کال گرل
رائٹر سید مصطفی احمد
قسط نمبر 10
میں ڈاکٹر سے مل کے واپس نیورولوجیکل وارڈ آیا تو ماموں میرا ہی ویٹ کر رہے تھے۔۔۔
مصطفی میں چلتا ہوں شام کو آٶں گا فلحال بنک جانا ہے
ٹھیک ہے ماموں آپ جاٸیں لیکن ساتھ بھابھی کو بھی لیتے جاٸیں ان کو گھر ڈروپ کر دیجیٸے گا۔۔۔
میں نے خادم حسین کی بیوی کی طرف اشارہ کرتے ہوٸے کہا۔۔۔
ٹھیک ہے اتار دوں گا اور تم پریشان مت ہونا ناشتہ کرو جا کے۔۔
جی ماموں نہیں ہوتا پریشان
بھابھی آپ چلی جاٸیں ماموں کے ساتھ گھر اتار دیں گے آپ کو...
بچوں نے بھی سکول جانا ہو ہے خادم بھی ڈیوٹی پہ چلا گیا ہو گیا۔۔۔۔
لیکن بھاٸی سدرہ کے ساتھ کسی عورت کا ہونا بھی ضروری ہے بھابھی نے فکر سے کہا وہ بھی سدرہ کے لٸے بہت اپ سیٹ تھیں۔۔۔
بھابھی ابھی وہ ہوش میں نہیں ہیں اور پھر نرسیں ہیں نا باقی شام کو مامو لے آٸیں گے کسی کو آپ کا گھر جانا ضروری ہے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔۔۔
میں نے بھابھی کو سمجھا بجھا کے ماموں کے ساتھ واپس بھیج دیا۔۔۔۔
شام کو سدرہ کی ایم آر آٸی کی گٸی میں وقفے وقفے سے آٸی سی یو میں جا کے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔
آٹھ بجے ماموں ممانی اور میری کزن مہرین کھانا لے کے آ گٸے
ماموں اِس کی کیا ضرورت تھی میں اکیلا ہوں کون سا زیادہ بندے تھے کہ کھانا گھر سے لاتے۔۔۔۔
میں کیفے ٹیریا سے کھا لیتا کچھ۔۔۔
ضرورت تھی شاہ صاحب میں تہاڈا ماما آں مینوں پتہ تسی ہالے تک کجھ نہیں کھادا ہونا۔۔۔
ماموں نے محبت بھرے اندز میں کہا
بھاٸی پہلے کپڑے چینج کر لیں پھر کھانا کھانا میری کزن مہرین نے لانڈری شدہ ایک سوٹ میری طرف بڑھایا جو شاید فیضان کا تھا۔۔۔۔
دل تو نہیں چاہ تھا لیکن ماموں کے اسرار پہ چینج کرنا پڑا۔۔
رات کو دس بجے ماموں لوگ چلے گٸے بڑی مشکل سے ممانی کو بھیجا وہ رکنا چاہ رہیں تھی لیکن میں نے کہا کہ ابھی اس کی ضرورت نہیں۔۔۔
رات پوری میں نے آٸی سی یو کے اندر باہر آتے جاتے گزار دی۔۔۔
صبح فجر کی آزان سے ایک گھنٹا پہلے میں ہاسپٹل میں بنی مسجد میں آ گیا وضو کیا اور تہجد ادا کی۔۔۔
آج بہت مدت کے بعد میں تہجد پڑھ رہا تھا مجھے اچھے سے یاد ہے جب میری امی بیمار ہوٸی تھیں تو اس وقت میں تہجد پڑھتا تھا۔۔۔
میں نے چھے نوافل پڑھے اور رب کے حضور سجدہ میں سر رکھ کے دعا مانگی۔۔
مالک آپ تو دل کا حال جانتے ہو
اُس سے میرا کوٸی رشتہ نہیں وہ نا محرم ہے
اس کے باوجود میں آج تیری بارگاہ میں اُس کی صحت یابی کے لٸے دعا مانگ رہا ہوں
