کال گرل
قسط نمبر 5
آفس ورکر کےساتھ ایک تو یہ بڑا مسلہ ہوتا ہے پورا ویک بندے کی صبح جلدی آنکھ نہیں کھلتی۔۔۔۔
اور سنڈے کو ایسے جلدی آنکھ کھل جاتی ہے جیسے پتہ نہیں نصیبو لال کے پروگرام میں جانا ہو😀
میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا تھا لیکن آج آنکھ کچھ زیادہ ہی جلدی کھل گٸی تھی
شاید اِس کی وجہ یہ تھی کہ سدرہ کو کہا تھا کہ میں سنڈے کو آٶں گا۔۔
لیکن ابھی آٹھ بجے تھے اس لٸے دوبارہ سونے کی کوشش کی لیکن نیند نہیں آٸی۔۔۔۔۔
لیپ ٹاپ آن کیا اور ویسے ہی ویپ ساٸٹ وزٹ کرنے لگا۔۔۔
کچھ دیر ایسے ہی دنیا کی سیر کرنے کے بعد کچھ سوچ کے بیگم کا نمبر ملایا دیا۔۔۔
سدرہ کے بارے میں مونیبہ سے بات کرنا بیوقوفی تھا کیوں کہ مونیبہ نے فورًا کہنا تھا کہ میری بات کرواٸیں سدرہ سے اور میں نہیں چاہتا تھا کہ فلحال مونیبہ سدرہ سے بات کرتی۔۔
ہو سکتا ہے مونیبہ کے منہ سے کوٸی ایسی بات نکل جاتی جو سدرہ ڈسہارٹ کرتی۔۔۔
جس کنڈیشن میں سدرہ تھی یہی بہتر تھا کے اُسے وقت دیا جاتا۔۔۔
لیکن مونیبہ کو بتانا بھی ضروری تھا کیونکہ اس طرح چھپانا مونیبہ کا بھروسہ توڑنے والی بات تھی۔۔۔
بعد میں اگر اسے پتہ چلتا تو اسے ٹھیس پہنچتی ویسے بھی میں نے مونیبہ سے آج تک کچھ نہیں چھپایا تھا۔۔۔
کافی دیر بل جاتی رہی لیکن مونیبہ نے کال پک نہیں کی پھر یاد آیا کے رات کو لڑاٸی ہوٸی تھی اس لٸے اب میڈم زرہ نکھرا کرے گی ویسے بھی ہر روز رات کو ہماری بات کا اینڈ لڑاٸی پہ ہی ہوتا تھا ہم لکھے پڑھے پاگل تھے😀
دوسری بار کال کی بیل جاتے ہی فورًا کال رسیو کر لی گٸی
ہمارا اصول تھا کہ لڑاٸی کے بعد جب کال پہ بات ہوتی تھی تو ہم سلام دعا نہیں کرتے تھے ڈریکٹ پوچھتے تھے حکم کریں کال خیر سے کی😦
اور اللہ کا شکر ہے ہم رخصتی سے پہلے ہی میاں بیوی والی فاٸنگ میں اچھے خاصے ایکسپرٹ ہو چکے تھے😌
اب بھی یہی ہوا کال پک کرتے ہی بیگم نے کہا جی فرماٸیں صبح صبح کیسے یاد کیا۔۔۔
تم ملکہ برطانیہ ہو نا ایک فاٸل پہ ساٸن لینے تھے تمہارے
کیسے یاد کیا وڈی آٸی لیڈی ڈیانا
میں نے چڑ کے جواب دیا۔
اگر یہ ہو گیا ہے تو بتاٸیں کال کیوں کی میں نے مشین لگانی ہے۔
میں نے ایک زور کا قہقہ لگایا ہاہاہاہاہا
تم تو کہتی تھی میں نے کبھی کام نہیں کرتی اب مشین لگانی ہے ہاہاہاہا
احمد تنگ نہ کریں کچھ دیر تک بات کرتے ہیں
مجھے ضروری بات کرنی ہے تم سے اس لٸے اب دو منٹ آرام سے بات سنو۔۔۔
میرا ایک دم سیریس لہجہ سن کے مونیبہ بھی سیریس ہو گٸی
کیا ہوا مصطفی خیریت تو ہے
مونیبہ نے فکرمند ہوتے پوچھا
ہاں خیریت ہے بس دو باتیں ہیں تمہیں یاد ہے تم نے ایک بار مجھ سے ایک بہت بڑا جھوٹ بولا تھا
میں نے مونیبہ کو یاد کروایا۔
