کال گرل
قسط 2
رائٹر سید مصطفیٰ احمد
سہراب گوٹھ میں پٹھانوں کے ایک ہوٹل پہ پراٹھے اور آملیٹ بہت مزے کا ملتا تھا..
اور اُن کی چاٸے بھی بہت اچھی تھی اس لٸے میں نے اُسی پہ گاڑی روکی۔۔۔
وہ اترنے لگی تو میں نے منع کر دیا۔
آپ گاڑی میں ہی بیٹھیں میں ناشتہ لے کے آتا ہوں
اور پلیز برا نا مناٸیے گا یہ دوپٹہ جو آپ نے گلے میں ڈالا ہوا ہے اس کو سر پہ اوڑھ لیں۔۔۔
میرے ایسا کہنے پہ اس نے مجھے ممنون نظروں سے دیکھا جنہیں میں نظر انداز کرتا ہوا ناشتے لینے چلا گیا۔۔
کیوں کہ میں یہ سب خالص اللہ کی رضا کے لٸے کر رہا تھا میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے دل میں غرور آٸے یا اس کی نظروں میں اپنے لٸے شکرگزاری دیکھوں۔۔۔
میں نے دو پراٹھے دو آملیٹ اور تین کپ چاٸے آرڈر کی میں خود بھی رات دو بجے سے جاگ رہا تھا۔۔
جس کی وجہ سے مجھے بھی بھوک لگ رہی تھی میں پیسے دے کے گاڑی میں آ گیا۔۔
کیونکہ گاڑی تھوڑی ہوٹل سے دور کھڑی تھی ابھی ہلکا یلکا اندھیرا تھا۔۔۔
اور کراچی کے حالات اتنے اچھے نہیں ہیں کہ اتنی صبح کسی عورت کو اکیلے گاڑی میں چھوڑا جاٸے خاص طور پہ سہراب گوٹھ جیسی جگہ پہ تو بلکل نہیں۔۔۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی میں نے کہا آپ پچھلی سیٹ پہ چلی جاٸیں اور آرام سے ناشتہ کر لیں۔۔۔
اُس نے جی اچھا کہا اور گاڑی کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی جو کہ ہمیشہ کی طرح نہیں کھلا۔۔۔
کیونکہ دروازے میں لگا کیچر اندر سے ٹوٹا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ عام بندے کے لٸے کھولنا مشکل تھا۔۔۔
مجبوراً مجھے اتر کے اس کے لٸے دروانہ کھولنا پڑا
اِتنی دیر میں ناشتہ آ گیا۔۔۔
میں نے ناشتہ کرتے ہوں اسے بلکل نظر انداز کر دیا ۔
وجہ یہ تھی کہ وہ آرام سے ناشتہ کر لے بھوکی تھی کسی شرم میں نہ رہے۔۔۔۔
میں خود بھی ناشتہ کرنے لگا۔۔۔
کچھ ہی دیر بعد مجھے اس کی آواز آٸی
سر پانی چاہیٸے
او سوری مجھے خیال نہیں رہا میں نے یہ کہتے ہوٸے چاٸے کا کپ ڈیش بورڈ پہ رکھا۔۔۔
اور پانی لینے جانے لگا تو اس نے روکا سر آپ ناشتہ کر لیں پھر لے آٸیٸے گا
میں اُس کی بات کو نظر انداز کر کے باہر چلا گیا مجھے یاد ہی نہیں تھا جب انسان کچھ گھنٹوں کے بعد کھانا کھاتا ہے تو اسے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔
اُس نے تو تین دن سے کچھ نہیں کھایا تھا میں نے منرل واٹر کی بوتل لی اور جلدی سے واپس آ گیا۔۔۔۔
یہ لیں پانی میم پانی کی بوتل اُس کی طرف بڑھاتے ہوٸے میری نظر اتفافیہ طور پہ اس کی گردن پہ پڑ گٸی
جہاں ریڈ ریڈ نشان نظر آ رہے تھے ایسا لگ رہا تھا کسی نے تشد کیا ہو۔۔۔۔
اُس نے پانی کی بوتل پکڑتے ہوٸے جزاك اللهُ کہا جو کہ مجھے کافی عجیب لگا۔۔
ناشتےسے فارغ ہو کے میں نے اُس سے پوچھا کہ میم اب آپ کو کہاں اتاروں۔۔
سر جہاں آپ کا دل کرے آپ اتار دیں میرا کوٸی گھر نہیں
