کال گرل
رائٹر سید مصطفی احمد
قسط نمبر۔15
میں نے سدرہ کو اُس کے ماں باپ سے ملانے کا وعدہ تو کر لیا تھا لیکن اب دماغ الجھ رہا تھا کہ یہ سب کیسے کروں گا۔۔۔۔
میں نے مہرین کو واپس وارڈ میں بھیج کے سیل نکالا اور نوید شاہ کا نمبر ڈاٸل ہسٹری سے نکال کےاو کے کر دیا۔۔۔
کال دوسری بیل پہ ہی پک کرلی گٸ
السلام علیکم شاہ صیب نوید شاہ نے خالص پولیس والوں کی زبان میں سلام دیا۔۔۔
وعلیکم السلام کزن کیسے ہیں تیرے مہمان اب۔۔
ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا شاہ اُن کی تشریف اب کافی دن ٹکور مانگے گی لیکن معافیاں مانگ رہے ہیں کہ ہم یہ کام چھوڑ دیں گے محنت مزدوری کریں گے۔۔۔
کزن تمہیں کیا لگتا ہے وہ سچ کہ رہے ہیں کیا وہ واقعی ایسا کریں گے میں نے نوید سے سوال کیا۔۔۔
شاہ جی لتر کے ڈر سے سارے ہی یہاں مومن بن جاتے ہیں لیکن باہر جاتے ہی پھر وہی کرتوت ہوتے ہیں۔۔
نوید یار سدرہ نے اُن کو معاف کر دیا ہے وہ چاہتی ہے اُن کو چھوڑ دیا جاٸے میں نے اداسی سے کہا۔۔۔
اففففففف خدایا کیا کہ رہے مصطفی سدرہ کیسے اِن خبیثوں کو معاف کر سکتی ہے۔۔۔
نوید شاہ کے لہجے میں بے یقینی اور انتہا کی حیرت تھی۔
کزن وہ ایسی ہی ہے بڑے دل کی مالک اُس کا ظرف بہت اعلی ہے یار پتہ نہیں کس غلطی کی سزا بھگتی ہے سدرہ نے میں نے اداسی سے جواب دیا۔۔
شاہ صیب سدرہ بی بی کو میری طرف سے سلیوٹ میں آٶں گا اُن کی عیادت کرنے نوید شاہ کے لہجے میں احترام اتر آیا
ضرور آنا کزن لیکن پہلے ان خبیثوں کا سوچ کیا کرنا ہے۔
شاہ صیب تسی کی چاندے او یہ بتاٶ۔۔
کزن اِس عورت کو چھوڑ دو لیکن وحید کو اچھا سا رگڑا دو پانچ چھے مہنے کا۔۔۔
تانکہ وہ اچھے سے مومن بن جاٸے اور آٸندہ ایسے کسی کے ساتھ کرنے سے پہلے اُس کی روح کانپ جاٸے لیکن اِس بات کا پتہ سدرہ کو نہ لگے۔۔
اُن کو پتہ نہیں لگتا کزن جی باقی جو آپ کا حکم ایسا کر دیتے ہیں
نوید پہ کیس ڈال دیتے ہیں کہ یہ زبردستی اپنی بیوی سے جسم فروشی کرواتا تھا نوید نے فورًا کیس کا سوچ لیا۔۔۔
او کے ٹھیک ہے لیکن صرف چھے ماہ اِس سے زیادہ نہیں اور چلان سے پہلے تین چار دن وحید کی مرمت کرو اچھے سے میں نے غصے سے نوید شاہ کو کہا۔
شاہ جی فکر نہ کرو یاد رکھے گا کس سے پنگا لیا ہے
چنگا کزن فر اللہ حافظ۔۔۔
شام کو ماموں اور ممانی آٸے تو کچھ دیر بعد میں نے ماموں کو کہا کہ ماموں چلیں زرہ باہر چلتے ہیں کچھ بات کرنی ہے۔۔
