کال گرل
قسط نمبر 19
شاہ سر سنیں نا
ورنہ میں ناراض ہو کے کہیں دور چلی جاٶں گی۔۔۔
سدرہ کی اِس دھمکی پہ ایسا لگا سانس رک گٸی ہے۔۔
میں نے فورًا پلٹ کہ سدرہ کا ہاتھ تھام لیا فضول باتیں مت کرو پھر غصہ دلاتی ہو مجھے۔۔۔
کچھ دیر سدرہ مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہی
کیا دیکھ رہی ہو ایسے۔۔
شاہ سر سوچ رہی ہوں کیا تھا اگر آپ مجھے سکندر سے پہلے مل جاتے۔۔😥
جو نصیب میں تھا وہی ہوا اچھا بتاٶ کیا بتانا چاہ رہی تھی
میں نے بات بدلنے کے لٸے کہا۔۔۔
سدرہ کچھ دیر خاموش رہی۔۔
شاہ سر میری وصیحت لکھیں آپ
کیا فضول بات ہے سدرہ کچھ نہیں ہو گا تمہیں میں سرجری کروانے لگا ہوں تمہاری۔
میں گاڑی بیچ دوں گا گھر بیچ دوں گا پلیز ایسی باتیں مت کرو۔۔
شاہ سر آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے آپ کو بھی پتہ ہے مجھے بھی پتہ کہ اب یہ ساتھ ختم ہونے والا ہے۔۔
تو بہتر ہے آپ وعدے کے مطابق میری وش پوری کریں۔۔۔
سدرہ نے مضبوط لہجے میں کہا۔۔۔
اچھا وش بتاٶ وصیحت نہیں میں نے ہار ماننے والے انداز میں کہا۔۔
شاہ سر آپ نے مجھے رات کے اندھیرے میں دفن کرنا ہے روشنی میں میری میت کو گھر سے مت لے کے جانا۔۔۔۔
سدرہ پلیز نا کرو ایسا میں نے ظبط کرتے ہوٸے سختی سے کہا۔۔
شاہ سر آپ میری وش پوری کرنے کے پابند ہیں۔۔
اگر آپ بار بار روکیں گے تو میں نہیں بتاٶں گی۔۔
سدرہ کا لہجہ اب بہت سخت تھا وہ جب سے میرے پاس آٸی تھی آج پہلی بار اُس نے ایسے سختی سے بات کی تھی
میں چپ ہو گیا۔۔۔
دوسری بات شاہ سر جب میں مر جاٶں تو مجھے ایک بار اپنے گھر لے جاٸیے گا جس کمرے میں آپ سوتے ہیں اُس کمرے میں کچھ دیر میری میت رکھیے گا۔۔😢😢
شاہ سر میرے پاس کوٸی جاٸداد کوٸی پیسہ نہیں چند جوڑے کپڑوں کے ہیں میرا جو بھی سامان ہے وہ کچی آبادی میں ایک بیوہ عورت سعدیہ خالہ ہے اُس کی دو بچیاں جوان ہیں آپ بھابھی خادم بھاٸی کی بیوی کو کہنا اُس کو دے۔۔۔
جب مجھے کفن ڈال چکیں تو میری ماں نے جو چادر بھیجی ہے وہ مجھ پہ ڈال دینا میں اپنی ماں کا احساس اپنی ماں کی محبت ساتھ لے کے دفن ہونا چاہتی ہوں😭😭😭
اب میرے لٸے آنسو ضبط کرنا مشکل تھا۔۔۔😥
لیکن بات تو اُس کی پوری سننی تھی
شاہ سر جو تین ہزار امی نے دیٸے ہیں وہ پیسے ہمیشہ سنبھال کے آپ اپنے پاس رکھنا وہ پیسے میں نے آپ کو گفٹ کیٸے انہیں خرچ مت کریے گا۔😥
آج تک جو بھی آپ نے مجھ پہ خرچہ کیا ہے شاہ سر وہ سب بہت زیادہ ہے وہ سارا خرچہ میرے علاج پہ جو لگا مجھے اِس اُس جہاں بخش دینا
سِڈ میں نے کوٸی خرچہ نہیں کیا تم پہ تم اپنے سارے پیسے اتار چکی ہو۔۔۔
اور اب جو علاج پہ لگے ہیں وہ تمہارے ایک لاکھ سے زیادہ پڑے تھے میرے پاس اور باقی ماموں نے دیٸے ہیں۔۔😢😢
