Randi - Episode 11

کال گرل

رائٹر سید مصطفی احمد  

قسط نمبر 11



جب سدرہ بولی تو اُس کی آواز بہت بھاری اور آہستہ تھی ایسا لگ رہا تھا کہ منوں مٹی کے بوجھ تلے دبی ہوٸی بول رہی ہے۔۔۔

مصطفی شاہ میرا تعلق لیاقت پور کے ایک اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانے سے ہے۔۔۔

میرے والد اپنے گاٶں کے نامی گرامی زمہ دار ہیں اِس لٸے پیسے وغیرہ کا کبھی کوٸی مسلہ نہیں رہا تھا۔۔۔۔

مجھ سے بڑے دو بھاٸی ہیں جہنوں نے آٹھ آٹھ کلاسیں پڑھ کے سکول کو خیرآباد کہ دیا۔۔۔

کہ ہم نے کون سا نوکری کرنی ہے اور والد صاحب نے بھی اُن کی اِس بات پہ زیاہ اعتراض نا کیا کے بات تو اُن کی ٹھیک ہے اپنی زمین کافی ہے کون سی نوکری کرنی ہے۔۔۔۔

میں اپنے چھوٹے بھاٸی سے آٹھ سال چھوٹی تھی۔۔

اس لٸے سبھی میرے لاڈ اٹھاتے اور ہر بات مان لیتے خاص طور بابا مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔۔

دماغی طور پہ میں بہت زہین تھی اور پڑھنے کا شوق بھی بہت زیادہ تھا میٹرک میں میرے بہت اچھے نمبر آٸے تو میں نے بابا سے آگے پڑھنے کی ضد کی۔۔۔

بابا نے میرے تایا اور چاچو کی مخالفت کے باوجود مجھے ایف ایس سی میں ایڈمیشن دلوا دیا۔۔۔

کالج گاٶں سے دور ہونے کی وجہ سے بابا نے بھاٸی کے زمہ لگایا کہ تم سدرہ کو کالج چھوڑ کے بھی آٶ گے اور لے کے بھی آٶ گے۔۔۔

وقت گزرتا رہا اور میں نے ایف ایس سی مکمل کر لیا۔۔

میرے ایف ایس سی میں بھی بہت اچھے نمبر آٸے اِس لٸے بابا بہت خوش ہوٸے اور ایک بار پھر سب کی مخالفت کے باوجود میرے شوق کو دیکھتے مجھے سٹڈی جاری رکھنے دی گٸی۔۔۔

سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا میں بنا لڑکھڑاٸے کامیابی کی طرف بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔

میرے بابا کے مجھے پڑھانے کے فیصلے پہ پہلے تو باقی عزیز و اقارب نے بہت تنقید کی۔۔۔۔

لیکن جیسے جیسے میں ثابت قدمی سے آگے بڑھتی جا رہی تھی ویسے ویسے باقی لوگوں میں بھی حوصلہ پیدا ہوتا جا رہا تھا۔۔۔

اور میری فیملی کی کافی لڑکیوں نے شہر کے کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔۔

 ہماری برادری میں لڑکیوں کو پڑھانے کا رواج نہیں تھا

میرے بابا بہت خوش تھے کہ میری بیٹی سب کے لٸے مشعلِ راہ بنتی جا رہی ہے۔۔۔۔

وقت پر لگا کے اڑ رہا تھا اور پتہ ہی نہ چلا کہ میں کب بی ایس آٸی میں آ گٸی۔۔۔

اب سٹڈی کے لٸے لیپ ٹاپ بہت ضروری تھا لیکن بابا لیپ ٹاپ لے کے دینے کے حق میں نہیں تھے اور انٹرنیٹ کے ساتھ تو بلکل بھی نہیں۔۔۔۔۔

اس لٸے تہہ یہ پاپا کہ میرے تایا ابو جن کی فیملی بہاولپور سٹی میں رہاٸش پزیر تھی۔۔۔

جن کا بڑا بیٹا ایم فل کر رہا تھا مجھے تایا کے گھر رہنا ہو گا اور اپنے کزن کے لیپ ٹاپ پہ اپنا ورک کرنا ہو گا شام دو سے تین گھنٹے۔۔۔۔۔

میں خوش تھی کہ چلو کسی بھی طرح سہی پڑھنے کی اجازت تو ملی۔۔

ایڈمشن کے بعد بی ایس آٸی ٹی کی کلاسز شروع ہوتے ہی مجھے بہاول پور بھیج دیا گیا۔۔۔۔

