سکینڈل گرل
رائٹر سید مصطفی احمد
قسط نمبر 18
😢😥😭
ہم کراچی پہنچے تو میری طبیعت بہت خراب تھی
حوصلہ نہیں ہو رہا تھا کہ سدرہ کا سامنا کروں اور اُس کو بتاٶں کہ اُس کے ابو نے ملنے سے انکار کر دیا ہے۔۔۔۔
پوری رات سفر اور زہنی ٹینشن کی وجہ سے عجیب ہی کیفیت تھی۔۔
ماموں نے سختی سے کہا کہ تم گھر جاٶں اور آرام کرو شام کو آ جانا۔۔۔
جب میں شام کو گھر سے نکلا تو وہ تھیلا بھی اٹھا لیا جو سدرہ کی ماں نے بھجوایا تھا۔۔
کوٸی عجیب ہی کشش تھی اس کپڑے کے تھیلے میں جب بھی اس پہ نظر پڑتی دل بھر آتا اور آنکھیں نم ہو جاتی۔۔
ہسپتال آ کے پہلے ڈاکٹر سے ملا اُس سے سدرہ کی طبیعت کے بارے میں پوچھا۔۔۔
لیکن ڈاکٹر نے معزرت کرتے ہوٸے کہا
ہم کچھ نہیں کر سکتے مسٹر شاہ آپ کے پیشنٹ کی واٸنز بلاک ہونا شروع ہو گٸی ہیں۔۔۔
ہم تو اِس چیز پہ بھی حیران ہیں کے وہ اب تک زندہ کیسے ہیں۔۔
مجھے پتہ تھا وہ کیوں زندہ ہے...
امید انسان کو زندہ رکھتی ہے سدرہ کے دل میں بھی آس تھی کہ شاید میرے ماں باپ مجھ سے لیں...
اِسی بات نے سدرہ کو زندہ رکھا ہوا تھا۔۔۔
اور اب شاید یہ امید ٹوٹتے ہی اُس کی سانس کی ڈوری بھی ٹوٹ جاتی۔۔۔۔
میں آنسوٶ ضبط کرتا ہوا ڈاکٹر کے روم سے باہر نکل آیا۔۔۔
اب نیورولوجیکل وارڈ کے باہر بیٹھا حوصلہ جمع کر رہا تھا کہ سدرہ کا سامنا کیسے کروں۔۔
سدرہ سے میرا کوٸی خونی رشتہ نہیں تھا۔۔۔
محبت بھی نہیں تھی نہ کبھی اس نے کہا نا کبھی میں نے پھر بھی سدرہ کی تکلیف پہ دل کٹ رہا تھا۔۔۔
مجھے لگتا شاید بات اب محبت سے بھی آگے چلی گٸی تھی۔۔۔
آٹھ بجے اچانک میری کزن مہرین گھبراٸی ہوٸی باہر آٸی کہ سدرہ کی طبیعت خراب ہو رہی ہے۔۔۔
اُس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی میں وارڈ کی طرف بھاگا۔۔۔
سدرہ کے ہاتھ پاٶں حرکت نہیں کر رہے تھے اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔۔
مجھے کچھ نہیں سوجھ رہا تھا کیا کروں
بس سدرہ کے ہاتھ پاٶں دبا رہا تھا۔۔۔
تبھی نرسنگ سٹاف اور ڈاکٹر آ گیا۔۔۔
مسٹر شاہ آپ دس منٹ کے لٸے باہر جاٸیں پلیز۔۔
سر پلیز اسے بچا لیں سر
مسٹر شاہ اللہ بہتر کرے گا ویٹ کریں باہر جا کے
اگلے تیس منٹ ڈاکٹر اور نرسنگ سٹاف میڈیسن اور تھراپی کرتا رہا اور میں وارڈ کے باہر بے چینی سے سدرہ کی صحت یابی کی دعا مانگتا رہا۔۔
تیس منٹ بعد مجھے ڈاکٹر باہر آتا دکھاٸی دیا۔۔
میں فورًا ڈاکٹر کی طرف لپکا۔۔
کیسی ہے اب اُن کی طبیعت سر۔۔
مسٹر شاہ وہ ٹھیک ہیں لیکن اُن کے برین کا رابطہ باقی جسم سے منقطہ ہوتا جا رہا ہے۔۔۔
