Qariya baji - Episode 6

قاریہ باجی 


قسط 6

امام صاحب نے بھی مجھے دیکھا اور وہ سمجھ گئے تھے کہ میں اب بلوغت میں داخل ہو رہا ہوں ۔ میں ٹراؤزر کے نیچے انڈروئیر بھی نہیں پہنتا تھا۔

امام صاحب نے کچھ سوچتے ہوئے مجھے کہا محسن بیٹا تم کل عصر کے بعد مجھے ملنا مسجد میں

میں نے کہا جی ٹھیک ہے امام صاحب پھر میں امام صاحب کے گھر سے نکلا اور سیدھا گھر کی طرف آگیا۔

امام صاحب کے گھر سے نکل کر میں اپنے

گھر آگیا مجھے امام صاحب پر دل ہی دل

میں سخت غّصہ آرہا تھا کہ غلط ٹائم پر

آگئے۔ جب بھی قاریہ باجی کے ساتھ موقعہ ملا کوئی نہ کوئی آ ہی جاتا ہے۔ آج اچھا موقعہ تھا باجی کے ننگے چوتڑ دیکھنے کا وہ بھی ہاتھ سے گیا۔ میرا موڈ خراب ہوگیا تھا۔ لیکن میں سوچنے لگا باجی کیا مجھے اپنے ننگے چوتڑ دکھائیں گی؟ کیا میں باجی کی ننگی گانڈ دیکھ سکوں گا اور انکے ننگے ممے دیکھ سکوں گا۔ انہی سوچوں نے میرا للا ایک بار پھر کھڑا کردیا اور میں اپنے چھ

انچ کے لوڑے کو ٹراؤزر کے اوپر سے مسلنے لگا

پھر میں نے سوچا کہ باجی نے تو کہا تھا اس نے ظہیر سے صرف اوپر اوپر سے کروایا ہے مطلب پورا سیکس نہیں کیا شاید

باجی مجھے بھی نہیں کرنے دیں گی اس سے آگے۔

لیکن میں نے بھی ٹھان لی کہ باجی کے ننگے چوتڑ دیکھ کر ہی رہونگا۔ میں اپنے لنڈ کو مہسل رہا تھا کہ ایک دم دروازے پر امی کو کھڑا پایا میں چونک کر بیڈ پر بیٹھ گیا جو کہ میں پہلے لیٹا ہوا تھا۔

امی نے مجھے لنڈ کو مسلتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ امی بھی عجیب نظروں سے مجھے دیکھ رہیں تھیں۔ پھر امی نے کہا محسن تجھے دوکان پر نہیں جانا کیا آج؟؟

میں نے کہا امی جانا ہے بس جارہا ہوں۔

پھر امی کمرے سے چلی گئیں۔

مجھے اپنے لنڈ پر غّصہ آنے لگا کہ یہ حرامی للا کہیں بھی کھڑا ہو جاتا ہے نہ جگہ دیکھتا ہے نہ وقت دیکھتا ہے۔

دوستوں جو للا جگہ اور ٹائم دیکھے بھال وہ للا ہی کیا؟

بس میرا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ پھر میں اٹھا آور باتھ روم سے فارغ ہوکر دوکان کی طرف نکل گیا۔

سردیاں شروع ہوچکیں تھیں دوبارہ سے اب شب و روز تیزی سے گزر رہے تھے۔ رات کو اب میں پورن سیکسی فلمیں بہت دیکھنے لگا تھا۔ اور رات کو دو دو بجے تک سونے لگا تھا، عادتیں خراب ہوتی جار ہیں تھیں صبح

اسکول بھی لیٹ پہنچتا تھا۔ پڑھائی میں میری کارکردگی بھی پہلے کی طرح نہیں رہی تھی۔۔

رات کو سوتے وقت مجھے پہلا اطلام سردیوں میں ہوا۔ میں چودھویں سال میں تھا لیکن ابھی پورے چودہ سال کا نہیں ہوا

تھا۔ قاریہ باجی کے گھر جانے کا بھی موقع نہیں مل رہا تھا اور میں ڈر کے مارے اس لئے بھی نہیں جاتا تھا کہ کہیں امام صاحب گھر پر نہ ہوں۔

بس اسکول سے گھر اور پھر گھر سے دوکان پھر رات کو گھر آکر کھانا کھا کر کمپیوٹر پر سیکسی فلمیں دیکھنا یہ میرا روز کا معمول بن گیا تھا۔۔ ایک دن میں نے قاریہ باجی کے گھر جانے کا پلین بنایا۔


یہ جمعے کا دن تھا میں نے سر میں درد کا بہانہ کرکے امی سے کہا میں اسکول نہیں جارہا جسم میں درد ہے

امی نے کہا اچھا ٹھیک ہے۔ باجی عروبہ اور باجی بشرٰی دونوں یونیورسٹی چلی گئیں تھیں.

