کال گرل
رائٹر سید مصطفی احمد
قسط نمبر 6
سدرہ کا جسم بری طرح کانپ رہا تھا مجھے اس کو سہارا دے کے گاڑی تک لانا پڑا۔۔
مجھے علم تھا کہ سدرہ کی یہ کیفیت سردی کی وجہ سے نہیں تھی۔۔
اُسے خوف تھا کہ کہیں وہ پھر سے گزرے وقت میں دوبارہ نہ چلی جاٸے اُسے یہ سب خواب لگ رہا تھا۔۔
کہ وہ اتنے دن سے کسی گھر میں محفوظ تھی اُس کی عزت کو تارتار کرنا تو دور کی بات کسی نے میلی نظر سے دیکھا بھی نہیں تھا۔۔۔
سی ویو سے خادم حسین کے گھر تک کا فاصلہ مکمل خاموشی سے کٹا میں نے بھی بات کرنا مناسب نہ سمجھا
کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ سدرہ شرمندگی فیل کرے۔
لیکن اب بھی میرے دماغ میں بہت سارے سوال جوں کے توں تھے میں جاننا چاہتا تھا کہ سدرہ اِس گندے دھندے میں آٸی کیسے پڑھی لکھی ہونے کے باوجود ایسی کیا مجبوری تھی کہ اسے یہ سب کرنا پڑا۔۔۔
جبکہ حرکات اور بات کرنے کا انداز اُس کا بلکل شریف گھرانوں کی لڑکیوں جیسا تھا۔
لیکن فلحال اُس کی طبیعت ایسی تھی کہ اُس سے کوٸی اور سوال کرنا انتہاٸی غلط تھا اِس لٸے میں نے یہی سوچا کہ پھر کبھی اس پہ بات کروں گا۔۔۔
جب ہم کچی آبادی سدرہ کی رہاٸش پہ پہنچے تو رات کے ساڑھے نو بج رہے تھے۔۔۔
میں نے گاڑی گھر کے سامنے روکی اور اترنے کے بجاٸے منہ سدرہ کی طرف کر کے اسے مخاطب کیا۔۔۔
جو اب بھی گردن جھکاٸے ہوٸے بیٹھی تھی میری آواز پہ اس نے گردن اٹھا کے مجھے دیکھا اُس کی آنکھیں رونے کی وجہ سے سوجی سوجی لگ رہی تھی۔
اب بھی آنسوٶں سے بھری ہوٸی تھی۔۔۔
جی شاہ سر
سدرہ کی آواز میں درد تھا
میں نے بے اختیار اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لٸے جو گاڑی کے اندر بھی برف کی مانند سرد ہو رہے تھے۔۔
سدرہ مجھے نہیں پتہ کہ تم اس کام میں کیسے آٸی لیکن میرا دل گواہی دیتا ہے کہ تم بہت اچھی لڑکی ہو
سدرہ جو وقت بیت گیا اس پہ سواٸے افسوس کے کچھ نہیں کیا جا سکتا لیکن جب تک میری سانسیں ہیں تب تک میں تمہیں تحفظ دوں گا اور عزت بھی۔
میرے دلاسہ دینے اور یقین دلانے پہ اس کی آنکھوں سے گرتے آنسومیرے ہاتھوں پہ آ ٹھہرے ۔۔۔
سدرہ نے بے اختیار میرے ہاتھوں کو مضبوطی سے تھام لیا۔
شاہ سر میں اللہ سے دعا کروں گی کہ میرے حق میں میری دعا قبول کرے نہ کرے لیکن آپ کے حق میں میری دعا قبول کرے اللہ آپ کو لمبی زندگی دے آمین،،
سدرہ نے انتہاٸی جذباتی آواز میں کہا۔۔
اچھا چلو اب اندر چلتے ہیں یہ کہتے ہی میں گاڑی سے اتر گیا اور دوسری طرف سے آ کے سدرہ والا دروازہ کھولا۔۔