اُس کی آواز میں پھتاوا تھا۔۔
مجھے حیرانی ہوٸی کہ جسم فروش ہی سہی مگر یہ کیسا جواب ہے گھر تو ہو گا بھلے رینٹ کا ہی سہی یا کہیں تو رہتی ہو گی۔۔۔
شاید اس نے میری آنکھوں میں یہ سوال پڑھ لیا تھا
سر میں رہتی تھی ایک گھر میں کسی کے پاس لیکن اب مجھے وہاں نہیں جانا میرا ضمیر گورا نہیں کر رہا۔۔
اُس کی ضمیر گوارا نہ کرنے والی بات پہ میرا دل چاہا زور سے قہقہہ لگاٶں اور اسے کہوں کہ محترمہ آپ کس ضمیر کی بات کر رہی ہیں۔۔۔
جسم فروشی کرتے وقت ضمیر کدھر جاتا ہے لیکن مجھے یہ باتیں کرنے کا حق نہیں تھا۔۔۔
اب مجھے بھی الجھن ہو رہی تھی کہ اس سے کیسے پیچھا چھڑواٶں۔۔۔
سر آپ پریشان نہ ہوں میں یہی اتر جاتی ہوں اور سر میں خاندانی جسم فروش نہیں ہوں بس ایک غلطی کی وجہ سے پھنس گٸی ہوں۔۔۔
میرا ضمیر ہر روز مجھ پہ لعنت بھیجتا ہے لیکن مجبور ہوں کیا کروں کوٸی راہ نظر نہیں آتی۔۔۔
میں نے مڑ کے دیکھا تو اس کی آنکھیں بھیگی ہوٸی تھیں
مجھے ایسا لگا جیسے اُس نے میری سوچ پڑھ لی ہے اب مجھے شرمندگی ہونے لگی کہ کسی کے دل کا حال اللہ ہی جانتا ہے مجھے کیا حق ہے ایسا فتوی دوں۔۔
کیا پتہ وہ واقعی مجبور ہو
اسی اثنإ میں اس نے گاڑی کا دروازہ دروازہ کھولا اور اتر گٸی۔۔۔
اب میں نے اُسے غور سے دیکھا تھا وہ واقعی کسی اچھے خاندان سے تھی پتہ نہیں کس وجہ سے یہ گندہ کام کرنے پہ مجبور تھی۔۔
وہ گھوم کے میری ساٸیڈ پہ آٸی اور میری آنکھوں میں دیکھتے ہوٸے بولی
سر آپ نے آج بہت بڑا احسان کیا ہے مجھ پہ بھوکے کو کھانا کھلانا اللہ کو بہت پسند ہے میرے پاس جسم کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے دینے کے لٸے۔۔۔
مجھے پتہ ہے وہ آپ لیں گے نہیں میں گناہگار ہوں لیکن آپ کے اس عمل کا اجر اللہ آپ کو ضرور دے گا
الله حافظ سر
ایک پیشہ ور جسم فروش عورت سے اس قسم کی گفتگو کی مجھے توقع نہیں تھی۔۔۔
پیشہ ور عورتیں تو مدد بھی اپنا حق سمجھ کے وصول کرتی ہیں۔۔۔
جب میں خیالوں سے باہر آیا تو تو وہ کافی دور جاتی دکھاٸی دی۔۔
میرے دل میں اچانک روشنی پھیلی کہ یار اس کی مدد کرنی چایٸے آگے اِس کی مرضی۔۔۔۔۔
میں نے گاڑی سٹارٹ کی اور بیک کر کے جس طرف وہ جا رہی تھی ادھر موڑ دی ایک منٹ سے بھی پہلے میں اس کے برابر پہنچ گیا۔۔۔
گاڑی روک کے میں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بیٹھنے کے لٸے کہا۔۔
اس نے ایک نظر میرے چہرے کو غور سے دیکھا دوسرے ہی لمحے اس کے چہرے پہ بلا کا سکون تھا۔۔۔
اس نے فرنٹ دوڑ کھولا اور میرے برابر آ کے بیٹھ گٸی۔۔۔
گاڑی گیٸر میں ڈالتے ہوٸے نجانے مجھے اپنے اندر کیوں سکون محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔
گاڑی چلتے ہی اس نے آنکھیں موند لی اور سر سیٹ سے ٹکا لیا میں نے ایک نظر غیر ارادی طور پہ اس کے چہرے کو دیکھا جہاں اب سکون ہی سکون تھا۔
میں اب سوچ میں پڑ گیا کہ اس کی مدد کا ارادہ تو کر لیا ہے لیکن اس کی مدد کروں کیسے...
