Qariya baji - Episode 7

قاریہ باجی 

قسط 7


میں نے باجی سے پوچھا پھر کب آؤں ؟


باجی نے کہا دیکھو میں بتا دوںگی لیکن اب صالحہ ، حفصہ اور سلمٰی کا مدرسہ دوپہر تک ہے اور وہ دو بجے آجاتی ہیں اور صبح کے ٹائم اکثر امام صاحب گھر پر ہوتے ہیں اس لئے ایسا کرنا تم اگلے جمعے کو یا ہفتے کو ہی آنا۔ باقی دنوں میں بڑا مشکل ہے۔ اگر امام صاحب صبح گھر پر نہ ہوتے تو پھر ٹھیک تھا میں تمہیں بلا بھی لیتی لیکن صبح امام صاحب گھر پر ہوتے ہیں۔


میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے۔

میں جلدی جلدی میں گھر سے نکلنے لگا۔ باجی دروازہ بند کرنے آئیں میں گلی سے نکل کر اگی گلی میں مڑا ہی تھا کہ امام صاحب آگے سے آتے ہوئے مجھے نظر آئے۔ امام صاحب کو دیکھ کر میری گانڈ پھٹنے والی ہوگئی ۔۔



امام صاحب میرے پاس پہنچے اور تھوڑا ناراضگی کے ساتھ بولے ۔ محسن اتنی دیر کہاں لگا دی تھی؟؟


میں نے کہا امام صاحب اصل میں مجھے بہت تیز پیشاب آرہا تھا اسی لئے میں گھر چلا گیا تھا اور امی نے دوکان سے کچھ لانے کو بھی بول دیا تھا اسی لئے بس ابھی ابھی سامان دے کر آیا ہوں امی کو۔

میں نے کہا امام صاحب مجھے معاف کردیں۔


امام صاحب نے کہا اچھا بیٹا محسن کوئی بات نہیں لیکن جمعے کے ٹائم جلدی آنا تم ہمیشہ آخر میں آتے ہو۔

میں نے جی امام صاحب کہا اور اپنے گھر کی طرف چل دیا۔ اور شکر کیا کہ صحیح ٹائم پر قاریہ باجی کے گھر سے نکل گیا ورنہ امام صاحب تو گھر پر ہی آرہے تھے۔ پتہ نہیں کچھ نہ کچھ ہو جانا تھا آج اگر امام صاحب گھر پہنچ جاتے۔۔۔

میں امام صاحب کو کتاب پکڑا کر اپنے گھر چل دیا۔ گھر پہنچ کر سیدھا کمرے میں گھس گیا۔

ٹائم دیکھا تو ساڑھے بارہ ہورہے تھے۔ باجی کے بارے میں سوچتے سوچتے مجھ

پر نیند کا غلبہ طاری ہوگیا اور میری آنکھ

اس وقت کھلی جب امی مجھے جھنجھوڑ کر اٹھا رہیں تھیں ۔

امی نے کہا کہاں چلا گیا تھا بیٹا۔

میں نے کہا جی امی وہ بس دوست کے پاس گیا تھا۔

امی نے کہا ٹائم تو دیکھ لے چل میں نے کپڑے استری کر دیے ہیں جمعہ پڑھنے چلا جا نہا دھولے جلدی سے

 میں نے ٹائم دیکھا تو ایک بج کر بیس منٹ ہورہے تھے۔

جلدی جلدی اٹھا باتھ روم میں گھسا۔ آج نہاتے ہوئے اپنے لنڈ کو دیکھ کر کافی خوشی ہورہی تھی اس نے آج باجی کے نرم اور گول مٹول کولہوں کا مزہ لیا تھا، لیکن اصل مزہ ابھی بھی لینا باقی تھا۔ میں نہا کر باہر نکلا ایک چالیس ہورہے تھے جلدی سے جمعہ پڑھنے چلا گیا ۔


پھر گھر آکر کھانا کھا کر دوکان پر چلا گیا ۔ اب مجھے اگلے جمعے تک کا انتظار کرنا تھا، ایک ایک دن گزارنا مشکل ہو رہا تھا میرے لئے یہ دسمبر کے دن تھے سردیاں اپنے جوبن پر تھیں ۔