ہاں یاد ہے
اور اس جھوٹ پہ میں نے تمہیں ایک بات کہی تھی یاد ہے وہ بات۔۔
جی یاد ہے اچھی طرح آپ نے کہا تھا کہ میں آج تمہاری بہت بڑی مس ٹیک معاف کر رہا ہوں۔۔۔۔
اگر زندگی میں کبھی مجھ سے مس ٹیک ہو گٸی تو تم بھی دل بڑا کر کے معاف کر دینا۔۔۔
مونیبہ نے حرف بہ حرف میری بات دہراٸی
گڈ تو ایسا ہے سویٹ ہارٹ کہ میں ایک کام کر رہا ہوں جو میں تمہیں بتانا نہیں چاہتا۔۔۔
اگر کل کو اُس کام کے نتاٸج کچھ غلط نکلتے ہیں تو تم بھی مجھے معاف کرو گی۔۔
سیم میری طرح لیکن ساتھ ایک بات کی گارنٹی دیتا ہوں کہ تمہیں دھوکہ نہیں دوں گا اور نا کبھی تمہارا ٹرسٹ توڑوں گا۔۔۔
لہکن تم مجھ سے تب تک کوٸی سوال کروں گی۔۔۔
میرا لہجہ سنجیدہ اور سخت ہو گیا۔
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد مونیبہ کی آواز آٸی مجھے آپ پہ پورا بھروسہ ہے اس لٸے جب آپ مناسب سمجھیں گے بتا دیجیٸے گا۔۔۔
میں ایک دم سے ریلیکس ہو گیا
اچھا ٹھیک ہے اب تم کام کر لو مجھے بھی ایک کام ہے شام کو بات کرتے ہیں ۔
ٹھیک ہے آپ فری ہو کے بتا دینا
الله حافظ
الله حافظ،،،
میں جب خادم حسین کے گھر پہنچا تو شام کے چار بج رہے تھے سردیوں کے دن تھے اس لٸے چار بجے کے بعد ایسا لگتا تھا کہ سورج بھی اب جان چھڑوانے کے چکر میں ہے۔۔
دروازہ خادم حسین نے خود کھولا ارے صاحب جی آپ آٸیں آٸیں
اس نےمجھے اندر آنے کے لٸے رستہ دیا۔
کیسے ہو خادم حسین
مولا ساٸیں کا شکر ہے صاحب جی
تب تک بھابھی بھی روم سے نکل آٸی ان سے سلام دعا کی بھابھی میں اوپر جا رہا ہوں چاٸے تو بھجواٸیں
میں یہ کہتے ہوٸے سیڑھیاں چڑنے لگا۔۔۔
بھاٸی رکھیں ابھی آپ اوپر نہ جاٸیں۔۔
میرا ایک دم سے دل دہل گیا
کیوں نہ اوپر جاٶں خریت ہے کدھر ہے سدرہ اب میری آواز میں غصہ اور فکر بھی تھی
تبھی خادم حسین آگے آیا اور کہا صاحب جی فکر کی کوٸی بات نہیں بی بی جی اوپر ہی ہیں اور بلکل ٹھیک ہیں
رضیہ نے آپ کو اس لٸے کہا کہ اوپر نہ جاٸیں کہ بی بی جی کے پاس محلے کی کچھ لڑکیا پڑھنے کے لٸے آٸی ہوٸی ہیں بچیاں بڑی ہیں اس لٸے کہا۔مجھے ایک خوشگوار حیرت ہوٸی یہ سدرہ کے فیوچر کے لٸے اچھا ساٸن تھا
او اچھا سہی ہے لیکن اتنی جلدی کیسے ہوا یہ سب میں نے سوال پوچھا خادم حسین سے لیکن جواب اس کی بیوی نے دیا۔
بھاٸی آپ اندر بیٹھیں میں بتاتی ہوں اور میں اُن دونوں میاں بیوی کے ساتھ روم میں آ گیا۔
صاحب جی یہ ہمارے سامنے میمن ہیں اچھے خاصے کھاتے پیتے ہیں اُس دن ان کی عورت ہمارے گھر آٸی تو سدرہ میرے پاس بیٹھی تھی باتوں باتوں میں اس نے کہاں کہ دو بچیاں جوان ہیں۔۔۔
کوٸی قابل اعتماد ٹیوشن پڑھانے والا نہیں ملتا تبھی بی بی جی نے کہا کہ بچیاں کس کلاس ہیں میری پڑوسن نے بتایا کہ ایف اے کا پہلا سال ہے