ویمن یونیورسٹی ہونے کی وجہ سے صرف گرلز ہی طالبات تھیں اس لٸے بابا بھی قدرے مطمن تھے۔۔۔۔

مجھے وین لگوا کے دے دی گٸی یونیورسٹی آنے جانے کے لٸے۔۔۔

یونیورسٹی کے ماحول کا بھی ایک الگ ہی مزہ ہے نا روک نہ ٹوک فل ہنسی مزاق دل کرے تو کلاس لےلو دل کرے تو نا لو۔۔۔

شروع کے دن میں بہت سہمی سہمی رہی لیکن جلد ہی میں اپنی کلاس میں ایک زہین طالبہ کے طور پہ پہچانی جانے لگی۔۔۔

میں نے بی ایس آٸی کے فاٸنل پیپر دیٸے اور گھر آ گٸی۔۔۔

گھر آتے ہی گھر والوں نے میرے لٸے رشتہ دیکھنا شروع کر دیا اور سب سے پہلی نظر میرے تایا کہ بیٹے پہ گٸی جو اب پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔۔۔۔

تایا کو بھی کوٸی اعتراض نہیں تھا کیونکہ کہ اپنی فیملی میں واحد لڑکی میں ہی تھی 

جو اتنی پڑھی لکھی تھی اور اپنے ساتھ جہیز میں زمین بھی اچھی خاصی لاتی تایا نے خوشی خوشی میرا رشتہ قبول کیا۔۔۔۔۔

کچھ دن کی فارمیلٹی کے بعد ہماری منگنی کر دی گٸی اور طے یہ پایا کے دو سال بعد لڑکے کی پی ایچ ڈی مکمل ہوتے ہی شادی کر دیں گے۔۔

میرا رزلٹ آیا تو میرے بی ایس آٸی میں بہت شاندار نمبر آٸے اور بہت ساری یونیورسٹی کی طرف مجھے فری ایڈمشن کی آفر ہوٸی۔۔

لیکن بابا اب اور پڑھانے کے حق میں نہیں تھے لیکن مجھے پڑھنا تھا پڑھاٸی میرا جنون تھی۔۔۔

میں کچھ بننا چاہتی تھی۔۔۔

اِس لٸے میں نے اپنے منگیتر کو ڈھال بنانے کا فیصلہ کیا اور اُس سے فون پہ بات کر کے ساری بات اُسے بتاٸی اور یہ کہا کہ میں آگے پڑھنا چاہتی ہوں۔۔۔

پیلز تم تایا ابو سے بات کرو اور وہ بابا کو کہیں مجھے پڑھنے دیا جاٸے۔۔۔

سعد میرے منگیتر نے مجھ سے پرومس کیا کہ وہ ہر صورت ابو کو مناٸے گا کے وہ میرے بابا سے بات کریں۔۔۔

میرا سابقہ ریکارڈ دیکھتے ہوٸے اور تایا کے زور دینے پہ مجھے آگے پڑھنے کی اجازت مل گٸی۔۔۔۔۔

اور پھر مجھے ایم ایس میں داخلہ لے گے دے دیا گیا

سدرہ اتنی بات کر کے خاموش ہو گٸی۔۔۔

میں نے اُس کے چہرے کو غور سے دیکھا تو اب وہاں پہ خوف و ہراس اور پچھتاوا نظر آ رہا تھا۔۔۔ساتھ ساتھ اُس کے چہرے پہ شدید ازیت بھی تھی جیسے سوچ رہی ہو کہ کاش میں ایڈمشن نہ لیتی تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑھتے۔۔۔

سدرہ تم ٹھیک ہو نا بس کرو مجھے نہیں جاننا اور کچھ۔۔

تم آرام کرو ہم اِس پہ پھر کبھی بات کریں گے۔۔۔

نہیں مصطفی شاہ میرے دل پہ بہت بھار ہے ۔۔۔

مجھے آج اس ازیت سے آزاد ہونے دو۔۔۔۔

میں نہیں چاہتی کہ میرے مر جانے کے بعد کبھی آپ کے دل میں یہ خیال آٸے کہ پتہ نہیں کیسی تھی۔۔۔

 گھر سے کیوں بھاگی۔۔۔

سدرہ پاگل ہو تم میرے دل میں ایسا خیال کبھی کیوں آٸے گا 

 مجھے پتہ ہے تم بہت اچھی لڑکی ہو۔۔۔۔

شاہ سر آپ وعدہ کر چکے ہیں۔۔۔

اور ابھی آپ نے میری تین خواہشیں اور پوری کرنی ہیں سدرہ نے مجھے یاد دلاتے ہوٸے پھر سلسلہ وہی سے جوڑا جہاں سے ختم ہوا تھا۔۔۔