آخر اگلے جمعے کا دن آ ہی گیا۔

آج تو امی نے مجھے چھٹی نہیں کرنے دینی تھی اس لئے سکول جانا ہی تھا۔ میں سوچنے لگا آخر کیسے باجی کے گھر جایا جائے ۔

اس وقت تو صبح آٹھ کا ٹائم ہے امام صاحب تو گیارہ ساڑھے گیارہ تک جاتے ہیں مسجد آخر تین گھنٹے میں کیسے گزاروں گا باہر ؟؟

اگر اسکول جاتا ہوں تو چھٹی ساڑھے بارہ پر ہوگی اور ٹائم ہاتھ سے نکل جائے گا۔ پھر میں نے کچھ سوچنے کے بعد ایک پلین بنایا۔ گھر سے میں نکلا اور اپنے گھر سے تھوڑی دور ایک چائے کے ہوٹل کی طرف چل دیا جہاں کبھی کبھی دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر چائے پیا کرتے تھے۔

میں وہاں ساڑھے تین گھنٹے بیٹھا رہا۔ ساڑھے تین گھنٹے میں چھ کپ چائے کے پی

کر اٹھا ۔ چائے والے کو پیسے دیے ۔۔

ٹائم دیکھا تو گیارہ پینتیس ہورہے تھے۔ میں نے سوچا اب تو امام صاحب چلے ہی گئے ہونگے ضرور میں تیز تیز قدم بڑھانے لگا اور امام صاحب کے گھر کی طرف چل دیا۔ آج پہنچا تو دروازہ بند تھا ۔


میں تھوڑا حیران ہوا آج دروازہ بند ہے۔ پھر میں نے دروازہ ہلکا سا کھٹکھٹایا۔ تھوڑی

 دیر بعد دروازہ کھلا اور باجی نے دروازہ کھولا اور مجھے دیکھ کر بولیں تمممم؟؟ کیا ہوا؟؟

میں نے کہا یاد نہیں آپکو کیا؟

باجی نے ایک نظر پیچھے دیکھا اور کہا محسن ابھی ادریس اٹھا ہوا ہے اور وہ کھیل

کود کررہا ہے۔ اسکا ڈر ھے ۔ تم ایسا کرنا کل آنا پونے ایک بجے ۔جب امام صاحب بھے چلے جائیں گہ ظہر کے لئے پھ کوئی نہیں ہوگا گھر پر۔

باجی کی بات سن کر میں نے عجیب سے موڈ کے ساتھ کہا اچھا ٹھیک ہے لیکن کل لازمی،،،،،،، پھر میں مڑا اور باجی نے دروازہ بند کرلیا۔ مجھے سخت غّصہ آنے لگا باجی پر یہ باجی بھی نہ بڑی ہی کوئی ظالم عورت ہے۔

سہی بات ہے یہ عورت کا مکر و فریب بڑا مکر ہوتا ہے۔ ساڑھے تین گھنٹے میں نے چائے کے ہوٹل پر بیٹھ کر خواری کاٹی اور جب باجی کے گھر پہنچا تو آگے سے بہانے بناتی ہے۔

میں دل ہی دل میں کہنے لگا کل تو اسکو نہیں چھوڑوں گا کل اسکو بتاؤں گا اس نے مجھے جتنا تڑپایا ہے نا پھر میں غصے میں گھر کی طرف چل دیا۔

ٹائم اس وقت بارہ کے قریب ہونے والا تھا تھوڑی دیر گھر کے باہر رک کر میں گھر میں داخل ہوگیا۔ اور بیگ پھینک کر کمرے میں بیڈ پر جاکر الٹا لیٹ گیا آور کمبل لے کر سوگیا مجھے سخت غّصہ آرہا تھا۔۔۔

میں نیند کی سخت آغوش میں تھا۔ امی مجھے اٹھارہیں تھیں کہ محسن بیٹا اٹھ جا جمعے کا ٹائم ہوگیا ہے۔ ہر جمعے کو تو سو جاتا ہے۔

میں نے کہا امی میری طبیعت ٹھیک نہیں سر میں بھی بہت درد ہے۔

امی نے میرے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر چیک کیا تو میں تھوڑا گرم ہو رہا تھا۔

امی نے کہا اچھا بیٹا چل آرام کرلے سوجا

امی کمرے سے چلیں گئیں۔

میں دوبارہ سے نیںند کی وادیوں میں کھو گیا اور اب میری آنکھ کھلی تو شام کے چھ بج رہے تھے میں اٹھا تھوڑی دیر بعد امی کمرے میں آئیں۔