مالک آپ تو نیت کا حال جانتے ہو آپ کو تو اچھے سے علم ہو گا کہ میں نے کبھی بھی آپ کی اس بندی سے بدلے کی توقع نہیں رکھی۔
میرا ارادہ صرف اُسے اچھاٸی کی طرف لانا تھا
مالک یا ربِ کریم اپنی اُس بندی کو صحت عطا فرما۔۔۔۔ آمین،۔
دعا کے بعد فجر کی نماز ادا کی اور آٸی سی یو میں آ سدرہ کو دم کیا۔۔۔۔
پورا دن یو ہی گزر گیا
دن کو خادم حسین اور اُس کی بیوی کے ساتھ محلے کی چار پانچ عورتیں بھی آٸی سدرہ کی تیمار داری کے لٸے
سب بہت دعاٸیں دے کے رخصت ہوٸے کہ اتنی نیک اور باپردہ بچی کو کس کی نظر لگ گٸی۔۔۔
شام کو ماموں کی پوری فیملی آٸی سدرہ کو پوچھنے اور ایک گھنٹہ رک گے سب چلے گٸے۔۔۔
تین چار دن کی تھکاوٹ بھاگ دوڑ اور سہی نہ سونے کی وجہ سے پورا جسم شل ہو گیا تھا
اس لٸے میں آٸی سی یو کے باہر رکھی چیٸرز پہ ہی بیٹھے بیٹھے سو گیا۔۔۔
بارہ بجے سویا تو صبح فون کی بیل سے آنکھ کھلی
دیکھا تو سکرین پہ مونیبہ کا نمبر شو ہو رہا تھا۔۔
دل میں کسی انجانے خوف نے سر اٹھایا کہ اس وقت بیگم کی کال۔۔۔
کچھ سوچ کے کال رسیو کر لی
اسلام علیکم مصطفی کیسے ہیں آپ
وعلیکم سلام کیسی ہو تم
میں ٹھیک ہوں کدھر ہیں آپ
میں ہاسپٹل ہوں ایک عزیز کی طبیعت خراب ہے
پتہ چلا آپ کے عزیز کا رات کو کامران بھاٸی کی بیوی کی کال آٸی تھی بتا رہی تھیں
کہ اس طرح کی کوٸی لڑکی ہے
منیبہ کا لہجہ کافی کڑوا تھا لیکن میں نے اگنور کر دیا۔
اور کیا کیا بتا رہی تھی کامران کی بیوی میں نے طنز سے پوچھا۔۔
کچھ نہیں کہ رہی تھی کہ جتنا مصطفی اس لڑکی کے لٸے پریشان ہے مجھے تو لگتا ہے اُس سے نکاح کیا ہوا ہے مونیبہ نے بھراٸی ہوٸی آواز میں کہا۔۔
واہ گریٹ ۔۔۔۔مونیبہ بیگم کسی کو کیا لگتا ہے مجھے اس سے کوٸی فرق نہیں پڑتا تمہیں کیا لگتا ہے وہ بتاٶ۔۔۔
اور اگر تمہیں یاد ہو تو کچھ ماہ پہلے میں نے تمہیں ایک بات کہی تھی۔۔۔۔
کہ لاٸف میں ایک بار تم نے بہت بڑی غلطی کی تھی جس کو میں نے معاف کر تھا۔۔۔۔
اِس لٸے آنے والے وقت میں اگر مجھ سے کوٸی غلطی ہوٸی تو تمہیں بھی معاف کرنا ہو گا۔۔۔۔
یہی وہ بات تھی جو اُس دن بتانا چاہتا تھا
لیکن نہیں بتا سکا اب تم اِسے میری غلطی سمجھوں یا نیکی معاف تو کرنی پڑے گی کیونکہ میں نے بھی معاف کیا تھا۔۔۔
اس لٸے اب بتاٶ کہ تم کیا سوچتی ہو باقی کو چھوڑو
چندے لمحے دوسری طرف سے رونے کی آواز آتی رہی
میں نے کچھ پوچھا ہے تم سے تمہیں کیا لگتاوہ بتاٶ۔۔۔
اور اگر تمہیں یاد ہو تو کچھ ماہ پہلے میں نے تمہیں ایک بات کہی تھی۔۔۔۔
کہ لاٸف میں ایک بار تم نے بہت بڑی غلطی کی تھی جس کو میں نے معاف کر تھا۔۔۔۔