مجھے پتہ تھا جمعے والے دن امام صاحب جلدی ہی مسجد چلے جاتے ہیں۔ اور ادریس گھر پر ہی ہوتا تھا ویسے تو ادریس اب آٹھ سال کا ہوگیا تھا لیکن میں نے سوچا وہ تو دیر تک سوتا ہے جمعے کو اسکی چھٹی ہوتی ہے۔ میں بیڈ پر لیٹا آرام کررہا تھا تھوڑی دیر بعد اٹھا امی کو دوسرے کمرے میں سوتا پایا ۔ میں چپکے سے گھر کا دروازہ کھول کر باہر نکال اور قاریہ باجی کی گلی کی طرف چل دیا۔

گیارہ بج رہے تھے۔ میں نے سوچا شاید امام صاحب جا چکے ہونگے۔ میں گھر پہنچا تو دروازہ تھوڑا کھلا ہوا تھا ایک دم پردہ ہٹا اور امام صاحب گھر سے نکلنے لگے۔ میں چونک گیا ۔ امام صاحب نے کہا ارے محسن بیٹا تم؟؟ کیا ہوا خیریت ؟

میں نے کہا جی امام صاحب امی نے رضائیوں کا بتانے کے لئے بھیجا ہے باجی سے کہ رضائیاں بننے کے لئے دے دیں ہیں۔

امام صاحب نے کہا اچھا اچھا ۔ محسن تم

اس دن عصر کے بعد مجھ سے ملے بھی نہیں  

میں جھجھک کر بولا ججج جی وہ میں

بھول گیا تھا۔

امام صاحب نے کہا اچھا چلو ذرا تم سے

کوئی بات کرنی ہے۔

میں امام صاحب کے ساتھ چل دیا اور

مسجد چار گلی چھوڑ کر تھی۔ امام صاحب کے ساتھ میں مسجد میں پہنچ گیا ۔

امام صاحب نے مجھے اپنے پاس بیٹھنے کو کہا آور بات شروع کی کہ دیکھو بیٹا محسن اب تم بڑے ہورہے ہو بلوغت میں داخل ہوگئے ہو۔ تمہیں پتہ ہے اطلام کیا ہوتا ہے یا منی کا نکلنا کیا ہوتا ہے؟

میں نے سر ہلا کر جواب دیا جی امام صاحب

امام صاحب نے کہا بیٹا بلوغت کے کچھ

مسائل ہوتے ہیں ۔ اس لئے پاکی ناپاکی کا

خیال رکھنا پڑتا ہے۔

اس لئیے جب کبھی اطلام ہوا کرے رات کو تو نہانا لازمی ہو جاتا ہے۔

میں امام صاحب کی ساری بات سن رہا تھا۔

پھر امام صاحب نے کہا کہ شلوار کے نیچے یا پینٹ یا ٹراؤزر جو بھی تم پہنتے ہو اسکے نیچے انڈروئیر پہنا کرو۔

میں ذرا شرمندہ سا ہوگیا ۔ میں سمجھ گیا تھا امام صاحب مجھے یہ کیوں کہہ رہے ہیں ۔ اس دن امام صاحب کی نظر میرے ٹراؤزر پر پڑی تھی جو کہ میرا لنڈ آدھا کھڑا ہوا تھا ۔

پھر امام صاحب نے کہا کہ زیِر ناف بال بھی ہر دو ہفتے بعد صاف کیا کرو انکو تراشا کرو۔ تم سمجھ گئے نا محسن بیٹا؟

میں نے سر جھکائے کہا جی امام صاحب

میں سمجھ گیا۔

پھر امام صاحب نے شفقت بھرا ہاتھ میرے

سر پر پھیرا اور پھر بولے اوہو میں اپنی

کتاب گھر پر بھول گیا ہوں۔ محسن بیٹا جاؤ ذرا تمہیں باجی سے جو بات کرنی تھی رضائیوں والی اور باجی کو کہنا کہ "صرِف نحو " والی کتاب دے دیں الماری میں رکھی ہوگی۔