امی نے کہا اٹھ گیا شہزادہ بیٹا چل ہاتھ منہ دھو لے میں نے کھچڑی بنائی وہ کھا کر پھر دوائی لے لے۔

میں اٹھ کر باتھ روم کی طرف چلنے لگا مجھے اپنے سر میں سخت شدید درد کا احساس ہوا۔ بمشکل ہی باتھ روم سے ہاتھ منہ دھو کر نکلا تو امی کھچڑی اور دوائی بیڈ پر رکھ کر جا چکیں تھیں ۔


پھر میں نے کھچڑی کھائی اور دوائی لے کر مجھ پر پھر سے نیند کا غلبہ طاری ہوگیا اور میں دوبارہ سوگیا۔ رات کو دو بجے آنکھ کھلی تو میرے دماغ میں پھر سے قاریہ باجی کا خیال آنے لگا کہ کل صبح اسکے گھر جاؤنگا پھر خیر خبر لونگا اس باجی کی میں اب میرے سر کا درد تھوڑا کم ہوگیا تھا اور بخار بھی نہیں تھا۔

باجی کے خیال نے میرے لنڈ میں آگ لگا رکھی تھی میرا لنڈ اسکول کی پینٹ جو میں نے اب تک پہن رکھی تھی اس میں کھڑا ہوگیا ۔ کیونکہ گھر آنے کے بعد میں نے اسکول کا یونیفارم تبدیل نہیں کیا تھا ۔۔

میں نے اپنے سارے کپڑے اتارے کمرے کی کنڈی لگا کر ننگا ہو کر کمبل میں لیٹ گیا اور باجی کے خیال آنے پر میں اپنے لوڑے کو سہلانے لگا۔ پھر میں سوگیا


اور صبح اٹھا تو امی دروازہ بجا رہیں تھیں محسن بیٹا اٹھ بھی جا میں نے ٹائم دیکھا تو بارہ بج رہے تھے میں کافی دیر تک سوتا رہا۔

میں نے جلدی سے الماری میں سے ٹراؤزر نکالا اور شرٹ نہیں پہنی اور کمرے کا دروازہ کھولا ۔

امی نے دروازہ کھلتے ہی مجھے کہا محسن بیٹا کچھ تو اپنی صحت کا خیال رکھا کر نہ تجھے کھانے کی فکر ہے نہ دوائی کی اور اتنی دیر تک سونا بھی اچھی بات نہیں ہوتی ۔

پھر امی نے میرا ماتھا چیک کیا اور کہا بخار تو اب اتر گیا لگتا ہے۔ سر میں درد تو نہیں ؟؟

میں نے جواب دیا نہیں امی اب میں ٹھیک ہوں۔



امی نے کہا شکر رب کا۔۔۔ چل نہا دھولے میں ناشتہ لگاتی ہوں۔


میرے ذہن میں قاریہ باجی کا خیال آیا کہ باجی نے مجھے پونے ایک پر آنے کا کہا تھا۔ میں پندرہ منٹ میں نہا دھو کر باہر نکلا اور

امی ناشتہ لگانے لگیں۔

سخت سردی کے دن تھے۔گرم پانی سے نہانے کے بعد باہر نکل کر میں نے موٹا والا ٹراؤزر پہنا پاؤں میں موزے پہنے پھر شرٹ پہنی اور اسکے اوپر سے جیکٹ پہن لی۔ لیکن انڈروئیر نہیں پہنا تھا۔

امام صاحب کی ہدایت کے باوجود میں انڈروئیر خریدنا بھول گیا تھا۔۔

اﻣﯽ ﻧﮯ ﻣﯿﺮے ﻟﺌﮯ ﻧﺎﺷﺘﮧ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﻠﺪی ﺟﻠﺪی ﻧﺎﺷﺘﮧ ﮐﯿﺎ دﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺑﺎرہ ﭼﺎﻟﯿﺴﻮﯾﮟ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﺷﺘﮧ ﮐﺮﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻼ اور قاریہ باجی ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﻃﺮف ﭼﻞ دﯾﺎ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﺷﺎﯾﺪ اﻣﺎم ﺻﺎﺣﺐ اب ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﻮﻧﮕﮯ۔ ﺑﺎﺟﯽ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ آج ﺑﮭﯽ دروازہ ﺑﻨﺪ ﺗﮭﺎ