جب میں دوبارہ بہاولپور گٸی تو اب مجھے تایا کے گھر کے بجاٸے یونیورسٹی کے ہی گرلز ہاسٹل میں بھیج دیا گیا۔۔۔

کیونکہ پاپا کا خیال تھا کہ منگنی کے بعد لڑکی لڑکے کا ایک گھر میں رہنا ٹھیک نہیں تھا۔۔۔

ہاسٹل کی لاٸف ہی الگ تھی رات دو بجے تین بجے تک گپیں لگانا فن کرنا لڑاٸیاں کرنا یا کوٸی گیم کھیلنا اور پھر صبح دیر تک سو کے پہلے لیکچر مس کر دینا۔۔۔۔

میری کچھ روم میٹ چھے سال سے یونیورسٹی ہاسٹل میں رہ رہی تھی اور ہر کام میں فل ایکسپرٹ تھیں۔۔

وہ سب رات دیر تک اپنے اپنے بواٸز فرینڈ کے ساتھ فون پہ لگی رہتی کچھ آڈیو کال پہ اور کچھ ویڈیو کال پہ۔۔۔

تب میں سونے کی کوشش کرتی لیکن اُن کے شور میں نیند نا آتی تو اٹھ کے پڑھنا شروع کر دیتی۔۔۔

 تب سب بہت ہنستی مجھ پہ۔۔۔

اور کہتی تم بھی بنا لو کوٸی فرینڈ زندگی میں سکون آ جاٸے گا۔۔۔

 لیکن مجھے ان فضول کاموں سے دلچسپی نہیں تھی۔۔

ہر ویک اینڈ پہ گاٶں سے بھاٸی مجھے لینے آ جاتا اور ویک اینڈ میں فیملی کے ساتھ گاٶں میں گزارتی۔۔۔

ابھی مجھے یونیورسٹی میں آٸے ایک ماہ ہی ہوا تھا کہ سیکم لیپ ٹاپ میں سب کو اپنا نام لکھوانے کا کہا گیا میں نے بھی نام لکھوا دیا۔۔۔

میرے سابقہ تعلیمی ریکارڈ کو دیکھتے ہوٸے مجھے گورنمنٹ کی طرف سے لیپ ٹاپ مل گیا۔۔۔

جب ویک اینڈ پہ میں گھر آٸی تو لیپ ٹاپ بھی ساتھ لاٸی اور بابا کو بتایا کہ مجھے لیپ ٹاپ ملا ہے اور میری سٹڈی کے لٸٕے اب لیپ ٹاپ بہت ضروری ہے مجھے ایوو لے کے دیں۔۔۔

بابا نے میرے منگیتر سے کچھ کنفرمیشن کے بعد مجھے ایوو لے کے دے دی اور ایک ماہ کا پیکج بھی کروا دیا۔۔۔

ویسے تو یونیورسٹی میں واٸی فاٸی تھا لیکن لڑکیوں نے ایوو رکھی ہوٸی تھی کیونکہ واٸی فاٸی کی سپیڈ کم ہوتی تھی۔۔۔

ویک اینڈ کے بعد میں یونیورسٹی آٸی تو اپنی ایک روم میٹ سے لیپ ٹام کو سمجھنے میں ہیلپ مانگی۔۔۔۔۔۔

جو ہر وقت لیپ ٹاپ پہ لگی رہتی تھی 

اُس نے بہت خوش دلی سے مجھے لیپ ٹاپ سکھانے کی حامی بھر لی اور پھر کچھ ہی دن میں مجھے اچھا خاصا لیپ ٹاپ چلانا آ گیا۔۔۔

اب جب سب لڑکیاں رات کو اپنے اپنے بواٸز فرینڈ کو کال کرتی یا ویڈیو کال کرتی تو میں کوٸی مووی یا ڈرامہ لگا کے دیکھنے لگ جاتی۔۔۔۔

بعض اوقات ڈرامہ مووی سرچ کرتے ہوٸے ایسے ہیجان خیز مناظر سامنے آ جاتے کہ تن بدن میں آگ لگ جاتی۔۔۔

یہ احساس تب اور بڑھ جاتا جب میری روم میٹ ہنس ہنس کے مجھے بھین جی کہتی اور خود بڑے بولڈ انداز میں مختلف لڑکوں سے گپیں لگاتی۔۔۔

میں نے کافی بار محسوس کیا کہ تین چار لڑکیاں سب کے سونے کے بعد لیپ ٹاپ بستر میں رکھ لیتی ہیں اور ایسا لگتا تھا کہ وہ کپڑے اتار رہی ہیں۔۔۔