دعا کریں بہت مشکل ہوتی جا رہی ہے یہ کہتے ہوٸے ڈاکٹر اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
جب میں سدرہ کے بیڈ کے پاس پہنچا تو اب وہ تکیے سے ٹیک لگاٸے ہوٸے بیٹھی تھی سٹاف نے بیڈ بھی پیچھے سے تھوڑا اونچا کر دیا تھا۔۔۔
السلام علیکم کیسی ہو باندری میں نے مسکراتے ہوٸے پوچھا۔۔
وعیلکم سلام۔۔ آپ کی جان نہیں چھوڑنے والی بے فکر رہیں
سدرہ نے بھی مسکراتے ہوٸے جواب دیا۔۔
جان کون کمبخت چھڑوانا چاہتا ہے۔۔۔۔محترمہ
میں نے سدرہ کے پاس بیڈ پہ بیٹھتے ہوٸے کہا اور اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے دبانے لگا۔۔۔
تم لوگ باتیں کرو میں زرہ باہر سے ہو کے آتی ہوں۔۔
مہرین نےاٹھتے ہوٸے کہا اور باہر کی طرف چلی گٸی۔۔
مہرین کے جانے کے بعد کچھ دیر مکمل خاموشی رہی مجھے پتہ تھا وہ امی ابو کا پوچھے گی۔۔
کافی دیر بعد سدرہ کی کرب میں ڈوبی آواز سناٸی دی۔۔
شاہ وہ نہیں مانے نا۔۔
کون نہیں مانے میں نے انجان بننے کی کوشش کی۔۔
شاہ مجھے پتہ انہوں نے نہیں ماننا تھا۔۔
اُن کے لٸے رشتوں سے زیادہ انا اہم ہے۔۔
سدرہ ایسا نہیں ہے انہوں نے کہا کہ وہ آٸیں گے کچھ دن تک
میں نے جھوٹ بولا۔۔۔
شاہ سر آپ جھوٹ نہ بولا کرو فورًا پتہ چل جاتا ہے کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔۔
سدرہ میں ہار گیا ہوں پلیز مجھے معاف کر دینا۔۔۔
میں اُن کو نہیں منا سکا میں نے اپنی پوری کوشش کی۔۔۔
میں نے آنسو ضبط کرتے ہوٸے سدرہ کو حقیقت سے آگاہ کیا۔۔۔
شاہ سر مجھے آپ کی نیت پہ کوٸی شک نہیں مجھے پتہ ہے آپ نے پوری کوشش کی ہوگی۔۔۔
اور ویسے بھی شاہ سر مجھ جیسی منہوس اور بری لڑکی کا انجام ایسے ہی ہونا چاہیٸے لاوارث موت۔۔
اب سدرہ بنا آواز کے روٸے جا رہی تھی۔۔
تم لاوارث نہیں ہو میں ہوں ماموں ہیں وہ تمہیں اپنی بیٹی مانتے ہیں۔۔۔
میں نے سدرہ کے قریب ہوتے ہوٸے کہا۔۔۔
بلکل ایسا ہی ہے شاہ سر لیکن پھر بھی میں لاوارث ہی ہوں۔۔۔۔
اچھا دیکھو تمہاری امی نے کیا بھجیا ہے
میں نے سدرہ کا دھیان بٹانے کے لٸے بات بدلی
اور کپڑے کے تھیلے سے چیزیں نکالنے لگا۔۔۔۔
سدرہ نے سب سے پہلے گڑیا کو اپنے سینے سے لگایا
مجھے ایسے لگتا ہے میری امی آ گٸی ہیں شاہ سر😭😭
بہت جزباتی منظر تھا آنسو ضبط کرنا مشکل ہو رہا تھا۔۔۔
بڑی مشکل سے سدرہ کو چپ کروایا۔۔۔
اور اُسے باقی چیزیں دی۔۔۔
شال نکال کے دی تو سدرہ نے اُسی وقت اوڑھ لی۔۔۔
وہ اب بلکل سراٸکی لڑکی لگ رہی تھیبہت پیاری اور میٹھی۔۔۔
بیماری کے باوجود اُس کے چہرے پہ اب بھی نور تھا۔۔
باندری کیوں ایمان کمزور کرنا ہے بہت غضب کی پیاری لگ رہی ہو اتارو اِس کو۔۔۔
میں نے ماحول چینج کرنےکے لٸے بات بدلی۔۔۔