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ ادﮬﺮ ادﮬﺮ دﯾکھ ﮐﺮ دروازہ ﺑﺠﺎﯾﺎ ۔ ﺗﻮ ﺗﮭﻮڑی دﯾﺮ ﺑﻌﺪ دروازہ ﮐﮭﻼ ﺑﺎﺟﯽ ﻧﻤﻮدار ﮨﻮﺋﯿﮟ اور ﻣﺠﮭﮯ دﯾکھ ﮐﺮ ﺗﮭﻮڑی ﺳﯽ ﺳﮩﻢ ﮔﺌﯿﮟ۔

ﭘﮭﺮ اﻧﺪر آﻧﮯ ﮐﺎ اﺷﺎرہ ﮐﯿﺎ ۔ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﺮے ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ ﭼﺎرﭘﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﮔﺪا ﺑﭽﮭﺎ رﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﺷﺎﯾﺪ ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ آج ﺗﯿﺎری ﮐﺮرﮐﮭﯽ ﮨﮯ۔

ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ اﯾﮏ ﮔﮭﮍی ﻣﯿﺮی ﻃﺮف دﯾﮑﮭﺎ اور ﮐﮩﺎ ﺗﻢ ﺑﯿﭩﮭﻮ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺋﮯ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻻﺗﯽ ﮨﻮں تمہارے لئے۔

 ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮڑﯾﮟ ﺑﺲ۔ 

ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ اﭼﮭﺎ اب ﺗﻢ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﻮ ﻣﻨﻊ ﮐﺮوﮔﮯ۔ ﭘﮭﺮ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯿں۔

 ﻣجھ ﺳﮯ ﺑﮯ ﭼﯿﻨﯽ ﮐﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎرﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﮔﮭﮍی ﭘﺮ ﭨﺎﺋﻢ دﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺑﺎرہ ﭘﭽﺎس ﮨﻮرﮨﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﻣﺠﮭﮯ اﻧﺪازہ ﺗﮭﺎ اﻣﺎم ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻢ از ﮐﻢ ﭘﻮﻧﮯ دو ﺗﮏ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﮨﻮﻧﮕﮯ ﺳﻮ ﻣﯿﺮے ﭘﺎس ﭘﻮﻧﮯ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﮐﺎ ﭨﺎﺋﻢ ﺗﮭﺎ۔ آج ﻣﯿﮟ اﭘﻨﮯ ارﻣﺎﻧﻮں ﭘﺮ ﭘﺎﻧﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮭﯿﺮﻧﮯ دﯾﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ اور ﮨﺮ ﺣﺎل ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﮐﻮ ﺑﮭﺮﭘﻮر ﻃﺮح ﺳﮯ ﻧﭽﻮڑﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔

ﻣﯿﺮے دل ﻣﯿﮟ ﺧﯿﺎل آﯾﺎ ﮐﮧ کچن ﻣﯿﮟ ﺟﺎؤں لیکن پھر رک گیا۔ 

  ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ دس ﻣﻨﭧ ﺑﻌﺪ باج ﭼﺎﺋﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ آﺋﯿﮟ اور ﺧﻮد ﺳﺎﻣﻨﮯ ﭘﮍی ﮐﺮﺳﯽ ﭘﺮ ﺑﯿٹھ ﮔﺌﯿﮟ اورﭼﺎﺋﮯ ﭘﯿﺘﮯ ﭘﯿﺘﮯ ﻣﯿﺮی ﻃﺮف دﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ ۔ ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ آج ﻧﯿﻠﮯ ﮐﻠﺮ ﮐﮯ ﺷﻠﻮار ﻗﻤﯿﺾ ﭘﮩﻦ رﮐﮭﮯ ﺗﮭﮯ اور اوﭘﺮ ﺳﮯ ﮐﺎﻟﯽ ﭼﺎدر ﻟﮯ رﮐﮭﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﻠﺪی ﺟﻠﺪی ﭼﺎﺋﮯ ﺧﺘﻢ ﮐﯽ اور ﺑﺎﺟﯽ ﮐﻮ ﺑﻮﻻ اب ﺟﻠﺪی ﮐﺮﯾﮟ

 ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﺲ ﭼﯿﺰ ﮐﮯﻟﺌﮯ ؟؟ 

ﻣﯿﮟ ﻋﺠﯿﺐ ﻏﺼﮯ واﻟﮯ ﻣﻮڈ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻻ ﺑﺎﺟﯽ ﭘﻠﯿﺰ ﻧﺎ۔ ﮐﺐ ﺳﮯ اﻧﺘﻈﺎر ﮐﺮرﮨﺎ ﮨﻮں ۔۔ 

ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ اﭼﮭﺎ ﺗﻢ اﯾﮏ ﺑﺎت ﺑﺘﺎؤ۔

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺟﯽ۔

ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺳﮯ ﮐﯿﻮں دﺑﺎﺗﮯ ﮨﻮ؟ 

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﻮﻻ ﺑﺎﺟﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺰہ آﺗﺎ ﮨﮯ آور ﻣﺠﮭﮯ اﭼﮭﯽ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ۔ 

ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻇﮩﯿﺮ ﮐﻮ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ اﻧﺪر ﮨﺎتھ ڈاﻟﻨﮯ ﻧﮩﯿﮟ دﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﺒﮭﯽ۔ ﺗﻢ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ آﮔﮯ ﺑﮍھ ﭼﮑﮯ ﮨﻮ 

ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ اﻣﺎم ﺻﺎﺣﺐ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﭽﮧ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ اﻧﮑﻮ ﮐﯿﺎ ﭘﺘﮧ ﯾﮧ ﺑﭽﮧ اﺗﻨﺎ ﺑﮍا ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺑﺎﺟﯽ ﺗﮭﻮڑا ﺳﺎ ﻣﺴﮑﺮا دﯾﮟ

 ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ اﭼﮭﺎ ﻧﮧ ﺑﺲ زﯾﺎدہ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﻧﮧ ﮐﺮﯾﮟ ۔ ﻣﯿﮟ اﭨﮭﺎ اور ﺑﺎﺟﯽ ﮐﯽ ﮐﺮﺳﯽ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ آﯾﺎ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ دوﻧﻮں ﮨﺎتھ پکڑے اور ﺑﺎﺟﯽ ﮐﻮ ﮐﺮﺳﯽ ﺳﮯ اﭨﮭﺎﯾﺎ۔۔۔ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ۔ ﻣﯿﺮی آﻧﮑﮭﻮں ﻣﯿﮟ دﯾﮑﮭﺎ اور ﭘﮭﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﮔﻠﮯ ﻟﮕﺎ ﻟﯿﺎ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﯽ ﮐﻤﺮ ﮐﮯ ﮔﺮد ﮨﺎتھ ﮐﺲ ﮐﺮ ﺑﺎﻧﺪھ دﯾﮯ ۔۔۔ ﺑﺎﺟﯽ ﻣﯿﺮے ﮔﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﺎتھ ڈال ﮐﺮ ﭼﭙﮑﯽ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ اور ﻣﯿﮟ ﻧﯿﭽﮯ ﮨﺎتھ ﻟﮯ ﺟﺎ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﯽ ﻗﻤﯿﺾ ﮐﻮ ﺳﺎﺋﮉ ﺳﮯ ﭘﮑﮍا اور اﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺷﻠﻮار ﮐﮯ اﻧﺪر ﮨﺎتھ داﺧﻞ ﮐﺮدﯾﮯ اﻓﻔﻔﻒ۔ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﻧﺮم ﭼﻮﺗﮍ ﻣﯿﺮے ﮨﺎﺗﮭﻮں ﻣﯿﮟ ﺗﮭﮯ ۔ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﮐﻮﻟﮩﻮں ﮐﻮ اﺳﯽ دن ﮐﯽ ﻃﺮح دﺑﺎ رﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺴﻄﺮح ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎر دﺑﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔۔ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﮐﻮﻟﮩﻮں ﮐﻮ اﭼﮭﯽ ﻃﺮح دﺑﺎﺗﮯ دﺑﺎﺗﮯ ﺑﯿﭻ ﻣﯿﮟ اﻧﮕﻠﯽ ﭘﮭﯿﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ اور ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﭼﻮﺗﮍوں ﮐﺎ ﺳﻮراخ ﺗﻼش ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﮐﺎ ﺳﻮراخ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ اور ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﮭﭧ ﺳﮯ ﺑﯿﭻ واﻟﯽ اﻧﮕﻠﯽ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﮐﮯ ﺳﻮراخ ﻣﯿﮟ داﺧﻞ ﮐﺮدی۔

