کال گرل
رائٹر سید مصطفی احمد
قسط نمبر16
😭😭😭😭😭
ظفری نے صبح دس بجے ہمیں چوہدری ولایت کے گھر سے تھوڑا دور اتار دیا۔۔۔
اور ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ وہ سامنے چوہدری ولایت کا گھر ہے۔۔۔
میں نےظفری سے نمبر لے کے اُس کا شکریہ ادا کیا اور پیسے دیٸے۔
گھر پہ نظر پڑتے ہی سدرہ کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے آ گیا جس نے اپنی زندگی کے چوبیس سال اِس گھر میں گزارے تھے۔۔۔
اور آج لاوارثوں کی طرح ہسپتال کے بیڈ پہ اپنی آخری سانسیں گن رہی تھی۔۔
وقت بڑا بے رحم ہے پتہ ہی نہیں چلتا کس وقت ہمارے سامنے پھول کے ڈھیر لگا دے اور کس وقت ہمارا دامن کانٹوں میں الجھا دے۔۔۔۔
سدرہ کا گھر پرانے وقت کی طرزِ تمیر پہ بنا ہوا تھا آٹھ دس کمرے اُن کے آگے برامنداہ اور اوپر ایک چبارا بنا ہوا تھا جس کی دیواروں میں کھڑکیاں نظر آ رہی تھی۔۔۔
گھر کے آگے کافی کھلا صحن تھا۔۔۔
میں نے گیٹ پہ دستک دی تو دل کا عجیب ہی حال تھا ایسا لگ رہا تھا کے سدرہ ابھی نکلے گی اور خوشی سے چلاتے ہوٸے مجھ سے لپٹ جاٸے گی کہ شاہ آپ ہمارے گھر۔۔۔۔😥
لیکن ایسا نہیں ہوا گیٹ ایک پچاس پچپن سال کی عورت نے کھولا جو ظاہری حلیے سے کام والی لگ رہی تھی۔۔۔
السلام علیکم علیکم ماں جی۔۔
وعلیکم سلام پت کنوں ملنا جے۔۔۔
ماں جی چوہدری ولایت صاحب ہیں
نہیں پت اوہ تے ایس ویلے ڈیرے تے ہے گے تسی کون او۔
ماں جی کس ویلے آنا انہوں نے میں نے ماٸی کا سوال نظر انداز کرتے ہوٸے پوچھا۔۔
پت او تے دوپہرے آن گے۔۔
چلو کوٸی گل نہیں ماں جی ہم انتظار کر لیتے ہیں تسی گھر دس کے بیٹھک دا دروازہ کھولو۔۔
جی پت میں چوہدرانی ہورن نوں دسنی آں۔
پانج منٹ بعد بیٹھک کا دروازہ ایک پنتیس چالیس سال کے مرد نے کھولا جو شکل و صورت سے ملازم ہی لگ رہا تھا۔۔
ہمیں بیٹھیک میں بیٹھا کے وہ اندر چلا گیا۔۔۔
فیضان تمہیں کیا لگتا ہے یہ لوگ مان جاٸیں گے
بھاٸی مجھے تو نہیں لگتا کافی استاد معلوم ہوتے ہیں یہ لوگ۔۔
لگ تو مجھے بھی ایسے ہی رہا ہے خیر اب میں اپنا فل زور لگا دوں گا۔۔۔
کچھ دیر بعد جو مرد ہمیں بیٹھک میں بیٹھا کے گیا تھا
وہ چاٸے کی ٹرے لٸے اندر داخل ہوا اور میز پہ ٹرے رکھ کے چاٸے کی پیالیاں ہمارے آگے رکھنے لگا۔۔
چاٸے کے ساتھ بسکٹ اور دیسی گھی کی پنجیری تھی۔۔
جو مرد چاٸے لایا تھا اب وہ بھی ہمارے پاس ہی بیٹھ گیا اور ہم سے نام وغیرہ پوچھنے لگا کے ہم کدھر سے آٸے ہیں۔۔
