کال گرل
رائٹر سید مصطفی احمد
قسط 7
منظور ہے سر لیکن میری بھی دو شرطیں ہیں سر
سدرہ نے مسکراتے ہوٸے ہاتھ کی انگلیوں سے ✌ کا نشان بنایا۔۔
جی بتاٸیں میم کیا ہیں آپ کی شرطیں ؟
پہلی شرط یہ ہے کہ آپ مجھے سب سے پہلے عبایا لے کے دیں گے
او کے ڈن اور دوسری شرط ؟
میں جو آپ کو دو گی وہ آپ بنا کوٸی بات کٸے لے لیں گے
اچھا ڈون
نہیں سر دوسری شرط کے لٸے پکا پرومس کریں کہ آپ منع نہیں کریں گے۔
او کے وعدہ ہے نہیں کروں گا منع
سر ایسے نہیں
پھر کیسے میں نے جان بوجھ کے سدرہ کو چھیڑا
سدرہ نے اٹھتے ہوٸے کہا ہاتھ ملا کے وعدہ کریں سر
اور ساتھ ہی اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا
جسے میں نے کچھ سکینڈ سوچنے کے بعد تھام لیا۔۔۔
#آگے۔ آپ سب سے معذرت ٹیگ میں سرچ کرنا بہت مشکل ہے پوسٹ اناوسمنٹ پر لگ ہے تاکہ آپ سب ممبران کو آسانی ہو ۔
سدرہ نے وعدہ لینے کے بعد اپنے بیگ سے دس ہزار روپے نکال کے میری طرف بڑھاٸے۔
یہ کیا ہے میری آواز میں نا چاہنے کے باوجود سختی آ گٸی
شاہ سر آپ نے وعدہ کیا تھا کہ کہ آپ بنا کوٸی سوال کیے لے لیں گے۔۔۔
سدرہ نے شکوہ کیا
اچھا دو میں نے نرم پڑتے ہوٸے کہا لیکن یہ پیسے کدھر سے آٸے یہ میں ضرور جاننا چاہوں گا۔۔
سر یہ جاننا آپ کا حق ہے یہ پیسے ٹیوشن والے بچوں کے ہیں ایک ماہ کے ایڈوانس کل پندرہ ہزار ملے تھے پانچ ہزار بھابھی کو دے دیٸے۔۔۔
سدرہ نے پوری تفصیل بتا دی۔۔
اوہ میں نے خود کو ریلیکس فیل کیا ورنہ ایک پل کو تو دماغ ہل گیا تھا۔۔۔
اچھا تو رکھ لو نا میں کیا کروں گا اِن کا
میں نے پیسے واپس سدرہ کی طرف بڑھاتے ہوٸے کہا۔۔
نہیں سر مجھے جو بھی چاہیے ہو گا آپ لے کے دیں گے۔
سیم میرے پاپا کی طرح میں آپ سے مانگ کے لوں گی ۔
پاپا کے ذکر پہ سدرہ کا چہرہ بجھ سا گیا اور اُس کی آنکھوں میں نمی اتر آٸی۔۔
سدرہ کی اس خواہش کو دیکھتے ہوٸے میں نے پیسے پاکٹ میں رکھ لٸے چلو ریڈی ہو جاٶ ڈنر پہ چلتے ہیں۔۔۔
او کے سر بس پانچ منٹ
یہ کہتے ہوٸے سدرہ باہر چلی گٸی۔۔۔
سب سے پہلے ہم لوگ طارق روڈ گٸے جہاں سے سدرہ نے ایک عبایا لیا اُس کے بعد میرے فیورٹ ریسٹورنٹ لال قلعہ میں ڈنر کیا۔۔۔۔
واپس سدرہ کو گھر ڈراپ کر کے میں ماموں کی طرف چلا گیا۔۔۔
سدرہ کو خادم حسین کے گھر میں رہتے ہوٸے یہ دوسرا مہینہ تھا اور اِسی دوران اس کے پاس سٹوڈنٹ کی تعداد بیس باٸیس کے قریب ہو گٸی تھی۔۔