 لیکن تب میں اِسے اپنا وہم سمجھ کے اگنور کر دیتی۔۔۔

کچھ ہفتے اِسی کیفیت میں گزر گٸے تبھی میری ایک روم میٹ نے بقول اس کے مجھ پہ ترس کھاتے ہوٸے مجھے اپنے نمبر پہ فس بک آٸی ڈی بنا کے دی اور مسنجر انسٹال کر کے دیا اور فیس بک یوز کرنے کا طریقہ سکھایا۔۔۔

کچھ دن بعد ہی میں فیس بک چلانے میں بہت ماہر ہو گٸی اب تو حالت یہ تھی کہ صبح شام فیس بک اور مسنجر۔۔۔

مختلف لڑکوں سے باتیں کر کے بہت اچھا لگتا۔۔۔

جب لڑکے میری پوسٹ پہ آ کے میری تعریف کرتے دس دس کمنٹ ایک ایک لڑکا کرتا تب میں خود کو ہواٶں میں اڑتا محسوس کرتی۔۔۔۔

میں اگر لِکھ دیتی کہ طبیعت خراب ہے تو میری پوسٹ پہ سیڈ کمنٹ اور سیڈ ریکٹ کے انبار لگ جاتے۔۔۔

لڑکے انبکس آ کے میری خریت پوچھتے مجھے اپنا خیال رکھنے کی تلقین کرتے۔۔۔

تب مجھے لگتا کہ میں کسی ریاست کی شہزادی ہوں اور یہ سب میری ریایا ہے۔۔۔

اب میرے لیکچر چھوٹنے لگے زیادہ وقت فیس بک اور مسنجر پہ سرف ہونے لگا۔۔۔۔

پھر میری ایک روم میٹ نے معنی خیز لہجے میں مجھے کہا کہ تو بہت خوبصورت ہے بہت پیاری ہے تم اس کا فاٸدہ کیوں نہیں اٹھاتی۔۔۔

میں نے نہ سمجھنے والے انداز میں کہا سمجھی نہیں میں تم کیا کہنا چاہتی ہو۔۔۔

اُس نے کہا تو بھی پاگل ہے فری میں انبکس لڑکوں سے باتیں کرتی رہتی ہے۔۔۔

 ارے انکبس میں کبھی کسی لڑکے کا نام اپنے ہاتھ پہ لکھ کے سینڈ کر دیاکبھی کسی کا نام بازو پہ لکھ کے بھیج دیا۔۔

اُن کو پاگل بناٶ ایوو میں ریچارج کرواٶ بیلس منگواٶ اور اگر کوٸی قریب کا مرغا پھنس گیا تو اُس سے پزا برگر بھی منگوا لیا اُسے کہا یونیورسٹی کے گیٹ پہ آ جا اور پھر خود جا لے آیا۔۔۔

روم میٹ نے مجھے آنکھ مارتے ہوٸے کہا۔۔

نہیں مجھے اِن سب کی ضرورت نہیں میرے بابا ہر ویک مجھے پیکج کروا کے دیتے ہیں اور پیسے بھی دیتے ہیں جو مرضی لے لینا۔۔۔۔

 سو یہ سب تم لوگوں کو مبارک۔۔۔

ویسے بھی میری منگنی ہو گٸی ہے میں نے سختی سے جواب دے دیا۔۔۔

تب اس نے ہنستے ہوٸے کہا یار پلیز ہم غریبوں کی مدد کر دیا کرو

تم نا لینا بیلس یا لوڈ مجھے دے دینا اور ویسے بھی اب تم یونیورسٹی لاٸف میں ہو۔۔۔

اب نہیں فن کرو گی تو کب کرو گی جی لو کھل کے یہ دو سال اس کے بعد تو جاب شادی اور بچے ہوں گے۔۔۔

اتنا کہ کر اس نے میرے گال چوم لٸے میرا چہرہ ایک دم شرم سے لال ہو گیا 

 میں نے اُسے خود سے دور کرتے ہوٸے کہا کہ مجھے ضرورت نہیں ہے اس کی۔۔۔

لیکن اب میری وہ روم میٹ آتے جاتے مجھے چھیڑتی رہتی۔۔

کچھ دن ایسے ہی گزرے پھر میری ایک لڑکے توصیف سے مسنجر پہ بات شروع ہو گٸی۔۔۔

وہ بہت اچھی پوسٹ کرتا تھا

پورا دن مجھے میسج کرتا رہتا یا میری پوسٹ پہ لاٸک کمنٹ کرتا رہتا۔۔۔۔۔

بات ہونے کے کچھ دن بعد ہی ہم لوگ ایک دوسرے کے بہت قریب آ گٸے۔۔۔

اب تو ہر وقت بے چینی رہنے لگی اور توصیف سے بات ہونے کا انتظار رہنے لگا۔۔۔

 توصیف دن کو ڈیوٹی پہ ہوتا تھا اس لٸے رات کو ہم بات کرتے بارہ بجے تک۔۔

ہم لوگ بہت جلد میسج سے ویڈیو کال پہ آ گٸے اور اب اچھی باتوں کے بجاٸے ہمارے درمیاں گندی باتیں ہونے لگی۔۔۔