اِس لٸے آنے والے وقت میں اگر مجھ سے کوٸی غلطی ہوٸی تو تمہیں بھی معاف کرنا ہو گا۔۔۔۔
یہی وہ بات تھی جو اُس دن بتانا چاہتا تھا
لیکن نہیں بتا سکا اب تم اِسے میری غلطی سمجھوں یا نیکی معاف تو کرنی پڑے گی کیونکہ میں نے بھی معاف کیا تھا۔۔۔
اس لٸے اب بتاٶ کہ تم کیا سوچتی ہو باقی کو چھوڑو
چندے لمحے دوسری طرف سے رونے کی آواز آتی رہی
میں نے کچھ پوچھا ہے تم سے تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں نے نکاح کیا ہوا ہے میرا لہجہ بہت سخت ہو گیا۔۔
نہیں احمد مجھے آپ پہ بھروسہ ہے آپ ایسا نہیں کر سکتے کسی صورت بھی نہیں۔۔
بس کسی اور سے یہ سب سن کے تھوڑی اپ سیٹ ہو گٸی تھی آپ کو مجھ پہ بھروسہ کرنا چاہیٸے تھا مونیبہ نے گلہ کیا۔۔۔
میں نے ساری بات مونیبہ کو جیسی تھی ویسی ہی بتا دی
سدرہ مجھے ملی کیسے وحید اور اس کی بیوی نے اس کے ساتھ ظلم کیا اور کیسے میں نے اس کی ہیلپ کی۔۔
میری ساری بات سننے کہ بعد مونیبہ نے اعتراف کیا کہ وہ ایک بیوی ہونے کے ناطے مجھے کبھی بھی ایسا نہ کرنے دیتی۔۔۔
یا کم از کم اس حد تک نہ کرنے دیتی۔۔۔
کبھی برداشت نہ کرتی بس کہتی کچھ پیسے دے دو۔۔
لیکن اب بات مونیبہ کی سمجھ میں آ گٸی تھی
اس لٸے مونیبہ نے نا صرف مجھے اس بات کا یقین دلایا کہ وہ ہر بات میں میرے ساتھ ہے۔۔۔
بلکہ مونیبہ نے سدرہ کی طبیعت کا بھی پوچھا اور مجھے حوصلہ بھی دیا کہ آپ پریشان نہ ہو اور مجھے آپ پہ پورا بھروسہ ہے۔۔۔
مونیبہ سے بات کر کے میں پوری طرح رلیکس ہو گیا
کیونکہ سدرہ مجھے بھلے جتنی بھی عزیز ہو گٸی تھی
لیکن مونیبہ سے زیادہ عزیز نہیں تھی اور میں کسی صورت بھی مونیبہ کو کسی دوسرے کی وجہ سے تکلیف نہیں دے سکتا تھا۔۔۔
اس لٸے اب مونیبہ کا دل صاف تھا یہ میری بہت بڑی جیت تھی۔۔۔
دن بارہ بجے مجھے ڈاکٹر نے آٸی سی یو میں بلایا اور خوشخبری دی کہ آپ کے مریض کو ہوش آ گیا ہے۔۔۔
آپ ان سے مل سکتے ہیں لیکن کوٸی بھی ایسی بات ان کو یاد نہ کرواٸی جاٸےجس سے ان کو ٹینشن بنے۔۔۔۔
میں جب سدرہ کے بیڈ کے پاس گیا اس کے چہرے پہ زندگی نظر آ رہی تھی۔
لیکن آنکھوں سے ایسا لگ رہا جیسے صدیوں کی بیمار ہو۔۔
سدرہ کو دیکھ کے دل چاہ رہا تھا کہ زور زور سے روٶں لیکن ایسا کرنے سے سدرہ پریشان ہو جاتی۔۔۔۔۔
اِسی بات سے ڈاکٹر نے منع کیا تھا۔۔۔
میں نے مسکراتے ہوٸے پوچھا
کیسی ہو اب سِڈ کا۔۔۔
سدرہ نے پلکوں کے اشارے سے بتایا کہ ٹھیک ہوں
کچھ نہیں ہو گا تمہیں اور ہاں مونیبہ کی کال آٸی تھی
وہ ڈانٹ رہی تھی تمہیں اور کہ رہی تھی کہ اسے کہیں کہ
جلدی ٹھیک ہو جاٸے ورنہ ہمارے بچے کون کھیلاٸے گا