اِس وقت ہم سب سدرہ کے پاس بیٹھے تھے۔۔
ماموں اور میں باہر ہسپتال کے لان میں آگٸے۔۔
کیا ہوا مصطفی کچھ پریشان لگ رہے ہو
ماموں نے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوٸے پوچھا۔
ہم لوگ ایک بنچ پہ بیٹھ گٸے۔
ماموں میں کل لیاقت پور جا رہا ہوں
لیاقت پور کیوں وجہ ماموں کا لہجہ تیز تھا۔۔
ماموں سدرہ اپنے آخری وقت میں اپنے ماں باپ سے ملنا چاہتی ہے۔۔
میری بات سن کے ماموں چپ ہو گٸے
اور کافی دیر کسی گہری سوچ میں رہے پھر بولے تو آواز کافی نرم تھی۔۔
مصطفی تمہیں لگتا ہے وہ ماں جاٸیں گے اگر وہ سدرہ کا اُس وقت ساتھ دیتے تو یہ نوبت ہی نا آتی۔۔
ماموں لگتا تو مجھے بھی نہیں کے وہ مانیں گے لیکن کوشش تو کرنی ہے میں سدرہ سے وعدہ کر چکا ہوں دوسری بات یہ بھی تو ہو سکتا ہے
سدرہ کے امی ابو اُس کی بیماری کا سن کے اُسے ملنے آ جاٸیں اور ہم بھی تو صرف اُن کو ملنے کے لٸے راضی کریں گے یہ نہیں کہیں گے وہ سدرہ کو اپناٸیں۔۔۔
مصطفی مجھے لگتا تو نہیں ہے کے ایسا ہو لیکن کوشش کر لو باقی میں تمہیں اکیلے نہیں جانے دوں گا
پتہ نہیں کیسے لوگ ہوں جب بیٹی کے ساتھ یہ سب کر لیا تو تم کیا لگتے ہو اُن کے فیضان کو ساتھ لے جاٶ۔۔۔
ماموں نے فیصلہ سناتے ہوٸے کہا۔۔
مجھے پتہ تھا ماموں نہیں مانیں گے میرے اکیلے جانے کے لٸے اِس لٸے مجھے بھی بہتر لگا اُن کا فیصلہ مان لوں۔۔
صبح دس بجے میں اور فیضان کینٹ اسٹیشن پہ تھے
فیضان میرا کزن فل ادرو سپیکنگ نظر آتا تھا اور کوٸی بھی اُس سے بات کر کے یہ جج نہیں کر سکتا تھا
کہ یہ لڑکا پنجابی فیملی سے ہے وہ کراچی کے ماحول فیشن میں خود کو اس قدر ڈھال چکا تھا کہ اُسے اِس سے بھی فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ سید ہے
ہاتھ میں رنگ برنگی ڈوریاں اور انگوٹھیاں پہننا اُس کا شوق تھا۔۔۔
رہی سہی کسر اُس کے پھڈوں نے پوری کر دی تھی اُس نے ایم کیو ایم جواٸن کی ہوٸی تھی
اور آٸے روز کہیں نہ کہیں اُن لوگوں کی لڑاٸی ہو جاتی ماموں کے تعلقات اچھے تھے جس کی وجہ سے فیضان کبھی تھانے تک نہیں گیا تھا۔۔
ہم نے لیاقت پور کی ٹکٹ لی اور ٹرین کا ویٹ کرنے لگے۔
12بجے اللہ اللہ کر کے ٹرین روانہ ہوٸی ۔۔
دل میں ایک انجانا سا خوف تھا کہ پتہ نہیں سدرہ کے گھر والے کیسا رد عمل دیں گے کیونکہ مجھے پتہ تھا زیادہ تر ایسے چوہدری ٹاٸپ لوگ اپنی جھوٹی انا اور عزت پہ رشتے قربان کر دیتے ہیں۔۔۔۔