میرا نام سید مصطفی احمد ہے اور یہ میرا چھوٹا بھاٸی سید فیضان حیدر ہے ہم لوگ کراچی سے آٸے ہیں۔۔۔
کوٸی خیر دا ای کم اے نا شاہ ساٸیں
جی جی خیر دا ای کم اے
جی ٹھیک ہے تسی آرام کرو میں چوہدری صاحب کو اطلاح کرواتا ہوں کہ کراچی سے مہمان آٸے ہیں۔۔
وہ اٹھنے لگا تو میں نے روک لیا بیٹھو یار آ جاتے ہیں چوہدری صاحب بھی۔۔
میری بات پہ وہ مرد پھر بیٹھ گیا۔۔
تم ملازم ہو یہاں
جی میں ملازم ہوں میرے زمہ جو بھی مہمان وغیرہ گھر آتا ہے اُس کو کھانا چاٸے پانی دینا ہے۔۔۔
کب سے ہو ملازم یہاں میں نے ایسے ہی وقت گزاری کے لٸے سوال پوچھا۔۔
جی دس سال سے ملازم ہوں۔۔
دس سال کی بات پہ میرا دماغ چونکا مطلب اِس بندے کو سدرہ کے بارے میں پتہ ہو گا۔۔۔
پھر ایک خیال اچانک میرے دل میں آیا تمہارا نام کیا۔۔۔۔
فیروز اُس کے مختصر جواب نے مجھے اٹھ کے بیٹھنے پہ مجبور کر دیا۔۔۔
فیروز یہی بتایا ہے نا تم نے؟
جی یہی بتایا ہے فیروز میرے ردِعمل پہ کچھ الجھن کا شکار ہوا۔۔
میرے دل میں ایک دم اُس انسان کے لٸے عقیدت اتر آٸی یہی وہ انسان تھا جس نے سدرہ کی تب مدد کی تھی
جب اُس کے بھاٸی اُس کا باپ سدرہ کے خون کے پیاسے ہو گٸے تھے
جب وہ لوگ سدرہ کو جان سے مارنے والے تھے تب اِس بندے نے اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کے اُسے گھر سے نکالا تھا وہ بھی بِنا کسی لالچ کے۔۔
اِس لٸے یہ شخص عزت و تکریم کے قابل تھا۔۔۔
فیروز کیا میں تمہیں گلے مل سکتا ہوں
میں نے جزبات اور محبت سے بھری آواز میں کہا۔۔
تسی سید ہو شاہ صاحب ساڈی جگہ تہاڈے پیرا وچ اے
گلے کِنج ملاں۔۔
فیروز نے خالص گاٶں والوں کی زبان میں احترامًا جواب دیا۔۔۔
بس یار مل لو ایک بار تم نے ایک بہت بڑا احسان کیا تھا مجھ پہ یہ کہتے ہوٸے میں چارپاٸی سے اٹھا اور جا کے فیروز کو گلے لگا لیا
اور وہی اُس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔
شاہ ساٸیں تسی غلام نوں گلے مل کے جو احسان کیتا او خون ڈے کے وی نہیں اتر سگدا
لیکن ساٸیں ہک گال ڈسو میں کہڑا احسان کیتا میری تہاڈی ملاقات ای اج تھیندی پیٸی اے
فیروز اب بھی کشمکش میں تھا۔۔۔
میں نے اب مناسب سمجھا کہ فیروز کو حقیقت بتاٸی جاٸے کیونکہ مجھے امید تھی یہ بندہ ہمیں بہتر مشورہ دے گا۔۔۔
فیروز تم نے مجھ پہ یہ احسان کیا ہے کے تم نے آج سے گیارہ مہینے پہلے ایک مجبور لڑکی کی مدد ایسے وقت میں کی تھی جب اُس کے اپنے اُس کی جان لینے پہ تلے ہوٸے تھے۔۔۔
