قاریہ باجی
قسط 5
یہ ستمبر کے دن تھے اسکول سے چھٹی کا دن تھا اتوار تھا۔
امی نے مجھے قاریہ باجی کے گھر کچھ کپڑے دے کر بھیجا کہ جاؤ اپنی قاریہ باجی کو دے آؤ۔
میں گھر سے نکال باجی کے گھر پہنچا تو
مجھے اندر سے لڑائی کی آوازیں آنے لگیں
امام نورالدین صاحب باجی کو زور زور سے ڈانٹ رہے تھے اور پشتو میں کہہ رہے تھے
"ته یوه بدکاره ښځه یې چې زنا کوي.
له خپل ورور سره
زه به تاسو نه پریږدم، مګر ستاسو
هم دغه بدکار ظهیر الدین
دا مه پریږده."
یعنی تم ایک بدکار عورت زنا کرتی ہو۔
میرے ہی بھائی کے ساتھ
میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا، لیکن تمہارے
ساتھ ساتھ اس خبیث ظہیر الدین کو بھی
نہیں چھوڑو نگا۔
میں ذرا سائڈ میں ہوگیا دروازہ تھوڑا کھلا
تھا۔ تقریبًا دو منٹ بعد امام صاحب باہر نکلے میں گلی کے کونے پر چھپ گیا اور امام صاحب دوسری طرف جانے لگے۔
جب امام صاحب گلی میں مڑ گئے تو میں قاریہ باجی کے گھر کی طرف بڑھنے لگا دروازہ کھلا پا کر میں گھر کے اندر چلا گیا اور دروازہ بند کردیا گھر میں دیکھا تو باجی کی ہلکے ہلکے رونے کی آواز آرہی تھی دؤسرے کمرے سے میں جلدی سے دوسرے کمرے میں گیا قاریہ باجی دوپٹے میں سر ڈال کر رو رہیں تھیں۔ باجی نے مجھے دیکھا اور ڈر سی گئیں اور اپنے آنسو صاف کرنے لگیں ۔ میں باجی کے پاس چارپائی پر بیٹھا
اور کپڑے کی تھیلی جو میرے ہاتھ میں
تھی وہ نیچے رکھ دی میں نے باجی سے پوچھا باجی کیا۔ہوا؟؟
امام صاحب آپکو کیوں ڈانٹ رہے تھے
باجی کے رونے کی وجہ سے انکا گورا چہرہ لال سرخ ہوچکا تھا۔ یقین مانو تو اس وقت مجھے امام صاحب پر بھی غّصہ آرہا تھا کہ باجی کو کیوں رلا دیا۔
میں نے باجی سے پھر پوچھا باجی بتاؤ نہ
میں تو آپکا راز دار ہوں۔
باجی نے میری طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا اور پھر جھجھکتے ہوئے بولی محسن تمہارےےے امام صاحب نے مجھے
اور ظہیر الدین کو ایک ساتھ پکڑ لیا آج اور یہی وجہ تھی۔ میں اب ڈر گئی ہوں پتہ نہیں امام صاحب کیا کریں گے اب میرے ساتھ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔
اس ظہیر کو میں نے کتنا سمجھایا کہ آج
مت کرو امام صاحب گھر پر ہی ہیں۔
لیکن وہ سمجھا میں جان بچانے کے لیے
یونہی جھوٹ بول رہی ہوں امام صاحب