لیکن انا ختم نہیں کرتے۔
فیضان اپنے ساتھ ایک بیگ بھی لے آیا تھا جس میں میری جیکٹ اسکی جیکٹ اور ایک شال تھی۔۔۔
رات کو 9 بج کے تیس منٹ پہ ہم لوگ لیاقت پور اسٹیش پہ اتر گٸے۔۔۔
ہوا کے سرد جھونکھوں نے ہمیں ویل کم کیا۔۔۔
دل کی حالت عجیب ہی تھی
یہ اُس مہ جبیں کا شہر تھا❤
جس کی قربت میں آٹھ مہینے میں نے گزارے تھے
اُس سے کبھی میں نے کوٸی رشتہ نہیں بنایا تھا
لیکن پھر بھی ایسا لگتا تھا سب رشتے ہیں اس سے❤
نا کبھی میں نے کوشش کی کوٸی رشتہ بنانے کی۔
نہ کبھی اُس نے مجھ سے کسی بات کا کبھی اظہار کیا تھا
مگر پھر بھی ہمیں ایک دوسرے کا ساتھ خوشی دیتا تھا جب وہ ہنستی تھی تو میں کتنی دیر اُس کی ہنسی کے سحر میں کھویا رہتا تھا تب وہ ایک دم سے چٹکی بجا کے پوچھتی شاہ کیا ہوا کہاں کھو گٸے۔۔
وہ مونٹال پیرس پرفیوم لگاتی تھی جس کی خوشبو اُس کے جانے کے بعد بھی مجھے اُس کا احساس دلاتی تھی۔۔۔
دل ایک عجیب سی لہ پہ ڈھڑک رہا تھا وہ اِس شہر میں سانس لیتی ہو گی اِس شہر کے کالج و سکول میں وہ اپنی دوستوں کے ہنستی مسکراتی ہو گی
کتنی شوخ چنچل ہو گی وہ
سدرہ کو سوچتے ہوٸے میری آنکھوں میں نمی اترنے لگی😥😥
تبھی فیضان نے مجھے آواز دی بھاٸی جان کیا سوچ رہے
ہیں
کچھ نہیں یار بس سوچ رہا تھا اِس اسٹیشن سے سدرہ کی بربادی کا سفر دوبارہ شروع ہوا تھا
وہ مجھے اب بھی یہیں کسی بنچ پہ بیٹھی ہوٸی محسوس ہو رہی ہے جیسے کہ رہی ہو شاہ میرے شہر میں آٸے ہو ویل کم پھول لاٶں تمہارے لٸے😥😥😥
یا پھر ہنستے ہوٸے کہے گی شاہ دیکھ لو میں تمہیں اپنے شہر تک لے آٸی۔۔۔
بھاٸی اللہ سب بہتر کرے گا آپ پریشان نہ ہوں فیضان نے میرا ہاتھ پکڑتے ہوٸےکہا چلیں اب چلتے ہیں۔۔۔
ہم اسٹیشن سے باہر آٸے تو رات کے دس بجے رہے تھے کراچی کی نسبت یہاں سردی بہت دیادہ تھی۔۔
تین سے چار موٹرساٸیکل والے ہمارے طرف لپکے کدھر جانا ہے بھاٸی صاحب۔۔۔
مجھے حیرانی ہوٸی کہ یہاں کسی آٹو وغیرہ کے بجاٸے موٹرساٸیکل والے سواری چھوڑنے کا کام کرتے ہیں۔۔۔
بات کرنے پہ پتہ چلا کہ ایک سواری بھی جہاں وہ کہتی ہے چھوڑ آتے ہیں
اور یہ کام وہ بیس سال سے کر رہے ہیں۔۔۔
یہ ایک بہت اچھی بات تھی خاص طور پہ سنگل سواری کے لٸے جو ٹیکسی یا آٹو وغیرہ افورڈ نہیں کر سکتے تھے۔۔۔
میں نے کہا بھاٸی دیکھو ہم نے جن کے گھر جانا ہے
