Randi - Episode 14

کال گرل

رائٹر سید مصطفی احمد 

قسط نمبر14 



سدرہ نے جتنے دکھ پچھلے دو سال میں جھیلے تھے اُن کا بھار آٹھ ماہ برداشت کیا تھا۔۔

اور آج آٹھ ماہ کے بعد ایک دم سے اُن دکھوں کو بیان کرنا ایسے ہی تھا جیسے کوٸی انسان اپنے ٹھیک ہوتے زخموں کو اک دم سے اڈھیر دے۔۔۔

میں نے سدرہ کو آرام سے بیڈ پہ لٹایا اور وارڈ سے باہر آ گیا دل دماغ شاک میں تھا کہ کوٸی مرد اس حد تک بھی گر سکتا ہے کوٸی اتنا ظالم بھی ہو سکتا ہے۔۔۔

پھر اپنی ہی بات پہ ہاں کہ دیا کے ہاں مرد اِس حد تک بھی گِر سکتا ہے ہاں مرد اتنا بھی ظالم ہو سکتا ہے۔۔۔

 جس معاشرے میں دو سال اور پانچ کی بچی کو بھی مرد نہیں چھوڑتا وہاں سدرہ کی عمر کی لڑکی کے ساتھ تو یہ سب ہونا عام بات ہے۔۔۔۔

شام کو ممانی میری کزن اور ماموں سدرہ کو پوچھنے آٸے تو ماموں کی باتوں اور محبت سے سدرہ کو کافی حوصلہ ملا۔۔۔۔

 اور وہ کسی حد تک دن والی باتوں کو بھول کے نارمل ہو گٸ تھی ماموں کے ساتھ ہنستے ہوٸے اُسے دیکھ کے مجھے بھی سکھ کی سانس آٸی۔۔۔۔

جاتے ہوٸے ماموں کی بیٹی سدرہ کا خیال رکھنے کے لٸے ہاسپٹل ہی رک گٸی۔۔۔

رات کو تین بجے موباٸل کی واٸبریشن سے میری آنکھ کھل گٸی۔۔۔

میں وارڈ کے باہر رکھی چیٸرز پہ آنکھیں موند کے نیند پوری کرنی کوشش کر رہا تھا۔۔۔

سکرین پہ ایس آٸی نوید شاہ کا نمبر آ رہا تھا۔۔۔

اِس وقت نوید کی کال خریت تو ہے میں نے جلدی سے کال پک کر لی۔۔

دوسری طرف سے نوید شاہ کی چہکتی ہوٸی آواز آٸی 

 السلام علیکم شاہ صیب۔۔۔

وعلیکم سلام کزن اِس وقت کال خیر تو ہے۔۔

آہو یار خیر ہی ہے بس زرہ بتانا تھا کہ تہاڈا شکار ہاتھ آ گیا ہے تھانے آ جاٸیں اِس سے پہلے کہ ان کا کوٸی شفارتی آ ٹپکے زرہ اِن کی تشریف کا اپنے ہاتھ سے لتر مار کے افتتاح کر دیں

 نوید شاہ نے زور کا قہقہ لگایا۔۔

ویسے بھی دن کو اِن کی مرمت نہیں کر سکتے 

میڈیا والے اِسی طاق میں ہوتے ہیں کوٸی بات ہمارے خلاف ملے بس۔۔

اِس لٸے کزن جی تسی ہن ہی آجاٶ 

 نوید شاہ نے آخری بات معنی خیز لہجے میں کہی۔۔۔

کزن تیرا مطلب ہے وحید اور بلقیس؟

آہو شاہ صیب وہی خبیث

نوید شاہ نے تصدیق کی

میں آیا تم کدھر ہو اس وقت میں نے چیٸر سے اٹھتے ہوٸے پوچھا۔۔

تھانے ہی آ جاٶ کزن۔۔

میں ابھی آیا یہ کہ کر میں نے کال بند کر دی۔

جو سدرہ کے ساتھ سکندر نے کیا تھا 

 اُس پہ میں نے ایک فیصلہ کیا تھا کہ سکندر جب بھی مجھے ملا اُسے اپنے ہاتھ سے فاٸر ماروں گا۔۔۔

سکندر کی وجہ سے دماغ پہلے ہی شدید تکلیف میں مبتلا تھا۔۔۔

اب غصے سے اور برا حال ہو گیا کیونکہ وحید اور اُس کی بیوی بھی سکندر سے کسی طرح کم نہیں تھے