بی بی جی نےکہا کہ اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں پڑھا دوں گی اس نے مجھ سے پوچھا کہ کون ہے تو میں نے بول دیا کہ میری بھانجی ہے۔۔۔
پھر وہ عورت بچیاں لے کے آٸی اور بی بی جی کو کہا کہ زرہ میرے سامنے کچھ پڑھاٸیں تو بی بی جی نے بہت اچھا پڑھایا۔۔
وہ عورت بہت خوش ہوٸی پہلے کہتی ہے کہ آپ ہمارے گھر آ کے پڑھا دیا کرنا لیکن بی بی جی نے سختی سے جواب دیا کہ بھلے فیس دیں یا نہ دیں میں گھر سے باہر نہیں جاٶں گی
پھر دوسرے دن وہ عورت دو اپنی بیٹیاں اور دو اپنے بھاٸی کی لڑکیاں چھوڑ کے گٸی اب بی بی جی پڑھا رہی ہیں
خادم کی بیوی نے مجھے پوری تفصیل بتا دی
میرے منہ سے بے اختیار نکلا ماشاءاللہ،
لیکن ساتھ ہی ایف اے کی بچیوں کو پڑھانے والی بات نے مجھے سوچنے پہ مجبور کر دیا۔۔۔۔
کہ اگر ایک لڑکی ایف اے کی سٹوڈنٹ کو پڑھا سکتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی کواٸلیفکیشن کافی زیادہ ہے۔۔۔
اب میرا دماغ بہت الجھ چکا تھا کہ اگر سدرہ اتنی پڑھی لکھی ہے تو جسم فروشی جیسے گندھے دھندے کی طرف کیسے آٸی آخر کیا مجبوری تھی کہ اُس نے یہ سب کیا وہ بچوں کو پڑھا کے بھی تو اپنا پیٹ پال سکتی تھی کسی سکول میں جاب بھی تو کر سکتی تھی پھر اس کے ماں باپ کدھر ہیں۔۔۔
ان حالات کو وہ کیسے پہنچی میں جیسے جیسے سدرہ کے بارے میں سوچ رہا تھا ویسے ویسے دماغ بہت الجھتا جا رہا تھا۔۔۔
اس اثنإ میں مجھے سدرہ کی آواز خیالوں سے باہر لاٸی شاید بھابھی نے اُسے اطلاح دی تھی کہ میں آیا ہوں
السلام علیکم شاہ جی
سدرہ نے مسکراہٹ ہونٹوں میں دباتے ہوٸے سلام کیا
وعلیکم سلام مس ٹیچر میں نے بھی مسکراتے ہوٸے جواب دیا۔۔
وہ اس وقت پستہ کلر کا سوٹ پہنے ہوٸے تھی جس کے دامن پہ بہت نفیس کام ہوا ہوا تھا اور یہ کلر اس پہ جچ بھی رہا تھا۔۔۔۔
وہ میرے سامنے سوفے پہ بیٹھ گٸی اچھا سدرہ تم بیٹھو نہیں تیار ہو کے آٶ ماموں کے گھر جانا ہے۔
سدرہ نے حیرانی سے میری طرف دیکھا تو میں نے کہا تیار ہو کے آٶ چینچ کرنا ہے تو کر لوں۔۔۔۔
او کے میں دس منٹ میں آٸی یہ کہ کر وہ اوپر چلی گٸی خادم اور اس کی بیوی باہر ہی بیٹھے تھے اس لٸے میں نے ماموں کے گھر کا کہا تھا۔۔۔
سدرہ کے اوپر جاتے ہی بھابھی چاہے اور بسکٹ لے کے آ گٸی خادم حسین بھی میرے پاس روم میں ہی آ کے بیٹھ گیا اور ہم لوگ چاٸے پیتے ہوٸے اِدھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔۔۔
کچھ دیر بعد بھابھی نے بتایا کہ بھاٸی بی بی جی کہ رہیں ہیں چلیں۔
میں گاڑی کی چابی اور موباٸل ٹیبل سے اٹھاتا ہوا باہر آ گیا
سدرہ پہ نظر پڑتے ہی ایک پل کو سانس رکتی محسوس ہوٸی...