ایسا کہتے ہوٸے میں نے بہت مشکل سے آنسو روکے
مجھے ڈاکٹر کی بات یاد آگٸ ایک سے تین مہینے ہیں
اِن کے پاس۔۔۔
مونیبہ کا نام سن کے سدرہ کے چہرے پہ چمک آ گٸی اور مجھے لگا کہ وہ مسکرا رہی ہے۔۔
کچھ دیر بعد ہی گارڈ نے آ کے کہا کہ سر اتنی دیر رکنے کی اجازت نہیں آپ اگین آ جانا میں سدرہ سے اجازت لے کے باہر گیا۔۔۔۔۔
سہ پہر تین بجے سدرہ کو وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا اور ڈاکٹر نے اتنی جلدی ریکور کرنے پہ اسے اچھا ساٸن قرار دیا اور سدرہ کی سرجری پلان کرنے لگے۔۔۔۔
سدرہ کو وارڈ میں شفٹ کرنے کی خبر سب کو مل گٸی اور اگلے دن وزٹنگ آور میں سدرہ کی کافی سٹوڈنٹ اور خادم کی فیملی اُسے پوچھنے آٸی۔۔۔۔۔
جیسے جیسے سدرہ ٹھیک ہو رہی تھی ویسے ویسے کچھ پریشان نظر آ رہی تھی جیسے مجھے کچھ کہنا چاہتی ہو۔۔۔
سدرہ کو وارڈ میں شفٹ ہوٸے آج تیسرا دن تھا اب وہ تکیے سے ٹیک لگا بیٹھ سکتی تھی
اور آکسیجن ماسک بھی ہٹا دیا گیا تھا اب وہ کچھ ہلکا پھلکا کھانا بھی کھانے لگی تھی
صبح آٹھ بجے میں سدرہ کے پاس بیٹھا تھا تو مامو کے آنے کی اطلاح گارڈ نے دی۔۔۔
میں باہر گیا تو مامو کو سدرہ سے ملوانے کے لٸے اندر لایا جب سے سدرہ کو ہوش آیا تھا مامو آج آٸے تھے۔۔۔
ماموں نے سدرہ کے سر پہ ہاتھ پھیرا اور پھول دیتے ہوٸے کہا کہ آپ میری بیٹی ہو آج سے آپ مجھے بابا کہوں گی
اور اب میں کوٸی دکھ اپنی بیٹی کے پاس نہیں آنے دوں گا😥😥😥
مامو کی اس بات پہ سدرہ میں اور ماموں تینوں ہی ایک پل کو رو پڑے لیکن مجھے یاد تھا کہ یہ سدرہ کے لٸے اچھا نہیں۔۔۔
اس لٸے فورًا کہا بابا اور بیٹی کو یاد رکھنا چاہیٸے کے میلے میں بچھڑے اس باپ بیٹی کو ملوانے کا سارا کریڈٹ مجھ نا چیز کو جاتا ہے میں نے شرٹ کے کالر زرہ اوپر جھاڑے😀
اور میرے ایسا کرنا پہ مامو اور سدرہ دونوں ہنس پڑے
ماموں سدرہ کو بہت ساری دعاٸیں دے کہ رخصت ہو گٸے۔۔
سدرہ اب بہت خوش تھی میں اس کے بلکل پاس جا کے بیڈ پہ ہی بیٹھ گیا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کہا کہ پریشان نہ ہونا اور کبھی خود کو اکیلا مت سمجھنا۔۔۔۔شاہ مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔۔
سدرہ کی آواز میں بے چینی تھی۔۔
جی جی میرا بچہ بولو کیا بات کرنی ہے میں نے پیار سے جواب دیا۔۔۔
شاہ سر آپ کے ساتھ گزرے ان آٹھ مہینوں میں
میں نے اپنی زندگی جی لی آپ کا ظرف ہے کہ آپ نے کبھی مجھ سے میرا ماضی جاننے کی کوشش نہیں کی۔۔
لیکن میں نے بارہا دیکھا کہ آپ کے چہرے پہ کٸیں بار یہ سوال نظر آٸے لیکن آپ نے اگنور کر دیٸے سدرہ نے میرے ہاتھوں کو مضبوطی سے دباتے ہوٸے اپنی بات جاری رکھی۔۔