واپس گھر آ کے میرا دماغ بہت الجھن کا شکار تھا سر درد سے پھٹ رہا تھا سونے کی بہت کوشش کی لیکن نیند نہیں آٸی۔۔
صبح جلدی آفس چلا گیا اور پورا دن بھی کھانے کا وقت ہی نہ ملا جس کی وجہ سے اب بھوک سے برا حال تھا ٹاٸم دیکھا تو ساڑھے تین بج رہے تھے پہلے سوچا آفس بواٸے کو بھیجتا ہوں کھانا لانے کے لٸے پھر کچھ سوچ کے باس کا نمبر ملایا
السلام علیکم سر
وعلیکم السلام شاہ جی
سر جی میں زرا آج جلدی جا رہا ہوں کچھ کام ہے
او کے شاہ جی جاٸیں آپ الله حافظ
الله حافظ سر۔۔۔
اب میں نے دوسری کال گلشن اقبال تھانے میں کی جو کہ تیسری رنگ پہ پک کر لی گٸی۔
السلام علیکم گلشن اقبال پولیشن اسٹیشن۔۔
وعلیکم السلام نوید شاہ کا نمبر دیں
دوسری طرف سے پوچھا گیا آپ کون صاحب
سید مصطفی
جی سر نوٹ کریں نمبر
نمبر لے کر کال بند کی اور نوید شاہ کا نمبر ملایا کے او کے کر دیا لیکن کال کسی نے پک نہ کی۔۔۔
میں اگین نمبر اوپن کر کے اوکے کرنے لگا تو سکرین پہ نوید شاہ کے نمبر سے کال آتی شو ہوٸی میں نے کال پک کرلی۔۔
السلام علیکم شاہ جی
وعلیکم اسلام جی کون صاحب۔
آگے سے کرخت پولیس والوں کے لہجے میں پوچھا گیا۔۔
یار تم لوگوں نے قسم کھاٸی ہوٸی ہے کہ پیار سے نہیں بولنا
ہاہاہاہاہاہاہا او میرا جگر میرا یار شاہ جی تسی او دوسری طرف سے اب نوید شاہ نے چہکتے ہوٸے کہا۔۔
تیرے ایس آٸی بننے کا مجھے آج تک کوٸی فاٸدہ نہیں ہوا
کزن جی حکم کرو فاٸدہ ابھی کر لیتے ہیں
نوید شاہ نے نے معنی خیز لہجے میں کہا۔
میں نے ایسے فاٸدہ نہیں کروانا
مل کے کروانا ہے فاٸدہ
میں چاہتا تھا کہ مل کے نوید سے پوری تفصیل سے بات کروں
او کے کزن کب ملنا ہے شام کو چاچو کے گھر ملیں یا تم گھر آ جانا نوید نے پلان کا پوچھا۔
نہیں مجھے ابھی ملنا ہے تم اِس وقت کدھر ہوں
شاہ جی میں اس وقت کالا پل آیا ہوں ایک مجرم لینے تھانے سے۔۔۔
نوید شاہ نے جواب دیا
کتنی دیر میں فری ہونا ہے تم نے
میں نکل رہا ہوں یہاں سے نوید شاہ نے فورً جواب دیا۔۔
او کے میں تھانے آ جاتا ہوں میں نے جواب دیا۔
ٹھیک ہے کزن آجاٶ
او کے الله حافظ
او کے الله حافظ،
جب میں تھانے پہنچا تو نوید میرا ہی انتظار کر رہا تھا
مجھے دیکھتے ہی پرجوش انداز میں بولا
وہ آٸے ہمارے تھانے خدا کی قدرت۔۔۔
وہ ہم سے بچ جاٸیں یہ ان کی قسمت
ہاہاہاہاہاہاہا کباڑہ کر دیا شعر کا تم نے یہ کہتے ہوٸے میں نے نوید کو گلے لگا لیا۔۔۔
کیسے ہو میری جان بہت دن بعد یاد کیا نوید نے گلہ کرتے ہوٸے کہا
بس یار کچھ بزی تھا ہم بات کرتے ہوٸے نوید کے کمرے میں آگٸے
اچھا پہلے یہ بتاٶ کہ کیا کھاٶ گے نوید نے بیٹھتے ہی سوال کیا۔۔