 وہ ہر وقت مجھ سے میرے جسم کی بناوٹ کے بارے میں بات کرتا اور میں جس حصے کا بتاتی وہ وہ فورًا کہتا رکو پہلے مجھے اُس جگہ کِس کرنے دو۔۔۔۔

اور جب وہ ummmmmmmmaaaahhhh لِکھ کے بھیجتا تو میرے تن بدن میں آگ لگ جاتی۔۔۔۔

پھر یہ باتیں اس حد تک بڑھیں کہ ہم نے سب حدیں ویڈیو کال پہ ہی کراس کر لی۔۔

ایک دن توصیف نے کہا میں تمہیں بنا شرٹ کے دیکھنا چاہتا ہوں 

 میرے لٸے یہ بات اچانک تھی اِس لٸے بہت غصہ آیا اور کال بند کر دی تین چار دن توصیف سے بات نہ کی لیکن دل اتنا بے چین تھا جس کی حد نہیں۔۔۔۔

 دل بار بار کہتا بات کرو اُس سے مان لو بات اُس کی۔۔۔

اِس دوران توصیف بار بار کال اور میسج کرتا رہا اور سوری کرتا رہا۔۔۔

پھر توصیف نے مجھے قسم دی کے اگر آج تم نے کال پک نہ کی تو میں اپنی کلاٸی کی رگ کاٹ لوں گا۔۔۔۔

 تب مجھےکال پک کرنی پڑی۔

اب ہم نے کھل کے ایک دوسرے سے محبت کا اظہار کر لیا تھا۔

 توصیف قطر ہوتا تھا اور اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ گھر آتے ہی میرا رشتہ مانگےگا۔

میں نے بتایا میری منگنی ہو گٸی ہے اور شادی مشکل ہے لیکن اُس نے کہا یہ مجھ پہ چھوڑ دو میں منا لوں گا۔۔۔

کچھ دن ہم نے ایسے ہی محبت میں بات کرتے ہوٸے گزار دیٸے۔۔۔۔

 پھر ایک رات میں نے محبت سے مجبور ہو کے ویڈیو کال پہ خود کو تصیف کے سامنے نیوڈ کر دیا۔۔۔

وہ جو جو کہتا گیا میں اتارتی گٸی سردی کی راتیں تھی سب روم میٹ سو رہی تھی۔۔۔۔

 اور کمبل میں یہ سب کرنا بہت آسان تھا میں نے لیپ ٹاپ کی روشنی میں توصیف کو اپنا پورا جسم دکھا دیا۔۔۔۔

اُس نے بھی مجھے اپنی باتوں سے ایسے فیل کروایا کہ جیسے وہ میرے پاس ہو۔۔۔

اب تو روز ہی یہ سلسلہ چل نکلا جب سب روم میٹ سو جاتی تو ہم ایک دوسرے میں ایسے کھو جاتے جیسے بلکل پاس ہوں۔۔

مجھ پہ ایک نشہ چھانے لگا توصیف کی باتوں سے۔۔

 اب میں گھر بھی آتی تو سٹڈی کے بہانے روم میں ہی لیپ ٹاپ آن کر کے بیٹھی رہتی۔۔

اور رات ہونے کا ویٹ کرتی رہتی۔۔۔

کچھ ویک کے بعد اب توصیف بہانوں سے مجھے اگنور کرنے لگا کبھی کام زیادہ ہے طبیعت نہیں سہی اور کبھی نیند آٸی ہے۔۔۔

میں جب بھی کہتی مجھے کِس کرو مجھے بانہوں میں بھر لو مجھے پیار کرو وہ اکتا کے کہتا ایسے کیسے ہو سکتا ہے۔۔

میں اتنے دور سے ایسے کیسے کر سکتا ہوں تب مجھے اُس پہ بہت غصہ آتا اور لڑاٸی ہو جاتی اور میں کہتی کہ کل تک تم یہ سب دور سے کر سکتے تھے ۔۔۔