ماموں کے زکر پہ ایسا لگا سدرہ بلکل ٹھیک ہے۔
وہ تو میرے بابا ہیں اُن کے پیسوں کی مجھے فکر نہیں
سدرہ کی آنکھوں میں اچانک چمک ابھر آٸی۔۔
وہ تمہارے بابا ہیں تو میں کچھ نہیں ہوں میں نے شکوہ کیا
آپ تو میرا سب کچھ ہیں شاہ سر ہر رشتے کا پیار احساس مان آپ نے مجھے دیا۔۔
شاہ میری گڑیا اور میرا پرفیوم آپ رکھ لینا اور دیکھیں میرا پرفیوم ختم نہ ہونے دینا ورنہ میں مارو گی۔😒😒
آپ نے وہ پرفیوم کبھی کبھی لگانا ہے مجھے یاد کرنا ہے مجھے محسوس کرنا ہے میں جمرات کو آیا کروں😥
کریں گے نا یاد شاہ سر سدرہ نے تصدیق چاہی۔۔
سِڈ میں تمہیں کبھی نہیں بھولوں گا😭
اور ہاں شاہ سر آپ نے منیبہ آپی کا خیال رکھنا ہے اور میرا عبایا صرف آپی کو دینا ہے آپ نے
اب بس کرو اتنی وش پتہ نہیں میں پوری کر سکوں یا نہیں پلیز سِڈ چپ ہو جاٶ😢😢
مجھ سے اب اُس کی باتیں برداشت نہیں ہو رہی تھی۔۔
آپ پوری کریں شاہ سر مجھے پتہ ہے سدرہ نے یقین سے کہا۔۔
شاہ سر میری قبر کو پکا مت کرنا۔۔
میں نے کہیں پڑھا تھا
کہ جب لاوارث لوگ مر جاتے ہیں۔۔
اور اُن کی قبر کی کوٸی حفاظت نہیں کرتا۔۔
اور اُن کی قبر بارشوں اور وقت کے اتار چڑھاٶ میں اپنا نام ونشان کھو دیتی ہے مٹ جاتی ہے۔۔۔
تب اللہ پاک اُن پہ ترس کھا کے ان کو بخش دیتا ہے کے اِن کی خبر لینے والا کوٸی نہیں یہ لاوارث ہیں اِن کو بخش دو😭😭😭
سر میں تو لاوارث مروں گی نا میرے امی ابو مجھے نہیں ملنے آٸے شاہ سر میں بہت گندی ہوں😭😭😭
اِس لٸے آپ وعدہ کریں آپ کبھی بھی میری قبر پکی نہیں کرواٸیں گے اور نا کبھی میری قبر پہ نم آٸیں گے۔۔
میری قبر کو کچا چھوڑ دیں گے۔۔۔
کسی عید پہ کسی محرم میں میری قبر کا خیال نہیں کریں گے مجھے دفن کرنے کے بعد پلٹ کے کبھی میری قبر پہ نہیں آٸیں گے😭😭😭
سدرہ نے روتے ہوٸے ہاتھ میری طرف بڑھا دیا۔۔
میں عجیب امتحان میں پھنس گیا تھا وہ میری عزیز ترین ہستی تھی میں کیسے گوارہ کرتا یہ سب😢😢
سدرہ میں ایسا کچھ بھی وعدہ نہیں کروں گا
ٹھیک سر پھر میں آپ سے راضی ہو کے نہیں مروں گی ناراض جاٶں گی۔۔۔😭😭سدرہ نے یہ کہتے ہوٸے اپنا ہاتھ میرے ہاتھوں سے کھینچ لیا۔۔
میرا دل کٹ رہا تھا ایک طرف وہ جو وعدے لے رہی وہ بہت ہی برے اور سخت تھے میں کیسے پورے کرتا😭
اوپر سے یہ ستم کے وہ ناراض ہو گٸی تھی
اور میں یہ کیسے گوارہ کرتا کے میری عزیز ترین ہستی مجھ سے ناراض ہو جاٸے۔۔
میں نے محبت سے اُس کی پیشانی پہ ہاتھ پھیرا سِڈ وعدہ ہے جو کہا تم نے بھلے میرے لٸے مشکل ہے لیکن میں یہ سب پورا کروں گا۔۔۔۔
شاہ مجھے پتہ تھا آپ میری بات نہیں ٹالیں گے۔۔
شاہ سر ایک خط لکھیں گے میرے بابا کے نام۔۔
سڈ بتاٶں لیا لکھنا ہے میں نے بیڈ کے پاس پڑے ٹیبل سے کاغز اور بال پواٸنٹ اٹھاتے ہوٸے پوچھا۔۔
شاہ سر لکھیں۔۔
پیارے بابا
میں لاوارث مر رہی ہوں