کھانا نہیں کھایا میں نے اس لٸے کچھ بھی منگوا لو بہت بھوک لگی ہے۔۔۔
چکن برگر چلے گا نوید نے آنکھ مارتے ہوٸے پوچھا
چلے گا نہیں دوڑے گا ساتھ کوک ہو تو😋😋
ڈن ابھی منگواتا ہوں یہ کہ کر اس نے کسی کو کال کی اور دو برگر اور کوک کا کہا۔۔۔۔
نوید میری ممانی کے بھاٸی کا بیٹا تھا لیکن رشتہ داری سے زیادہ ہم لوگ دوستی کو سامنے رکھتے تھے۔۔
جی کزن اب بتاٶ کہ سب خریت ہے نا ؟
ہاں سب خیریت ہے میٹروول تھانے میں اک کام ہے
حکم کریں شاہ جی ابھی چلتے ہیں
نہیں یار ابھی نہیں جانا تمیں میں پوری تفصیل بتا دیتا ہوں جب کام ہو جاٸے تو مجھے کال کر لینا۔۔۔
اچھا بتاٸیں کیا کام ہے
سدرہ مجھے میٹرول کے علاقے سے ملی تھی اس لٸے مجھےیقین تھا کہ وحید اور بلقیس کا گھر ادھر ہی ہو گا۔۔
میٹروول میں ایک جسم فروش عورت ہے بلقیس اور اس کا شوہر وحید ان دونوں کو زرا سیدھا کرنا ہے کیس نہیں بنانا لیکن لتر پھیرنے اچھے سے۔۔۔
شاہ جی ان کا ایڈریس دے دیں ہو جاٸے گا۔
میرے پاس اُن کا ایڈریس نہیں ہے نہ میں نے اُن کو دیکھا ہے
نا ہی جانتا ہوں بس اتنا پتہ ہے کہ اُن کا گھر اُسی علاقے میں ہے اور پھر یہ جسم فروشی کے اڈوں کا تو تم لوگوں کو اچھے سے پتہ ہوتا ہے نا
میں نے نوید شاہ کو گھورا
ہاہاہاہاہاہا شاہ جی ہمیں ان کا پتہ ہوتا ہے جو بڑے پیمانے پہ کام کرتے ہیں یہ جو گھروں میں چھپ چھپا کے کرتے ہیں اِن کا پتہ نہیں چلتا نوید نے جواب دیا۔
میرے خیال میں وہ چھوٹی موٹی نہیں کافی بڑی سامی ہے۔
اچھا رکیں میں پتہ کرتا ہوں یہ کہ کر نوید موباٸل میں نمبر سرچ کرنے لگا۔
اب اس نے موباٸل کان کے ساتھ لگا کے کہا السلام علیکم بلوچ صاحب۔
دوسری طرف کی آواز مجھے سناٸی نہیں دے رہی تھی اِس لٸے پتہ نہیں کیا بولا جا رہا تھا
ساٸیں ایک کام ہے آپ کے ساتھ
نا ساٸیں حکم نہیں گزارش ہے۔
نوید اب اسے بات بتانے لگا۔۔
بلوچ صاحب تسی کوشش کرو تے بندہ نہ ملے میں نہیں مندا
ساٸیں میرا ذاتی کام ہے اس وحید اور بلقیس سے جب بندے آ جاٸیں تو زرا مجھے کال کر دینا آپ
او کے ساٸیں الله حافظ،،
شاہ جی ایسے پتہ لگانا بہت مشکل ہے میں نے میٹروول تھانے کے انچارج سے بات کی ہے وہ کہ رہا ہے بہت جلد بندے پکڑ لیں گے۔
نوید تم خود بھی اس میں کوشش کرو مجھے ہر صورت وہ انسان چاہیٸے نا چاہتے ہوٸے بھی میری آواز میں سختی اتر آٸی۔۔۔
مصطفی خیریت تو ہے کوٸی مسئلہ ہے تو مجھے بتاٶ تم کچھ پریشان لگ رہے ہو نوید نے فکر مندی سے پوچھا۔
نہیں پریشانی کی کوٸی بات نہیں مجھے اس بندے سے ذاتی قسم کا مسئلہ ہے جب تم پکڑ لو گے تو بتاٶں گا۔۔