فیروز کے چہرے پہ ایک دم گھبراہٹ نمودار ہوٸی اور وہچارپاٸی سے اٹھ کے میرے قدموں میں بیٹھ گیا۔۔
اللہ کا واسطہ ہے ساٸیں نام نہ لیں اگر کسی نے سن لیا تو میری بیوی بچے مار دیں گے فیروز نے تقریباً روتے ہوٸے میرے پاٶں پکڑ لٸے۔۔۔
میں نے اُسے اٹھا کے اوپر چارپاٸی پہ بٹھایا اور تسلی دی کہ فکر نہ کرو ہم ایسا نہیں کریں گے
اور مختصر اسے سدرہ کے حالات بتاٸے اور کہا کہ وہ ماں باپ سے ملنا چاہتی ہے۔۔۔
اب فیروز کی آنکھوں میں آنسو تھے اور اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ دھاڑیں مار کے روٸے۔۔۔
کچھ دیر اِسی کیفیت میں گزر گٸ
فیروز مجھے بتاٶ کہ کیا کرنا چاہیٸے ہمیں۔۔
شاہ ساٸیں تسی واپس چلے جاٶ چوہدری صاحب اِس موضع پہ بات نہیں کریں گے اور ہو سکتا ہے آپ سے ہی لڑاٸی کر لیں۔۔۔
فیروز نے ڈرتے ڈرتے مشورہ دیا۔۔۔
فیروز واپس تو میں نہیں جاٶں گا چوہدری سے ملے بنا سدرہ سے وعدہ کر کے آیا ہوں۔۔۔
اب لڑاٸی ہو یا جو بھی دیکھا جاٸے گا میں نے مضبوط آواز میں کہا۔۔
سدرہ کی ماں کہا ہے اِن سے ملوا دو مجھے
اچانک مجھے خیال آیا کہ سدرہ کی ماں سے تو مل لوں کیا پتہ چوہدری ملنے بھی دے یا نا ملنے دے۔۔۔
شاہ ساٸیں اِن پہ بھی بہت ظلم کیا گیا تھا۔۔
جس رات میں سدرہ بی بی کو اسٹیشن پہ چھوڑ کے آیا تھا اُس سے دوسرے دن جب یہ لوگ واپس گھر آٸے تھے تو سدرہ کو نا پا کر پاگل ہو گٸے تھے سدرہ بی بی کے جانے کا سارا الزام بڑی چوہدرانی پہ لگا تھا۔۔۔۔
باپ اور بیٹے کہتے تھے ماں نے بھگایا ہے بڑی چوہدرانی جی کو بیٹوں نے بہت بے دردی سے مارا بھی تھا😥😥😥
کتنے ہی دن بھوکا رکھا اور مارتے رہے پھر بڑی چوہدرانی کے بھاٸیوں کو پتہ چلا تو انہوں نے آ کے کچھ بات سنبھالی
اُس دن کے بعد بڑی چوہدرانی کو گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں ملی بیٹے ہر وقت ماں کو گالیاں دیتے ہیں کے یہ سب تیرا کیا دھرا ہے😥😥😥
یہ بتاتے ہوٸے فیروز ایک بار رو پڑا
دل تو میرا بھی بہت بوجھل تھا مگر ساتھ ہی مجھے غصہ بھی بہتآ رہا تھا کے ایسے بغیرت بیٹوں کو سرعام گولی مار دینی چاہیٸے۔۔۔
فیروز یہ لوگ اتنے بغیرت اور ظالم ہیں میں نے ساسف سے پوچھا۔۔
شاہ ساٸیں ان ظالموں کو حلیمہ کی بددعاٸیں لگی ہیں فیروز نے اداس لہجے میں کہا۔۔
کون حلیمہ کیا۔۔؟
شاہ ساٸیں سنتے آٸے تھے کیتی پیو تے دتی دھیو۔۔
میرے والد بتاتے ہیں کہ وڈے چوہدری ولایت صاحب کے والد خیر دین کے پاس ایک ملازمہ کام کرتی تھی