لیکن مجھے کوٸی گلہ نہیں
جو میں نے کیا مجھے اُس کی سزا ملی ہے
لیکن بابا میرے دل میں شدید خواہش تھی آپ مجھے
قبر کے حوالے اپنی بانہوں میں لے کے کرتے😭😭
اگر آپ ایسا کرتے تو مجھے سکون آ جاتا۔
بابا میں بہت بُری ہو ناں
کے آپ نے میری آخری خواہش کو بھی اپنے پیروں کے نیچے روند دیا۔۔😭
بابا آپ تو کہتے تھے میری اچھی بیٹی ہے تُو
بابا جب میں بھٹک گٸی تھی تو آپ نے مجھے اپنی محبت سہی راستہ کیوں نہیں دکھایا تھا
بابا کاش مجھ سے پوچھ لیا ہوتا کے میں اپنے کیٸے پہ کتنی نادم تھی۔۔
بابا آپ سے جدا ہو کے میں نے پل پل درد سہا ہے
بابا جب بھی میرے جسم کو کوٸی نوچتا تھا
آپ مجھے شدت سے یاد آتے تھے۔۔
کے کاش میرے بابا پاس ہوتے تو اِن کو جان سے مار دیتے😭😭😭
بابا آپ نے جو کیا سہی کیا مجھ جیسی بدبخت کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیٸے تھا۔۔
مجھے پتہ ہے بابا آپ مجھ سے نفرت کرتے ہیں کرنی بھی چاہیٸے۔۔۔
لیکن بابا میں آج بھی آپ سے بہت محبت کرتی ہوں
مجھے آج بھی اپنا بچپن یاد ہے آپ کی گودی میں بیٹھ کھانا کھانا یاد ہے۔۔۔😭
بابا جب آپ کو میرا یہ خط ملے گا تب تک میں مر چکی ہوں گی
میرا جسم گل سڑ چکا ہوں گا
بابا بس دو گزارشیں ہیں اگر کبھی میری یاد آٸے تو دعا کرنا میری بخشی کی۔۔۔
دعا کرنا میرا رب مجھ سے راضی ہو جاٸے بابا کہتے ہیں مرنے والے کی براٸیاں نہیں اچھاٸیاں یاد کرنی چاہیٸے۔۔
لیکن افسوس بابا میرے کھاتے میں کوٸی اچھاٸی نہیں
بس ایک اچھاٸی کے علاوہ کہ میں آپ کی بیٹی ہوں😭😭
آٸی لو یو بابا آٸی مس یو بابا میں ہر پل آپ کو یاد کرتی ہوں۔۔۔😭😭
پیارے بابا مجھے معاف نہ بھی کرنا آپ لیکن میری امی کا خیال رکھنا میرے سارے گناہوں کی میں خود زمہ دار ہوں امی کا اِس میں کوٸی قصور نہیں پیلز🙏🙏اُن پہ رحم کرنا۔۔۔
بابا اجازت چاہتی ہوں اب آپ کی بیٹی یہ دنیا چھوڑ رہی ہے
الله حافظ😭😭😭
سدرہ کا خط لکھتے ہوٸے میری آنکھیں بار بار چھلک رہی تھی۔۔
اور مجھے اپنی بڑی بہن یاد آگٸیں میں جب بھی اپنی بڑی بہن کو دیکھتا تھا مجھے اُن میں امی ابو دونوں نظر آتے تھے میری بڑی بہن نے امی ابو کی ڈیتھ کے بعد مجھے ماں اور ابو جیسا پیار دیا تھا میری ہر خواہش پوری کی تھی کاٸنات کا واحد انمول تحفہ بیٹی ہے۔😭😭
🌺جو اپنے بھاٸیوں کے لٸے ماں کا روپ ہوتی ہے اور اپنے بابا کے لٸے بھی ماں کا روپ ہوتی ہے
لوگ کہتے ہیں وہ بیٹی ہوتی ہے لیکن میں کہتا ہوں وہ محبت میں باپ کی بھی ماں ہوتی ہے🌺
بھلے وہ نادانی میں غلط کر جاتی ہے لیکن وہ باپ سے ہمیشہ محبت کرتی رہتی ہے۔۔۔
شاہ سر بس اِس خط کو میرے مرنے کے بعد میرے بابا کوبھیج دیجٸے گا اور میری ہر وصیحت کو پورا کیجٸے گا۔۔
سِڈ ان شاء اللہ میں پوری کروں گا۔۔۔