میں اٹھا مسجد سے نکلا اور تیز تیز باجی کے گھر کی طرف قدم بڑھانے لگا ۔۔ باجی کے گھر پہنچا دروازہ معمول کے مطابق تھوڑا کھلا تھا۔ پردہ ہٹا کر میں اندر گھسا ۔

اندر گیا تو دیکھا باجی تیل کے ساتھ ادریس کی ٹانگوں کی مالش کر رہیں تھیں اور ادریس آنکھ بند کیے لیٹا تھا۔

باجی نے مجھے دیکھا اور چونک سی گئیں۔ 

باجی نے کہا دوسرے کمرے میں بیٹھو میں آتی ہوں ۔

میں جاکر چارپائی پر بیٹھ گیا اور باجی کے بارے میں سوچنے لگا ۔

لیکن کافی دیر گزر گئی باجی نہیں آئیں گھڑی پر ٹائم دیکھا تو ساڑھے گیارہ ہورہے تھے تقریبًا پندرہ منٹ بعد باجی آئیں اور بولیں بولو کیا کام ہے؟

میں نے کہا باجی وہ امام صاحب راستے میں ملے تھے انہوں نے کہا کہ باجی کو گھر جاکر کہوں کہ " صرِف نحو" والی کتاب دے دیں ۔

باجی نے کہا اوفوو تو پہلے نہیں بول سکتے تھے تم اتنی دیر تک میں ادریس کی مالش کرتی رہی اسکی ٹانگوں میں بڑا درد تھا

میں نے کہا باجی آپنے ہی کہا تھا جاکر چارپائی پر بیٹھو

باجی نے کہا اچھا بس تم بھی نا۔ بہت باتیں کرتے ہو اب۔

تم بیٹھو میں ہاتھ دھو کر آتی ہوں۔

میں نے نوٹ کیا باجی نے آج گلابی رنگ کے شلوار قمیض پہن رکھے تھے اور سفید موٹی چادر لے رکھی تھی۔

باجی کو دیکھ کر میرے لنڈ میں درد ہونے

لگا اور میں نے سوچا آج تو باجی کی ننگی گانڈ دیکھ کر ہی رہونگا۔

باجی ہاتھ دھونے گئیں تو میں دوسرے کمرے میں ادریس کو دیکھنے گیا ۔ ادریس

اب آنکھ بند کیے سو گیا تھا شاید میں آکر چارپائی پر بیٹھا باجی ہاتھ دھو کر آئیں اور الماری کی طرف مڑیں میں جھٹ سے اٹھا اور جاکر باجی کے پیچھے کھڑا ہوگیا ۔

میں نے کہا باجی امام صاحب نے کہا تھا کتاب الماری میں رکھی ہوگی۔

باجی مجھے اپنے اتنا قریب دیکھ کر ایک بار مڑیں اور جھجکتے ہوئے کہا تمہیں نظر نہیں آرہا دیکھ رہی ہوں نا الماری میں باجی آگے کو مڑیں 

میں نے آج شلوار قمیض پہن رکھی تھی میں نے اپنی قمیض سائڈ میں کی آور شلوار کا ناڑہ کھول دیا۔ میری شلوار میرے پاؤں میں جاگری اور باجی کتاب نکالنے کے چکر میں یکدم سے جھکیں تو میرا لنڈ باجی کے موٹے کولہوں پر رگڑا گیا افففف باجی ایک دم سے اٹھیں اور حیرت سے مجھے دیکھا اور کہا یہ کیا ہے؟ چین نہیں ہے نا تمہیں؟ تم مجھ کو مروانا چاہتے ہو ادریس بھی گھر پر ہے آج۔ باجی نے کہا تم باز نہیں آؤگے نا۔

میں نے کہا باجی آرام سے بولیں کہیں وہ

اٹھ نہ جائے ۔ میرا قد اب باجی کے بالکل برابر تھا ۔

باجی نے مجھے کہا ہٹو پیچھے ۔

میں نے باجی کی بات سنی ان سنی کی اور

انکے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیے اور پیچھے سے کمر کو پکڑ کر اپنی طرف کرنے لگا اور الماری کے ساتھ باجی کو دبا دیا۔