باتھ روم میں تھے اور وہ جب نکلے تو انہوں نے ظہیر کو مجھے پکڑے ہوئے دیکھ لیا ظہیر زبردستی میرے گال چوم رہا تھا اور میں بھی اسکے بال میں انگلیاں پھیر رہیں تھی اس لئے امام صاحب کو لگا ہم دونوں کی رضامندی ہے اس میں پھر امام صاحب نے ظہیر پر پیچھے سے حملہ کیا آور اسکو چار پانچ تھپڑ اور مکے مارے اور ظہیر اٹھ کر گھر سے بھاگ گیا اور امام صاحب نے دو تھپڑ مجھے بھی لگائے اور بس یہ سب کچھ ہوا ۔۔ محسن مجھے سخت ڈر لگ رہا ہے۔
باجی گھبرائی ہوئیں تھیں ۔ میں نے باجی کا سر اپنے کندھے پر رکھا اور کہا باجی آپ گھبرائیں مت میں ہوں نا۔
باجی نے کہا محسن امام صاحب کو جب
غّصہ آئے تو وہ کچھ بھی کردیں گے ۔ بس
کسی طرح انکا غّصہ ٹھنڈا ہو جائے لڑائی تو ہمارے بیچ پہلے سے ہی تھی۔
اب مجھے ڈر ہے کہیں وہ مجھے طلاق ہی نا دے دیں ۔
میں نے کہا باجی آپ فکر نہ کریں ایسا نہیں ہوگا۔
میں باجی کو دلاسہ دینے لگا اور کہا باجی
یہ امی نے کچھ کپڑے بھجوائے ہیں اچھا اب میں چلتا ہوں بعد میں آؤنگا ۔
باجی مجھے دیکھنے لگیں اور میں نے باجی کو ایک لمحے کے لئے پیچھے مڑ کر دیکھا اور گھر کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔۔
گھر آکر میں سوچنے لگا یہ تو بڑا برا ہوا کہ امام صاحب کو باجی اور ظہیر والی بات پتہ چل گئی لیکن میں یہ بھی شکر ادا کرنے لگا کہ شکر ہے امام صاحب نے مجھے نہیں پکڑا باجی کے ساتھ ویسے تو میں اور باجی دو بار ہی ایک دوسرے سے چپکے تھے۔ لیکن یہ بڑا غلط ہوسکتا تھا اگر امام صاحب کو پتہ چل جاتا ۔
اس بات کو تین چار دن گزر چکے تھے اور
میں نے نوٹس کیا کہ ظہیر الدین اب مسجد میں بھی نظر نہیں آتا تھا شاید امام صاحب نے اس سے تعلق ختم کردیا تھا اور بدنامی کے ڈر سے کسی کو بتایا بھی نہیں ہوگا۔
مجھے قاریہ باجی کی فکر ستا رہی تھی کہ باجی کے ساتھ اب پتہ نہیں کیا کیا ہوگا امام صاحب نے میں نے باجی کے گھر جانے کا منصوبہ بنایا لیکن یہ منصوبہ اس وقت جانے کا تھا جس وقت باجی گھر میں اکیلی ہوں ۔ میں نے ہفتے تک کا انتظار کیا۔
ہفتے والے دن صبح اسکول سے چھٹی تھی دوکان پر میں دوپہر کو جاتا تھا۔
میں نے گھر جاکر باجی کے گھر کا دروازہ
کھٹکھٹایا تو معمول کے مطابق دروازہ
تھوڑا سا کھلا ہوا تھا۔ بیچ میں پردہ لگا ہوتا تھا دروازے کے میں گھر میں داخل ہوا اور اندر چلا گیا۔ مجھے لگا باجی کچن میں ہیں۔ کچن میں گیا تو باجی کھڑی کھانا بنا رہیں تھیں۔
باجی یکدم پیچھے مڑیں اور ڈر سی گئیں ۔۔
باجی نے کہا ۔۔ تممم تم اس وقت ؟؟ کیا ہوا کسی کام سے آئے ہو ؟
میں نے کچھ سوچ کر بولا باجی مجھے آپسے کچھ بات کرنی ہے۔
باجی نے کہا اچھا جاؤ پہلے دروازہ اچھی طرح بند کرکے آؤ تمہارے امام صاحب ابھی ابھی باہر گئے ہیں دس منٹ پہلے ہی۔
