Randi - Episode 12

کال گرل

رائٹر سید مصطفی احمد 

قسط نمبر 12



مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کے سدرہ کو چپ کیسے کرواٶں اُس کی صحت کے لٸے ٹینشن لینا اور رونا خطرناک تھا۔۔

میں بنچ سے اٹھا اور پاس پڑی بوتل سے پانی گلاس میں ڈال کے سدرہ کے پاس آ گیا۔۔۔۔۔

اُس کے کندھے کو تھپتھپایا سِڈ حوصلہ رکھو۔۔۔

 سِڈ تم تو بہت حوصلے والی ہو یہ لو پانی پیو۔۔۔

کچھ دیر بعد جب سدرہ کے ہوش و ہواش بحال ہوٸے تو اُس نے میرے منع کرنے کے باوجود دوبارہ بات وہی سے شروع کی جہاں سے روکی تھی اور نا چاہتے ہوٸے مجھے سننا پڑی۔۔۔

سدرہ نے بتانا شروع کیا سکندر اور میں جب ہوٹل روم میں پہنچے تو مجھے اندازہ نہیں تھا۔۔

 آج کا دن میرے لٸے سیاہ ترین دن ہے اور آج کا دن میری زندگی ہمیشہ کے لٸے برباد کر دے گا۔۔۔۔

کچھ دیر ہم لوگ ہنسی مزاق کرتے رہے کوک پی لیز کھاٸے 

 سینڈوچ کھاٸے میں بیڈ پہ بیٹھی تھی اور سکندر چیٸر پہ۔۔۔

جب ہم کھانے سے فری ہوٸے تو میں نے کہا اب چلیں سکندر دیر ہو رہی۔۔۔

سکندر نے میرے چہرے کو دیکھتے ہوٸے معنی خیز انداز میں کہا ایسے ہی چلے جاٸیں۔۔۔۔

اتنے ٹاٸم کے بعد تو ہمیں ایک دوسرے کا ساتھ ملا ہے تو اِس ساتھ کو کیوں نہ امر کر دیں ہمیشہ کے لٸے۔۔۔

اِتنی بات کہ کر سکندر اٹھ کے میرے پاس بیڈ پہ آ گیا۔۔

میں زرہ سی دور ہوٸے تو سکندر نے ہنستے ہوٸے کہا جان جی گاڑی والا سین یاد ہے تمہیں میرے بازوں کا دباٶں پڑنا😘😘

میں نے انجان بنتے ہوٸے کہا کون سا سین اب میرے دل کی ڈھرکن بہت بڑھتی جا رہی تھی دماغ میں ایک انجانا خوف پیدا ہو رہا۔۔

ہاہاہاہاہا سکندر نے قہقہ لگایا مجھے یاد ہے جب میں سیٹ بلیٹ کھولنے لگا تھا۔۔۔

 اچھا چھوڑو بتانا کیا ہے پریٹیکل کر کے دکھاتا ہوں۔۔

یہ کہتے ہوٸے سکندر نے مجھے اپنی بانہوں میں بھر لیا میں نے کافی کوشش کی خود کو آزاد کروانے کی مگر سکندر کی پکڑ بہت مضبود تھی۔۔۔۔۔

کچھ پل بعد میری آنکھوں سے آنسٶ بہنے لگے تو سکندر نے مجھے چھوڑ دیا۔۔۔

 سدرہ میری جان کیا ہوا پلیز رونا بند کرو سکندر نے مجھے چپ کرواتے ہوٸے کہا۔۔

 پیلز مجھے یونیورسٹی اتار دو میں یہ سب نہیں کر سکتی میں تم سے بہت زیادہ محبت کرتی ہوں۔۔

میں نے سکندر سے التجا کی۔۔۔

سکندر نے کوک گلاس میں ڈال کے مجھے پکڑاتے ہوٸے کہا اچھا کوک پیو ہم واپس چلتے ہیں۔۔

میں نے ایک ہی سانس میں پورا گلاس ختم کر لیا۔۔۔

اب چلیں پلیز میں نے ایک بار پھر التجا کی۔۔۔

سکندر کچھ پل میری آنکھوں دیکھتا رہا اور بولا اچھا ٹھیک ہے ہم کچھ کوٸی ڈرٹی کام نہیں کریں گے۔۔