اچھا یہ پنجیری کھاٶ گی میں نے پنجیری والے ڈبے کو کھولتے ہوٸے کہا۔۔
ہاں نا کھاٶں گی سدرہ نے خوش ہوتے ہوٸے جواب دیا۔۔
مجھے بہت پسند ہے
اچھا جی تمہاری امی نے اِسی لٸے بھجواٸی ہے کہ تمہیں بہت پسند ہے😢
میں نے پاس پڑے ٹرے میں رکھی سپون اٹھاٸی
اور سدرہ کو پنجیری کھلانے لگا۔۔
میں کھا لوں گی نا مجھے دیں سدرہ نے ڈبہ لینے کی کوشش کی۔۔۔
نا میرا پتر تیرا کی وساہ ساری پنج ونجے
میرے واسطے بچے ہی نا اِس لٸے میں خود ہی کھلاٶں گا۔۔
میں نے ڈبہ پیچھے کرتے ہوٸے کہا۔۔۔
ہاہاہاہاہا توبہ شاہ سر آپ کبھی کبھی بچے بن جاتے ہیں
میں اتنی ظالم بھی نہیں کہ اب آپ کا حصہ کھاٶں
سدرہ نے ہنستے کہا۔۔
نا جی مینوں بھروسہ نہیں میں خود ہی کھلاٶں گا چلو منہ کھولو۔۔۔
واہ مالک تیری شان مجھے آج اپنی بیماری اچھی لگ رہی ہے شاہ صاحب مجھے اپنے ہاتھوں سے کھلا رہے ہیں 😉
میں نے اِس ایک پل میں اپنی زندگی جی لی شاہ سر
اب مجھے کوٸی دکھ نہیں۔۔
سدرہ نے بچوں کی طرح خوش ہوتے ہوٸے میرا ہاتھ چوم لیا۔۔۔
میری آنکھیں کچھ سوچتے ہوٸے بھیگ گٸیں۔۔۔
شاہ سر آپ رو کیوں رہے ہیں۔۔
کچھ نہیں بس ایسے ہی میں نے شرٹ کے کف سے آنسو صاف کیٸے۔۔۔
پلیز شاہ سر بتاٸیں ورنہ میں پنجیری نہیں کھاٶں گی سدرہ نے دھمکی دی۔۔
بلیک میل مت کیا کرو مجھے میں نے گھور کے دیکھا😒
ویسے آپ قابو بھی تو نہیں آتے 😀😀
چلیں بتاٸیں کیوں روٸے۔۔۔
سِڈ تمہاری امی نے بتایا تھا کہ تم ضد کر کے اُن سے اپنی پسند کی چیزیں بنواتی تھی۔۔۔
اور جب بن جاتی تو تم ضد کر کے کہتی امی خود ہی کھلاٸیں نا۔۔😥
مجھے وہ وقت یاد آ گیا تھا سِڈ
اس لٸے زرہ آنکھیں بھیگ گٸی اور تمہیں پنجیری خود کھلاٸی بھی اس لٸے۔۔۔
کہ تمہیں تمہاری امی والی محبت مل جاٸے😭😭😭
آنسو ایک پھر سے بے قابو ہو گٸے لیکن اس بار میں اکیلا نہیں تھا سدرہ بھی میرے ساتھ رو رہی تھی۔۔
میں نے چپکے سے سِڈ کو گلے لگا لیا۔۔۔۔
سِڈ بہت خوش تھی اب وہ گڑیا سے کھیلتی رہتی باتیں کرتی رہتی اور روز ایک دو چمچ پنجیری بھی کھاتی میں نے رب کا شکریہ ادا کیا کہ سِڈ کچھ نارمل ہوٸی ہے۔۔۔
مجھے لیاقت پور سے آٸے آج تیسرا دن تھا
میں وارڈ کے باہر بیٹھا تھا۔
سیل واٸبریٹ ہوا تو نکال کے دیکھا کسی نیو نمبر سے مس کال تھی۔۔۔
میں نے کال بیک کی لیکن فون کسے نے پک نہ کیا۔۔
ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ مس کال دوبارہ ہوٸی اب میں نے اگین کال کی تو کال فورًا پک کرلی گٸی۔۔۔
اسلام علیکم شاہ ساٸیں
وعیلکم سلام آواز کچھ جانی پہچانی لگ رہی تھی۔
شاہ ساٸیں میں فیروز ہوں
اووووہ فیروز کیسے ہو چوہدرانی جی کیسی ہیں