جنہوں نے ایک ٹوٹی ہوٸی اور لوٹی ہوٸی لڑکی کو سہارا دینے کے بہانے اور لوٹا تھا۔۔۔

میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ میں ایک منٹ سے پہلے گلشن اقبال تھانے پہنچ جاٶں۔۔

میں جب نوید کے کمرے میں پہنچا تو ایک تیس بتیس سال کی عمر کی درمیانی شکل صورت کی عورت اور چالیس پنتالیس سال کے مرد کو فرش پہ بیٹھے ہوٸے دیکھا۔۔۔

مرد شکل سے ہی خبیث لگ رہا تھا جس کی بڑی بڑی مونچھیں اور گٹکا کھا کھا گندے دانت انرجی سیور کی روشنی میں صاف نظر رہے۔۔

 وحید کی شکل اتنی منہوس تھی کہ کوٸی بھی لڑکی اسے دیکھ کے ہی خوف زدہ ہو سکتی تھی۔۔

نوید نے چیٸر سے اٹھتے ہوٸے مجھے گلے لگا لیا اور مرد عورت کی طرف اشارہ کرتے ہوٸے کہا کہ یہ آپ کے بندے ہیں شاہ جی یہ واقعی بہت تیز ہیں۔۔۔

میں نے چیٸیر پہ بیٹھتے ہوٸے پوچھا کہا سے ملے یہ تمہیں

کزن جس دن آپ نے ان کو پکڑنے کے لٸے بولا تھا اور میں نے بلوچ صاحب کو اِن کے بارے میں کہا تھا

اُس کے کوٸی چار یا پانچ دن بات بلوچ صاحب نے اطلاح دی کہ اس نام کی ایک عورت اور مرد اِس ایریا میں رہتے تھے لیکن وہ کچھ دن پہلے مکان خالی کر گٸے۔۔۔۔

تب مجھے ان منہوسوں میں زیادہ دلچسپی ہوٸی کہ یہ تو بہت پہنچے ہوٸے ہیں۔۔۔

 لیکن باوجود کوشش کے ان کا کوٸی اتہ پتہ نہیں مل رہا تھا۔۔۔

دو دن پہلے ہم نے ایک عورت پکڑی ایک ریڈ میں جسم فروش تھی

 اُس نے منت سماجت کی تو ہمیں چھوڑنا پڑا ویسے بھی ایسے کیسوں میں ہم کچھ نہیں کر سکتے۔۔۔

باتوں باتوں میں اُس عورت کے منہ سے بلقیس کا نام نکل گیا۔۔

 میرے دماغ میں اِس کا نام تھا میں چونک گیا

جب اُس عورت سے تفصیل پتہ کی تو وہ نہ صرف اِسے جانتی تھی بلکہ بلقیس کا موباٸل نمبر بھی اُس کے پاس تھا۔۔۔

میں نے اُس سے موباٸل نمبر لیا اور بجاٸے بلقیس کو کال کرنے کے اِس کی لوکیشن ٹریس کرواٸی۔۔

کیونکہ کال سے یہ الرٹ ہو سکتی تھے۔۔

لوکیشن شیر شاہ کی آ رہی تھی میں نے وہاں ایک دوست کے زمہ لگایا کہ یہ مجھے مطلوب ہیں زاتی کیس میں۔۔

اُسے لوکیشن دی تو اُس نے آج رات ان کو دھر لیا ابھی ہم ان کو لے کے آٸیں ہیں

 نوید شاہ نے پوری تفصیل سے مجھے آگاہ کیا۔۔

کیا بات ہے شاہ جی آپ نے جو احسان مجھ پہ کیا ہے وہ میں نہیں بھولوں گا۔۔۔میں نے ممنون لہجے میں نوید کا شکریہ ادا کیا۔۔۔

کزن احسان کیسا تم میرے جگر ہو اب بتاٶ ان کا کیا کرنا ہے 

 نوید نے پولس والوں کی طرح ایک گندی سی گالی بلقیس اور وحید کو دیتے ہوٸے پوچھا۔۔۔

اسی اثنا میں بلقیس اور وحید نے روتے ہوٸے میرے پاٶ پکڑ لٸے۔۔۔

اللہ کا واسطہ ہے ہمیں معاف کر دیں رسول کا واسطہ ہے ہمیں معاف کر دیں

 معافی؟؟؟ تم لوگ معافی کے قابل ہو ایک اجڑی اور لاوارث لڑکی پہ ظلم کیا تم لوگوں نے۔۔

پتہ نہیں نجانے اور کتنیوں پہ ظلم کیا ہو گا نوید ان کو ہٹاٶ یہاں سے میں نے غصے سے ڈھاڑتے ہوٸے تیز آواز میں کہا۔۔۔