ہم اُن کو اس وقت تنگ نہیں کر سکتے کیوں کہ ہم نے اُن کو سرپراٸز دینا ہے۔۔۔
ہم اُس موٹرساٸیکل والے کے ساتھ جاٸیں گے جو ہمیں رہاٸش بھی دے کل صبح تک ہم اُس کو رہاٸش کا کرایہ دیں گے اور کھانے کے پیسے الگ۔۔۔۔
پہلے میں نے سوچا تھا کہ یہی کسی ہوٹل میں رک جاتے ہیں صبح جاٸیں گے سدرہ کے والدین سے ملنے۔۔
پھر خیال آیا کہ جو ہوٹل والوں کو دو ہزار پندرہ سو دینا ہے اور کھانے کے پیسے الگ وہ اِن میں سے کسی غریب باٸک والے کو دیٸے جاٸیں اُس کے گھر کا دس پندرہ دن کا سودہ سلف آ جاٸے گا۔۔
میری اس آفر پہ سبھی راضی ہو گٸے
اور سب مجھے بتانے لگے کہ میرے ساتھ چلو کھانا اچھا دیں گے رہاٸش اچھی ہے بیٹھک کے اندر ہی باتھ روم ہے
سب اپنے اپنے گھر کی سہولتیں بتا رہے تھے
تین جوان لڑکے تھے اِن میں سے ہر ایک کی کوشش یہی تھی کہ میرے ساتھ چلیں۔۔
تبھی میری نظر ایک اڈھیر عمر شخص پہ پڑی جو پتلی سی چادر کی بُکل مارے چپ چاپ کھڑا یہ تماشہ دیکھ رہا تھا۔۔
جو چھوڑنے کے لٸے تو آگے آیا تھا لیکن رہاٸش کی بات سن کے وہ چپ چاپ پیچھے کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔
میں نے اُسے آواز دی تم نہیں بتاٶں کے اپنے گھر کی کوٸی سہولت۔۔
سردار ساٸیں میرے پاس ایسی کوٸی سہولت نہیں
اُس آدمی نے افسردہ آواز میں جواب دیا۔۔
اچھا گھر تو ہے نا تمہارے پاس میں نے اُسے پاس بلاتے ہوٸٕے پوچھا۔۔
جی سردار ساٸیں گھر ہے ہے لیکن کچا ہے دو کمرے ہیں
واہ بہت عمدہ یار ہمیں کچے گھر میں رہنے کا بہت شوق تھا
ہم پکے گھروں میں رہ رہ کے تھک چکے ہیں آج تمہیں پتہ نہیں کے تم نے میرے دل کی کتنی بڑی خواہش پوری کر دی۔۔۔
کیوں فیضان کیا خیال ہے میں نے پاس کھڑے فیضان سے پوچھا۔۔۔
بھاٸی سچ پوچھیں تو مجھے یقین نہیں آ رہا کے ہمیں رہنے کے لٸے کچا گھر مل گیا میں بہت خوش ہوں
فیضان بھی شاید بات سمجھ چکا تھا اور ہم نے اپنی خواہش کا اظہار ایسے کیا تھا کہ اُس بندے کو یہ نا لگے کے ہم اُس کی مدد کر رہے ہیں۔۔
میں نے باقی موٹر ساٸیکل والوں سے معزرت کرتے ہو ٸے اُسے کہا لے آٶ موٹر ساٸیکل۔۔۔
ہم بیس کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے موٹر ساٸکل والے گھر پہنچے تو اُس نے پانچ منٹ ہمیں باہر کھڑے ہونے کا کہا شاید گھر والوں کو ساٸڈ پہ کروا رہا تھا۔۔
آ جاٸیں ساٸیں کچھ دیر بعد ہم ایک کچے روم میں تھے ۔۔
چارپاٸی پہ بیٹھتے ہوٸے میں نے پوچھا بھاٸی تمہارا نام کیا