صبح میں آفس پہنچا تو خادم حسین نے سلام کے بعد کہا
صاحب جی آپ کو بی بی جی نے شام کو بلایا ہے
اچانک میرے قدم رک گٸے خیریت تو ہے نا خادم کوٸی مسئلہ تو نہیں۔۔
نہیں صاحب جی صبح آپ کی بھابھی نے کہا تھا کہ بھاٸی کو کہنا کے شام کو گھر آٸیں۔
او کے ٹھیک ہے آٶں گا شام کو یہ کہتے ہوٸے میں اندر کی جانب بڑھ گیا۔۔۔
اگلے دو دن آفس کی مصروفیات میں سے جانے کا وقت ہی نہ ملا اور یہی سوچا کہ سنڈے کو جاٶں گا۔۔۔
سنڈے کی صبح ناشتے سے فارغ ہو کے باٸیک نکالی اور خادم حسین کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔۔۔
خادم حسین اور بھابھی سے سلام دعا کر کے اوپر آیا تو سدرہ شیشے کے سامنے کھڑی ہو کے کنگھی کر رہی تھی۔۔
پہلے دن جب وہ میٹروول روڈ پہ مجھے ملی تھی
اُس دن کے بعد میں آج اسے بنا دوپٹے کے دیکھ رہا تھا
اور ایسا لگتا رہا تھا کہ دل ابھی سینے سے باہر نکل آٸے گا۔
کافی توجہ سے مالک نے بنایا تھا اُسے دراز قد لمبے سیاہ بال جو پوری طرح کمر کو چھپاتے کمر سے بھی نیچے آ رہے تھے
اِس سے پہلے کے دماغ اور دل اور بھٹکتے مجھے سدرہ کو مخاطب کرنا پڑا کیونکہ اب میری دل پہ گرفت ڈھیلی پڑ رہی تھی۔۔۔
کوٸی ہے گھر میں
میں نے زرا اونچی آواز میں کہا۔
سدرہ نے بنا جواب دیٸے جلدی سے دوپٹہ اوڑھا اور سلام کیا۔۔
وعلیکم سلام کیسی ہیں مس ٹیچر کچھ ہمیں بھی پڑھا دیں میں نے سدرہ کے چہرے پہ نظر جماتے ہوٸے کہا۔۔
سوری سر آپ کو نہیں پڑھا سکتے ہم کیونکہ آپ ہماری فیس نہیں دے سکیں گے۔۔
ہاں یہ تو ہے آپ کی فیس تو ہم نہیں دے سکتے اچھا آپ نے بلوایا تھا سوری وقت نہیں ملا مجھے دو دن اس لٸے آج آیا ہوں
جی سر ایک منٹ آٸی میں یہ کہ سدرہ اندر چلی گٸی اور کچھ دیر بعد ہزار ہزار کے کافی نوٹ میری جانب بڑھا دیٸے اور مجھے وعدے کے مطابق لینے پڑھے۔۔۔
ہم لوگ باہر ہی دھوپ میں رکھی چیٸر پہ بیٹھے تھے
اچھا تو یہ کام تھا اس لٸے بلوایا تھا میں نے خفگی سے کہا۔
۔
نہیں سر ایک اور کام تھا مجھے کوٸی بڑا گھر لے دیں
کیوں اِس گھر کو کیا ہے کوٸی وجہ کوٸی مسئلہ ہے تو بتاٶ
نہیں سر کوٸی مسئلہ نہیں بچے زیادہ ہیں اور جگہ کم سدرہ نے وضاحت کی۔۔۔
اوووو یہ تو ہے اچھا کرتے ہیں کچھ تم نے سٹڈی کہاں تک کی ہے کوٸی اچھی جاب اپلاٸی کر لو
