کر وہ دونوں
سکتے کی سی کیفیت میں آگئیں، ہم یتیم ہوگئے تھے۔ زار و قطار رو رہے تھے۔ ابو کی میت اٹھ رہی تھی۔ میرے چاچا افضال نے میت کے کفن دفن ٹینٹ وغیرہ اور مہمانوں کے سارہ انتظامات دیکھے
دور دراز اور پنجاب سے ہمارے رشتہ دار
بھی آئے جن میں دو پھوپھیاں، چار خالائیں اور نانا نانی شامل تھے۔
میت کے کفن دفن اور تدفین سے فارغ ہوکر
میں چاچا کے ساتھ گھر آیا۔ گھر میں سوگ کی سی کیفیت تھی ہر طرف غم کا سماں
تھا۔۔
ابو کے انتقال کے بعد گھر میں کئیں دنوں تک سوگ کی کیفیت رہی۔ لوگ تو دو گھڑی رو کر افسوس کرکے چلے جاتے تھے لیکن اس غم کی کیفیت میں بھی اندازہ ہوا کہ۔لوگ سوگ سے زیادہ میت کی دیگ کے چکر میں زیادہ آتے تھے۔
قاریہ باجی بھی امی کے پاس افسوس کرنے آئیں اور بہت دکھ درد بانٹنے لگیں۔ ابو کے انتقال کے بعد میری دونوں بڑی بہنوں کی حالت کافی افسردہ تھی، امی مرجھائی
مرجھائی رہتی تھیں ۔
میری اب چھٹی جماعت میں جانے والا تھا
اور میں نے باجی کے گھر ٹیوشن اور سپارہ
پڑھنے جانا چھوڑ دیا تھا۔ کیونکہ ابو کی وفات کے بعد اپنے ابو کی پرچون یعنی راشن کی دکان پر میں بیٹھنے لگا تھا۔
دو ملازم اور بھی تھے اور حساب کتاب پہلے ابو دیکھا کرتے تھے اب میرے چاچا افضال دیکھنے لگے تھے حساب کتاب اور میں دوکان پر اسکول سے آنے کے بعد رات تک بیٹھتا تھا اور حساب کتاب اور دوکان کے معاملات دیکھتا تھا۔ بس رات کو ہی اسکول کا کام گھر پر کرتا تھا۔
میرے چچا افضال جو بظاہر تو بڑے بھلے
معلوم ہوتے تھے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ
ساتھ اپنی اوقات دکھاتے گئے۔ چاچا ابو کے ساتھ ہی راشن کی دوکان کے معاملات سنبھالا کرتے تھے ۔ دوکان تو میرے ابو کی اپنی تھی اور میری امی نے چاچا کو اپنا مان کر دوکان کے سارے انتظامات سونپ دیے تھے۔ اب چچا دوکان کے معاملات میں پیسوں میں گھپلا کرنے لگے تھے۔
شروع میں تو سب ٹھیک چل رہا تھا۔ مہینے کے آخر میں میرے ابو جو امی کو پہلے ڈیڑھ لاکھ روپے دیا کرتے تھے اب چچا
کے آنے سے کبھی چچا نوے ہزار دیتے اور
کبھی اس سے بھی کم اور کہتے اس مہینے
کا یہی منافع ہوا ہے جب کہ سچ یہ تھا کہ میرا حرامی چچا پیسہ خود رکھنے لگا تھا زیادہ تر چچا اپنا ہونے کے باوجود ہمارے ساتھ پیسوں کے لین دین میں گھپلا کر رہا تھا۔
لیکن امی نے لڑائی جھگڑا نہ ہونے کی کارن سے چچا کو کچھ نہ کہا اور جتنے پیسے چچا دیتا تھا امی لیتی رہیں۔
میں اب دوکان پر چھ گھنٹے بیٹھا کرتا تھا اسکول سے آنے کے بعد دو بجے سے رات آٹھ