باجی شروع میں تو مزاحمت کرتی رہیں

کیونکہ باجی کا موڈ بھی عجیب تھا وہ اپنے موڈ کی مالکن تھی گھڑی گھڑی بس رنگ بدل لیتی تھیں۔

میں نے باجی کے ہونٹوں کو چوسنا جاری

رکھا۔ میں باجی کے ہونٹوں کو زور زور سے چوس رہا تھا ۔ اب باجی بھی میرا ساتھ دینے لگیں اور میرے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگیں۔ میں نے رفتہ رفتہ ہاتھ پیچھے سے نیچے لے جانا شروع کیا اور باجی کی گانڈ پر رکھ دیا۔ یہ میرے لئے کھلا اشارہ تھا باجی کی طرف سے۔

پھر میں پوری طرح سے باجی کے بڑے بڑے

کولہوں پر ہاتھ پھیرنے لگا اور انکو مٹھیوں میں بھینچ بھینچ کر دبانے لگا۔ اور باجی آگے سے اپنے دونوں ہاتھوں کو میرے سر اور بالوں میں پھیر رہی تھی۔ اور میرے دونوں ہاتھ باجی کے موٹے کولہوں کو دبا رہے تھے ہم دونوں انتہائی لذت میں تھے۔ مجھے معلوم تھا باجی کو بھی بے حد مزہ آرہا تھا باجی کی چھاتیوں کو انکی سفید چادر نے۔ڈھانپ رکھا تھا اور آگے سے انکی چھاتیاں میرے سینے میں پیوست ہورہیں تھیں ۔۔


میں نے باجی کی گانڈ کو دبانا جاری رکھا۔ کبھی ہاتھ اوپر لے کر آتا آور کبھی نیچے لے کر جاتا۔ میرے دل میں باجی کی ننگی گانڈ۔پر ہاتھ پھیرنے کی خواہش بھڑک رہی تھی۔اور اسی خیال میں میں نے اپنے دونوں۔ہاتھوں کو باجی کی قمیض کی طرف نیچے۔سے پکڑا اور گزار کر شلؤار پر آگیا۔

اب میرے دونوں ہاتھ باجی کی شلوار کے اوپر سے انکی گانڈ کو دبا رہے تھے اور مجھے باجی شلوار کے اندر پینٹی پہنے کا احساس ہوا کہ باجی نے اندر ضرور پینٹی پہنی ہوگی۔ میں باجی کی گانڈ دباتے دباتے ایک دم ہاتھ اوپر لے کر آنے لگا اور جہاں سے انکی کمر تھوڑی نظر آرہی تھی وہاں رکھا ایک دم باجی کے جسم میں جھرجھری سی ہوئی ۔ میں نے شلوار کا نیفا پکڑ کر ہاتھ باجی کے اوپری کنارے پر سے اندر گزارنے لگا کہ اچانک باجی نے ہاتھ پیچھے کرکے میرے

دونوں ہاتھ پکڑ لیے اور اپنے ہونٹ مجھ سے جدا کرلیے ۔ اب باجی کی سانسیں تیز تیز چل رہی تھیں اور ہم دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے ۔ باجی کی آنکھوں میں شہوت صاف دکھ رہی تھی لیکن شرم و حیا اب بھی غالب تھی۔

میں نے آہستہ سے اپنا ہاتھ ہٹایا باجی کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر اپنی کمر پر باندھ لیا اب میں نے بھی باجی کے گرد اپنے دونوں ہاتھ باندھ لیے اور باجی کے ہونٹوں کو پھر سے چوسنے لگا۔ اب کی بار میں نے پوری تیاری سے بغیر رکے باجی کی شلوار کے اندر دونوں ہاتھ ڈال دیے ۔ باجی تھوڑی سی ہلیں لیکن جب میرے ہاتھ انکی ننگی گانڈ پر پڑے اور میں زور سے دبانے لگا تو باجی نے مزاحمت چھوڑ دی اور بھرپور کسنگ کرنے لگیں۔

میری دلی خواہش پوری ہورہی تھی آج وہ باجی کی گانڈ جسکو میں دیکھا کرتا تھا آج میرے دونوں ہاتھوں میں تھی اور میں انکو سختی سے دبوچ رہا تھا لیکن میرے دل میں ابھی اور آگے بڑھنے کا منصوبہ تھا۔ میں نے گانڈ کو دباتے دباتے باجی کی گانڈ کی لکیر پر انگلی پھیری تو باجی کے جسم نے جھرجھری لی جیسے کرنٹ سا دوڑنے لگا ہو جسم میں