 ﺑﺎﺟﯽ اﯾﮏ دم ﺳﮯ ﮨﻠﯿﮟ اور ﻣﯿﺮے ﮔﻠﮯ ﺳﮯ اﻟﮓ ﮨﻮﺋﯽ اور ﻣﯿﺮی آﻧﮑﮭﻮں ﻣﯿﮟ دﯾکھ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮨﻼﻧﮯ ﻟﮕﯿﮟ۔

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﭩﻮں ﭘﺮ ﮨﻮﻧﭧ رﮐﮭﮯ۔ ﻧﯿﭽﮯ ﺳﮯ ﻣﯿﺮا ﻟﻨﮉ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﯽ ﭼﻮت ﮐﮯ اوﭘﺮی ﺣﺼﮯ ﭘﺮ ﻟﮕﻨﮯ ﻟﮕﺎ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ اب ﺑﺎﺟﯽ ﮐﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﻣﯿﮟ اﻧﮕﻠﯽ اﻧﺪر ﺑﺎﮨﺮ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﺮوع ﮐﯽ ﺟﺲ ﮐﯽ وﺟﮧ ﺳﮯ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﻮ درد ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﺎ اور وہ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﯿﺮے ﮨﻮﻧﭩﻮں ﭘﺮ ﮐﺎٹ ﻟﯿﺘﯿں۔ اﭼﺎﻧﮏ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﺎ اﯾﮏ ﮨﺎتھ ﭘﮑﮍا اور اﭘﻨﮯ ﻟﻨﮉ ﭘﺮ رکھ ﮐﺮ دﺑﺎ دﯾﺎ۔ 

ﭘﮭﺮ ﺑﺎﺟﯽ ﭨﺮاؤزر ﮐﮯ اوﭘﺮ ﺳﮯ ﻣﯿﺮے ﻟﻨﮉ ﮐﻮ ﺳﮩﻼﻧﮯ ﻟﮕﯿﮟ ۔۔ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﭧ ﭼﻮس رﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﺒﮭﯽ زﺑﺎن ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ داﺧﻞ ﮐﺮرﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﺎ اوﭘﺮ واﻻ ﮨﻮﻧﭧ ﭼﻮﺳﺘﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﯿﭽﮯ واﻻ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ زﺑﺎن ﭼﻮﺳﺘﺎ۔ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺳﮯ اﯾﮏ ﮨﺎتھ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﻣﯿﮟ اﻧﮕﻠﯽ ﮐﺮرﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ دوﺳﺮے ﮨﺎتھ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ اﯾﮏ ﭼﻮﺗﮍ ﮐﻮ دﺑﺎ رﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ اب ﻣﯿﮟ ﻧﮯ دوﺳﺮا ﮨﺎتھ دﺑﺎ ﮐﺮ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ دوﭘﭩﮯ ﻣﯿﮟ ﻟﭙﭩﯽ ﭼﮭﺎﺗﯽ ﭘﺮ رﮐﮭ ﺪﯾﺎ اور اﺳﮑﻮ دﺑﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ آج ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﮐﮯ اﯾﮏ اﯾﮏ ﺣﺼﮯ ﮐﺎ ﻣﺰہ ﻟﯿﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻣﺰہ ﻣﯿﺮی رﮔﻮں ﻣﯿﮟ دوڑ رﮨﺎ ﺗﮭﺎ 