ویڈیوں کال پہ تم مجھے اپنے پاس محسوس کرواتے تھے میرا جسم تمہیں اچھا لگتا تھا میرا جسم چومتے نہیں تھکتے تھے اب کہتے ہو میں دور سے یہ کیسے کر سکتا ہوں ۔۔

لیکن وہ ٹال دیتا۔۔

اب میری طبیعت میں چڑ چڑا پن آ گیا تھا

ہر وقت ہمارے درمیان لڑاٸی رہنے لگی۔۔۔

اور پھر کچھ دن بعد توصیف نے آٸی ڈی بند کر دی۔۔۔

میں نے بار بار توصیف سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ مسلسل آف لاٸن تھا۔۔۔

میں نے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا اور ہر وقت لیٹی رہتی۔۔

مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کرو کیسے جیوں اس کےبنا۔۔۔

مجھے اِس طرح اپ سیٹ اور پریشان دیکھ کے میری ایک روم میٹ نے بہت ہمدرری جتاٸی اور مجھ سے پریشانی کی وجہ پوچھی۔۔۔میں جو پہلے ہی توصیف کے غم میں نڈھال تھی زرہ سی توجہ اور ہمدردی پا کے رو پڑی اور اُسے سب کچھ سچ بتا دیا۔۔۔

 روم میٹ مجھے کافی دیر ساتھ لگاٸے تسلیاں دیتی رہی اور آخر میں کہا کہ پگلی تمہیں سیریس ہونے کے لٸے کس نے کہا تھا انجوٸے کروں۔

 یہ سوشل میڈیا ہے ہی ایسا یہاں روز رشتے بنتے ہیں روز ٹوٹ جاتے ہیں اِس لٸے کسی کو سیریس مت لو۔۔۔

 اور مجھے آنکھ مارتے ہوٸے بولی کہ اگر کہوں تو میں کوٸی ڈھونڈ دوں اچھا سا۔۔۔

 میرے بواٸے فرینڈ کا ایک دوست ہے بہت اچھا بندہ اُس سے بات کروا دوں تمہاری۔۔۔

بہت خوبصورت ہے تمہاری بہت کیٸر کرے گا سارا خرچہ بھی اٹھاٸے گا بس کبھی کبھار ملنے چلی جانا اُسے۔۔۔

 میں نے سختی سے منع کر دیا۔۔۔

لیکن رہ رہ کے توصیف کی گندی باتیں یاد آتی توصیف کی گندی باتوں اور فیلنگ نے میرے اندر آگ لگا دی تھی نماز پڑھتی تو اُس میں بھی سکون نہ آتا

 دل کرتا کوٸی ہو جو مجھ سے ہر وقت بات کرے۔۔

اور پھر کچھ دن بعد میری نظر سے ایک پوسٹ گزری ضرورت براٸے گرل فرینڈ کوٸی شریف لڑکی ہے تو انکبس رابطہ کرے۔۔۔ منجانب جہاں سکندر

 مجھے فیس بک کی دنیا کا پتہ نہیں تھا کے اِس میں زرہ سی جھول انسان کی زندگی تباہ کر دیتی ہے۔۔

میں نے ایسے ہی اُس لڑکے کی پروفاٸل چیک کی جس پہ اس نے کافی اچھی پوسٹ کر رکھی تھی۔۔۔

میرے دل میں ناول والے جہاں جہاں سکندر کیا حلیہ گھوم گیا۔۔

 مجھے لگا کہ یہ بھی ناول والے جہاں سکندر جیسا ہی ہوگا۔۔۔۔

یوں میں نےاُس کو فالو پہ کر لیا اب اُس کی پوسٹ اکثر نظر سے گزرنے لگی اور میں کبھی کبھار لاٸک بھی کرنے لگی۔۔۔

 جہاں سکندر تھا بھی خوبصورت وہ جب بھی اپنی پک پوسٹ کرتا لاٸک کرنے والی لڑکیوں کی لاٸن لگ جاتی۔۔۔

کچھ دن بعد اُس لڑکے کا مجھے میسج آیا اور ہماری بات شروع ہو گٸی اس کا نام سکندر تھا کافی اچھے سے بات کرتا تھا

کافی سمجھدار لڑکا تھا

اب ہمیں کافی دن بات کرتے ہوٸے ہوگٸے تھے 

 ہم اب ایک دوسرے بہت حد فری بھی ہو چکے تھے۔

اِسی دوران میں نے دو تین بار سکندر کو آزمانے کے لٸے اُس سے لوز ٹاک کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے ٹال دیا۔۔۔