شاہ سر میں جسم فروشی جیسے دھندے میں کیسے آٸی یہ جاننا آپ کے لٸے بہت ضروری ہے وقت بہت کم ہے اور باتیں بہت زیادہ ہیں سدرہ کی آنکھوں کی روشنی اب مدھم ہو رہی تھی۔۔۔
سدرہ ہم یہ بات کبھی پھر ڈسکس کریں گے جب تم ٹھیک ہو جاٶ گی بلکل اور ویسے بھی میرے دل میں جو تمہاری عزت ہے اس میں فرق نہیں آٸے گا بھلے تم جیسے بھی آٸی اِس دھندے میں۔۔
کیونکہ اِس دھندے کو چھوڑنے کے بعد تم نے ثابت کیا کہ تمہاری مرضی نہیں تھی۔۔۔
میں نے پیار سے سدرہ کو سمجھانے کی کوشش کی۔۔
مجھے پتہ ہے شاہ سر میری عزت میں آپ کی نظر میں کمی نہیں آٸے گی لیکن میں بتانا چاہتی ہوں۔۔۔
کہا نا وقت بہت کم ہے خواہشیں بہت زیادہ ہیں اور سر آپ نے میری چار خواہشیں پوری کرنی ہیں۔۔۔۔
لیکن وعدہ کریں کہ آپ دوسری خواہش تب پوچھیں گے جب پہلی پوری ہو جاٸے گی۔
اچھا وعدہ ہے پوری کروں گا
نہیں شاہ سر ایسے نہیں
اچھا تو پھر کیسے میں نے انجان بننے کی کوشش کی۔۔۔
سدرہ نے اپنے ہاتھ میرے ہاتھوں سے چھڑا کے اپنا سیدھا ہاتھ میری طرف بڑھا دیا۔۔۔
ایسے سر مجھ سے ہاتھ ملا کے میری طرف دیکھ کے کہیں کہ وعدہ ہے کہ آپ میری چار خواہشیں پوری کریں گے۔۔۔
میں نے سدرہ کا ہاتھ تھام لیا میں وعدہ کرتا ہوں کے تمہاری سب خواہشیں پوری کروں گا
میرے یہ الفاظ کہتے ہی سدرہ کی آنکھوں میں دوبارہ زندگی کی چمک ابھر آٸی۔۔۔۔
سر سب سے پہلی خواہش یہ ہے کہ آج آپ کو یہ جاننا ہو گا کہ میرے گھر والے امی ابو کدھر ہیں میں نے گھر کیوں چھوڑا اور جسم فروشی جیسے دھندے میں کیسے آٸی۔۔۔
سدرہ یہ کہ کر چپ ہو گٸی۔
اف خدایا یہ کس امتحان میں ڈال دیا ہے میں نے بات ٹالنے کے لٸے کہا اور دوسری خواہش کیا ہے۔۔۔
سوری سر آپ وعدہ کر چکے ہیں کہ آپ پہلی خواہش پوری کر کے دوسری کا پوچھیں گے۔۔۔۔
سدرہ نے مضبوط آواز میں مجھے یاد دلایا۔۔۔
اور میں نے یہ سوچ کہ ہاں کر دی کہ اس کے پاس وقت کم ہے اس کی باقی خواہشوں کا پتہ چلے کہ کیا ہیں تانکہ اُس کو خوشی دی جا سکے۔۔۔۔۔
کچھ دیر خاموشی رہی پھر میں نے ایک لمبی سانس لی
اور سدرہ کو کہا گو کہ یہ وقت نامناسب ہے ان باتوں کے
لٸے لیکن میں وعدہ کر چکا ہوں
اس لٸے میں اب ریڈی ہوں یہ جاننےکے لٸےکہ تمہارے امی ابو فیملی کدھر ہے۔۔۔
اور تم سٹڈی چھوڑ کے گھر چھوڑ کے جسم فروشی کی طرف کیوں آٸی یہ کہ کر میں نے نگاہ سدرہ کے چہرے پہ گاڑ دی۔۔
لیکن سدرہ کے چہرے پہ مکمل
سکوت تھا پرسکون اور گہرہ سکوت جیسے طوفان آنے پہلے سناٹا چھا جاتا ہے بلکل ویسا۔
جاری ہے