ﻣﯿﮟ اب ﻓﻞ ﻣﺰے ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ ۔ ﻣﯿﺮا اﮔﻼ ﻗﺪم ﺑﮍﮬﺎﻧﮯ ﮐﺎ ارادہ ﺗﮭﺎ۔ ﺑﺎﺟﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﺪﮨﻮش ﮨﻮرﮨﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ اور ﻣﯿﺮی اﻧﮕﻠﯽ اب ﺑﺎﺟﯽ ﮐﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﻣﯿﮟ آﺳﺎﻧﯽ ﺳﮯ اﻧﺪر ﺑﺎﮨﺮ ﮨﻮرﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﻣﻤﮯ ﭘﺮ ﺳﮯ ﮨﺎتھ ﮨﭩﺎﯾﺎ اورﻗﻤﯿﺾ ﮐﺎ ﭘﻠﻮ ﻧﯿﭽﮯ ﺳﮯ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﺑﺎﯾﺎں ﮨﺎتھ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﭘﯿﭧ ﭘﺮ رﮐﮭﺎ ﺗﻮ ﺑﺎﺟﯽ ﺗﮭﻮڑی ﺳﯽ ﮨﻠﯿﮟ ۔ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﻐﯿﺮ رﮐﮯ ﭘﯿﭧ ﺳﮯ ﻟﮯ ﺟﺎﮐﺮ ﮨﺎتھ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﻣﻤﮯ ﭘﺮ رﮐﮭﺪﯾﺎ

ﻣﯿﺮا ﮨﺎتھ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﺑﺮﯾﺰر ﭘﺮ ﭘﮍا۔ ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ ﮐچھ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ ۔ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﭧ ﭼﻮﺳﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮوف ﺗﮭﺎ ﮐﮧ اﯾﮏ دم ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮨﻮﻧﭧ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﭧ ﺳﮯ ﮨﭩﺎﺋﮯ اور ﺷﻠﻮار ﺳﮯ ﮨﺎتھ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﺎل ﻟﯿﺎ۔

ﺑﺎﺟﯽ اور ﻣﯿﮟ اﯾﮏ دوﺳﺮے ﮐﯽ ﻃﺮف دﯾﮑﮭﮯ ﻟﻤﺒﮯ ﻟﻤﺒﮯ ﺳﺎﻧﺲ ﻟﮯ رﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﮨﻤﺎری ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﭘﮭﻮﻟﯿﮟ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ۔ اب ﻣﯿﮟ ﻧﮯ اﭘﻨﯽ ﺟﯿﮑﭧ اﺗﺎری ۔ اس ﺳﺮدی ﻣﯿﮟ اب ﻣﺠﮭﮯ ﮔﺮﻣﯽ ﺳﯽ ﻟﮓ رﮨﯽ ﺗﮭﯽ اور ﯾﮧ ﺳﺐ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﯽ ﺗﯿﺰ ﺳﺎﻧﺴﻮں اور ﺟﺴﻢ ﮐﺎ ﮐﻤﺎل ﺗﮭﺎ ۔۔ ﺟﯿﮑﭧ اﺗﺎری اور اب ﻣﯿﮟ اﭘﻨﯽ ﺷﺮٹ اﺗﺎرﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﭘﻮری ﺷﺮٹ اﺗﺎر ﮐﺮ اب ﻣﯿﮟ اﭘﻨﺎ ﭨﺮاؤزر اﺗﺎرﻧﮯ ﻟﮕﺎ 


باجی ﻣﺠﮭﮯ ﺣﺴﺮت ﺑﮭﺮی ﻧﮕﺎﮨﻮں ﺳﮯ دﯾکھ رﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮭﮍی ﮐﮭﮍی۔ 

اب ﻣﯿﮟ مکمل طورپر ننگا ﮨﻮﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ۔۔۔ ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ اﭘﻨﯽ آﻧﮑﮭﻮں ﭘﺮ ﮨﺎتھ رکھ ﻟﯿﮯ اور دوﺳﺮی ﻃﺮف ﻣﮍ ﮔﺌﯿﮟ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ آﮔﮯ ﺑﮍھ ﮐﺮ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﻧﺮم ﭼﻮﺗﮍوں ﭘﺮ اﭘﻨﺎ ﻟﻨﮉ دﺑﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ ﮨﺎتھ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﯿﺮا ﻟﻨﮉ اﭘﻨﮯ ﮨﺎتھ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﻟﯿﺎ اور اﭘﻨﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﮐﯽ دڑاڑ ﭘﺮ ﻓﭧ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﯿﮟ ۔ ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ اب ﺗﻠﮏ ﭘﻮرے ﮐﭙﮍے ﭘﮩﻨﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ اب ﻣﯿﺮا ارادہ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﯽ ﺷﻠﻮار اﺗﺎرﻧﮯ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ۔

جاری ہے

*

Post a Comment (0)