نہیں سر مجھے گھر سے باہر جانا ہی نہیں اور پھر سارہ خرچہ تو آپ دیتے ہیں مجھے کیا ضرورت ہے جاب کی۔۔
حالانکہ یہ جھوٹ تھا کہ اسے خرچہ میں دے رہا تھا میں نے اُس پہ پہلے چار پانچ دن میں کوٸی اٹھارہ ہزار خرچ کٸے تھے
لیکن اُس کے بدلے وہ اب تک مجھے چالیس ہزار کے قریب دے چکی تھی
جس میں سے اگر میں اٹھارہ ہزار نکالتا اور باقی دو ماہ کے رینٹ اور کھانے کے پیسے جو خادم حسین کو دیٸے تھے وہ نکالتا تو بھی اُس کا میری طرف دو ہزار بچ جاتا تھا۔۔۔
شاہ سر کیا سوچ رہے ہیں سدرہ نے مجھے خیالوں میں کھویا دیکھ کے پوچھا
تم نے سٹڈی کا نہیں بتایا مجھے
میں نے گھور کے دیکھا
سر جب آپ گھورتے ہیں تو بہت اچھے لگتے ہیں اور سر
سدرہ کچھ کہتے کہتے رک گٸی۔۔
اور کیا میڈم جی
کچھ نہیں سر
بتاٶ اور کیا سر ورنہ میں ناراض۔۔
میں نے دھمکی دی جو فورا کام کر گٸی۔
سر پلیز ناراض مت ہونا
اب آپ کے علاوہ میری لاٸف میں کچھ نہیں ہے
سدرہ کے چہرے پہ ہواٸیاں اڑنے لگی مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس کا ری ایکشن ایسا ہو گا
ارے ارے مزاق کر رہا تھا اچھا بتاٶ کیا سوچ رہی تھی۔۔
شاہ سر آپ کی آنکھیں بہت پیاری ہیں ماشاءاللہ میں نے اتنی پیاری آنکھیں آج تک نہیں دیکھی اور آپ کی آنکھوں میں جو حیا ہے نا وہ انہیں مزید بلند کرتی ہیں
سدرہ ایک وجت کی صورت میں بولے جا رہی تھی اور اسے روکنا بہت ضروری تھا۔۔۔
اچھا اگر آنکھوں کی تعریف ہوگئی ہو
تو یہ بتاٶ کہ سٹڈی کہا تک کی میں نے مصنوعی غصہ دکھایا۔۔
اچھا سر بتاتی ہوں سدرہ نے مسکراتے ہوٸے جواب دیا
ہاں بتاٶ جلدی۔۔
شاہ سر میں بی ایس آٸی اور ایم ایس کی سٹوڈنٹ تھی
پی ایچ ڈی کا ادارہ تھا لیکن بدقسمتی سے سب پہلے ہی ختم ہو گیا۔۔۔
اب سدرہ کے چہرے پہ واضح کرب تھا
اِس لٸے میں نے وجہ جاننے کے بجاٸے کہ ایسا کیا ہوا تھا سدرہ کو سٹڈی چھوڑنی پڑی۔۔
میں چپ ہو گیا۔۔۔
سر بی ایس آٸی ٹی کیا اِس کے بعد ایم ایس کیا آگے پی ایچ ڈی میں ایڈمیشن لینے کا ارادہ تھا جو کے ادھورا رہ گیا۔۔۔۔
اف خدا یہ لڑکی بی ایس آٸی اور ایم ایس کی سٹوڈنٹ ہو کے ایسے گندے کام میں پڑ گٸی دل اور دماغ پھٹنے لگا۔۔۔
اور میں مضبوظ ترین اعصاب رکھنے کے باوجود اس وقت بلکل خود کو انتہاٸی بکھرا ہوا محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔
سدرہ پانی لا کے دو ایک گلاس...