وہ بہت پیاری لگ رہی تھی اتنی کہ مجھے اپنے دل کی تیز ہوتی ڈھرکن صاف سناٸی دے رہی تھی
بلیک کلر ہمیشہ میری کمزوری رہا ہے اور اِس وقت سدرہ نے بلیک کلر کا ڈریس پہن رکھا تھ۔
ساتھ لاٸٹ سا میک اپ اور ساتھ میچنگ جیولری جب میں ایسے ہی کچھ سیکنڈ اُسے بنا پلک چھپکے دیکھتا رہا تو سدرہ کے ہونٹوں پہ بڑی دل آویز مسکان آ گٸی
چلیں شاہ میں تیار ہوں
سدرہ کی آواز مجھے اُس کے سحر سے باہر لے آٸی
جی جی چلیں۔۔۔
باہر نکلتے ہی میں نے اُس کے لٸے گاڑی گا دروازہ کھولا جو اب زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے کسی اور کے لٸے کھولنا مشکل ہو گیا تھا
میرے دوسری طرف سے آنے تک وہ باہر کھڑی رہی
بیٹھو نہ بیٹھ کیوں نہیں رہی۔۔۔۔
میں نے حیرانی سے پوچھا
پہلے آپ بیٹھیں پھر میں
سدرہ نے مسکراتے ہوٸے جواب دیا
اچھا جی اِس میں کیا ساٸنس ہے
ساٸنس کچھ نہیں سر بس احترام ہے
او اچھا چلو ٹھیک ہے میں بیٹھ جاتا ہوں
میں نے ڈراٸیونگ سیٹ پہ بیٹھتے ہوٸے کہا
اور میرے بیٹھتے ہی وہ بھی میرے برابر بیٹھ گٸی
میں نے گاڑی سٹارت کی اور نیو دھوراجی سے ہوتا ہوا اللہ دین پارک والے روڈ پہ آ گیا۔۔۔۔
اب گاڑی میں مونٹال پیرس پرفیوم کی مہک ماحول کو سحر زرہ بنا رہی تھی۔
بڑا اچھا پرفیوم لگایا ہوا ہے سدرہ
جی سر مجھے بہت پسند ہے یہ پرفیوم میرے چاچو قطر ہوتے ہیں وہ لاٸے تھے اور میں یہ واحد چیز گھر سے لے کے آٸی تھی
گھر کا نام لیتے ہوٸے اس کے چہرے پہ اور آواز میں ایک کرب سا آ گیا۔۔
مونٹال پیرس واقعی بہت اعلی پرفیوم ہے میں نے تعریف کی۔
اچھا پوچھو گی نہیں کہ ہم کدھر جا رہےنہیں سر کیوں کہ مجھے پتہ کہیں غلط نہیں جا سکتے
سدرہ نے پختہ یقین کے ساتھ جواب دیا
یہ جیولری اُس دن ہی لی تھی تم نے۔۔۔
میں نے ایک نظر اُس کے کانوں میں جھولتی آرٹیفشل بالیوں کو دیکھ کے کہا۔
جی سر اُس دن جب ڈریس لینے کے بعد آپ نے کہا تھا کہ شیمپوں کریم وغیرہ جو لینا لے لو تو یہ مجھے بہت اچھی لگی تو لے لی۔۔
بہت اچھا کیا جو لے لی مجھے بہت اچھی لگی۔۔
اچھا سر سوری
کس لٸے سوری میں نے حیرانی سے پوچھا
وہ گھر میں بھاٸی اور بھابھی کے سامنے میں نے آپ سے زرہ فری ہو کے بات کی
کون سا فری مجھے تو نہیں لگا کے فری ہو کے بات کی۔
سر میں نے آپ کو شاہ اور شاہ جی کہا اور ایسا اس لٸے کہا کہ ان کو کوٸی شک نہ ہو کہ میں آپ کو سر کیوں کہ رہی ہوں۔
سدرہ نے وضاحت دی
ہاہاہاہاہاہاہا اسے تم فری ہونا کہتی ہو۔۔۔۔
مجھے اچھا لگا تم نے مجھے ایسے بلایا اور میں چاہوں گا کہ تم مجھے ایسے ہی بلایا کرو اور فری ہوتی رہو مجھ سے میں نے ہنستے ہوٸے کہا۔