سردار ساٸیں میرا نام محمد ظفر ہے سارے مجھے ظفری ظفری کہتے ہیں۔۔۔
ٹھیک ہے ظفری کھانے کے لٸے کچھ بنوا لوں
سردار ساٸیں میں ابھی آیا یہ کہتا ہوا ظفری کمرے سے باہر چلا گیا۔۔
میں نے کمرے کا جاٸزہ لیا تو مجھے لگاہوٹل سے بہت زیادہ بہتر رہاٸش ہے
یہ کوٸی چودہ باٸی چودہ کا ایک کچا مٹی سے بنا کمرہ تھا جس کو مٹی سے لیپ کے ڈسٹیمپر کی جگہ عثمانی کلر کا چونا کیا گیا تھا
کمرے کی چھت پہ کانوں کی سِرکی اور لکڑی کے بالے تھے اور لکڑی کی پٹوں کو بطور گارڈر استمال کیا گیا تھا۔۔۔
ایک کونے میں پیٹی رکھی گٸی تھی جس پہ بڑی نفاست سے ہاتھ کی کڑھاٸی کا کور چڑھایا گیا تھا
پیٹی کے اوپر دو بکسے اور اور ایک بیگ پڑا تھا بکسوں پہ بھی پیٹی کے ڈیزاٸن والے ہاتھ کی کڑھاٸی سے بنے کور دیٸے ہوٸے تھے
سامنے والی دیوار کے ساتھ لکڑی کے پٹھوں کی پڑچھتیاں بناٸی گٸی تھی لکڑی کی کلِیاں دیوار میں ٹھونک کہ ان پہ پھٹے رکھے گٸے تھے جسے پنجابی میں پڑچھتیاں کہتے ہیں۔۔۔
پڑچھتیوں پہ مختلف ڈیزاٸن کے کپ پلیٹ اور گلاس جوڑے گٸے تھے۔
کمرے کی سیدھی دیوار کے ساتھ چارپاٸیاں جوڑی گٸی تھی اور اُن کے ساتھ ہی گندم والا بھڑولا پڑا تھا۔
ہمیں بھی رانگلی چارپاٸیوں پہ نٸے بستر ڈال کے دیٸے گٸے شاید جب ظفری نے ہمیں باہر کھڑا کیا تھا تب وہ یہ بستر ہی سیٹ کروا رہا رضاٸی اوڑھتے ہوٸے اُس سے بھینی بھینی فناٸل کی گولیوں کی مہک آ رہی تھی۔۔
یہ رہاٸش کسی بھی طرح فاٸیو سٹار ہوٹل سے کم نہیں تھی۔۔
کچھ دیر بعد ظفری کھانا لے کے آ گیا پیاز ہری مرچ اور ٹماٹر ڈال کے انڈے بناٸے گٸے تھے
ساتھ بڑی بہترین گرم گرم دیسی آٹے کی روٹیاں۔۔۔
ظفری نے شرمندگی سے کہا کہ سردار ساٸیں اِس وقت یہی دستیاب تھا دن ہوتا تو آپ کی خدمت کرتا۔۔
ارے یار یہ بہت اچھا کھانا لاٸے ہو تم بتاٶں ہاتھ کدھر دھونے ہیں ۔۔
آٸیں ساٸیں نلکا دکھاتا ہوں۔۔۔
کھانا کافی لزید تھا اور کھانے کے بعد پیور بھینس کے دودھ کی چاٸے نے تو کھانے کا مزہ دوبالا کر دیا۔۔۔
چاٸے سے فارغ ہو کے میں نے ظفری سے پوچھا کہ چوہدری ولایت کو جانتے ہوں۔۔
کچھ سوچتے ہوٸے ظفری نے کہا سردار ساٸیں جانتا ہوں یہاں سے کوٸی کوٸی تیس کلو میٹر دو ہے اُن کا گاٶں۔۔
میرا دماغ چونکا کہ یہ تو ہوتا ہے کہ بندہ اپنے محلے کے ہر فرد کو جانتا ہوتا ہے چلو آس پاس کے گاٶں میں بھی دو چار لوگوں کو جانتا ہوتا ہے۔۔۔