میں دروازہ بند کرکے کنڈی لگا کر آگیا۔
باجی کمرے میں چارپائی پر بیٹھی ہوئیں
تھیں ۔
باجی نے کہا بولو کیا بات کرنی ہے؟
میں نے کہا باجی امام صاحب نے اس دن کچھ کیا تو نہیں میرا مطلب آپکو مارا تو نہیں؟
باجی اداس لہجے میں کہنے لگی محسن بس مت پوچھو کیا بتاؤں اس کمبخت کمینے ظہیر نے تو میری زندگی برباد کردی ہے ۔ اسکی وجہ سے میں امام صاحب کی نظروں میں بدنام ہوگئی۔
باجی نے کہا اس دن کے بعد سے امام صاحب نے ظہیر سے مکّمل طور پر تعلق ختم کردیا ہے اور اسکا ہمارے گھر آنا جانا بھی بند ہوگیا ہے اور میں نے امام صاحب سے معافی مانگی کہ مجھ سے غلطی ہوگئی مجھے معاف کردیں۔
امام صاحب جب اس دن دوبارہ گھر آئے تھے تو مجھے دو تھپڑ اور مارے تھے ۔ دو دن تک میرے منہ میں درد رہا۔ امام صاحب نے کہا میں تمہیں بخش رہا ہوں بشرطیکہ تم اپنے گناہ پر توبہ کرو ورنہ بہت بری پکڑ ہوگی تمہاری۔۔ لیکن اس دن کے بعد سے پانچ چھ دن ہوئے امام صاحب مجھ سے صحیح سے بات چیت نہیں کرتے مجھ سے خفاء رہتے ہیں ۔
پھر باجی تھوڑی دیر کے لئے چپ ہوگئیں ۔
میں باجی کی تمام باتیں سننے کے بعد بولا
باجی شکر ہے کہ امام صاحب نے آپکو طلاق تو نہیں دی آپکو بخش تو دیا ہے۔ بس اس ظہیر کے ساتھ کبھی بات چیت مت کرنا ۔ وہ بے غیرت ہے پورا۔
باجی میری طرف دیکھنے لگیں اور شاید
سوچ رہیں تھیں کہ میں تو اپنے نیک پارسا
ہونے کا ثبوت ایسے دے رہا ہوں کہ جیسے
میں بڑا اچھا ہوں۔
باجی نے کہا اچھا دفع کرو ان باتوں کو بس یہی پوچھنے آئے تھے تم؟
میں نے کہا جی باجی۔
پھر میں نے شرارتی لہجے میں باجی سے کہا کیوں باجی کچھ اور بھی پوچھنا تھا کیا؟
باجی میری طرف دیکھنے لگیں اور کہا تم بھی نا باز نہیں آؤ گے ہاں ۔
تم نے کیا مجھ پر کم داؤ لگایا ہے؟ باجی کے چہرے پر اجنبی سی مسکراہٹ آگئی۔
میں نے بھی باجی کی مسکراہٹ کو دیکھتے ہوئے کہا باجی آپ ہیں ہی اتنی خوبصورت
کہ آپ پر ہر کوئی داؤ لگانا چاہے گا۔
باجی نے کہا اچھا اب مکھن لگا رہے ہو اپنی باجی کو۔
میں ہنس دیا۔
باجی نے پھر دروازے کی طرف دیکھتے
ہوئے کہا کہیں امام صاحب نہ آجائیں
میں نے کہا باجی وہ ابھی تو گئے ہیں دوبارہ کیسے آئیں ؟؟
باجی کچھ سوچ کر اٹھی اور کہا میں آتی
ہوں کچن سے تم بیٹھو میں چائے بناتی ہوں
تمھارے لئے چائے پیو گے نا؟
میں نے کہا جی باجی آپ اتنے پیار سے پلا رہی ہیں تو کیسے نہیں پیونگا؟
باجی مسکرا کر کچن کی طرف چل دیں اور میں چارپائی پر بیٹھ گیا۔
باجی کچن میں چائے بنانے چلی گئیں اور
میں چارپائی پر بیٹھا کچھ سوچ میں پڑ گیا میں نے سوچا یہی موقع ہے آج پھر سے