اور مجھے اپنی سٹڈی پہ دھیان دینے کا کہا اب وہ اکثر مجھ سے میری سٹڈی اور کھانے پہ بات کرنے لگا اور میں لاپرواٸی کرتی تو وہ مجھے ڈانٹ دیتا۔۔۔

میں بھی بہت خوش تھی کہ اُس کو اتنی لڑکیاں چاہتی ہیں لیکن وہ پھر بھی مجھ سے بات کرتا ہے۔۔۔۔۔

اب ہم لوگ گھنٹوں ویڈیو کال پہ بات کرتے رہتے۔۔

پھر میرے امتحان شروع ہو گٸے اور ہماری بات کم 

 ہونے لگی۔۔

اب چھٹیاں ہو گٸی تھی تو مجھے گھر جانا تھا اس لٸے سب کلاس فیلو نے ایک پارٹی رکھی اور خوب انجوٸے کیا۔۔

سکندر نے مجھے جانے سے پہلے ایک بار ملنے کا کہا کیونکہ وہ بہاولپور کا ہی تھا ۔۔۔

میں بھلے جیسی بھی تھی لیکن اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا سکتی تھی۔۔۔

اس لٸے سختی سے انکار کر دیا گو کے سکندر نے مجھ سے کبھی کوٸی غیر اخلاقی بات نہیں کی تھی آج تک۔۔۔

لیکن پھر بھی ملنے کے لٸے میں کسی صورت تیار نہ تھی۔۔۔

 چھٹیاں ہوتے ہی میں گھر آ گٸی اور کچھ نا ملنے کی وجہ سے سکندر میرے ساتھ غصہ رہنے کے بعد ٹھیک ہو گیا۔۔۔

پوری چھٹیاں میں نے اور سکندر نے خوب باتیں کی لیکن اُس نے کبھی بھی کوٸی خیر اخلاقی بات نہ کی۔۔

اب میں بھی اس کی شرافت کی قاٸل ہو گٸی تھی اور پھر ایک دن سکندر نے اپنی محبت کا اظہار کر دیا۔۔

توصیف جیسے لڑکے کے بعد سکندر جیسا شریف لڑکا ملنا میرے لٸے نعمت سے کم نہیں تھا

جس نے مجھے اس گندے ماحول سے نکالا تھا۔۔۔ 

اِس لٸے کچھ دن کی باتوں کے بعد میں نے بھی محبت کا اقرار کر لیا۔۔۔

 اب ہم گھنٹوں ایک دوسرے کی محبت میں کھوٸے رہتے اور باتیں کرتے رہتے۔۔

بابا اور بھاٸی پورا دن ڈیرے پہ ہوتے تھے ماں سادہ تھی یہی سمجھتی کہ لیپ ٹاپ پہ پڑھ رہی ہوں۔۔۔

چھٹیاں ختم ہوتے ہی میں دوبارہ ہاسٹل آ گٸی اور ضد کر کے ابو سے موباٸل بھی لے لیا اب سکندر کی اور میری باتیں فون پہ ہونے لگی۔۔۔

 اور میں اُس کی محبت میں فل پاگل ہو گٸی

کچھ دن بعد سکندر کی ایک بار پھر ڈیمانڈ آٸی کہ ملو مجھ سے میں نے ہمیشہ کی طرح انکار کر دیا۔۔

تب اس نے کہا کہ مجھ پہ بھروسہ نہیں ہے تمہیں 

میں نے بتایا کہ بھروسہ ہے لیکن میں مل نہیں سکتی 

 اُس نے مجھے اپنی محبت اور سچاٸی کا یقین دلانے کے لٸے اپنی بہن کا نمبر دیا اور کہا بات کر لو۔۔۔

اب سکندر کی بہن سے بھی میری بات ہونے لگی کچھ ہی دن میں ہماری دوستی ہو گٸی۔۔۔

 کبھی کبھی سکندر کی امی سے بھی بات ہو جاتی وہ لوگ بہت خوش ہوتے مجھ سے بات کر کے ۔۔۔

 اور میں اب سکندر پہ پورا بھروسہ کرنے لگی۔۔۔۔

ایک دو بار سکندر کی بہن یونیورسٹی بھی آٸی میرے لٸے اور میری روم میٹ کے لٸے کھانا چاکلیٹ وغیرہ لے کر اور بھی گفٹ لاٸی ۔۔۔

وہ مجھے سب کے سامنے بھابھی کہتی تو مجھے بہت اچھا لگتا۔۔

پھر سکندر نے مجھ سے میرے گھر کا ایڈریس لیااور جب ویک اینڈ پہ میں گھر آٸی تو اپنی بہن کو لے کر ہمارے گھر آ گیا۔۔