وہ اٹھی اور پانی لینے چلی گٸی۔۔
کیا ہوا سر طبیعت تو ٹھیک ہے نا آپ کی سدرہ نے پانی کا گلاس مجھے پکڑاتے ہوٸے پوچھا۔۔
ہاں ٹھیک ہوں اب۔۔
اچھا مسئلہ یہ کہ میں نہیں چاہتا کہ تم اکیلی رہو اس لٸے کوٸی ایسا گھر ہو جو خادم کے گھر کے پاس ہو تاکہ تم پڑھا کے واپس آ جاٶ
پھر ہو بھی اسی ایریا میں کیونکہ تمہارےسٹوڈنٹ اسی ایریا کے ہیں ۔۔۔
جی سر ایسا ہی ہے اور یہی سوچ کے میں پریشان ہو رہی تھی۔۔۔۔
تم پریشان نا ہو کرتے ہیں کچھ۔
اچھا ٹھیک ہے میں چلتا ہوں اور خادم سے اس مسئلے پہ بات کر کے وہی سے چلا جاٶں گا
ٹھیک ہے سر
او کے پھر اللہ حافظ میں نے اٹھتے ہوٸے کہا سدرہ مجھے سیڑھیوں تک چھوڑنے آٸی۔۔۔
نیچے آ کے خادم سے اس معاملے پہ بات کی تو اس نے اور بھابھی نے یہ کام اپنے ذمہ لے لیا کہ ہم بہت جلد تلاش کر دیں ۔۔۔۔
اگلا پورا ویک بہت مصروف گزرا اور ماموں کی طبیعت کی خرابی کے باعث میں سدرہ کی طرف نہ جا سکا۔۔۔
ایک دو بار بھابھی کے نمبر سے سر سری سی بات ہوٸی۔۔۔
منڈے کو آفس کا پہلا دن تھا اور جاتے ہی مجھے خادم نے اطلاح دی کہ صاحب جی گھر کا انتظام ہو گیا ہے
ارے واہ کہاں پہ ہوا میں نے خوش ہوتے ہوٸے پوچھا۔۔۔
صاحب جی اُدھر ہمارے گھر کے سامنے ہی
اچھا تم لنچ ٹاٸم کو اندر آ جانا بلکہ رہنے دو شام کو میں گھر آٶں گا یہ کہتا ہوا میں اندر چلا گیا۔۔۔
شام کو جب میں کچی آبادی خادم کے گھر پہنچا تو رات کے آٹھ بج رہے تھے۔
کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں نے خادم سے پوچھا کہ کون سی جگہ ہے چلو دیکھ لیں ۔۔
صاحب جی گھر نہیں ہے بس ایک ہال ہے لیکن بی بی نے کہا ہے ٹھیک ہے خادم نے وضاحت کی۔
سدرہ گٸی تھی دیکھنے
جی صاحب بیگم کے ساتھ گٸیں تھی۔۔
تبھی بھابھی پکوڑے اور چاٸے لے کے آ گٸیں
بھاٸی یہ جو سامنے میمن ہیں نا جن کی دو بچیاں آتی ہیں ان کا ہال ہے اور ان بچیوں نے ہی ضد کی ہے کہ یہ ٹھیک ہے
پھر سدرہ بی بی نے بھی دیکھا بھابھی نے پوری تفصیل سے آگاہ کیا۔۔۔
خادم اور میں چاٸے کے بعد حال دیکھنے چلے گٸے
حال کیا تھا تیرہ باٸے پچیس کی ایک شاپ نما دوکان تھی جگہ معقول تھی پچاس سٹوڈنٹ بڑے ایزی پڑھ سکتے تھے ۔۔
مالک کو بلاٶ خادم حسین
جی صاحب جی وہ چل نہیں سکتے ڈراٸنگ روم میں ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔
او کے چلو پھر بات کرتے ہیں ۔