 لیکن پیار تو کچھ دیر کر سکتے ہیں نا۔۔

پلیز میں بہت محبت کرتا ہوں تم سے اِتنا تو میرا حق ہے

 اور صرف لپ کِس اور گرن کِس کروں گا پلیز سدرہ مان جاٶ نا میری جان ہو نا۔۔۔۔

سکندر نے فل اداس ہونے کی ایکٹنگ کی جسے میں اُس وہ سمجھ نہ سکی۔۔۔

 محبت تو اُس سے میں بھی کرتی تھی لیکن یہ سب غلط تھا لیکن میں سکندر کو نا اداس دیکھ سکتی تھی اور نا ہی ناراض کر سکتی تھی 

میں پیار سے سکندر کے بال بگاڑے اور بانہیں گلے میں ڈالتے ہوٸے کہا پیار سے اچھا ٹھیک لیکن صرف پیار کرنا ہے اور کچھ نہیں مجھے آپ پہ پورا بھروسہ ہے۔۔۔

مجھے اُس وقت یہ علم نہیں تھا صرف پیار اور کچھ نہیں اصل میں یہی فیلنگ کو اِتنی ہوا دے دیتا ہے کے پھر سب کچھ ہو جاتا ہے۔۔۔۔

سکندر نے خوش ہوتے ہوٸے کہا اچھا ایک بات اور سدرہ پلیز پلیز منع مت کرنا۔۔

سکندر نے ہاتھ جوڑتے ہوٸے کہا۔۔

 کیا بات ہے مجھے لگا وہ اُسی بات پہ زور دے گا۔۔۔

لیکن سکندر نے مجھے بانہوں میں لیتے ہوٸے پیار سے کہا 

میری جان تم مجھے پھر ملنے نہیں آٶ گی اور نا ہی میں چاہتا ہوں 

 کیونکہ تم میری عزت ہو اور میں نہیں چاہتا کہ میری عزت یوں ہوٹلوں میں بدنام ہو۔۔۔

 سکندر کی اِس بات پہ میرا دل جھوم اٹھا دل کر رہا تھا کہ ابھی سکندر پہ اپنی زندگی وار دوں۔۔۔

آج کے بعد ہم نکاح ہونے تک باہر ملے بھی تو صرف کھانا کھاٸیں گے کسی اوپن جگہ پہ 

 میں نے اثباب میں سر ہلا دیا جیسے آپ کہیں سکندر مجھے آپ پہ پورا بھروسہ ہے۔۔۔

سدرہ میری جان میں چاہتا ہوں کے آج ملنے تو ویسے لگے ہیں اور کوٸی غلط کام بھی نہیں کرنا۔۔۔

صرف پیار ہی تو کرنا ہے 

اس لٸے میں چاہتا ہوں کہ ہم جو پیار کریں اُس کو کیمرے میں قید کر لیں۔۔۔

اُس کی مووی بنا لیں جب بھی دل اداس ہو گا دونوں مل کے دیکھ لیں۔۔۔

کیونکہ میری جان اب کبھی میں آپ کو ہوٹل نہیں لاٶں گا آپ عزت ہو میری۔۔۔

 سکندر نے پیار سے میری پیشانی چومتے ہوٸے کہا

مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ ویڈیو میری بربادی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی

جس سے محبت کی جاتی ہے سب سے پہلے اُس پہ ٹرسٹ کیا جاتا ہے 

میں بھی سکندر سے محبت کرتی تھی ٹرسٹ کرنا میری مجبوری تھی اس لٸے سکندر کی بار بار ریکویسٹ اور میری جان میری عزت اور نکاح جیسے جھوٹے وعدے پہ اُس کو ویڈیو بنانے کی اجازت دے دی۔۔۔سکندر نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ مجھ سے نکاح کرے گا

سکندر نے موباٸل ویڈیو موڈ پہ کر کے مجھے کہا کے بیڈ پہ لیٹ جاٶ تانکہ سیٹ کر کے رکھ سکوں جس میں ہم دونوں کی ویڈیو اچھی اور صاف آٸے۔۔۔

اپھر وہ موباٸل بیڈ کے سات پڑی ٹیبل پہ سیٹ کر کے بیڈ پہ آ گیا۔۔۔

کچھ دیر ہم لوگ ایسے ہی لیٹے ہوٸے پیار کرتے رہے لیکن اب بات کنٹرول سے باہر ہوتی جا رہی تھی۔