مولا کا احسان ہے شاہ ساٸیں۔۔
اور چوہدرانی جی خوش بھی ہیں اور غمگین بھی۔۔
ہاں فیروز ماں کے دل کا کوٸی مقابلہ نہیں کر سکتا۔۔۔
جی شاہ ساٸیں ایسا ہی۔۔
شاہ ساٸیں چوہدرانی جی بات کرنا چاہتی ہے سدرہ باجی سے اگر آپ کو سہی لگے تو۔۔
مجھے کیوں نہیں سہی لگے گا یہ تو بہت خوشی کی بات ہے تم دو منٹ ہولڈ کرو میں کرواتا ہوں۔۔
میں فیروز کو جواب دیتا ہوا وارڈ کی طرف جانے لگا۔۔
سِڈ باندری دیکھو کس کا فون ہے۔۔
میں نے خوشی چھپاتے ہوٸے کہا۔۔
کس ہے شاہ سر
سڈ خود بات کر لو لیکن زیادہ تنگ مت کرنا نا خود رونا نہ ان کو رولانا یہ کہتے ہوٸے میں نے سیل سدرہ کی طرف ٰبڑھا دیا۔۔۔
آ جاٶ مہرین زرہ باہر کی ہوا کھاتے ہیں تمیں بھوک لگی ہو گی میں نے مہرین کو آنکھ مارتے ہوٸے کہا۔
کیونکہ میں چاہتا تھا کہ سدرہ کھل کے امی سے بات کرلے۔۔۔
ماں سے سدرہ بات کر کے بہت خوش تھی۔۔
گیارہ بجے اُس کی ماں سے بات ہوٸی تین بجے تک وہ اور میں ہنسی مزاق کرتے رہے۔۔۔
تین بجے اچانک پھر اُس کی ناک سے خون آنا شروع ہو گیا میں فورًا ڈیوٹی ڈاکٹر کو بلا لایا۔۔
باوجود کوشش کے سدرہ کی طبیعت نہ سنبھل سکی۔۔۔
اور اگلے ایک گھنٹے میں سدرہ کو آٸی سی یوں میں منتقل کر دیا گیا۔۔
اب سدرہ دواٶں کے زیر اثر غنودگی میں تھی میں تھوڑی دیر کے بعد جا کے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔
سدرہ کو جب پہلے دن ہسپتال لاٸے تھے تو وہ بیہوشی کی حالت میں بھی رو رہی تھی۔۔
اُس کی آنکھوں سے مسلسل پانی بہ رہا تھا۔۔
لیکن آج وہ بے ہوش تو تھی۔۔
لیکن اُس کے لب مسکرا رہے تھے۔
اُس کے چہرے پہ سکون تھا اطمنان تھا۔۔۔
وہ رات ایسے ہی جاگتے اور پریشانی میں گزر گٸی ۔۔
تین بجے کے قریب سدرہ کو ہوش آ گیا ڈاکٹر نے اطلاع دی کہ آپ اپنے پیشنٹ سے مل سکتے ہیں۔۔۔
میں اکیلا ہی تھا ہسپتال کیونکہ کہ کل شام مہرین کو میں نے ماموں کے ساتھ گھر بھیج دیا تھا۔۔۔
وہ کافی دن کی تھکی ہوٸی تھی اور پھر سدرہ آٸی سی یو میں تھی میں نے کہا کہ اب ضرورت نہیں ہے دو لوگوں کی تم آرام کر لو آج کیرات۔۔۔۔
جب میں آٸی سی یو میں پہنچا تو وہ مکمل ہوش میں تھی اور کافی بہتر لگ رہی تھی۔۔
کیسی ہو سِڈ میں نے مکراتے ہوٸے پوچھا۔۔
سِڈ از ڈیڈ شاہ سر
شٹ اپ بکواس مت کرو تم۔۔
اب اگر ایسا کہا تو بات نہیں کروں
اچھا نہیں کہتی ایسے لیکن کچھ اور تو کہ سکتی ہوں نا۔۔
ہاں اور جو میرضی کہوں
آپ کی طرف میری دو وش اور رہتی ہیں شاہ سر۔۔۔
سدرہ نے میرا ہاتھ تھامتے ہوٸے یاد کروایا۔۔۔
ہاں مجھے یاد ہیں بولوں میں پوری کروں گا۔۔۔۔
سدرہ اب مکمل چپ تھی جیسے الفاظ ترتیب دے رہی ہو