لیکن سِڈ تم نے تو چار وش کہی تھی لیکن ابھی تو تین ہوٸی ہیں چوتھی کون سی ہے۔۔۔
شاہ سر چوتھی وش کوٸی نہیں بس ایسے ہی بول دیا تھا
سدرہ نے نظریں چراتے ہوٸے کہا
اب تم جھوٹ بول رہی ہو
بتاٶ مجھے کون سی چوتھی وِش ہے
لیکن سدرہ اب آنکھیں بند کیٸے پر سکون لیٹی تھی
تبھی گارڈ نے آ کے کہا سر ڈاکٹر وزٹ پہ آنے والا ہے پلیز باہر آ جاٸیں۔۔
اچھا سِڈ چلتا ہوں تب تک تم وش یاد کر لوں
الله حافظ باندری میں سدرہ کی پیشانی پہ ہاتھ پھرتا ہوا باہر نکل آیا۔۔۔
شام کو اچانک سدرہ کی طبیعت بہت خراب ہو گٸی۔۔
ڈاکٹر نے بتایا کہ اُس کی سیدھی ساٸڈ پہ فالج کا اٹیک ہوا ہے سیدھی ساٸڈ ورک کرنا چھوڑ گٸی ہے۔۔
اب سدرہ کی دو گھنٹے کے گیپ کے ساتھ مسلسل تھراپی کی جا رہی تھی۔۔
میں جب بھی آٸی سی یو میں اُسے دیکھنے گیا وہ غنودگی کی حالت میں ہوتی اور ایسا لگتا تھا کسی کشمکش میں ہے۔۔
دو دن بعد سدرہ کو صبح نو بجے مکمل ہوش آیا۔۔۔
نرس نے آ کے مجھے بتایا آپ کا پیشنٹ آپ کو بلا رہا ہے۔۔
میں جب بیڈ کے پاس پہنچا تو ایسا لگ رہا تھا کہ وہ میرا ہی انتظار کر رہی ہے۔۔۔
سڈ کیسی ہو تم میں
میں ٹھیک ہو شا ہ ہ ہ
مجھے اچانک شاک لگا
سدرہ کی زبان میں لکنت تھی ہکلاہٹ تھی
کیا ہوا سِڈ میں نے اُس کے قریب ہوتے ہوٸے بے چینی سے کہا۔۔۔
شاہ سر سفر آخرت کی تیاری ہےسدرہ نے ہکلاتے ہوٸے جواب دیا۔۔
شاہ سر بابا کو بلا دیں
سڈ بابا کو کیسے بلاٶں انہوں نے تو 😢
شاہ سر ماموں کو بلا دیں میرے لٸے وہ بھی بابا ہیں۔۔
ابھی بلاتا ہو سِڈ ۔۔
میں نے وہی کھڑے کھڑے ماموں کو کال کی اور سدرہ کی طبیعت کا بتایا اور کہا کہ وہ بلا رہی ہے۔۔
میں ایک گھنٹے میں آیا کہ کر ماموں نے کال بند کر دی۔۔
سدرہ کی ہکلاہٹ اب مجھ سے برداشت نہیں ہو رہی تھی شاید فالج کے اٹیک نے اُس کی زبان پہ بھی اثر کیا تھا۔۔۔
شاہ سر میں ایک وش ادھوری لے کے جا رہی ہوں
سِڈ پلیز بتاٶ کون سی وش میں ابھی پوری کر دیتا ہوں
میں نے سدرہ کا ہاتھ تھامتے ہوٸے کہا۔۔
شاہ سر میں اُس وش کے قابل نہیں اِس لٸے اُس وِش کا ادھورا رہنا ہی بنتا ہے اب سدرہ کی زبان میں ہکلاہٹ بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔
سِڈ پیلز اگر میری زرہ سی بھی عزت ہے تمہارے دل میں تو بتاٶ وہ وِش
سدرہ کچھ دیر خاموش رہی جیسے طاقت جمع کر رہی ہو۔۔
شاہ سر میں چاہتی تھی کہ جب منیبہ آپی آ جاٸیں گی رخصت ہو کے تو اُن کا دل جیت کے اُن کے پاٶں پکڑ کے کہوں گی کہ بس مجھے آپ سے نکاح کی اجازت دے دیں۔۔
لیکن سر زندگی کا ستم دیکھیں میرا خواب تعبیر حاصل نہ کر سکا۔۔۔
شاہ سر اب میں آخری سفر پہ جا رہی ہوں تو دل میں بڑی شدید خواہش تھی میں آپ کے نکاح میں مرتی اور قیامت والے دن رب سے آپ کا ساتھ جنت میں مانگتی۔۔😢😢
یہ کہ کر سدرہ نے آنکھیں بند کر لی