جس کا شوہر چوہدری خیر دین کا گن مین تھا ایک دن وہ چوہری کی طرف سے کسی لڑاٸی میں مارا گیا۔۔
اُس کی بیوی حلیمہ چوہدری خیر دین کے گھر میں ہی ملازمہ تھی تب چوہدری خیر دین نے حلیمہ کو اپنی بہن بنایا لیا کے تو آج سے میری دین دنیا کی بہن ہے۔۔
حلیمہ کی ایک ہی بیٹی تھی جس کا نام فضیلت تھا فضیلت کی عمر دس سال تھی جب اُس کا باپ قتل ہوا۔۔
اُس وقت چوہدری ولایت کی عمر پندرہ سال تھی
فضیلت پورے گاٶں میں حسین ترین لڑکی تھی لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ کسی ملازم کی بیٹی ہے جب فضیلت پندرہ سال کی ہوٸی تو چوہدری ولایت نے ایک دن اس کے ساتھ زیازتی کر دی۔۔۔
اور فضیلت کو ڈرا دھمکا کے منہ بند رکھنے کو کہا۔۔۔
اور گاہے بگاٸے اُس سے اپنی ہوس پوری کرتا رہا
اور فضیلت سے کہا کہ میں تجھ سے نکاح کروں گا۔۔
کہتے ہیں تین چار ماہ بعد فضیلت حاملہ ہو گٸی
اور یہ راز کھلنے پہ جب فضیلت نے چوہدری خیر دین کو بتایا کہ آپ کے بیٹے ولایت نے یہ سب کیا ہے اور مجھ سے نکاح کا وعدہ بھی کر رکھا ہے ۔
تب وڈے چوہدری صاحب نے دونوں ماں بیٹی فضیلت اور اُس کی ماں حلیمہ کو بہت مارا کہ تم لوگ نے میرے بیٹے کو پھنسایا ہے تانکہ اِس گھر کی چوہدرانی بن سکو۔۔
بہت گالیاں دی کہ تم کمی لوگ ہوتے ہی ایسے ہو۔۔
پھر دونوں ماں بیٹی کا منہ کالا کر کے چوہدری کے ملازموں نے پورا گاٶں پھرایا
اُسی رات فضیلت اور اس کی ماں نے خود کشی کر لی۔۔۔۔
سدرہ بی بی کی اِس حرکت کے بعد کافی لوگ کہتے ہیں چوہدری ولایت کو حلیمہ اور فضیلت کی بددعاٸیں لے گٸیں۔۔۔۔
فیروز اب رو رہا تھا۔۔
اف میرے خدایا اِتنا ظلم
تو حق کرنے والا ہے تو نے حق کیا۔۔
اب مجھے سمجھ آیا کہ سدرہ جیسی معصوم لڑکی کے ساتھ یہ سب کیوں ہوا
اُس کے باپ اور دادا نے جو ظلم اور زلت 2 لاچار اور بے بس عورتوں کو دی تھی آج وہی زلت اور بدنامی سدرہ کے باپ اور بھاٸیوں کو سدرہ کی صورت میں ملی تھی۔۔
فضیلت اور حلیمہ کی بدنامی تو ایک دو پنڈ تک محدود رہی ہو گی
لیکن سدرہ کی ویڈیو تو نیٹ پہ تھی جس سے پوری دنیا واقف تھی پورا علاقہ اِس گاٶں کو سکینڈل گرل والا گاٶں کہتا تھا۔۔۔
اف رب کے اِس انصاف پہ میری آنکھیں نم تھی اور ہاتھ پاٶں سن۔۔۔
ایسے لوگوں کو بیچ چوراہے لٹکا دینا چاہیٸے فیضان کی غصے سی بھری آواز سناٸی تھی۔۔
بھاٸی اگر آپ کہو تو اِن کا علاج کر دوں میں
کچھ دوست آٸے ہوٸے ہیں میرے ساتھ۔۔۔