ڈراٸنگ روم میں ایک پنتالیس پچاس سال کا اڈھیر عمر شخص صوفہ پر لیٹا ہوا تھا۔
خادم نے سہارا دے کے اسے اٹھایا تو میں نے آگے بڑھ کے ہاتھ ملایا۔۔۔
معذرت شاہ جی میں اٹھ کے نہیں آ سکا کیونکہ میری ریڑھ کی ہڈی میں کچھ تکلیف تھی۔۔۔
مالک دوکان نے معذرت کی۔۔
کوٸی بات نہیں جناب ہم جو آ گٸے ہیں میں نے خوش اخلاقی سے جواب دیا۔
سلام دعا کے بعد خادم نے تعارف کروایا راشد صاحب یہ مصطفی صاحب ہیں
اور صاحب جی یہ راشد صاحب ہیں ان کی دو بیٹیاں پڑھتی ہیں بی بی جی کے پاس۔۔۔
راشد صاحب کتنا رینٹ لیں گے آپ اُس ہال کا میں نے ٹاٸم ویسٹ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔۔۔
شاہ صاحب ہماری چار بچیاں پڑھتی ہیں
ویسے بھی وہ ہال کافی ٹاٸم سے خالی پڑا ہوا تھا اس لٸے چھوڑیں کرایہ کو۔۔۔
آپ اللہ کا نام لے کے استمال کریں۔
راشد صاحب اللہ آپ کو خوش رکھے لیکن یہ ضروری ہے کیونکہ یہ دو چار دن کا کام نہیں اِس لٸے آپ بھلے کم لے لیں مگر لیں ضرور میں نے سنجیدگی سے جواب دیا
ٹھیک ہے شاہ صاحب آپ لوگ آٹھ ہزار دے دینا مہینے کا جس میں بل بھی شامل ہو گا۔۔۔۔
کرایہ راشد صاحب نے معقول مانگا تھا اس لٸے بات ڈن ہو گٸی
خادم حسین آپ اِن کو جو بھی گارنٹی چاہیٸے ہو دے دینا۔
یہ کہتے ہوٸے میں اٹھ کھڑا ہوا۔۔
دوسرے دن میں نے آفس سے چھٹی لی اور ہال میں پینٹ وغیرہ لاٸٹ کا کام کروایا۔۔۔
ہال کو شٹر کے علاوہ شیشے کا دروازہ بھی لگا ہوا تھا جس کے اندر کی ساٸیڈ پہ میں نے پردہ لگوا دیا
اور طے یہ پایا کہ صبح آفس جاتے ہوٸے خادم شٹر کھول کے جایا کرے گا اور رات کو آفس سے آ کے بند کرے گا سدرہ کو بھابھی چھوڑنے جاٸے گی۔۔۔
اب سب سے مین مسئلہ تھا چیٸرز کا جو سٹوڈنٹ کے لٸے چاہیٸے تھی۔
جن کا پتہ دو تین جگہ سے کیا تو معلوم ہوا آرڈر دینا پڑے گا اور تین چار دن بعد ملیں گی۔۔۔
لیکن یہ مسئلہ بھی راشد صاحب مالک دوکان نے حل کر دیا اُن کا کوٸی ہوٹل تھا جس کے لٸے انہوں نیو چیٸرز اور ٹیبل خریدے تھے اس لٸے وہ ہمیں بڑی مناسب قیمت پہ مل گٸے اور راشد صاحب نے کہا کہ وہ اِن چیٸرز اور ٹیبل کے پیسے بچیوں کی ٹیوشن فیس سے کاٹ لیں گے۔۔۔
اگلے تین چار دن میں میری اچھی خاصی دوڑ لگی رہی
آفس سے آ کے نو دس بجے تک کام کرواتا رہتا پھر چیٸر اور ٹیبل شفٹ کرواٸے اس کی صفاٸی وغیرہ کرواٸی۔
اللہ کا شکر ہے تین چار دن کی محنت کے بعد ہال کا کام پورا ہو گیا اور ہال اب پوری طرح ریڈی تھا سٹوڈنٹ کے لٸے۔۔۔