لیکن تیس کلو میٹر دور ایسے جاننا کسی کو مجھے ہضم نہیں ہو رہا تھا۔۔
میں نے کہا تیس کلو میٹر دور ہے پھر تم کیسے جانتے ہو
اب ظفری نے بات ٹالنے والے انداز میں کہا سردار ساٸیں ہمارا کام ہی یہی ہے پھرنا سواری چھوڑنا تو اِس لٸے جانتا ہوں۔۔
لیکن مجھے ظفری کے لہجے سے ایسا لگا کہ وہ کچھ چھپا رہا۔۔۔
بات تو تمہاری ٹھیک ہے ظفری لیکن تم اُن کے گاٶں کو جانتے ہو گے ایسے ایک بندے کو جاننا یہ کچھ عجیب سا لگا تم کچھ چھپا رہے ہو۔۔۔
نہیں سردار ساٸیں میں کچھ نہیں چھپا رہا ظفری نے سنجیدگی سے جواب دیا۔۔
ٹھیک ہے بھاٸی تم نہیں بتانا چاہتے تو مت بتاٶ لیکن ہم کراچی سے آٸے ہیں اُن کی بیٹی کے بارے میں ملنا تھا
وہ وہاں پڑھتی ہے میں نے ہوا میں تیر پھینکا جو نشانے پہ لگا۔۔۔
ظفری کے منہ سے فورًا نکلا وہی جس کا سکینڈل بنا تھا اتنی بات کر کے ظفری چپ ہو گیا وہ بھی سمجھ گیا تھا کہ وہ غلطی کر گیا ہے۔۔۔۔
دیکھو ظفری مجھے پوری بات بتاٶ اُس لڑکی کی طبیعت بہت خراب ہے پھر غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں میں نے نرمی سے کہا۔۔۔
کچھ دیر ظفری اپنے پاٶں کو گھورتا رہا پھر بولا سردار ساٸیں وہ بڑے لوگ ہیں ہمارے یہاں بیٹیوں کو اتنا پڑھانےکارواج نہیں سنا تھا انہوں نے سب کی مخالفت کے باوجود اپنی بیٹی کو بہت پڑھایا تھا۔۔۔
زیادہ مجھے نہیں پتہ لیکن اُن کی بیٹی کی ننگی ویڈیو انٹرنیب پہ تھی کسی مرد کے ساتھ تو سب اُن کو جانتے ہیں اِس علاقے میں۔۔۔
اب میرا دماغ سن ہو گیا کے واقعی اُن بھاٸیوں اور ماں باپ کا حوصلہ ہے جو اِن حالات کو فیس کر رہے ہیں
اور جی رہے ہیں سدرہ کے پاٶں کی زرہ سی جُھول اس کی پوری فیملی کو ہمیشہ کے لٸے شرمندگی کے تاریک گڑے میں پھینک گٸی تھی
لیکن سدرہ سے بھی زیادہ قصوروار سکندر تھا۔۔۔
اچھا وہ لوگ کیسے ہیں سردار ساٸیں اچھے لوگ نہیں لڑاٸی جھگڑوں میں مشہور ہیں ۔۔
چلو ٹھیک ہے ابھی آرام کرو تم صبح ہمیں اُن کے گھر چھوڑو گے تم اور آتے ہوٸے اپنا نمبر بھی دے دینا تانکہ جب ہم فری ہو جاٸیں تو واپس تم اسٹیشن چھوڑ دینا ہمیں۔
ٹھیک ہے سردار ساٸیں ظفری نے چارپاٸی سے اٹھتے ہوٸے جواب دیا۔۔
میں چارپاٸی پہ لیٹا تو دماغ مختلف سوچوں میں الجھا ہوا تھا جو
یہاں کے حالات ظفری کے منہ سے پتہ چلے تھے اُن میں میری امید ختم ہی ہوگٸ تھی کہ سدرہ کے والدین مانے گے۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