فیضان نے مجھے سے اجازت لینے والے انداز میں کہا۔
کون سے دوست میرا دماغ چونکا۔
سوری بھاٸیآپ کو بتایا نہیں تھا لیکن ابو نے کہا تھا کہ مصطفی کو کچھ نہیں ہونا چاہیٸے۔۔۔
اِس لٸے مجھے اپنے سیکٹر انچارج سے بات کرنی پڑی انہوں نے لیاقت پور کے ایریا ایم کیو ایم انچارج سے بات کی
جب ہم اسٹیشن پہ اترے تو وہ لوگ موجود تھے پھر وہ ظفری کے گھر تک ہمارے پیچھے آٸے اور واپس چلے گٸے اب وہ یہیں چوہدری کے گھر کے آس پاس ہیں۔۔۔
اُف فیضان تم پاگل ہو ہم کوٸی جنگ نہیں لڑنے آٸے ایک ریکویسٹ کرنے آٸے ہیں
کے ایک مرتی ہوٸی لڑکی کی آخری خواہش پوری کر دوں مجھے واقعی فیضان کی اس حرکت پہ بہت غصہ آیا تھا۔۔۔
سوری بھاٸی جان میں مجبور تھا مجھے پتہ تھا یہ لوگ کیسے ہوں گے اِس لٸے ایسا کیا اور وہ لوگ سامنے نہیں آٸے گے۔۔
مجھے علم تھا کہ ایم کیو ایم کے کسی بھی لڑکے کے لٸے یہ سب کرنا بہت آسان تھا۔۔۔
لیکن مصیبت یہ تھی کہ یہ لوگ بات کی جگہ گولی استمال کرتے تھے ۔۔
تم اُن سب کو کہو واپس چلے جاٸیں میں نے غصے سے فیضان کو کہا۔۔
فیضان نے سیل نکال کے واٸس میسج سینڈ کر دیا ۔
ہاں دادا آپ لوگ واپس چلے جاٶ ضررت ہوٸی تو میں بلا لوں گا۔۔۔
سدرہ کے کردار کی گواہی تو میں بھی دے سکتا تھا
کیونکہ میں اُس کے ساتھ آٹھ مہینے سے تھا۔۔
وہ بہت مخلص اور بھولی تھی میں اکثر سوچتا تھا کہ اِتنی پیاری اور سب کا احساس کرنے والی لڑکی کے ساتھ اتنا برا کیسے ہوا۔۔۔
اور اب فیروز کی زبانی پتہ چلا تھا کہ اُس نے اپنے باپ کے کرتوتوں کی سزا بھگتی تھی۔۔۔
فیروز تم ایسا کرو سدرہ کی امی سے مجھے ایک بار ملواٶ پتہ نہیں بعد میں چوہدری صاحب ملنے دیں یا نہ ملنے دیں۔۔
ٹھیک ہے ساٸیں میں بات کرتا ہوں یہ کہتا ہوا فیروز اندر حویلی میں چلا گیا۔۔۔
فیروز کی باتوں نے مجھے جنجھوڑ کے رکھ دیا تھا
سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ قصوروار سدرہ کو کہوں یا سکندر کو یا پھر چوہدری ولایت کو۔۔۔۔
آدھے گھنٹے بعد فیروز واپس آیا اور مجھے اپنے ساتھ اندر چلنے کے لٸے کہا۔۔
میں فیروز کی رہنماٸی میں ایک بیڈ روم نما کمرے میں آ گیا۔۔
جہاں سدرہ کی والدہ بیڈ کی ڈھوہ سے ٹیک لگاٸے بیٹھی تھی۔۔۔
میں نے سلام کیا اور بیڈ کے پاس پڑھے صوفے پہ بیٹھ گیا۔۔
شکل و صورت سے سدرہ کی والدہ ایک نرم دل اور سادہ خاتون لگ رہی تھی اور بات کرنے پہ یہ ثابت بھی ہو گیا۔۔