اچھا ٹھیک جو تمہیں ٹھیک لگے نوید جواب دیتا ہوا ہاتھ دھونے چلا گیا۔
میں تھانے سے نکلا تو چھے بج رہے تھے اور آنکھوں میں شدید جلن ہو رہی تھی جو شاید کل پوری رات جاگنے کا اثر تھا
جیسے ہی بیڈ پہ لیٹا تو تھکاوٹ اور جاگنے کی وجہ سے نیند نے دبوچ لیا بڑی مشکل سے بیگم کو میسج کیا کہ صبح بات کروں گا کیونکہ اُس نے پریشان ہو جانا تھا کہ واٹس ایپ اور فیس بک پہ آف لاٸن ہے اور فون پہ بھی کال پک نہیں کر رہا ہے۔
صبح فجر کے وقت آنکھ کھلی وضو کیا نماز ادا کی اور چاٸے بنانے لگا تبھی روم سے موباٸل کی بیل سناٸی دی
دیکھا تو باس کی کال آ رہی تھی اتنی صبح اس گنجے کو کیا موت پڑ گٸی ہے
باس کی تعریف کرنے کے بعد کال پک کی السلام علیکم سر
وعلیکم السلام شاہ جی کیسے ہیں؟
اللہ کا احسان سر خیریت ہے آج اتنی صبح کال۔۔
شاہ جی آپ کو چار دن کے لٸے حیدرآباد جانا ہے۔
آفس کے کام کے سلسلے میں اس لٸے آپ جلدی نکل جانا او کے سر
او کے شاہ جی الله حافظ
خبیث انسان حیدر آباد جانا ہے کسی اور کو بندہ بھیج دیتا ہے ایک بار پھر باس کی کچھ تعریف کی
پورے نو بجے میں گھر سے حیدرآباد کے لٸے نکلا سوچا یہی تھا کہ دن کو کسی وقت سدرہ سے بات کروں گا لیکن اتنی مصروفیت رہی کہ بیگم سے بھی بات کرنے کا وقت نہیں مل رہا تھا اور بیگم اپنی عادت کے مطابق میری جان کو پیٹنے پہ لگی ہوٸی تھی
اور میسج پہ میسج کیے جا رہی تھی
مجھے پتہ تھا تم بدل جاٶ گے اتنا ہی ہوتا ہے مسٹر شاہ
دل بھر گیا تمہارا
میں بھی پاگل ہوں تمہاری جان نہیں چھوڑتی
تمہارے پٕچھے تو لاٸن لگی اب میری کیا ویلیو ہو گی۔
بس یہ محبت پیار شادی سے پہلے کے چونچلے ہیں اب تو تمہارا دل بھی نہیں کرتا مجھے سے بات کرنے کا
لگتا ہے کوٸی اور پسند آ گٸی ہے
لیکن شاہ صاحب ایک بات بھول جاٶ کہ جیتے جی میں تمہاری جان چھوڑ دوں گی
کبھی نہیں مرتے مرتے بھی تمہیں مار کے مروں گی
اور ان میسجز کے ساتھ مختلف قسم کے ایموجی بھیجے جا رہی تھی۔۔۔😴😡😡😡🌑🌑🌑
🔫🔫🔫🔫👽👽👽👽👽😈😈😈😐😐😐😕😕😕😕😭😭😭😭😢😢😢🙏🙏🙏🙏👊👊👊👊👊👎👎👎👎😔😔😟😟😟😏😏😏
اب مجھے ہنسی بھی آ رہی تھی بیگم کے میسج پڑھ کے اور دل کو بہت سکون بھی مل رہا تھا کہ چلو کوٸی تو ہے جو کہتا ہے میں جیتے جی تمہاری جان نہیں چھوڑوں گا۔۔۔
چار دن کے لٸے گیا تھا لیکن کام زیادہ نکل آیا اس لٸے چار دن کے بجاٸے مجھے آٹھ دن حیدر آباد رہنا پڑا اور ان آٹھ دنوں میں باوجود کوشش کے میں سدرہ سے بات نہ کر سکا
لیکن اس کے باوجود وہ ہر وقت خیالوں میں بسی رہی۔۔۔۔