کچھ پل مجھ میں بھی بولنے کا حوصلہ نہ ہوا
مجھے منیبہ کے ساتھ گزرا ہوا اک اک پل یاد آ رہا تھا
کتنے خواب تھے جو میں نے اور منیبہ نے دیکھے تھے
اِس میں کوٸی شک نہیں کہ سدرہ کا میرا رشتہ محبت سے بھی آگے تھا لیکن منیبہ میں میری جان بستی تھی۔۔
میں کسی صورت اُس پہ کوٸی سوتن لانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔۔
سدرہ ٹھیک ہوتی اور منیبہ مجھے کہتی بھی کے آپ سدرہ سے نکاح کر لو تو بھی شاید میں ایسا نا کرتا۔۔۔
لیکن اب معاملہ بہت خراب تھا۔۔۔
سدرہ اپنی آخری سانسیں گن رہی تھی اُس نے ایک ایسے وقت میں اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا جب اُس کے پاس وقت ہی نہیں تھا۔۔
میں نے منیبہ کی اور اپنی محبت پہ نظر دوڑاٸی۔۔
پھر سدرہ کی گزری زندگی پہ نظر ڈالی مجھے لگا کہ منیبہ کے اور میرے پاس ابھی بہت وقت ہے زندگی جینے کے لٸے۔۔
ہمارے پاس بہت سے رشتے ہیں ہم دونوں نے زندگی میں مشکل وقت نہیں دیکھا نہ خونی رشتوں کی دوری اور نفرت دیکھی ہے۔۔۔
جبکہ کہ سدرہ نے ایک عجیب ہی زندگی پاٸی تھی ماں باپ بھاٸیوں کے پاس ہو کے بھی اُن کی محبت سے محروم رہی تھی
پھر جس مرد سے محبت کی جس مرد کو اپنا سب کچھ سونپ دیا وہ بھی دھوکہ دے گیا۔۔۔
مجھے لگا کے سدرہ کی یہ خواہش پوری ہونی چاہیٸے۔۔۔
سِڈ میں آج ہی تم سے نکاح کر رہا ہوں
میں نے پختہ ارادے سے کہا۔۔۔
لیکن وہ خاموش رہی۔۔
سِڈ میں تم سے نکاح کر رہا ہوں آج ہی تم بولتی کیوں نہیں۔۔
سِڈ پلیز بولوں نا میں کروں گا نکاح تم سے کچھ جواب کیوں نہیں دے رہی تم
لیکن سدرہ ہنوز آنکھیں بند کیٸے خاموش تھی۔۔۔
مجھے اُس وقت دنیا کی بُری ترین چیز خاموشی لگ رہی تھی میرا بس نہیں چل رہا تھا۔۔۔
شاہ سر اب وقت نہیں رہا اب اِس باب کو بند کر دیں۔۔۔
سدرہ کرب اور تکلیف کو ضبط کرتے ہوٸے بولی۔۔۔
کیوں وقت نہیں رہا بہت وقت ہے میں ابھی ماموں کو کال کرتا ہوں۔۔۔
یہ کہتے ہوٸے میں نے جیکٹ کی جیب سے سیل نکالا۔۔
نہیں آپ بابا کو کال نہیں کریں گے۔۔
سدرہ نے سختی سے منع کر دیا۔۔
سدرہ پلیز مان جاٶ نا
میں نے سدرہ کے سامنے ہاتھ جوڑ دیٸے۔۔
شاہ سر پلیز ایسا نہ کریں سدرہ تڑپ اٹھی
اگر چاہتی ہو کے میں ایسا نہ کروں تو مان جاٶ میں تمہاری آخری وش پوری کرنا چاہتا ہوں۔
سدرہ ایک بار پھر خاموش ہو گٸی۔۔۔
سِڈ بولو بھی۔۔
میں چاہتا تھا کہ وہ جلدی ہاں کرے تانکہ کے میں ماموں سے بات کر سکوں۔۔
شاہ سر ٹھیک ہے لیکن میری ایک شرط ہے سدرہ نے بنا آنکھیں کھولے جواب دیا۔۔
بولو مجھے ہر شرط منظور ہے۔۔
شاہ سر میں چاہتی ہوں کہ منیبہ آپی میرے نکاح میں شریک ہوں اور خوشی سے اجازت دیں۔۔۔
میں نے سدرہ کی بیماری کی ایک ایک منٹ کی رپورٹ منیبہ کو دی تھی۔۔۔