ایک جوان لڑکی لڑکا اکیلے روم میں ہوں اور اِس حالت میں بیڈ پہ ہوں تو کنٹرول تو مشکل ہونا ہی تھا۔۔

اب سکندر نے میرا ڈریس ریموو کرنا شروع کیا تو میں نے ایک بار پھر رونا شروع کر دیا۔۔۔

 لیکن سکندر نے مجھے سمجھایا کہ تم میری جان ہو میری زندگی ہو میں تم سے اپنی جان سے زیادہ محبت کرتا ہوں۔۔۔

تم میری آپی کو جانتی ہو اُن سے مل چکی ہو میری امی سے بات کر چکی ہو میں اور میری بہن تمہارے گھر تمہارا رشتہ مانگنے آ چکے ہیں۔۔۔۔

اب بھی تمہیں لگتا ہے کہ میں تمہیں دھوکہ دوں گا۔۔

یہ کہتے ہوٸے سکندر نے میرے ہونٹوں پہ پیار کیا اور میں بے بس ہو گٸی اور دل سکندر کے حق میں دلیلیں دینے لگا کہ وہ ایسا نہیں ہے وہ دھوکہ نہیں دے گا وہ تم سے نکاح کرے گا۔۔۔

لیکن میں نے پھر تصدیق چاہی کہ سکندر اگر میرے گھر والے نہ مانے تو۔۔

تو ہم کورٹ میرج کر لیں گے سکندر نے پُراعتماد لہجے میں جواب دیا۔۔۔

پکا نا مجھے چھوڑو گے تو نہیں 

 میرے اندر کا خوف ختم نہیں ہو رہا تھا۔۔۔

اف پاگل لڑکی کہو تو کل ہی کر لیتے ہیں نکاح یہ کہتے ہوٸے ہوٸے سکندر مجھ پہ جھک گیا اور میں نے خود کو اُس کے حوالے کر دیا۔۔۔

جب ہوش آیا تو میں اپنی سب سے قیمتی اور انمول چیز عزت سکندر پہ نچھاور کر چکی تھی۔۔۔

سکندر نے مسکراتے ہوٸے میرے جسم سے کمبل کھینچ کے کہا سدرہ تمہیں واقعی رب نے بہت فرصت سے بنایا ہے

تمارے جیسا پیارا اور سوفٹ جسم آج تک میں نے کسی لڑکی کا نہیں دیکھا۔۔

سکندر کی اِس بات نے مجھے چونکا دیا 

 کسی لڑکی کا ایسا جسم نہیں دیکھا مطلب آپ میرے سے پہلے بھی ایسا کر چکے ہو لڑکیوں کے ساتھ۔۔۔

میں نے غصے سے سکندر کو دیکھتے ہوٸے کہا۔۔

سکندر کے چہرے پہ ایک رنگ سا آ کے گزر گیا وہ بات سنبھالتے ہوٸے بولا ارے یار توبہ ہے ویسے۔۔۔۔

یہ الزام ہے مجھ معصوم پہ

میں کیوں ایسا کروں گا کسی لڑکی کے ساتھ۔۔۔

یار مووی وغیرہ میں دیکھتا ہوں لڑکیوں کا جسم

تو میں یہ کہ رہا تھا کہ اتنا پیارا جسم مووی میں بھی نہیں دیکھا کسی لڑکی کا آج تک

 میرا دل قدرے مطمٸن ہو گیا کیونکہ جس سے انسان کو محبت ہو اُس کے خلاف بندہ سوچ ہی نہیں سکتا۔۔۔۔

ہم لوگ دو گھنٹے ساتھ گزار کے ہوٹل سے باہر آ گٸے۔۔۔

سکندر نے مجھے یونیورسٹی چھوڑا اور چلا گیا

گناہ کا پچھتاوا الگ تھا لیکن سکندر کی قربت کا نشہ بھی الگ تھا۔۔

اب ہم ایک دوسرے کو واٸف ہسبنڈ کہ کر بلانے لگے میں نے اپنی آٸی ڈی ماہم خان کے نام سے بناٸی ہوٸی تھی اب اُس پہ ماہم سکندر لکھ لیا۔۔۔

میرا لاسٹ سمسٹر تھا اور پیپر کے بعد مجھے گھر آنا اس لٸے جب سکندر کو بتایا کہ میں نے پیپر کے بعد گھر چلے جانے ہے۔۔۔۔۔