نوید شاہ نے کانسٹیل کو آواز دی کہ ان کو پیچھے کرو۔۔۔

جب بلقیس اور وحید کو پیچھے کر دیا گیا تو میں نے نوید کو سدرہ کی طبیعت کے بارے میں بتایا۔۔۔

تو اُس کے بھی تن بدن میں آگ لگ گٸی اس نے چیٸر سے اٹھتے ہوٸے کانسٹیبل کو کہا لتر لے کے آٶ اور بلقیس اور وحید پہ لاتوں اور مکوں کی بارش کر دی۔۔۔

وہ دونوں رو رو کے معافیاں مانگ رہے تھے۔۔۔

 جب وحید اور بلقیس کی اچھے سے خاطر تواضع ہو گٸی

تو میں نے ان دونوں سے مخاطب ہو کے کہا کہ تم دونوں کو معافی دینے کا اختیار سدرہ کو ہے تمہارا کل فیصلہ ہو گا

اگر میرے بس میں ہوتا تو تم دونوں کو کتوں کے آگے ڈال دیتا۔۔

یہ کہتے ہوٸے میں اٹھ کھڑا ہوا چلتا ہوں شاہ جی اِن کی طبیعت زرہ اچھے سے صاف کرنا

جس پہ اِنہوں نے ظلم کیا ہے وہ مجھے بہت پیاری ہے

تسی فکر نا کرو شاہ صیب صبح تک یہ تشریف زمین پہ رکھنے کے قابل نہیں ہو گٸے۔۔۔

میں تھانے سے واپس ہاسپٹل آیا تو سر درد سے پھٹ رہا تھا میرا واقعی بس نہیں چل رہا تھا کہ وحید کو جان سے مار دوں۔۔۔۔۔۔

 آٹھ بجے میں کزن کے لٸے ناشتہ لے کے وارڈ میں گیا تو وہ اور سدرہ پکی سہیلیوں کی طرح خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔۔۔

 کزن سدرہ کے پاٶں دبا رہی تھی کیونکہ اس کے جسم کا کبھی کوٸی حصہ سن ہو جاتا تھا کبھی کوٸی حصہ۔۔۔

میں نے سلام کیا اور کزن کو ناشتہ پکڑاتے ہوٸے سدرہ کی طبیعت کا پوچھا۔۔۔۔

ٹھیک ہوں شاہ جی اتنے پیارے لوگوں کے ہوتے ہوٸے مجھے کیا ہو سکتا ہے۔۔

 سدرہ نے مہرین کی طرف اشارہ کرتے ہوٸے کہا۔۔

أَسْتَغْفِرُ اللّٰه سدرہ کچھ خوف کرو مہرین اور پیاری 

میں نے کزن کو چڑاتے ہوٸے ہوٸے کہا۔۔۔۔

جو کہ اُس نے بھی انجوٸے کیا۔۔۔

 شاہ جی ایسے نہ کہیں میری بہن کو میری بہن تو پری ہے

سدرہ نے محبت پاش نظروں سے مہرین کو دیکھتے ہوٸے کہا۔۔

سدرہ بی بی اگر تمہاری بہن پری ہے نا تو ہم بھی

کسی پرے سے کم نہیں میں کالر جھاڑتے ہوٸے سٹاٸل سے کہا۔۔

اب کی بار دونوں لڑکیاں کھلکھلا کے ہنس پڑی۔۔۔۔

 ناشتہ کرنے کے بعد مہرین کو میں نے کہا کہ تم کچھ دیر باہر جاٶ مجھے سدرہ سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔

مہرین کے جانے کے بعد میں سدرہ کے پاس بیڈ پہ ہی بیٹھ گیا اور اس کے ہاتھ پہ ہاتھ پھیرتے ہوٸے پہلے طبیعت کا پوچھا۔۔۔

 سدرہ دو باتیں کرنی ہے تم سے ۔۔۔

جی شاہ سر کریں۔۔۔

 پہلی بات یہ ہے میرا کزن پولیس میں ہے میں نے اس کے زمے وحید اور بلقیس کو پکڑنے کا کام لگایا تھا

وہ کل رات پکڑے گٸے ہیں ابھی میں ان سے مل کے آ رہا ہوں 

 میں چاہتا ہوں اُن کو سزا دی جاٸے۔۔۔

تم کیس داٸر کروں اور اپلیکیشن دو کزن یہاں ہاسپٹل ہی آ جاٸے گا تمہارا بیان لینے۔۔

وحید اور بلقیس کا نام سن کے سدرہ کے چہرے پہ واضع کرب اور تکلیف نظر آ رہی تھی۔۔۔

 سدرہ کچھ دیر خاموشی کے بعد بولی سر آپ کیا چاہتے ہیں مجھے ایسا کرنا چاہیٸے سدرہ نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوٸے پوچھا۔۔