جیسے بات سے بات نکلتی سیم اِسی کے مصداق کام سے کام نکلتا ہے مجھے منگل کی شام حیدرآباد سے واپس آنا تھا لیکن پھر آفس کی طرف سے احکامات ملے کے آپ دو دن اور رکیں گے۔۔۔۔۔۔۔
جمعرات کی شام چھے بجے میں نے آخری میٹنگ مکمل کی یہ وزٹ بہت شاندار رہا تھا شاید اِس بار رب کی کوٸی خصوصی مہربانی تھی کہ تین پروجیکٹ کی ڈیل فاٸنل ہو گٸی۔۔۔
اور میں سوچ رہا تھا کہ یقیناً یہ سدرہ کے ساتھ کی ہوٸی نیکی کا صلہ ہے۔۔۔
واپس ہوٹل پہنچ کے میں نے باس کو کال کی ۔
السلام علیکم سر
والسلام سلام شاہ صاحب
سر اب کیا حکم ہے ۔۔
بڑی شدت سے دل چاہا کہ باس کو اس کے نام سے پکاروں جو مجھے باس کے لٸے بہت موزوں لگتا تھا گنجا پاپی😌😌
لیکن پھر احترام کے پیش نظر سر کہ دیا۔۔🙊
مسٹر شاہ آپ کی پروگریس اس بار بہت شاندار ہے اور ہیڈ آفس آپ سے بہت خوش ہے اس لٸے آپ کو سنڈے تک لیو دی گٸی ہے انجوٸے کریں اینڈ congratulations
شکریہ سر
او کے خدا حافظ
الله حافظ سر۔۔
لیو کا سن کے دل تو بڑا کیا کے کہ کوٸی نصیبو لال کا اچھا سا مجرا سنو🙈
اور لڈی ڈالوں پھر اپنی سوچ پہ شرمندگی محسوس ہوٸی کہ یہ کیا غلط بات سوچ لی ہے
میڈم نے تو کبھی کوٸی مجرے والا گانا گایا ہی نہیں 🙊🙊🙈
میڈم نصیو لال سے اپنی اس گستاخی پہ روحانی سوری بول کے انٹرکام پہ دس منٹ بعد چاٸے کا بول کے شاور لینے چلا گیا۔۔۔۔
چاٸے پیتے ہوٸے جو پہلا خیال دل میں آیا وہ سدرہ کا تھا
پتہ نہیں کیسی ہو گی وہ ..
کہیں وہ مجھ سے بدگماں نہ ہو گٸی ہو کہیں اُس کے دل میں یہ خیال نہ آ گیا ہو کہ میں نے اُس کے ماضی کو سن کے دوبارہ مڑ کے اُس کا حال بھی نہیں پوچھا۔۔
یہ خیال مجھے الجھا رہا تھا اور دل میں ایک عجیب قسم کی بے چینی وارد ہو رہی تھی۔۔۔
پہلے یہی پلان تھا کہ صبح نکلوں گا کراچی کے لٸے لیکن اب یہاں رکنا مشکل ہو رہا تھا اس لٸے اُسی وقت اٹھا اور پیکنگ کی اور اللہ کا نام لے کر کراچی کے لٸے نکل پڑا۔۔۔۔۔۔۔
کراچی پہنچا تو رات بارہ سے اوپر کا وقت ہو گیا تھا لیکن کراچی میں رات کے بارہ بھی ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے آٹھ بجے کا وقت ہو ابھی بھی خوب چہل پہل تھی۔
گھر پہنچ کے صحن کی لاٸٹ آن کی جس نے منہ چڑھا کے آن ہونے سے انکار کر دیا۔۔۔
دو بار کوشش کی کہ شاید آن ہو جاٸے لیکن اسے ترس نہیں آیا تو اپنا فیورٹ جملہ لاٸٹ اور بورڈ کے گوش گزار کر کیا مٹی پاٶ اور روم کی طرف بڑھ گیا۔
روم کا لاک اوپن کیا اور روم میں آ گیا۔۔۔
لیکن یہ کیا جیسے ہی روم کی لاٸٹ آن کی وہ بھی آن نہ ہوٸی اب دل نے تانا دیا چلو شاباش ہن اِس تے وی مٹی پاٶ۔۔۔۔