تو وہ ہر بات بہ بات مجھے ملنے کے لٸے مجبور کرنے لگا دل میرا بھی چاہتا تھا کہ ملوں سکندر سے۔۔۔

لیکن اب میں پہلے والی غلطی کرنے کے حق میں نہیں تھی اس لٸے میں نے رات کو جب سکندر کی کال آٸی تو اس سے صاف صاف بات کرنے کا سوچا۔۔

رات کو سکندر کی کال آٸی تو سب سے پہلی بات ہی اُس نے ملنے کی۔۔۔

دیکھیں سکندر میں آج بھی آپ کی ہوں کل بھی آپ کی رہوں گی میرا جسم آپ نے دیکھ لیا ہے۔۔

 میرے ساتھ سیکس آپ نے کر لیا ہے اب کوٸی مانے یا نا مانے میں شادی صرف آپ سے کروں گی۔۔۔

لیکن میں بنا نکاح کے اب ایسے ملنے کے حق میں نہیں ایک بار غلطی کر لی زنا کر لیا اللہ وہ معاف کر دے اب اور نہیں۔۔

آپ نے اگر کورٹ میرج بھی کرنی ہے تو میں تیار ہوں لیکن ایسے نہیں ملنا اب میں نے۔

 میں نے دو ٹوٹ الفاظ میں منع کر دیا۔۔

یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے سکندر نے غصے سے پوچھا

ہاں یہ میرا آخری فیصلہ ہے میں نے بھی اُسی کے لہجے میں جواب دیا۔۔۔

تم اچھا نہیں کر رہی سدرہ جان یہ فیصلہ تمہیں مہنگا پڑے گا سکندر کا لہجہ اچانک بدل گیا۔۔

 میں تو اچھا کرنے کا ہی سوچ رہی ہوں نکاح کرو پوری زندگی تمہاری ہوں جو مرضی کرنا۔۔۔

 کورٹ میرج کا فیصلہ کر کےماں باپ کی عزت بھی خراب کر رہی ہوں صرف تمہاری محبت کے لٸے

ہاہاہاہاہاہا نکاح تم سے اچھا سوچتے ہیں تم پیپر سکون سے دو دیکھتے ہیں نکاح بھی ہاہاہاہا 

 سکندر نے قہقہ لگاتے ہوٸے کال بند کر دی۔۔

سکندر کے اس قہقے نے مجھ توڑ کے رکھ دیا دل گھبراہٹ سے دل پھٹا جا رہا تھا۔۔۔

لیکن پھر بھی اِتنا یقین تھا کہ سکندر میری محبت ہے وہ ایسا نہیں کر سکتا وہ کچھ بھی غلط نہیں کرے گا دل میں ایک انجانا خوف پیدا ہو رہا تھا۔۔۔

پھر دل کو تسلی دی کہ اُس کی ماں اور بہن بھی تو ہے اُن سے بات کروں گی وہ بھی تو عورتیں ہیں مجھے سمجھیں گی۔۔۔جتنے دن پیپر ہوتے رہے سکندر بس شام کو دس منٹ کال کرتا اور پیپر کیسا ہوا ہے پوچھ کے بند کر دیتا۔۔

جس دن لاسٹ پیپر تھا اُس رات کو سکندر نے مجھے دو گھنٹے کی کال کی اور صبح ملنے کے لٸے فورس کرنے کی کوشش کی۔۔

دیکھو سدرہ میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں اور وعدہ بھی کیا ہے کہ تم سے نکاح بھی کروں گا۔۔۔

جب ہم نے یہ سب ایک بار کر لیا ہے تو دوسری بار کیوں نہیں کر سکتے۔۔۔

سکندر مجھے آپ پہ شک نہیں ہے لیکن میرا دل نہیں کرتا اب بنا نکاح کے ایسا کروں پلیز سمجھنے کی کوشش کرو۔۔

پہلے والا گناہ بہت ستاتا ہے۔۔۔

دو گھنٹے وہ کوشش کرتا رہا کہ میں صبح ملنے کے لٸے راضی ہو جاٶں لیکن میں نہ مانی اور اُس نے غصے میں کال بند کر دی۔۔۔

 میری رات روتے ہوٸے گزری اور آزان کے وقت آنکھ لگ گٸی۔۔

دس بجے میں اٹھی اور ابو کو کال کی کہ تین بجے آپ لینے آ جانا سوچہ یہی تھا کہ سکندر سے بات کر کے اُسے منا کے جاٶں گی۔۔