 باہر آ کے سکندر نے کال کی کہ آپی اور میں تمہارے گھر کے باہر گھڑے ہیں تمہارا رشتہ لینے آٸے ہیں۔۔

مجھے ایک خوبصورت احساس ہوا۔۔۔

اور میں نے امی سے جھوٹ بولا کہ میری ایک دوست شہر سے مجھے ملنے آٸی ہے۔۔۔

 امی نے کہا ست بسمہ اللہ بلا لے پتر تبھی ہمارے گھر کام کرنے والی نے آ کے بتایا کہ باہر کوٸی لڑکی میرا پوچھ رہی ہے۔

امی اور میں باہر آٸے تو ایک حاضر ماڈل نیو کرولا ہمارے گھر کے سامنے گھڑی تھی۔۔۔

میں پہلی بار سکندر کو ایسے فیس ٹو فیس دیکھ رہی تھی۔۔۔

وہ بہت پیارا اور ہینڈسم تھا

امی ان لوگوں کو اندر لے آٸی اور دیسی ماحول کے مطابق خدمت کی۔۔۔

 جاتے ہوٸے سکندر کی بہن نے میری ماں سے کچھ دیر علیحدہ بات کی اور چلے گٸے ۔۔۔

سکندر کی بہن نے امی کو یہ کہا تھا کہ آپ کی بیٹی میری کلاس فیلوں ہے اور مجھے بہت پسند ہے میرا بھاٸی پولیس میں بہت بڑا افسر ہے ہم سدرہ کا رشتہ لینا چاہتے ہیں۔۔۔

امی نے سوچنے کی بات کہ کر ان کو بھیج دیا اور بعد میں مجھےسمجھایا کہ تیرے بابا کبھی نہیں مانے گیں۔۔

 تو باز آ جا۔۔

اب میں یونیورسٹی گٸی تو سکندر نے مجھے ملنے پہ فورس کر لیا اور وعدہ کیا کہ ساتھ آپی بھی ہو گٸی اور میں نے ہامی بھر لی ۔

دو گھنٹے ہم لوگ گھومتے رہے اور پھر کھانا کھا کے انہوں نے مجھے یونیورسٹی اتار دیا۔۔

اب تو میرا سنکدر کے بنا ایک پل بھی نہیں گزر رہا تھا اِسی لٸے کچھ دن بعد ہم نے پھر ملنے کا پلان کیا اور اِس بار ہم آپی کے بنا ملے۔۔۔

کچھ دیر ساتھ رہے کھانا کھایا جب سکندر مجھے واپس یونیورسٹی چھوڑنے آیا تو میری طرف کا سیٹ بلیٹ پھنس گیا جب مجھ سے نا کھلا تو سکندر نے میری مدد کی سیٹ بلیٹ کھولنے میں۔۔۔۔۔۔۔

 اور کھولتے ہوٸے سکندر کے بازوں کا دباٶں مسلسل میرے سینے پہ پڑ رہا تھا۔۔۔

 اُس کے ہونٹ مسلسل میرے ہونٹوں کے پاس تھے۔۔

یہ ایسا لمحہ تھا جس نے مجھے بے چین کر دیا اور مجھ پہ ایک نشہ چھا گیا

 میں ہاسٹل آ کے بھی سکندر کے بازوں کا دباٶ أپنے سینے پہ محسوس کر رہی اور یہ بات مجھے لُطف دے رہی تھی۔۔۔

ہم دونوں پورا ہفتہ اِس بات کو یاد کر کے سرور حاصل کرتے رہے۔۔۔

اور پھر ہم نے ملنے کا پلان بنایا اس بار سکندر مجھےایک ایسے ہوٹل لے گیا جہاں پہ روم بھی ملتے تھے اس نے وہاں پہلے سے روم بک کروا رکھا تھا۔۔۔۔

یہاں تک پہنچ کے سدرہ کی ہمت جواب دے گٸی اور وہ پھوٹ پھوٹ کہ رو پڑی۔۔۔

میرے پاس بھی کوٸی الفاظ نہیں تھے کہ اسے حوصلہ دوں بس بس چپ چاپ اس کی بربادی کی داستان سن رہا تھا۔۔

            


جاری ہے

 

نوٹ

جب ایک لڑکی ان باتوں کے چنگل میں پھنس جاتی ہے تو پھر وہ چاہ کے بھی ان سے نہیں نکل سکتی۔۔

 لوز ٹاک ایک ایسا گندہ نشہ ہے کہ نا ملے تو انسان کا سکون کا سکون برباد ہو جاتا ہے۔۔۔

*

Post a Comment (0)