گھور کے دل کو چپیڑ ماری اور باہر نکل کے دیکھا تو سب کی لاٸٹ آن تھی۔۔۔۔
تبھی دماغ میں ریڈ بتی بلنک کرنے لگی بھاٸی صاحب بل بھریا سی۔۔۔۔ او نو😦😦
جس دن میں حیدر آباد گیا تھا بل کی لاسٹ ڈیٹ تھی۔۔۔
اور سوچا تھا کے جاتے ہوٸے پے کر دوں گا لیکن پھر بھول گیا تو اس کا مطلب ہے کے الیکٹرک والے اپنا کام کر گٸے ہیں
یقین تو تھا کہ ایسا ہی ہوا ہے لیکن پھر بھی تصدیق کے لٸے گیٹ سے باہر نکل کے میٹر کا دیدار کیا تو اس کی دونوں نالیاں کٹی ہوٸی تھی۔۔۔
میٹر کا حال دیکھ کے بجلی والوں کی شان میں کچھ کلمات ادا کیٸے اور روم میں آ کے لیٹ گیا۔۔۔۔۔۔
صبح آنکھ کھلی تو نو بج رہے ناشتہ وغیرہ سے فری ہو کے بل پے کرنے چلا گیا اس کے بعد واپڈا والوں کو کمپلین کی اور بجلی برحال کرواٸی۔۔۔
ڈیڑھ بجے جمعہ کی نماز ادا کی اور سو گیا
شام چار بجے میری آنکھ کھلی اور فریش ہو کے بیگم کو کال کی کچھ دیر اس کا دماغ کھایا اور فل تپا کے کال بند کر دی اور سدرہ سے ملنے کے لٸے نکل آیا۔۔۔
جب میں نے گاڑی خادم حسین کے گھر کے سامنے روکی تو شام کے چھے بج رہے تھے۔
دروازہ حمزہ نے کھولا اندر داخل ہوا تو خادم حسین سامنے ہی چارپاٸی پہ لیٹا ہوا تھا جس نے مجھے دیکھتے ہی اٹھنے کی کوشش کی۔۔۔
لیٹے رہو لیٹے رہو کیا ہوا طبیعت تو صحیح ہے تمہاری جی صاحب جی بس آج کچھ فلو سا ہو گیا ہے آپ سناٶ کیسے گزرے دن ۔۔
الحَمْدُ ِلله میرے منع کرنے کے باوجود بھی خادم اٹھ کے بیٹھ گیا تبھی بھابھی دوپٹے سے ہاتھ پونجھتی ہوٸی کچن سے باہر نکلی
سلام بھاٸی کیسے ہیں
وعلیکم سلام آپ کیسی ہیں بھابھی
جی شکر ہے مالک کا
بھابھی اب تو اوپر کوٸی نہیں نا
جی بھاٸی چلے جاٸیں ابھی ابھی بچے گٸے ہیں۔۔۔
او کے ٹھیک ہے پھر بات ہوتی ہے یہ کہتے ہوٸے میں سیڑھیوں کیطرف بڑھ گیا۔۔
تبھی بھابھی کی آواز آٸی بھاٸی چاٸے بھجواٶں۔۔
نہیں بھابھی ہم لوگ کھانا باہر کھاٸیں گے اس لٸے چاٸے نہیں۔۔۔
اور ان کا جواب سنے بنا سیڑھیاں چڑھنے لگا ۔۔۔۔
کوٸی ہے گھر میں ؟
میں نے سیڑھیوں کے پاس کھڑے ہو کے آواز تھی۔
دو سیکنڈ سے بھی پہلے سدرہ ہاتھ میں کتاب لٸے بنا چپل پہنے باہر آ گٸی
ارے شاہ سر آپ السلام علیکم
وعلیکم سلام کیسی ہو تم ؟
ٹھیک ہو سر اندر آٸیں۔
ہم بات کرتے ہوٸے روم میں آ گٸے۔۔
سناٶ کیسے گزرے دن تمہارے
سر اچھے بہت اچھے گزرے بچے آ جاتے ہیں اب دل لگ جاتا ہے
گڈ کتنے سٹوڈنٹ اکھٹے کر لیٸے اب تک
سر چار بچیاں ایف اے کی ہیں
دو بچیاں ایف ایس سی کی ہیں
اور چھے بچیاں نائنتھ ٹینتھ کی ہیں
سدرہ نے تفصیل بتاٸی