سکندر کا نمبر ٹراٸی کیا تو آف تھا۔۔

پریشانی ہوٸی سوچا واٹس آپ پہ دیکھتی ہوں آن لاٸن ہے یا نہیں

لیپ ٹاپ آن کر کے جیسے ہی واٹس ایپ آن کیا سکندر کے دو میسج آ گٸے

سدرہ ڈیٸر بہت ہو گٸی محبت۔۔

ایک ویڈیو بھیج رہا ہوں دیکھ لینا۔۔

اور پورے بارہ بجے یونیورسٹی کے گیٹ پہ آ جانا پک کر لوں گا صرف دو گھنٹے میرے ساتھ رہنا اس کے بعد واپس چھوڑ دوں گا۔۔

 اور اگر نا آٸی تم مجھے ملنے تو یہ ویڈیو انٹرنیٹ پہ ڈال دوں گا اور اگر آگٸی تو ڈیلیٹ کر دوں گا۔۔۔

تب تک ویڈیو ڈوٶن لوڈ ہو چکی تھی جیسے ہی اوپن کی ویڈیوں دیکھ کے میرا دل اچھل کے حلق میں آ گیا۔۔۔

وہ میری اور سکندر کی ویڈیو تھی جس میں سکندر کے چہرے پہ تو کوٸی دھندلی سی چیز آ رہی تھی لیکن میرا چہرہ اور جسم بلکل صاف نظر آ رہا تھا ایک سیکنڈ سے بھی پہلے پتہ چل جاتا تھا میں ہوں ویڈیو اتنی صاف تھی۔۔۔

میری آنکھوں سے آنسو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھےگبھراہٹ سے جسم کانپ رہا تھا اگلے بیس منٹ میں سکندر کو کوٸی دو سو میسج میں نے کر دیٸے۔۔۔۔

جس میں اُسے اس کی ماں بہن قرآن اللہ رسول کا واسطہ دیا کہ مجھ پہ یہ ظلم مت کرو۔۔

 ویڈیو ڈیلیٹ کر دو

لیکن سکندر نے کوٸی جواب نہ دیا۔۔

 اور جب آن لاٸن آیا تو اس نے ہنسے ہوٸٕے کال کر کے کہا کہ میں لینے آ رہا ہوں گیٹ پہ آ جاٶ ورنہ انجام کی تم خود زمہ دار ہوگی۔۔

 یہ کہ کر اُس نے کال کاٹ دی۔۔

میں نے کچھ دیر سوچا اور کانپتے ہوٸے جسم کے ساتھ لیپ ٹاپ بند کیا ویڈیو ڈیلیٹ کی اور عبایا پہن کے گیٹ کی طرف چل دی۔۔۔

گیٹ پہ انٹری کی اور باہر آ گٸ بیس منٹ بعد سکندر کی کال آ گٸ گڈ تم نے باہر آ کے اچھا فیصلہ کیا اب تھوڑا آگے آ جاٶ فلاں ہوٹل تک۔۔۔

میں وہاں پہنچتی تو سکندر نے میرے پاس آ کے باٸک روکی آج وہ باٸک پہ تھا اور ہیلمٹ پہن رکھا تھا۔۔

 بیٹھوں سدرہ میں نے آواز پہچان لی اور باٸک پہ بیٹھ گٸی۔۔۔۔

آج وہ مجھے ایک دوست کے گھر لایا تھا بقول اُس کے اُس کے دوست کے امی ابو گھر پہ نہیں ہیں۔

جب ہم روم میں پہنچے تو میں رو پڑی۔۔۔

سکندر میں نے کیا بگاڑا تھا تمہارا میں نے تو محبت کی تھی تم سے اُس کا صلہ تم مجھے یہ دے رہے ہو۔۔

ہاہاہاہاہا میں نے بھی تم سے بہت محبت کی تھی ویڈیو میں دیکھ لینا تھا کتنی محبت کر رہا ہوں تم سے 

 تہمارا پورا جسم چوم رہا ہوں۔۔۔

سکندر نے قہقہ لگایا

میں مر جاٶ گی پلیز ایسا مت کرو میں بہت محبت کرتی ہوں تم سے میں نے ہاتھ جوڑ دیٸے۔۔