اگر میری واٸف میرے پاس ہوتی یا بچے ہوتے تو اس کو اپنے گھر میں رکھ لیتا لیکن میں اکیلا رہتا تھا۔۔۔
اس لٸے ایسا رسک لینا بہت خطرناک تھا۔۔
پہلے سوچا ماموں سے بات کرتا ہوں
لیکن پھر خود ہی اپنی بات کی نفی کر دی۔۔۔
کیونکہ کہ ماموں نے کہنا تھا پیسے دے دو کچھ اور چلتا کرو۔
لیکن مجھے پتہ تھا اس مسٸلے کا حل پیسا نہیں تھا
میں اسے پیسے دے دیتا جتنے بھی لیکن وہ ان پیسوں سے خود کو اس گندگی سے نکال نہیں سکتی تھی
میں نے ایک مال کی پارکنگ میں گاڑی پارک کی
اور اتر کے باہر آ گیا
وہ شاید سو گٸی تھی میں نے بھی یہی مناسب سمجھا کے کچھ دیر سو لے۔
میں نے اپنے ہیڈ کو کال کی کہ سر آج میں آفس نہیں آ سکوں گا۔۔۔
کچھ زاتی کام آ گیا ہے اچانک۔۔
دوسری کال اپنے آفس میں کولیگ کو کی کہ آج پی اے کو کہ دو میں کوٸی میٹنگ اٹینڈ نہیں کر سکوں گا کسی کلاٸنٹ کو ٹاٸم نہ دے۔۔۔۔
کال سے فری ہوا تو آ جا کہ پھر سوٸی وہیں اٹک گٸی کہ اسے رکھوں کہاں۔۔۔
پہلے سوچا دوستوں سے بات کرتا ہوں
میرے دو دوست شادی شدہ تھے ایک کی بیوی بہت شکی مزاج تھی دوسرا ویسے کافی رنگین میزاج تھا سو اُن والا بھی پلان خود ہی کینسل کر دیا۔۔۔
پھر سوچا کہ کوٸی مکان رینٹ پہ لے دیتا ہوں
کافی جاننے والوں کو کال کی مگر سب نے پہلے پوچھ کیا کرنا ہے رینٹ پہ اپنا مکان کدھر ہے ہمارا گھر ہے نا آ جاٶ رینٹ پہ لینے کی کیا ضرورت ہے۔
آخر تنگ آ کے دو تین پراپرٹی والوں سے بات کی لیکن وہ مکان بہت بڑے ہیوی رینٹ والے تھے۔۔۔
اسی سوچو و بیچار میں پتہ ہی نہیں چلا کہ ہمیں یہاں رکے دو گھنٹوں سے زیادہ کا وقت ہو گیا ہے۔۔۔
پارکنگ میں جو چوکیدار تھا اس نے آ کے پوچھا کہ سر کوٸی مسلہ ہے تو بتاٸیں آپ کافی دیر سے کھڑے ہیں
میں نے بتایا کہ میڈم کی طبیعت نہیں سہی اس لٸے رک گیا تھا پھر وہ سو گٸی سوچا کچھ دیر سو لیں تو جاتے ہیں۔
گارڈ کے جانے کے بعد اچانک مجھے اپنے آفس کا گارڈ یاد آ گیا جس کا گھر ایک کچی آبادی میں تھا۔۔۔
اور مجھے اس نے ایک بار کہا تھا کہ سر اب گھر کا اوپر والا حصہ خالی ہو گیا ہے اس لٸے خرچہ پورا نہیں ہوتا دعا کریں شاہ جی کوٸی کرایہ دار مل جاٸے۔۔۔
میں نے فورراً آفس کال کر کے کال آپریٹر کو گارڈ سے بات کروانے کا بولا