ارے واہ بہت زبردست اب مجھے یقین ہو گیا ہے تمہاری منزل بہت قریب ہے۔۔
نہیں سر منزل تو بہت دور ہے
ابھی تو صرف راستہ ملا ہے
سدرہ نے اداس ہوتے ہوٸے جواب دیا
ان شاء اللہ منزل بھی مل جاٸے گی۔
ان شاء اللہ سر
اچھا یہ دیکھو تمہارے لٸے کیا لایا ہوں
میں نے پاس پڑا پیکٹ سدرہ کی طرف بڑھایا
سر کیا ہے اس میں ؟
خود دیکھ لو میں نے پیکٹ سدرہ کی طرف بڑھاتے ہوٸے کہا
سدرہ مجھے سے پیکٹ لے کھولنے لگی۔۔
میری نظریں اس کے چہرے پہ جم گٸی جو پہلے دن اس کے چہرے پہ داغ تھے اب بلکل ختم ہو گٸے تھے بہت معصومیت تھی اس کے چہرے پہ میرا دل بھر آیا کہ پتہ نہیں کون سی منحوس گھڑی اُسے اِس دلدل میں پھینک گٸی تھی۔
ارے واہ شاہ سر بینگل آپ میرے لٸے لاٸے ہیں ؟
سدرہ نے اب براہ راست میری طرف دیکھا میں پہلے ہی اسےدیکھ رہا تھا کچھ پل یوں ہی بیت گٸے
اور پھر میں نے دیکھا کہ سدرہ کے چہرے پہ ایک رنگ سا آ کے گزر کیا اور اس نے نظریں جھکا لی
جی آپ کے لٸے لایا ہوں لیکن لگتا آپ کو اچھی نہیں لگی میں نے شرارت سے کہا۔
سر ابو کے بعد مجھے آپ کا گفٹ پسند آیا
سدرہ اداس ہو گٸی۔۔۔
مجھے اِس وقت اُس کا اداس ہونا بہت برا لگا اس لٸے اُس کا موڈ بدلنے کے لٸے بات بدلی۔
تم نے یاد بھی نہیں کیا ہو گا مجھے۔
شاہ سر آپ کے اس تحفے نے آپ کا احساس آپ کی خوشبو ہر وقت میرے وجود سے جوڑے رکھی۔
سدرہ نے جیکٹ کی طرف اشارہ کیا جو اُس نے اب بھی پہن رکھی جو اُس رات میں نے ساحل پہ اسے پہننے کے لٸے دی تھی۔۔
اچھا تو یہ تمہارے پاس ہے میں ڈھونڈ ڈھونڈ کے تھک گیا پتہ نہیں کدھر گم ہو گٸی چلو اب واپس کرو۔۔۔
میں نے جان بوجھ کے انجان بننے کی کوشش کی۔
شاہ سر یہ میں اب آپ کو نہیں دوں گی۔
سدرہ نے ہاتھ سے نا نا کا اشارہ کرتے ہوٸے کہا
اچھا ٹھیک ہے نا دو لیکن ایک شرط ہے میں نے سدرہ کی طرف دیکھتے ہوٸے کہا
کیا سر بتاٸیں
ہم ابھی ڈنر باہر کریں گے
منظور ہے سر لیکن میری بھی دو شرطیں ہیں سر
سدرہ نے مسکراتے ہوٸے ہاتھ کی انگلیوں سے ✌ کا نشان بنایا۔۔
جی بتاٸیں میم کیا ہیں آپ کی شرطیں ؟
پہلی شرط یہ ہے کہ آپ مجھے سب سے پہلے عبایا لے کے دیں گے
او کے ڈن اور دوسری شرط ؟
میں جو آپ کو دو گی وہ آپ بنا کوٸی بات کٸے لے لیں گے
اچھا ڈون
نہیں سر دوسری شرط کے لٸے پکا پرومس کریں کہ آپ منع نہیں کریں گے۔
او کے وعدہ ہے نہیں کروں گا منع
سر ایسے ن
ہیں
پھر کیسے میں نے جان بوجھ کے سدرہ کو چھیڑا
سدرہ نے اٹھتے ہوٸے کہا ہاتھ ملا کے وعدہ کریں سر
اور ساتھ ہی اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا
____ جاری ہے ____