 ارے ارے تم نہیں مرو گی نہ میں تمہیں مرنے دوں گا اگر تم مر گٸی تو میں اتنا پیار کس سے کروں گا۔۔۔

تمہارے جسم نے مجھے دیوانہ بنا دیا ہے یہ کہتے ہوٸے سکندر نے مجھے اٹھا کہ بیڈ پہ ڈال دیا۔۔

اب میں نے ہچکیاں لے لے کے رونا شروع کر دیا تم تو کہتے تھے کہ میں نکاح کروں گا رشتہ بھی مانگا تھا میرا میں نے روتے ہوٸے کہا۔۔

ہاہاہاہاہاہا نکاح وہ بھی تجھ جیسی سے جو اپنے ماں کو دھوکہ دے گے مجھے ملنے آ گٸی میرے ساتھ سو لیا 

 سدرہ جان جو آج مجھے ملنے آ سکتی ہے ماں باپ کو دھوکہ دے کے۔۔۔۔

وہ کسی کو بھی ملنے جا سکتی ہے کل مجھے دھوکہ دے کے اور ویسے بھی میں نکاح کے حق میں نہیں بس انجوٸے کرتا ہوں۔۔۔۔

سکندر کی باتوں نے مجھے اندر سے چھلنی کر دیا تھا اب میرے آنسوٶ رک گٸے تھے اور جسم مردہ لگ رہا تھا

سکندر نے ایک کیمرہ بیگ سے نکالا اور اسے سٹینڈ پہ لگا کے مجھ پہ سیٹ کر دیا۔۔

 سکندر یہ کیا ہے تم نے تو کہا تھا کہ میں ملنے آٸی تو تم میری ویڈیو ڈیلیٹ کر دوں گے۔۔۔

لیکن تم تو اور بنا رہے ہو میں نے بیڈ سے اترتے ہوٸے کہا۔۔۔

 سکندر نے ایک زور کا تھپڑ میرے منہ مارا اور دوبارہ دھکا دے کے بیڈ پہ گرا دیا۔۔۔

کپڑے آرام سے اتار لو سدرہ ڈارلنگ کیونکہ تمہیں گھر بھی جانا ہے اگر میں اتاروں گا تو پھٹ جاٸیں گے۔۔۔

سکندر مجھ پہ بھوکے بھیڑیے کی طرح ٹوٹ پڑا اور ایک گھنٹا نوچتا رہا میں درد اور دکھ سے روتی رہیزیادہ درد اس بات کا تھا کہ میں محبت کے نام پہ لٹی تھی۔۔۔۔

اور آج مجھے بہت پہلے پڑھی ہوٸی بات کا مطلب سمجھ آ رہا تھا کہ عورت سب سے سستی محبت کے نام پہ بکتی ہے۔۔۔

سکندر جب اپنی ہوس پوری کر چکا تو اُس نے اپنے دوست کو بھی کمرے میں بلا لیا اور مجھے کہا کہ اِس کے بھی بہت ارمان ہیں پورے کر دو یہ کہتا ہوا سکندر چیٸر پہ بیٹھ گیا اور اُس کے دوست نے آگے بڑھ کے مجھے دبوچ لیا۔۔۔

میں لٹ چکی تھی مجھے خود سے بھی گن آ رہی تھی۔۔۔

پتہ ہی نہ چلا کہ کب سکندر نے مجھے یونیورسٹی اتارا اور کب میں روم میں آگٸی۔۔۔

 موباٸل آن کیا تو ساتھ ہی بھاٸی کی کال آ گٸی جسم خوف سے لرز گیا کانپتی آواز میں کال پک کی تو بھاٸی نے کہا کہ کب سے نمبر ٹراٸی کر ہوں بند کیوں تھا۔۔۔

اور میرے جواب سے پہلے ہی بتایا کہ میں پانچ بجے آٶں گا گاڑی میں کرنٹ کا مسلہ ہے ٹھیک کروا رہا ہوں۔۔۔

کال بند کر کے میں نے بیگ سے ایک سوٹ نکال

ا اور واش روم میں چلی گٸی نہا کے آٸی اور جاٸے نماز بچھا کے روتے ہوٸے رب کے حضور سجدہ ریز ہو گٸی اب وہی ایک زات تھی جو مجھے بچا سکتی تھی۔۔۔۔



جاری ہے 

*

Post a Comment (0)