باجی کی گانڈ پر اپنا للا رگڑنے کا میں چارپائی سے اٹھا اور جاکر کچن میں
کھڑا ہوگیا۔ باجی میرے قدموں کی آہٹ سن کر پیچھے مڑیں آور کہا تم یہاں بھی آگئے ۔ چین نہیں ہے نا تمہیں۔
آرام سے بیٹھا بھی نہیں جاتا تم سے۔
میں باجی کی باتوں کو نظر انداز کرتا ہوا
باجی کو کہا باجی آپ کی چائے اب تک بنی
نہیں کیا؟
باجی نے کہا بن رہی ہے اندھے نظر نہیں آرہا
کیا۔
باجی پھر آگے مڑ کر چائے بنانے لگیں۔ اب وہ وقت تو تھا نہیں کہ میں باجی کے پاس ٹیوشن پڑھتا تھا اور باجی کے سامنے بچہ تھا اور باجی مجھے تھپڑ مار کر کچھ
بھی کہ دیتیں۔
میں نے دو قدم آگے بڑھائے اور کچن کے دروازے سے اندر داخل ہوگیا اب میں باجی کے پیچھے کھڑا تھا۔ میں نے سوچا شروعات آخر کیسے کی جائے۔ باجی اور میرے درمیان تین چار انچ کا ہی فاصلہ تھا۔
میرے لنڈ ٹراؤزر میں اٹھ چکا تھا جو کہ اب تقریبًا چھ انچ کے لگ بھگ ہوچکا تھا اور یہ سارا کمال میرے دوست قاسم کے دیے ہوئے سانڈے کے تیل کا تھا۔
میں کچھ کرنے کا سوچ ہی رہ تھا کہ اچانک باجی کا ہاتھ پیچھے آیا اور باجی نے میرے لنڈ کو پکڑ لیا۔
باجی ایک دم پیچھے کو مڑیں اور انکی
آنکھوں میں حیرت اور لذت کے جذبات بیک وقت تھے۔ باجی نے پوچھا اسسس اسکو کیا کیا ہے تم نے؟؟
میں نے پوچھا باجی کیوں کیا ہوا؟؟
اسکو کیا ہوا ہے؟
باجی نے کہا ارے میں کہہ رہی ہوں اسکو اتنا بڑا کیسے کرلیا ۔ پہلے تو اتنا نہیں تھا تمہارا۔
باجی کے منہ سے اپنے بڑے ہوتے لنڈ کی تعریف سن کر میں تو دل ہی دل میں خوش ہونے لگا۔
باجی میرے لنڈ کو سہلانے لگیں اور اوپر نیچے کرنے لگیں شاید لمبائی ناپ رہیں تھیں
باجی نے ایک دم میری شرٹ اوپر کی باجی کے دل میں آج کچھ اور ہی تھا اور میرے ٹراؤزر کی رسی پر نظر پڑ گئی باجی آج میرا لنڈ دیکھنے کی دلدادہ ہورہیں تھیں۔
باجی نے یکدم ٹراؤزر کی رسی جو کہ ناڑے
کی طرح تھی اسکو کھولا اور میرا ٹراؤزر
نیچے کرنے لگیں ۔
ایک دم سے میرا چھ انچ کا لوڑا لہراتے ہوئے باجی کے سامنے آگیا۔
باجی کے چہرے پر حیرانی تھی آنکھوں میں چمک سی تھی۔ پھر باجی آگے کو مڑ گئیں۔ شاید باجی کو شرم نے گھیر لیا تھا اور باجی پھر سے شرما رہی تھیں اتنے میں چائے ابل گئیں تھی باجی نے چولہا بند کیا۔
میرا لنڈ اب تک ٹراؤزر کے باہر تھا میں آگے
کو بڑھا اور لنڈ باجی کی گانڈ پر دبادیا۔
باجی نے جلدی سے میرے ہاتھ پکڑے اور
اپنے مموں پر رکھ دیے میرا ننگا لنڈ نیچے سے باجی کی شلوار اور قمیض کو لیے اندر کی طرف داخل ہو رہا تھا اور آگے سے میرے ہاتھ باجی کی چھاتیوں کو زور زور سے بھینچ رہے تھے۔۔۔