تبھی گارڈ نے کہا کہ سر آٸی سی یو میں اتنی دیر رکنے کی اجازت نہیں آپ باہر آ جاٸیں۔۔۔
میں نے ایک پانچ سو کا نوٹ اس کی ہتھیلی پہ ہاتھ ملانے کے بہانے رکھتے ہوٸے کہا بس ہاف گھنٹہ کچھ بات کرنی ہے ضروری۔۔۔
اچھا سر جلدی کر لیں یہ کہتا ہوا وہ باہر چلا گیا۔۔۔
سِڈ بولو چپ کیوں ہو۔۔۔۔
شاہ سر بچپن سے لے کر جوانی تک میں گھر میں ہوتے ہوٸے بھی اکیلی رہی۔۔
نا کوٸی دوست تھی نہ کسی کے گھر آنا جانا بس سکول سے گھر اور گھر سے سکول۔۔۔
میری امی بھی بہت سادہ خاتون تھی۔۔
ان پڑھ تھی اِس لٸے جو ماں بیٹی کے درمیان دوستی ہوتی ہے وہ ان کے میرے درمیان نہ ہو سکی۔۔
اور امی ویسے بھی بس ہر وقت کام کرتی رہتی۔۔۔
بابا پیار بہت کرتے تھے لیکن طبیعت کے بہت سخت تھے۔۔۔
پھر دل کرتا تھا کہ بھاٸیوں سے ہنسی مزاق کروں تو وہ ڈانٹ دیتے تم لڑکی ہو جاٶ یہاں سے۔۔۔
چاہے جانے کا احساس بہت خوبصورت ہوتا ہے۔۔
اور مجھ میں یہ احساس دن بدن شدت اختیار کرتا جا رہا تھا۔۔۔
ہر کسی کا دل شدت سے چاہتا ہے کوٸی مجھے چاہے میری تعریف کرے میرا خیال رکھے۔۔
جب میری منگنی ہوٸی تو مجھے لگا تھا میری یہ کمی میرا منگیتر پوری کرے گا۔۔۔
جب لیپ ٹاپ لیا تو میں نے اُس سے بات کرنے کی کوش کی لیکن وہ ہیمشہ مصروف ہونے کا بہانا بنا دیتا اور بات نہ کرتا۔۔۔
تب یہ احساس اور شدت سے بھڑک اٹھتا
میں اپنی روم میٹ کو دیکھتی وہ ہنس ہنس کے اپنے چاہنے والوں سے باتیں کرتی وہ اُن کے نکھرے اٹھاتے پیار کرتے
تب مجھے لگتا کے میرا کوٸی نہیں ہے۔۔۔۔۔
میں نے اِسی احساس محرومی کے زیر اثر غیروں کو اپنا بنا لیا۔۔۔
لیکن شاہ سر غیر تو غیر ہی ہوتے ہیں نا
وہ مجھ سے پیار جتاتے میری تعریف کرتے تو میں خوشی سے پھولے نہ سماتی۔۔
مجھے سکون ملتا مجھے لگتا کہ یہی اصل زندگی ہے یہ کتنا چاہتے ہیں مجھے کوٸی تو ہے میرا۔۔۔
روم میٹ لڑکیاں میری تعریف کر کے پیار جتا کے میری ہر چیز استمال کر لیتی۔۔۔
اور میں خوشی خوشی اپنی ہر چیز دے دیتی
شاہ سر صرف بیٹی کی ضرورت پوری کرنا محبت نہیں ہوتا
کپڑے لے دے دیٸے اچھا کھانا دے دیا پیسے کھلے دے دیٸے اور سمجھا فرض ادا ہو گیا۔۔۔
نہیں شاہ سر سب سے بڑی چیز ہوتی ہے بیٹی کے لٸے محبت اُس کے پاس بیٹھنا اُسے اپنا وقت دینا۔۔۔۔
بیٹوں کے برابر اُس کی بات کو ترجیح دینا اُسے اعتماد دینا اُسے اچھے برے کا بتانا۔۔۔
میں یہ نہیں کہتی کہ میرے ماں باپ کو مجھ سے محبت نہیں تھی بہت محبت تھی لیکن انہوں نے مجھے اعتماد نہیں دیا پیار تو تھا ان کو۔۔۔
لیکن کبھی کھل کے اظہار نہیں کیا اور باپ اور بھاٸیوں کے سخت رویے نے مجھے دبو قسم کا بنا دیا۔۔