دیکھو سدرہ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں ابھی اُن کو جان سے مار دیتا۔۔

 لیکن میں چاہتا ہوں تم بنا کسی دباٶں کے بِنا میری مرضی کے فیصلہ کرو جو تمہارا دل کہتا ہے وہ کرو۔۔

سدرہ اب مکمل خاموش تھی آنکھیں بند کٸے کچھ دیر لمبی لمبی سانسیں لیتی رہی۔۔

 اور پھر کچھ دیر بعد میرا ہاتھ مضبوطی سے تھامتے ہوٸے بولی شاہ سر جو میں کہوں گی کریں گے آپ۔۔۔

بلکل کروں گا میں نے کبھی بات ٹالی ہے تمہاری میں نے سدرہ کے ہاتھ کو اپنے دونوں میں دباتے ہوٸے کہا۔۔۔

 سدرہ کا جسم کانپ رہا تھا۔

سر بلقیس اور وحید کو معاف کر دیں میں نے اُن کو معاف کیا۔۔۔

 واٹ یہ کیسے کہ سکتی ہو تم مجھے واقعی حیرت کے ساتھ شاک بھی لگا اور سدرہ پہ غصہ بھی آیا۔۔۔

شاہ سر رب ہے نا وہ بھی تو معاف کر دیتا ہے

اور میں اپنی گزری زندگی کو بھولنا چاہتی ہوں 

 میں وحید اور بلقیس پہ کیس کروں گی وہ میرے سامنے بار بار آٸیں گے میرا دکھ تازہ ہو گا۔۔

 جو کے میں نہیں چاہتی۔۔۔

وحید اور بلقیس کا ظلم بہت بڑا ہے لیکن میرا اُن کو معاف کرنا شاید میری بخشش کا سبب بن جاٸے پلیز سر معاف کر دیں اُن کو۔۔۔

میں اِس شوخ اور معصوم لڑکی کا چہرہ غور سے دیکھنے لگا جہاں سکون اور اطمنان تھا بہت پاکیزگی اور حوصلہ تھا۔۔۔

کتنا بڑا دل ہے تمہارا سِڈ۔

آپ سے کم ہی ہے شاہ سر۔۔۔

 اب سدرہ کے ہونٹوں پہ ایک پیاری سیمسکان کھیل رہی تھی۔۔۔

او کے میں کزن کو کہ دوں گا کہ وحید اور بلقیس کو چھوڑ دے۔۔۔

شاہ سر دوسری بات کیا تھی سدرہ نے مجھے یاد دلایا

ہاں یاد آیا کہ تم نے مجھے کہا تھا کہ میں ایک وِش پوری کر لوں گا تو تم مجھے دوسری وش بتاٶں گی۔۔

اب میں نے پہلی پوری کر دی تمہاری تو بتاٶ دوسری۔

سدرہ کا چہرہ اب بجھ سا گیا 

 بتاٶں نہ کیا ہے دوسری وش میں نے اسرار کیا۔۔

سدرہ کچھ دیر سوچتی رہی جیسے ہمت جمع کر رہی ہو۔۔۔

سر مجھے نرس بتا چکی ہے کہ میرے پاس وقت بہت کم ہے میں ایک بار اپنی ماں سے ملنا چاہتی ہوں۔۔۔

اور بابا ملیں تو اُن سے بھی مل کے معافی مانگنا چاہتی ہوں۔۔۔۔

اتنا کہ کر سدرہ چپ ہو گٸی لیکن اُس کی آنکھوں میں جھلملاتے آنسو صاف دکھاٸے دے رہے تھے۔۔۔

میں کچھ دیر سوچتا رہا کہ اُسے کیا آس امید دلاٶں کیونکہ جو سدرہ نے اپنے بھاٸیوں اور ابو کے بارے میں بتایا تھا

مجھے نہیں امید تھی کہ وہ مان جاتے لیکن پھر دل میں یہ خیال بھی تھا کہ بھاٸیوں کو چھوڑوں ماں اور باپ تو مان ہی جاٸیں گ

ے۔۔

 کیونکہ جو بھی ہو سدرہ اُن کی اولاد تھی یہی سوچتے ہوٸے میں نے سدرہ سے اُس کی یہ وش بھی پوری کرنے کا وعدہ کر لیا۔



جاری ہے


*

Post a Comment (0)