معافی چاندی آں پتر تہانوں تکلیف دتی خود نہیں آ سکی میرے جوڑوں میں درد ہے جس کی وجہ سے چلنا مشکل ہے۔۔۔
سدرہ کی والدہ نے شرمندگی سے کہا۔۔
کوٸی بات نہیں ماں جی شرمندہ نہ کریں
کیسی ہے سدرہ😥😥
میری بچی نے تو پہلے ہی بہت دکھ دیکھے تھے کہ اب یہ بیماری یہ کہتی ہوٸے سدرہ کی امی رو پڑی۔۔۔
ماں جی وہ ٹھیک ہے بس ایک بار وہ آپ لوگوں سے ملنا چاہتی ہے معافی مانگنا چاہتی۔۔۔
میرے بچے میں نے تو اُسے اُسی دن معاف کر دیا تھا جس دن اُسے گھر سے فیروز نے لے کے جانا تھا۔۔۔
میرے بس میں ہوتا تو میں اُسے کبھی جانے ہی نا دیتی لیکن یہ لوگ اُس کو جان سے مارنے والے تھے
میں اپنی آنکھوں کے سامنے کیسے اپنے جگر کے ٹکڑے کو مرتے دیکھتی😭😭😭
ماں جی مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ پہ بھی بہت ظلم ہوا ہے سدرہ کی وجہ سے😥
پتر یہ کوٸی ظلم نہیں جو اِن لوگوں نے مجھے زخم دیٸے تھے
وہ تو دوسرے مہینے ہی بھر گٸے تھے
لیکن میں ہر پل ہر رات یہ سوچ کہ تکلیف میں رہتی تھی کے پتہ نہیں میری بچی کس حال میں ہو گی😥😥
کھانا کھایا ہو گا یا نہیں کھایا ہو گا وہ مجھ سے ضد کر کے اپنی پسند کی چیزیں بنواتی تھی۔۔۔
اور پھر کہتی تھی اماں خود ہی کھلاٶ نا😥
یہ سوچ کے میرا کلیجہ کٹ جاتا تھا کہ کھانا دیر سے بننے پہ روٹھ جانے والی میری بچی پتہ نہیں اب کیا کرتی ہو گی کھانا ملتا بھی ہو گا یا نہیں😭😭😭
پتہ ہے پتر ایک دن میں سوٸی ہوٸی تھی کہ مجھے خواب میں سدرہ نے کہا امی میں بہت بھوکی ہوں کھانا بنا دیں مجھے😭😭
تب میرا کلیجہ کٹ گیا تھا میں تڑپ اٹھی تھی رات کو اٹھ کے کھانا بنانے لگ پڑی تھی😭😭😭
سدرہ کی والدہ کی یہ باتیں سن کے مجھے وہ وقت یاد آ گیا جب سدرہ مجھے تین دن کی بھوکی ملی تھی۔۔😭😭
اور بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے کے مان کی شان دیکھو سدرہ کراچی میں بھوکی تھی
لیکن اُس کی والدہ کو اتنی دور بھی پتہ چل گیا کے میری بیٹی بھوکی ہے😭
واقعی ماں کی محبت خدا کا روپ ہے ماں نے اِتنی دور سے اپنی بچی کی تکلیف محسوس کر لی تھی۔۔۔
میری بچی نے پوری زندگی کبھی گھر سے اکیلے باہر پیر نہیں رکھا تھا۔
پتہ نہیں یہ سب کیسے ہو گیا اُس سے😥
سدرہ کی والدہ روٸے جا رہی تھی۔۔
ماں جی جو اللہ کو منظور ہوتا ہے وہی ہوتا ہے آپ کی بیٹی نے واقعی بہت دکھ جھیلا ہے۔۔۔
لیکن پچھلے آٹھ ماہ سے وہ میرے پاس ہے اور مکمل نیکی کی راہ پہ اور الحَمْدُ ِلله محفوظ ہے۔۔
سید تو سردار ہوتے ہیں میرے بچے تم نے ثابت کیا میری بے آسرا بیٹی کو سہارا دے کر رب تجھے اِس کا اجر دے گا۔۔