ٹھیک ہے سر سدرہ نے نے معصومیت سے کہا
پھر سر میں نے مصنوحی غصے کا اظہار کیا
سوری شاہ سر۔
اور اس بار ہم دونوں ہنس پڑے۔۔۔
باتوں باتوں میں پتہ ہی نہ چلا کہ ہم کب سی ویو آ گٸے
ہمیشہ کی طرح میں نے اتر کے دوسری ساٸیڈ کا دروازہ کھولا
تم ادھر ہی رکوں میں گاڑی پارک کر لوں
جب میں گاڑی پارک کر کے آیا تو وہ پتہ نہیں کن خیالوں میں کھوٸی ہوٸی تھی۔۔۔
ہاں جی چلیں۔۔
اہاں سمندر کی ریت پہ ٹیلتے ہوٸے مجھے آٸسکریم کھانا بہت پسند ہے کیا خیال ہے
میں نے سدرہ سے پوچھا۔۔
شاہ سر ایسے پیارے خیال آپ کو کیسے آ جاتے ہیں
سدرہ نے مسکراتے ہوٸے پوچھا۔
بس جی پیارے لوگوں کو پیارے ہی خیال آتے ہیں
میں نے ہاتھ سے ✌ وکٹری کا ساٸن دیا
وہ کھلکھلا کے ہنس پڑی
ویسے تم چاہوں تو تم کچھ اور بھی لے سکتی ہو۔
نہیں سر میں بھی آٸسکریم کھاٶں گی۔۔۔
ہم لوگ آٸسکریم کے دو لارج کپ لے کر ساحل پہ آ گٸے
سدرہ بلکل میرے ساتھ چل رہی تھی اور میرے اندر کوٸی بہت محسور کن احساس قدم جما رہا تھا میں خود بھی اپنی اس کفیت پہ حیران تھا۔۔
شام کے چھے بجے کا وقت ہو رہا تھا اور ساحل پہ اس وقت رش بہت کم ہو گیا تھا۔۔۔
اب صرف زیادہ محبت کرنے والے ہی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ساحل کی ریت کو اڑا رہے تھے
سر کیا سوچ رہے ہیں
کافی دیر کی خاموشی کے بعد سدرہ نے پوچھا
کچھ نہیں بس ایسے ہی اچھا تم یہاں کراچی کس کے پاس رہتی تھی۔۔
سدرہ کچھ دیر خاموش رہی اور جب بولی تو تواُس کی آواز میں ازیت تھی۔۔۔۔
سر کیا ہم کہیں بیٹھ سکتے ہیں۔۔
مجھے محسوس ہوا اس کی آواز میں لرزش ہے۔۔
کیوں نہیں چلو اُس بنچ پہ بیٹھتے ہیں ۔
سردی کی آمد تھی اور اس وقت ساحل پہ چلنے والی ہوا نے کافی ٹھنڈ بنا دی تھی۔۔۔۔
میں نے جیکٹ پہن رکھی تھی اس لٸے محسوس نہیں ہو رہا تھا لیکن ہم جیسے ہی بنچ پہ بیٹھے تو مجھے محسوس ہوا کہ سدرہ کا جسم کانپ رہا ہے۔
کیا ہوا تمہیں ٹھنڈ لگ رہی ہے
جی بس تھوڑی سی ۔۔
چلو اٹھو واپس چلتے ہیں
نہیں سر اب ٹھیک ہوں اور مجھے کچھ بتانا ہے آپ کو میرے دل پہ بوجھ ہے بہت۔
میں نا چاہتے ہوٸے بھی بیٹھ گیا۔
او کے ٹھیک ہے لیکن میری ایک شرط ہے
کیا سر
سدرہ نے گردن اٹھا کے دیکھا
یہ جیکٹ تم پہنوں گی میں نے اپنی جیکٹ اتارتے ہوٸے کہا لیکن سر آپ کی طبیعت خراب ہو جاٸے گی
سدرہ نے فکر سے کہا
اور اگر تمہاری خراب ہو گٸی تو
میں نے خفگی سے پوچھا
سر میری خیر ہے
چپ چاپ پہنوں جیکٹ یہ کہتے ہی میں نے جیکٹ سدرہ کی طرف بڑھا دی جسے اُس نے اب چپ چاپ پہن لیا....