لیکن اِس کے باوجود مجھے ایک فیصد بھی یقین نہیں تھا کہ منیبہ سدرہ سے میرے نکاح کے لٸے مان جاٸے گی۔۔۔
کیونکہ کوٸی بھی لڑکی اپنے شوہر کے معاملے میں اتنے بڑے دل کی مالک نہیں ہوتی۔۔۔
اور منیبہ تو بلکل نہیں تھی وہ میری پوسٹ پہ کمنٹ دیکھ کے لڑ پڑتی تھی نکاح کی اجازت دینا تو بہت دور کی بات تھی۔۔
سدرہ یہ کیسے ممکن ہے وہ بہت دور ہے اُسے آنے کے لٸے چوبیس گھنٹے لگیں گے میں اتنا ویٹ نہیں کر سکتا۔۔
اور دوسری بات اُس کے پیپر ہو رہے ہیں۔۔
اُس کا لاسٹ سمسٹر ہے فاٸنل پیپر ہیں۔۔۔
وہ نہیں آ سکے گی۔۔
تو سر آپ میری آپی سے بات کروا دیں اگر وہ خوشی سے اجازت دیں گی تو ہی میں ہاں کروں گی۔۔
سدرہ نے ہکلاتی آواز میں جواب دیا۔۔او کے ڈن میں بات کرواتا ہوں تمہاری۔۔
میں نے منیبہ کو کال کرنے کے لٸے سیل جیب سے نکالا۔۔
دو تین بار ٹراٸی کیا لیکن منیبہ کا نمبر بند تھا۔۔۔
سڈ منیبہ کا نمبر بند ہے تم آرام کرو میں گھر والے نمبر پہ رابطہ کرتا ہوں۔۔۔
یہ کہتا ہوا میں آٸی سی یو سے باہر نکل آیا۔۔۔
مجھے یہ تو یقین تھا کہ منیبہ نہیں مانے گی
لیکن ساتھ یہ بھی یقین تھا کہ وہ میری خاطر مان بھی جاٸے گی۔۔۔
یہ سوچ کے میں نے اگین منیبہ کا نمبر ملایا۔۔
ایک بار دو بار سو بار لیکن نمبر سوٸچ آف آ رہا تھا۔۔
اب مجھے ٹینشن ہونے لگی کہ منیبہ کا نمبر آف کیوں ہے ایسا پہلے تو کبھی نہیں۔۔۔
واٹس ایپ چیک کیا تو اُس پہ لاسٹ سین یس ٹر ڈے 6.50 کا تھا۔۔
فیس بک چیک کی اُس پہ بھی یہی لاسٹ سن تھا۔۔۔
اب میرا سر درد سے پھٹنے لگا سدرہ کی ٹینشن الگ تھی ادھر سے منیبہ کل شام سے آف تھی اب دس بج رہے تھے۔۔
سدرہ کی پریشانی میں
اِس چیز کو بھی میں بھول گیا کہ منیبہ روز صبح مجھے میسج کرتی ہے گڈ مارننگ کا لیکن آج اُس کا میسج نہیں آیا۔۔
میں نے کچھ سوچتے ہوٸے خالہ کا نمبز ملایا۔۔۔
بیل جاتی رہی لیکن کال پک نہیں ہوٸی۔۔
مجھے پتہ تھا خالہ اِس وقت سکول بزی ہوں گی اس لٸے میسج چھوڑ دیا کال می۔۔۔۔
میں مسلسل منیبہ کا نمبر ٹراٸی کیٸے جا رہا تھا
اب بات برداشت سے باہر ہوتی جا رہی تھی۔۔۔
آدھے گھنٹے بعد خالہ کی کال آگٸ۔۔
السلام علیکم خالہ۔
وعیلکم السلام مصطفی کیسے ہو بیٹا۔۔
الحَمْدُ ِلله خالہ آپ سناٸیں۔۔
میں بھی ٹھیک ہوں بیٹا۔۔
خالہ منیبہ سے بات ہوٸی آج آپ کی
نہیں بیٹا کل شام کو ہوٸی تھی
خالہ اُس کا نمبر کیوں آف ہے ۔۔
بیٹا کل شام کو یہاں بہت سخت بارش اور آندھی آٸی تھی
کل سے لاٸٹ بند ہے ہو سکتا ہے۔۔
یونیورسٹی کی بھی لاٸٹ بند ہو جس کی وجہ سے موباٸل چارجنگ نہ ہو۔۔۔
جی خالہ ہو سکتا ہے۔۔
مصطفی بیٹے خریت ہے تم کچھ پریشان لگ رہے ہو
نہیں خالہ ایسی کوٸی بات نہیں بس منیبہ سے رابطہ نہیں ہوا اس وجہ سے۔۔۔
اچھا میں دیکھتی ہوں اُس کی کسی دوست سے رابطہ ہوتا ہے تو کہتی ہوں بات کرے تم سے۔۔