رات کو جب میں گھر لوٹ رہا تھا تو گنجے پاپی میرا مطلب ہے باس کی کال آ گٸی۔۔۔۔
السلام علیکم سر
وعیلکم سلام شاہ صاحب
شاہ صاحب پچھلے ہفتے خالد صاحب کو دو پینا فلیکس بنوانے کا کہا تھا۔۔۔
ادارے کی پبلسٹی کے لٸے لیکن خالد صاحب کے بھاٸی کی ڈیتھ کی وجہ سے وہ تین دن سے آفس نہیں آ رہے
ابھی ملک صاحب کی کال آٸی ہے کہ صبح وہ فلیکس ہر صورت لگواٸیں اِس لٸے پلیز آپ خالد صاحب سے رابطہ کریں
اور اُس فلیکس والے کا نمبر وغیرہ لے کے پتہ کریں کہ فلیکس بن گٸی یا نہیں۔۔
او کے سر میں پتہ کرتا ہوں
الله حافظ شاہ صاحب
الو کا پٹھہ منحوس اس شخص سے خیر کی امید نہیں اب یہ فلیکس والا کام ہی کرنے کے لٸے ہی رہ گٸے ہیں ہم
میں نے باس کی شان میں کچھ مزید کلمات ادا کیٸے جو قابل تحریر نہیں ۔۔۔
اور خالد کو کال ملا دی کال دوسری ہی رنگ پہ پک کر لی گٸی۔۔
السلام علیکم مصطفی بھاٸی
وعلیکم سلام خالد بھاٸی کیسے ہیں
جی شکر ہے اس پاک ذات کا۔۔
خالد بھاٸی شیخ صاحب نے کوٸی فلیکس کہے تھے آپ کو اس شاپ کا نمبر اور نام بتا دیں ۔۔۔
جی مصطفی بھاٸی بتاتا ہوں ہولڈ کریں
کچھ دیر بعد خالد نے شاپ کا نام نمبر اور ایڈریس لکھوا دیا۔۔۔۔
میں اس وقت لیموں گوٹھ میں تھا اور آفس کے بعد ہال کی بھی مکمل سیٹنگ کرواٸی تھی اس لٸے تھکاوٹ سے برا حال تھا۔۔۔
لیکن پھر بھی فلیکس کا تو پتہ لازمی کرنا تھا اِس لٸے ٹاٸم ویسٹ کیے بنا میں نے گاڑی موتی محل کی طرف موڑ دی
فلیکس ریڈی تھی اس لٸے زیادہ وقت نہیں لگا بل دیا اور فلیکس لڑکے نے گاڑی میں رکھوا دیٸے۔۔
شاپ مالک سے اللہ حافظ کر کے گاڑی کے پاس آیا تو اچانک دماغ میں خیال آیا کیوں نہ سدرہ کے ٹیوشن سنٹر کے لٸے بھی ایک فلیکس بنوا لی جاٸے۔۔۔
یہ سوچتے ہوٸے میں واپس مڑا اور دوکان مالک سے فلیکس کی بات کی ۔۔۔
ساٸز بتایا اور بات ڈن کر دی اور اسے کہا کہ سنڈے کو چاہیٸے۔
مالک نے مجھے گاٸیڈ کرتے ہوٸے ڈیزاٸنر لڑکے کے پاس بھیج دیا۔
کیا لکھنا ہے سر ڈیزاٸنر لڑکے نے مجھ سے پوچھا
بس لکھ دو کے ایف ایس سی ایف اے اور میٹرک کے سٹوڈنٹ کی معیاری ٹیوشن کے لٸے رابطہ کریں
نیز اونلی فار گرل لکھ دو اور اپنے حساب سے بنا
لو ۔
سر ٹیوشن سنٹر کا نام کیا رکھنا ہے۔۔۔
آپ یہ مکمل کریں نام صبح لکھوا دوں گا
او کے ٹھیک ہے سر۔۔۔۔۔
میں چاہتا تھا نام سدرہ سے پوچھ کے لکھواٶں۔۔۔۔
____________جاری ہے__________