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد سدرہ نے ایک لمبی سانس لی
سر یہاں پہ میں ایک عورت کے گھر رہتی تھی۔۔۔
جس کا نام بلقیس تھا جو خود بھی جسم فروش ہے میں اُس کے گھر دو ماہ سے رہ رہی ہوں میں کراچی آٸی ہی دو ماہ پہلے تھی۔۔۔
پہلے لاہور تھی وہاں بقلیس سے میری ملاقات ایک جسم فروشی کے اڈے پہ ہوٸی تو باتوں باتوں میں اُس نے کہا کہ میں تو مجبوری میں کر رہی ہوں یہ کام۔۔۔
بچے ہیں چھوٹے چھوٹے اگر کوٸی اور وسیلہ ہوتا تو میں یہ کام نہ کرت۔
بلقیس نے کہا میرا میاں بھی نشہ کرتا ہے آگے سے رو پڑی
شاہ سر میں اِس کام میں بلکل نیو تھی مجھے نہیں پتہ تھا کہ ایسی مکاریاں بھی ہوتی ہیں اِس دھندے میں۔۔
مجھے تو لگتا تھا کہ جسم فروش عورتیں اچھی ہوتی ہیں کسی کو دھوکہ نہیں دیتی کسی کی فیلنگ کے ساتھ نہیں کھیلتی لیکن سر ایسا نہیں تھا۔۔۔
میں نے بلقیس کو بتایا کہ میرا بھی کوٸی نہیں ہے میں بھی مجبور ہوں تو بلقیس نے مجھے گلے لگا لیا اور بولی آج سے تم میری بہن ہو
سر اِس طرح میں اس کے ساتھ کراچی آ گٸی
یہاں میں بلقیس کے علاوہ کسی کو بھی نہیں جانتی تھی
جب میں بلقیس کے ساتھ کراچی آٸی تو تیسرے ہی دن مجھے پتہ چل گیا کہ یہ کوٸی مجبوری میں جسم فروشی نہیں کر رہی۔۔۔۔
اور نہ ہی اس کے بچے ہیں اس کا میاں ٹھیک ٹھاک تھا کوٸی نشہ نہیں کرتا تھا۔پھر تیسری رات اس کا میاں جس کا نام وحید تھا اٹھ کے اُس کمرے میں آگیا جس میں بلقیس اور میں سو رہی تھی وحید کے آتے ہی بلقیس اٹھ کے باہر چلی گٸی تو وحید نے مجھ سے اپنی ہوس پوری کرنی کی کوشش کی۔۔۔
میں نے انکار کر دیا اور چیخنا شروع کر دیا تب بلقیس اندر آٸی اور مجھےسمجھایا کہ ہم نے تمہیں رہاٸش دی ہے کھانا دے رہے ہیں میرے میاں کی بات مان لو ورنہ یہ تمہیں پولیس کے ہوالے کر دیں گا۔۔۔۔
یہ الزام لگا کر کے اس نے ہمارا زیور چرایا ہے۔
سدرہ سر جھکاٸے بتا رہی تھی اور اُس کی آنسوٶں سے تر آواز میرے دل کو زخمی کر رہی تھی۔
سر پولیس کا نام سن کے میں بہت ڈر گٸی تھی کیونکہ میں پہلے بھی دو بار ریڈ میں ہوٹل سے پکڑی گٸی تھی۔۔۔
پولیس والوں نے بہت گندی گندی گالیاں دی اور گھسیٹ کے تھانے لے گٸے تھے اور وہاں جا کے زیاتی بھی کی۔۔۔
سدرہ بس کرو اٹھو چلتے ہیں اب مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا
نہیں سر میرے دل کا بوجھ ہلکا ہونے دیں
سدرہ کی اِس بات نے مجھے پھر بیٹھنے پہ مجبور کر دیا۔۔۔
سر پولیس کے نام سے میں ڈر گٸی اور وحید کی بات مان لی پھر سر یہ سلسلہ چل نکلا۔۔