باجی گانڈ کی لکیر پر انگلی کے ساتھ اب۔میں باجی کے دونوں کولہوں کو پکڑ پکڑ کر۔دبا اور کھول رہا تھا اور بیچ میں انگلی بھی پھیر رہا تھا کہ اچانک میں نے شدِت جذبات میں اپنی انگلی باجی کی گانڈ میں داخل کردی ۔ باجی کے ہونٹ میرے ہونٹ میں گڑ گئے اور درد کی وجہ سے باجی نے میرے ہونٹ پر کاٹ لیا اور ایک دم سے ہونٹ مجھ سے الگ کیے اور پیچھے سے میرے دونوں ہاتھ پکڑ لیے اور نفی میں سر ہالنے لگی۔

میری دائیں ہاتھ کی بیچ والی انگلی اب تک باجی کی گانڈ کے اندر تک اور بائیں ہاتھ میں نے باجی کے بائیں چوتڑ پر رکھا ہوا تھا میری شلوار جو اب تک پاؤں میں پڑی تھے اسکو میں نے کھڑے کھڑے پاؤں سے سائڈ میں کیا باجی کی گانڈ سے انگلی نکال لی اور دونوں ہاتھ شلوار سے نکال لیے باجی ایک دم دیوار کے ساتھ پیچھے چپک گئیں اور اپنی گانڈ کو پکڑ لیا۔ گانڈ میں انگلی کرنے سے باجی کو درد ہوا تھا یقینًا باجی لمبے لمبے سانس لے رہی تھیں اور میں

نے اتنے میں اپنی قمیض کے بٹن کھولے اور اپنی قمیض اتارنے لگا۔

باجی نے کہا محسن یہ کیا کررہے ہو؟؟

میں نے کہا وہی جو آپ دیکھ رہی ہیں۔

باجی نے کہا نہیں نہیں محسن میں اس سے آگے نہیں بڑھوں گی۔ تنا کچھ تو کرلیا ہے تم نے۔

میں نے باجی کو کہا ابھی تو بہت کچھ باقی ہے۔ اور باجی کو دھکا دے کر اپنا پاس کھینچا اور باجی اور میں چارپائی پر گرنے والے ہوگئے اور باجی میرے اوپر آگئیں ۔

باجی کا وزن بہت زیادہ تھا میں نے دونوں ٹانگوں میں باجی کو جکڑ لیا اور نیچے سے اپنی دونوں ٹانگیں باجی کی کمر کے گرد باندھ دیں اور انکے چوتڑوں پر بھی پھیرنے لگا

نیچے سے میرا لنڈ باجی کے پیٹ پر دبا ہوا

تھا۔ باجی نے کہا محسن پلیز چلے جاؤ کہیں ادریس اٹھ نہ جائے ۔

میں نے کہا نہیں آپ ہر بار ایسا کرتی ہیں خود مزے لے کر مجھے چھوڑ دیتی ہیں۔

باجی نے کہا اچھا تم کسی اور دن آنا میں وعدہ کررہی ہوں پھر اس سے زیادہ کریں گے۔

میں نے کہا پکا وعدہ؟؟

باجی نے کہا ہاں پکا وعدہ ۔۔

میرے چہرے پر خوشی دوڑ گئی آور میں نے باجی کے گال کو چوم لیا۔

اچانک مجھے خیال آیا کہ امام صاحب نے مجھے کتاب لانے کا کہا تھا۔

یہ خیال آتے ہے میں جھٹ سے اٹھا باجی

بھی اٹھیں ۔ اور میں اپنی شلوار قمیض

پہننے لگا۔ ٹائم دیکھا تو بارہ دس ہورہے تھے یعنی میں اور باجی تقریبًا پچیس منٹ ایک دوسرے کے ساتھ کسنگ کرتے رہے مزے کرتے رہے۔ کتاب جو اب تک الماری میں پڑی تھے باجی نے جلدی سے نکال کر مجھے دی اور باجی نے کہا اب جلدی جاؤ بھی کہیں امام صاحب گھر پر ہی نا آجائیں ۔


جاری ہے



*

Post a Comment (0)