کچھ ہی دیر بعد مجھے اس کی آواز سناٸی
السلام علیکم صاحب جی
وعلیکم سلام خادم حسین کی حال اے تیرا
بس ساٸیں مولا کا کرم ہے
خادم حسین تیرا مقام رینٹ پہ چڑھ گیا ہے
نہیں ساٸیں بہت پریشان ہوں اگر وہ چڑھ جاٸے تو بچوں کی فیس کا مسلہ حل ہو جاٸے۔۔۔۔
او کے وہ مکان رینٹ پہ مجھے چاہیٸے میری کزن ہیں ان کا گھر والوں کے ساتھ کوٸی مسٸلہ چل رہا ہے وہ رہیں گی
کرایہ میں دوں گا اور ساری رسپونسبلٹی میری ہے
اور یہ بات آفس میں پتہ نہ چلے کسی کو۔۔۔
ساٸیں باقی سب تو ٹھیک ہے لیکن میں آپ سے کرایہ لیتا اچھا نہیں لگتا۔۔۔۔
مجھے پتہ تھا کہ وہ مجھ سے کرایہ نہیں لے گا
میں نے یہ بتا کے غلطی کی تھی کہ کرایہ میں دوں گا
اس لٸے فوراً بات بدلی کہ کرایہ وہ لڑکی دے گی
میں صرف اُسے گھر لے کے دوں گا۔۔۔
جس پہ وہ راضی ہو گیا۔
ٹھیک ہے صاحب جی اگر ایسا ہے تو آپ چلے جاٸیں میں گھر کال کر دیتا ہوں
ٹھیک ہے خادم حسین الله حافظ
میں نے رب کا شکر ادا کیا کہ یہ مسلہ بھی حل ہو گیا
میں نے گاڑی میں آ کے دیکھا تو وہ ابھی تک سو رہی تھی میں نے گاڑی سٹارٹ کی اور پارکنگ سے باہر روڈ پہ لے آیا
موباٸل میں وقت دیکھا تو دس بج رہے تھے
ہم اس وقت پیرا ڈاٸز بیکری کے سامنے سے گزر رہے تھے اچانک ایک خیال میرے زہن میں آیا۔۔۔۔۔
میں نے کچھ فاصلے پر واقع فیصل بنک کی طرف گاڑی ٹرن کر لی۔۔۔
پارکنگ میں گاڑی پارک کی اور اے ٹی ایم میں داخل ہو گیا اور کارڈ انٹر کر کے بیس ہزار کا فگر ڈال دیا۔
جب میں واپس گاڑی میں آیا تو وہ جاگ چکی تھی۔
میرے گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے السلام علیکم سر کہا
وعلیکم سلام
کسی طیبعت ہے اب آپ کی
میں نے بنا اس کی طرف دیکھے پوچھا
فیلنگ بیٹر سر
گڈ
اب آپ مجھے سر نہیں کہیں گی میرا نام لے کے بلا سکتی ہیں میرا نام مصطفی ہے۔۔
اور آپ مجھے اپنا نام بھی بتا دیں۔۔۔
میرا نام سدرہ افتخار ہے سر۔۔۔
سدرہ بات یہ ہے کہ میں کچھ زیادہ نہیں کر سکوں گا آپ کے لٸے لیکن اس دلدل سے نکلنے میں جتنی مدد آپ کی کر سکا کروں گا لیکن شرط یہ ہے کہ آپ اس کام سے ہیمشہ کے لٸے توبہ کر لیں۔۔۔
ان شاء اللہ سر میں خلوص دل سے توبہ کر رہی ہوں
اور سر اس ساری کوشش کا اجر آپ کو اللہ پاک کی زات دے گی۔۔