باجی اوہ آہ سیسییسی سیییییی کر رہی
تھی ۔
اوہہ محسسننننن۔۔۔۔ امممممممم آہ ائئیی سییسییسیسییی۔۔۔۔۔
میں چاہتا تھا باجی کی گانڈ پر ہاتھ پھیروں باجی کی گانڈ بھی دباؤں باجی نے پہلی بار تو میرے ہاتھ روک دیے تھے اس دن جب باجی کی گانڈ پر ہاتھ رکھا تھا یہی سوچ کر میں نے باجی کے مموں کو دبانا جاری رکھا۔
میں اب ہلکے ہلکے آگے پیچھے ہونے لگا اور
چودنے کے سے انداز میں باجی کی گانڈ کی
دڑاڑ میں لنڈ کو ہالنے لگا باجی کی گانڈ میں
انکی شلوار اور قمیض گھس چکے تھے میرے آگے پپچھے ہونے کی وجہ سے ۔۔
ہم دونوں اپنی مستی میں مگن تھے کہ ایک دم گھنٹی بجی اور میں اور باجی ایک
دوسرے سے جلدی سے الگ ہوئے باجی نے کہا اپنا ٹراؤزر اوپر کرو اور جاکر چارپائی پر بیٹھو۔
باجی بھی اپنی چادر وغیرہ سیٹ کرکے
دروازہ کھولنے چلی گئیں ۔
دروازہ کھول کر باجی آئیں تو میں نے دیکھا کہ امام صاحب آرہے ہیں گھر کے اندر امام صاحب کو دیکھ کر میں تھوڑا ڈر سا
گیا۔
امام صاحب کمرے میں آئے باجی کچن میں
چلی گئیں۔
امام صاحب سے میں نے احترامًا سلام کیا امام صاحب نے سر پر ہاتھ پھیرا اور پوچھا سناؤ بیٹا محسن کیسے آنا ہوا؟؟
میں نے کہا جی امام صاحب وہ کچھ سامان دینے آیا تھا۔
امام صاحب نے کہا اچھا اچھا۔ اور بتاؤ گھر
میں اب تو سب ٹھیک ہے نا امی وغیرہ اب
ٹھیک ہیں ؟
میں نے کہا جی امام صاحب سب ٹھیک ہے بس ایک مسئلہ ہے ۔
امام صاحب نے پوچھا وہ کیا؟
میں نے کہا امام صاحب ہمارے چچا افضال
امی کو پیسے بہت کم دیتے ہیں اور گھپلا کرتے ہیں ۔ حساب کتاب بھی سہی نہیں دیتے۔
امام صاحب نے کہا اوہو بیٹا یہ تو بڑے افسوس کی بات ہے۔ میں افضال کی خبر لونگا۔ دو نمبری اور بے ایمانی بہت بڑا گناہ ہے۔
میں امام صاحب کی بات سن کر دل ہی دل
میں کہنے لگا کہ آجکل کون گناہ و ثواب کے
بارے میں سوچتا ہے حرام پائی کرتے ہوئے؟؟
اتنے میں باجی چائے لے کر آگئیں
باجی نے مجھے چائے دی اور امام صاحب کو بھی لیکن امام صاحب نے باجی کے ہاتھ سے چائے نہیں لی باجی نے پھر چائے ٹیبل پر رکھ دی
میں نے دیکھا باجی جب کمرے میں آئیں تو امام صاحب کے چہرے کا رنگ اڑ گیا تھا امام صاحب باجی سے بہت خفاء رہنے لگے
تھے شاید ۔۔امام صاحب مجھ سے پڑھائی کے متعلق پوچھنے لگے ۔
میں چائے پی رہا تھا چائے ختم کرکے میںںنے کہا اچھا امام صاحب میں چلتا ہوں۔
امام صاحب کی نظر ایک دم نیچے پڑی تو
میں نے یہ نوٹ کیا میرا لنڈ اب تک آدھا کھڑا تھا
جاری ہے