جی خالہ بہتر۔۔
اچھا بیٹا پھر بات ہو گی ابھی سکول ہوں میں
جی خالہ اللہ حافط ۔۔۔
اف خدایا اب میں کیا کروں۔۔۔
کیسے رابطہ کروں۔۔
گیارہ بجے ماموں ممانی اور مہرین ہسپتال آگٸے۔۔
سلام ماموں
وعلیکم سلام شاہ جی میں لیٹ ہو گیا اصل میں تمہاری ممانی اور مہرین کو گھر سے لینے چلا گیا تھا۔۔۔
جی ماموں آ گٸی سمجھ کیوں لیٹ ہوٸے آپ۔
اچھا آپ مل لیں سدرہ سے پھر مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔۔
شاہ جی خیریت ہے کچھ زیادہ ہی پریشان لگ رہے ہو۔۔۔
آپ سدرہ سے مل کے آٸیں ماموں پھر کرتے ہیں بات۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے آتا ہوں یہ کہتے ہوٸے ماموں آٸی سی یو کی جانب بڑھ گٸے۔۔۔
میں مسلسل پاگلوں کی طرح منیبہ کا نمبر ٹراٸی کر رہا تھا۔۔
اُس وقت میں یہ فیصلہ نہیں کر پارہا تھا کہ مجھے منیبہ سے رابطہ نہ ہونے کی ٹینشن ہے یا سدرہ کی وِش ادھوری رہ جانے کی ٹینشن۔۔۔
میں انہی سوچوں میں گم تھا جب ماموں نے میرے کندھے پہ آ کے ہاتھ رکھا۔۔۔
میں نے سر اٹھا کہ دیکھا تو ماموں کی آنکھیں بھیگی ہوٸی تھی۔۔
کیا ہوا ماموں سب خریت تو ہے
شاہ جی بہت سارے لوگوں کو اپنے ہاتھوں سے الوداع کیا ہے مجھے لگ رہا ہے میری بچی کا آخری وقت آ گیا۔۔۔
پلیز ماموں ایسے نا کہیں
اور مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔۔۔
شاہ جی اللہ صحت دے سدرہ کو لیکن مجھے بہت دکھ ہے کہ میری بچی اب ہم سے جدا ہو جاٸے گی۔۔۔
ماموں نے آنکھیں صاف کرتے ہوٸے کہا۔۔
پلیز ماموں ایسے نا کہیں کچھ نہیں ہو گا اُسے😥
ماموں چلے نیچے چلتے ہیں مجھے بہت ضروری بات کرنی ہے آپ
ہم لوگ سیڑھیاں اتر کے نیچے آ گٸے۔۔
ہسپتال کے گراٶنڈ میں بہت پیارے پودے اور پھول لگے ہوٸے تھے۔
اور جا بہ جا اٹینڈن کے بیٹھنے کے لٸے بنچ رکھے ہوٸے تھے ہم بھی ایک بنچ پہ بیٹھ گٸے۔۔
بولو مصطفی کیا بات ہے کیوں اتنے گھبراٸے ہوٸے ہو۔۔
ماموں نے بیٹھتے ہی سوال کیا۔۔
میں نے ماموں کو سدرہ کی اب تک کی ساری وِش اُس کے باپ سے ملنا اور سدرہ وصیت ہر چیز بتا دی۔۔۔
اور یہ بھی بتا دیا کہ وہ نکاح کے لٸے مان ہی نہیں رہی تھی۔۔
لیکن میں نے مجبور کیا تو مان گٸی ہے لیکن جو اُس نے شرط رکھی ہے وہ پوری نہیں ہو سکتی منیبہ کبھی نہیں مانے گی۔۔۔
ماموں کافی دیر سر جھکاٸے سوچتے رہیں اور جب بولے تو ان کی آواز بہت بھاری اور اداس تھی جیسے پتہ نہیں کس ازیت سے لڑتے رہے ہوں اب تک۔۔
شاہ جی میں کبھی نہیں چاہوں گا کہ تمہارا اور منیبہ کا رشتہ سدرہ کی وجہ سے خراب ہو۔۔
تم بلکل سہی کہ رہے ہو کہ منیبہ کبھی نہیں مانے گی۔۔
سدرہ ٹھیک ہوتی صحت مند ہوتی تو بات پھر بھی سمجھ آتی تھی۔۔
اب اُس کے پاس وقت نہیں ہے تو بہتر یہ ہے کے تم اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹ جاٶ۔۔۔