بجے تک۔ ان دنوں میں کبھی کبھی قاریہ باجی کے گھر بھی جاتا تھا اگر امی کسی کام سے بھیجتیں لیکن میں سامان دے کر واپس آجاتا تھا۔
ابو کی وفات کے پانچ مہینے بعد میں تھوڑا ٹھیک ہوا تھا ورنہ اداس اور غم کی کیفیت۔میں رہتا تھا۔ بس وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غم بھی دور ہو جاتے ہیں اگر آدمی انکو بھلانا چاہے تو۔
میرا دھیان ان دنوں سیکس کی سوچوں
میں بھی نہیں تھا کیونکہ مصروفیت ہوتی
تھا سارا دن رات کو تھک ہار کر گیارہ بجے سو جایا کرتا تھا۔
امام نورالدین صاحب بھی کبھی کبھی
دوکان پر آتے تھے اور خیر خیریت دریافت
کرتے میری پڑھائی کے متعلق پوچھتے امام
صاحب کو دکھ تو تھا کہ اب میں انکے گھر پڑھنے نہیں جاتا لیکن احساس بھی تھا کہ
میں اپنے گھر میں اکیلا مرد ہوں لہذٰا گھر کے لئے بھی کچھ کرنا ہے۔
امام صاحب مجھے دعائیں دیا کرتے تھے، اب تو مجھے کئیں کئیں دن بلکہ ہفتے گزر
جاتے تھے اپنی قاریہ باجی کو دیکھے ہوئے۔
اسکول سے گھر اور پھر دوکان کی مصروفیت نے مجھے وقت سے پہلے ہی بہت سی ذّمہ داریوں میں جکڑ لیا تھا۔ لیکن یہ ذّمہ داریاں انسان کے لئے فائدہ مند بھی ثابت ہوتی ہیں کیونکہ انسان وقت سے پہلے ہی تلخ تجربات سے گزرتا ہے جو بعد میں پیش آنے والی مشکلات سے لڑنے کا حوصلہ دیتی ہیں
اپنے دوست قاسم کے دیے ہوئے سانڈے کے
تیل سے میں لنڈ کی مالش کبھی کبھی دوبارہ کرنے لگا تھا اب اب میرا دماغ تھوڑا ٹھیک ہو رہا تھا اور ابو کی وفات کے غم سے میں نکلنے کی کوشش کررہا تھا ۔
یہ سب کچھ بہت مشکل تھا لیکن نا ممکن نہیں قاسم نے مجھے دو بار پھر سانڈے کے تیل کی بوتل دی اور میں بدستور اپنے لنڈ کی مالش کرنے لگا۔
اب میری زندگی نارمل روٹین پر واپس آرہی
تھی۔ میں ساڑھے تیرہ برس کا ہوگیا تھا یہ اگست گرمیوں کے دن 2003۶ تھے۔ ان دنوں گرمی پڑ رہی تھی۔ اسکول کی پڑھائی میں بھی مجھے کم وقت ملتا تھا اور میں تیاری ٹھیک سے نہیں کر پاتا تھا۔
فرسٹ ٹرم کے پیپرز میں بس میں سادہ سا
پاس ہوا میرا بی گریڈ بنا لیکن کوئی پوزیشن نہیں آئی۔
لیکن سالانہ امتحان باقی تھے۔ باجی کے گھر بھی اب جانا نہیں ہوتا تھا لیکن امام صاحب سے ملاقات ضرور ہو جاتی تھی راستے میں اور دوکان پر بھی وہ کبھی آجایا کرتے تھے۔
میں انکی خدمت کے لئے کھانے پینے کا بندوبست کرتا تھا وہ میرے تکلف کو دیکھ کر اکثر کہا کرتے محسن بیٹا اتنی تکلیف کیوں کرتے ہو تم میرے بچوں جیسے ہو تم
بس شب و روز یونہی گزرتے جارہے تھے۔ ۔۔
جاری ہے