ویری گڈ بچے اللہ پاک تمہیں استقامت عطا کرے آمین
آمین سر
اب مجھے واضع نظر آیا کہ اس کی آنکھیں بھیگی ہوٸی ہیں۔۔۔
میں نے آپ کے لٸے گھر کا ارینج کر دیا ہے جب تک میں نا کہوں آپ اس گھر سے باہر نہیں جاٸیں گی۔۔
سر مجھے اکیلے رہنا ہوگا مجھے بہت ڈر لگتا ہے
سدرہ نے اپنا خدشہ ظاہر کیا
اب میں نے سوچا کہ شکر ہے کوٸی اور گھر ملا ہی نہیں کیونکہ یہ بات اکیلے رہنے والی تو میں نے سوچی ہی نہیں تھی
خادم حسین والا گھر سدرہ کے لیٸے پرفیکٹ تھا۔۔
نہیں تمہیں ایک فیملی ہے ان کے ساتھ رہنا ہے اوپر والا حصہ لیا ہے رینٹ پہ لیکن وہ پورا خیال رکھیں تمہارا۔
میں تمہیں اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا اس لٸے کہ میں اکیلا رہتا ہوں
ٹھیک ہے سر آپ نے جو بھی کیا ہے مجھے پتہ ہے اچھا ہی ہو گا۔
میں نے گاڑی سٹارٹ کی اور پارگنگ سے مین روڈ پہ لے آیا مجھے یاد ہے ایک بار اپنی کزن کے ساتھ ایک مال میں گیا تھا لیڈیز ڈریس کی بہت اچھی اور وسیع رینج تھی وہاں
میں چاہتا تھا کے فلحال اسے تین چار ریڈی مڈ سوٹ لے کے دے دوں ۔۔۔
مال کی پارکنگ میں گاڑی روکی اور دوسری طرف سے آ کے دروازہ کھولا ۔
سدرہ باہر آ جاٶ
اس کے باہر آتے ہی میں نے دروازہ بند کر کے گاڑی لاک کی اور اسے ساتھ لے کے مال میں داخل ہو گیا۔۔۔
ایک بڑی شاپ میں بہت اچھے ڈریس نظر آ رہے تھے
ہم بھی ادھر ہی داخل ہو گٸے۔۔۔۔
سدرہ تین چار سوٹ لے لو اپنے لٸے سیزن کے حساب سے
سر رہنے دیں نا ایک پہنا ہے ایک اور لے لیتی ہوں
سدرہ نے شکرگزار لہجے میں کہا
نہیں چار سوٹ لے لو اور پلیز بحث نہیں اب جو ضرورت کی چیزیں ہیں لے لو
ٹھیک ہے سر
وہاں سے سوٹ لے کے ہم ایک اور شاپ پہ گٸے جہاں سے ٹاول سوکس اور سویٹر وغیرہ لٸے
اس کے بعد شیمپو برش ٹوتھ پیس ای ٹی سی سب لیا
جب خریداری سے فری ہوٸے تو میں نے پوچھا سدرہ کچھ رہ گیا ہے تو لے لو مجھے نہیں پتہ نا کسی لڑکی کے لٸے میں نے کبھی کچھ خریدا ہے۔۔۔
سر ایک چیز اور لینی ہے
ہاں تو لے لو نا
لیکن
سر میں نے کافی دیکھا ادھر اُدھر مجھے نظر نہیں آٸی۔۔
کیا چیز؟
میں نے ایک نظر اس کے چہرے کو دیکھا جو کہ مجھے ہی دیکھ رہی تھی
________( جاری ہے )_________