ماموں آپ مجھے جانتے ہیں بچپن سے
جب میرے ابو فوت ہوٸے تھے تب امی کو آپ نے ہی سہارا دیا تھاحالانکہ کے چار ماموں اور بھی تھے۔۔
کیا آپ کی تربیت ایسی ہے کہ میں اِس فیصلے سے پیچھے ہٹ جاٶں۔۔
مصطفی تم اپنی جگہ سہی میں اپنی جگہ میں اِس فیصلے کے حق میں نہیں ہوں
باقی منیبہ سے بات کر لو اگر وہ قربانی دے دے تو کر لینا
نکاح مجھے کوٸی اعتراض نہیں۔۔۔
ماموں منیبہ سے رابطہ نہیں ہو رہا خالہ سے بات ہوٸی ہے وہ بتا رہی تھیں کہ رات سے اُدھر بارش اور طوفان ہے بجلی بند ہے میں نے ایک بار پھر منیبہ کا نمبر ملاتے ہوٸے ماموں کو بتایا۔۔
اچھا اللہ بہتر کرے چلو ناشتہ کرتے ہیں مجھے پتہ ہے تم نے کل سے کچھ نہیں کھایا ہو گا۔۔۔۔
میری ہر کوشش کے باوجود میرا منیبہ سے شام تک رابطہ نا ہو سکا۔۔
اور اِسی وجہ سے میں دن کو آٸی سی یو بھی نہیں گیا تھا
نا ہی حوصلہ ہوا کے سدرہ سے بات کروں۔۔
شام کو جب میں آٸی سی یو میں گیا سدرہ بہت ہی کمزور نظر آ رہی تھی۔۔۔
میں نے بات کرنی کی کوشش کی لیکن اب اُس کی زبان میں لکنت بہت زیادہ آگٸ تھی
وہ باوجود کوشش کے بول نہیں پا رہی تھی۔😥😥
بولنے کی کوشش کرتے ہوٸے ہوٸے اُس کے چہرے پہ تکلیف کے آثار نمودار ہو رہے تھے😥😥
میرا اب حوصلہ جواب دے رہا تھا
سدرہ اب خاموش ہو گٸی اور آنکھیں بند کر لی
جیسے ہار مان لی ہو کے اب میں بول نہیں سکوں گی کبھی
سِڈ بولو نہ مجھ سے بات کرو پلیز سِڈ
لیکن وہ اب بلکل خاموش تھی۔
بس آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے
سِڈ کچھ تو بولوں۔۔
نا کرو ایسا میں نے اُس کے قریب ہوتے ہوٸے اُس کا چہرہ ہاتھوں میں لے لیا۔۔۔
اُسے آکجیسن ماسک لگا ہوا تھا۔۔
سدرہ اب نہ آنکھیں کھول رہی تھی نہ بول رہی بس روٸے جا رہی۔😥😥
اب میرا ضبط جواب دے رہا تھا میں نے سدرہ کی پیشانی چومی اور آٸی سی یو سے باہر آ گیا۔۔۔
باہر ماموں ممانی مہرین فیضان سب تھے۔۔
میرے باہر نکلتے ہی ماموں میری طرف لپکے
مصطفی خیریت تو ہے رو کیوں رہے ہو۔۔
ماموں وہ مجھ سے بات نہیں کر رہی😭
بول نہیں رہی میں ماموں کے گلے لگ کے رو پڑا
رو تو ماموں بھی رہے تھے مہرین بھی رو رہی تھی۔
ماموں نے مجھے حوصلہ دیتے ہوٸے کہا میں ڈاکٹر کے پاس جا رہا ہوں۔۔
مجھے یاد آیا کہ خادم حسین اور بھابھی کو بتانا چاہیٸے خادم نے سدرہ کو اپنی بہن کہا تھا۔۔
میں نے بھابھی کے نمبر
پہ کال کی اور بتایا کہ سدرہ کی طبیعت بہت خراب ہے۔
اُن لوگوں نے کہا ہم ابھی آ رہے ہیں۔۔
میرا بس نہیں چل رہا تھا پورا کراچی اکٹھا کر لوں چیخ چیخ کے بتاٶں کہ وہ بات نہیں کر رہی مجھ سے۔۔۔
دس بجے ڈاکٹر نے سدرہ کی طبیعت زیادہ خراب ہونے کی اطلاع دی اور بتایا کے اُن کی باڈی اب مکمل ورک چھوڑ چکی ہے۔۔۔
hhh