ہفتے میں دو بار بلقیس کا میاں مجھ سے اپنی ہوس پوری کرتا وہ ایسا بغیرت تھا کہ جب کوٸی اس کی بیوی کا بھی کسٹمر آتا تو وہ باہر بیٹھ جاتا اور بیوی کو اس کے ساتھ روم میں بھیج دیتا۔۔۔
اُن لوگوں نے میرے باہر جانے پہ پابندی لگا رکھی تھی اب جو بھی گاہگ آتا تھا وہ میرا ہی سودہ کرتے تھے۔۔۔
میں نے دو تین بار بلقیس کو کہا مجھے جانے دو لیکن اس نے کہا کہ جس اڈے سے تمیں لاٸی ہوں اس کی مالکن کو ایکھ لاکھ دے کے لاٸی ہوں۔۔۔
وہ مجھے دے دو تو چلی جاٶ ورنہ میں پولیس کو بتا دوں گی تم نے چوری کی ہے
اور شاہ سر ہر بار میں پولیس کے ڈر سے رک جاتی۔
پھر شاہ سر وہ مجھے راتوں کو بھیجنے لگے ایک گاڑی آتی اور مجھے لے جاتی جہاں تین چار مرد بھوکے کتوں کی طرح پوری رات مجھے نوچتے یہ سلسلہ دو ماہ چلا۔۔۔
اب میرے بے حد ضبط کے باوجود بھی میری آنکھوں سے آنکھوں رواں ہو گٸے۔۔
میں جو اب تک حوصلے اور ضبط کے ساتھ سدرہ کی بات سن رہا تھا اب میرے آنسو ساری حدیں پار کر چکے تھے
سر جہاں مجھے صرف کھانے کے بدلے دن رات بیچا جاتا اور پھر سر میں نے ایک دن انکار کر دیا بکنے سے۔۔۔۔
میں نے کہا مجھے پولیس کو دے دو جو مرضی کرو میں نہیں جاٶ گی اب کہیں۔۔۔
تب مجھے اُس وحید نے بہت مارا اور کمرے میں بند کر دیا تین دن تک مجھے بھوکہ رکھا میں نے تین دن رو رو کےرب سے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اِس دوزخ اور اس گندے کام سے نجات دے
مجھ پہ رحم کر سب کو موقع دیتا ہے مالک مجھے بھی موقع دے۔۔۔
تین دن کی بھوک کے بعد میں نے ہار مان لی اور یہ سوچ کے لیٹ گٸی کہ صبح بلقیس کو بولوں گی کہ میں کام کے لٸے تیار ہوں۔۔۔۔
لیکن اللہ نے مجھے اسی رات بھاگنے کا موقع دے دیا میں بھاگ آٸی بھاگنے کے بعد مجھے پہلے انسان آپ ملے یہ کہ کر سدرہ پھوٹ پھوٹ کے رو پڑی۔۔
وہ کافی دیر ایسے ہی روتی رہی میں نے بھی رونے دیا کہ اُس کا دل ہلکا ہو جاٸے۔
اب میرے دل میں بہت زیادہ غصہ تھا اور میں اس خبیث انسان وحید اور اس کی بیوی کو نشان عبرت بنانا چاہتا تھا میں نےایک نظر سدرہ کو دیکھا جو اب سسکیاں لے رہی تھی میں نے اس کے کندھےپہ ہاتھ رکھا
سدرہ برا وقت ختم ہو گیا ہے اب دنیا کی کوٸی طاقت تمہیں کچھ بھی نہ
یں کہ سکتی۔۔۔
بس اب اور نہیں رونا
میں نے محسوس کیا اب سدرہ کا جسم بہت کانپ رہا ہے
اٹھو واپس چلتے ہیں یہ کہ کر میں نے اپنا ہاتھ سدرہ کی طرف بڑھا دیا۔۔۔
________( جاری ہے )________