کوٸی زرہ سی اونچی آواز میں بات کرتا تو میں سہم جاتی۔۔
یہی وجہ تھی کہ میں سکندر کی محبت کے احساس میں بہت دور چلی گٸی اتنی دور کہ آج یہاں پڑی موت کا انتظار کر رہی ہوں۔۔۔۔
سدرہ اب رو رہی تھی اور میرے پاس بھی حوصلہ دینے کے لٸے کوٸی الفاظ نہیں تھے۔۔
سِڈ چھوڑو نا اِن باتوں کو ان شاء اللہ اب برا وقت نکل گیا کچھ نہیں ہو گا تمہیں۔۔۔
میں سٹول سے اٹھ کے سدرہ کے پاس بیڈ پہ بیٹھ گیا۔۔
شاہ سر مجھے حقیقت کا علم ہے میرا اور آپ کا ساتھ ختم ہونے والا ہے۔۔۔
میں سوچتی تھی کہ اِس زندگی نے مجھے دیا ہی کیا ہے ہمیشہ دکھ تکلیف۔۔
لیکن میں غلط تھی اِسی زندگی کی بدولت مجھے میرے بابا اور آپ ملے۔۔۔
میں نے اپنی زندگی میں صرف دو مردوں کے پاس خود کو محفوظ محسوس کیا۔۔۔
ایک میرے بابا ایک آپ یہ کہتے ہوٸے سدرہ نے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔۔۔
اور میں سوچ میں پڑ گیا۔۔
کہ بیٹی واقعی رحمت ہوتی ہے سدرہ کے باپ نے اُس کی آخری خواہش بھی رد کر دی تھی۔۔
لیکن وہ پھر بھی اُن سے اتنی ہی محبت کرتی تھی۔۔۔
اچھا سڈ اپنی خواہش بتاٶ۔۔
میں نے یاد کروایا۔۔
وہی بتانے لگی ہوں شاہ سر۔۔۔
جب میری سکینڈل ویڈیو لیک ہوٸی اور میں نے گھر چھوڑا پھر جسم فروشی کی دلدل میں پھنسی گٸی تو دماغ ہر وقت ڈپریشن کا شکار رہتا سٹریس اتنی ہوتی کہ جس کی حد نہیں ۔۔۔
کوٸی بھی لڑکی محبت سے مجبور ہو کے ایک مرد کو تو اپنا جسم سونپ سکتی ہے۔۔۔
لیکن ہر رات کسی نیو مرد کو اپنا جسم پیش نہیں کر سکتی اِس چیز نے مجھے توڑ کے رکھ دیا میں ڈیریشن اور سٹریس دور کرنے کے لٸے ہیوی ہیوی میڈیسن کھانے لگی۔۔
ساتھ حمل روکنے والی میڈیسن بھی کھانی پڑتینتیجہ آپ کے سامنے ہیں آج میں کینسر جیسے موزی مرض میں مبتلا ہو گٸی۔۔۔۔
پلیز سدرہ دفع کرو اِن باتوں کو مجھے کوٸی نہیں لینا دینا اِن باتوں سے۔۔۔
تم ایک عمدہ لڑکی ہو بہت پیاری بہت اچھی جو بھی ہوا تقدیر کا لکھا تھا سڈ پریشان نا ہو میرا دل صاف ہے تمہاری طرف سے۔۔۔
میں نے سدرہ کی پیشانی پے ہاتھ پھیرتے ہوٸے کہا
اور تم وہ بات بتاٶ جس کا کہا ہے تمہیں۔۔
اور اب اگر تم نے کوٸی پرانی بات یاد کی تو میں ہمیشہ کے لٸے چلا جاٶں گا۔۔۔
میں نے زرہ سخت لہجے میں کہا مجھے پتہ تھا وہ جتنی پرانی باتیں یاد کرتی جاٸے گی اتنی اُس کی طبیعت خراب ہوتی جاٸے گی۔۔۔
شاہ سر آپ مجھے نہیں چھوڑ سکتے مجھے یقین ہے
چھوڑوں گی تو میں آپ کو سدرہ کے لہجے میں یقین اور کرب دونوں شامل تھے۔۔۔
پھر بکواس میں نہیں بولتا۔۔
میں نے منہ پھیرتے ہوٸے کہا۔۔۔
اچھا نا سوری سنیں میری وش پوری کریں
اچھا سنیں نا وش بتاتی ہوں۔۔۔۔
جاری ہے