اور میری بچی کا خیال رکھنا اپنے نانا کے صدقے سدرہ کیوالدہ نے روتے ہوٸے ہاتھ جوڑ دیٸے۔۔۔
ماں جی آپ فکر نہ کریں اُس کا خیال میں رکھوں گا وعدہ ہے آپ سے
آپ کو سدرہ کے حق کے لٸے لڑنا چاہیٸے تھا ماں جی میں نے نا چاہتے ہوٸے بھی یہ بات کہ دی۔۔
سدرہ کی والدہ کچھ دیر خاموش رہی جب بولی تو اُن کی آواز میں بہت درد تھا۔۔
پتر ہمارے گھروں میں جب عورت کی شادی کی جاتی ہے
تو اُسے یہ کہا جاتا ہے کہ آج سے تمہارا رشتہ ماٸکے سے ختم تجھے ماریں کوٹے جو بھی کریں تیرا جنازہ ہی نکلےاب سسرال سے۔۔۔
پھر میں نے بچپن سے اپنے باپ کو ہی فیصلے کرتے دیکھا تھا اپنی ماں کو بس ہر بات پہ سر تسلیم کرتے دیکھا تھا۔۔۔
بڑی ہوٸی تو ہر بات میں بھاٸیوں کی بات مانی جاتی میری ماں میرے باپ کے سامنے کبھی نہیں بولی۔۔۔
اور یہی چیز میرے پلو میں باندھ کے اُس نے مجھے رخصت کیا۔۔
ہمارے ہاں رواج ہے کہ کوٸی عورت فیصلہ نہیں کرتی یہاں دس سال کے لڑکے کی بات مان لی جاتی ہے
لیکن پچاس سال کی عورت کی نہیں مانی جاتی۔۔۔۔
کتنی لڑکیاں صرف شک کی بنیاد پر زہر دے کے قتل کر دی گٸیں ہیں
سدرہ کی والدہ کی باتوں اور طبیعت نے مجھے کشمکش میں ڈال دیا کہ اِن کو سدرہ کی طبیعت کا کھل کے بتاٶں یا نا
لیکن بتانا ضروری تھا
کیونکہ کہ اگر وہ ملنے نا بھی آ سکتی تو کم از کم اپنی بیٹی کے لٸے دعا تو کر ہی سکتی تھیں
ماں جی سدرہ ہسپتال داخل ہے اُس کے پاس وقت تھوڑا ہے وہ ایک بار بس ماں باپ سے ملنا چاہتی ہے آپ چوہدری صاحب کو مناٸیں۔۔۔
نا پتر اُن کو مت بتانا کہ میں تم سے مل چکی ہوں
ورنہ تمہارے ساتھ ہی کوٸی مصیبت بنا دیں گے یا مجھے طلاق دے دیں گے اور پتر اِس عمر میں طلاق لینا بڑا ہی غلط کم ہے ۔۔
میں اپنی بچی رب کے بعد تمہاری پناہ میں دیتی ہوں اُس کا خیال رکھنا میرے بچے۔۔
میرا کلیجہ کٹ رہا ہے میرے بس میں کچھ نہیں چوہدری نہیں مانے گا😥😥
میری بچی کو لاوارث مت مرنے دینا تم سید ہو نا ہمارے وارث۔
میری بچی کے بھی وارث بن جانا سدرہ کی امی نے ایک بار پھر ہاتھ جوڑ 😢😢
ماں جی میں وعدہ کرتا ہوں کے جو بھی ہو سکا میں سدرہ کے لٸے کروں گا۔۔۔
سدرہ کی والدہ کچھ کہنا چاہتی تھی کے فیروز
جلدی سے روم میں داخل ہوا بی بی جی چوہدری صاحب آ گٸے ہیں شاہ ساٸیں جلدی آٸیں۔۔
میں سدرہ کی والدہ سے پیار پھرواتا ہوا جلدی جلدی روم سے باہر نکل آیا۔۔۔
......جاری ہے......