Randi - Episode 8


تمام کہانیاں

کال گرل

رائٹر سید مصطفی احمد 

قسط نمبر 8



صبح اٹھا تو تھکاوٹ کی وجہ سے پورا جسم درد کر رہا تھا

اور اِس جسم درد کی وجہ پچھلے تین چار دن لگاتار کام کر تھا۔۔۔

کیونکہ میں تین چار دن سے آفس سے آ کے رات دس بجے تک بزی رہتا رہتا تھا۔۔۔

 سدرہ کے ٹیوشن سینٹر کی سیٹنگ کے لٸے۔۔۔

اس دوران میں خود بھی ساتھ ساتھ کام کرواتا رہتا تھا 

 جس کی وجہ سے تھکاوٹ بہت زیادہ تھی اور اِسی وجہ سے اب جسم درد کر رہا تھا۔۔

میں نے کچن میں آ کے دودھ چولہے پہ رکھا اور لاٸٹر سے چولہا جلا کے خود فرج سے دو انڈے نکال کے پھینٹے لگا

دودھ کو جب ابال آیا تو اس میں پھینٹے ہوٸے انڈے ڈال کے ایک مزید ابال آنے دیا اور پھر اتار کے دودھ کپ میں ڈال کے روم میں آ گیا۔۔۔

گیارہ بجے میں ایک کلاٸنٹ کو میل کر کے فری ہوا ہی تھا کہ سیل کی واٸبریشن نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا دیکھا تو سکرین پہ نیو نمبر آ رہا تھا۔۔۔

دو بیل کے بعد کال پک کی تو دوسری طرف سے سلام کہا گیا اور کال والے نے اپنا تعارف پینا فلیکس کے مالک کے طور پہ کروایا 

 اور پوچھا کہ سر ٹیوشن سنٹر پہ کیا نام لکھنا ہے میں نے دس منٹ بعد بتانے کا کہ کر کال کر بند کر دی۔۔

میں نے بھابھی کا نمبر ڈاٸل کر کے سم ون سے او کے کر دیا۔۔۔۔

کال آخری رنگ پہ پک کر لی گٸی اور ساتھ ہی بھابھی کی آواز سناٸی دی بھاٸی ایک منٹ ہولڈ کریں میں ہاتھ صاف کر لوں۔۔

 اسلام علیکم بھاٸی سوری میں برتن دھو رہی تھی ہاتھ گیلے تھے اس لٸے ہولڈ کروایا۔۔۔

وعلیکم اسلام سدرہ سے بات کروا دیں ۔۔۔ 

جی ابھی کرواتی ہوں

سدرہ سے سلام کے بعد میں نے پوچھا کہ تمہارے پاپا کا نام کیا ہے 

سر خیریت ہے اچانک سے پاپا کے نام کا کیا کرنا ہے 

میرا خیال تھا کہ وہ بنا ریزن جانے بتا دے گی 

 کچھ نہیں کرنا ویسے پوچھا ہے اگر کوٸی اعتراض ہے تو مت بتاٶ میری آواز میں سختی آ گٸی اور دماغ سوچ میں پڑ گیا کہ کہیں یہ سب ڈرامہ تو نہیں کر رہی۔

نہیں سر ایسا نہیں ویسے ہی پوچھا میرے پاپا کا نام محمد ولایت ہے

شکریہ اور منڈے کو تم اپنے سٹوڈنٹ کو اپنے ٹیوشن سنٹر میں پڑھا سکتی ہو ریڈی ہے 

 سر میں آپ کو شکریہ نہیں کہوں گی۔

ہاہاہاہا مت کہو شکریہ چاہیٸے کس کو میں نے ہنستے ہوٸے جواب دیا۔

سر پتہ ہے وجہ کیا آپ کے پاس مجھے دو مہینے ہو گٸے ان دو ماہ میں آپ نے کبھی بھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ میں کسی غیر مرد کے ساتھ ہوں۔۔۔

 نہ آپ نے مجھ پہ کیٸے احسانوں کے بدلے کچھ ڈیمانڈ کیا اس لٸے سر میں چاہتی ہوں۔۔

کہ شکریہ جیسا چھوٹا لفظ بول کر آپ کی طرف سے دی گٸی عزت کا مزاق نہ اڑاٶں اور میں ہمیشہ آپ کی قرض دار رہنا چاہتی ہوں۔۔۔

ہاہاہاہاہا اتنی گہری باتیں مجھے سمجھ نہیں آتی اور میں کھلے دل سے تسلیم کرتا ہوں 

 کہ تم اپنا خرچ خود اٹھا رہی ہو بلکہ تمہاری ٹیوشن فیس کے پیسے تمہاری رہاٸش اور کھانے کے پیسے دینے کے بعد بھی بچ جاتے ہیں 

 اس لٸے اِس احساس سے نکل آٶ کے میں تمہیں خرچہ دے رہا ہوں۔۔۔۔۔

سر مجھے اِسی احساس میں رہنا ہے ساری عمر کیونکہ جس راہ پہ آپ مجھے لے آٸے اس پہ لانے کے لٸے کوٸی بھی رسک نہیں لیتا نہ اپنی عزت کوٸی داٶ پہ لگاتا ہے

کافی بار کٸیں مرد مجھ سے اپنی ہوس پوری کرنے کے بعد جو پیسے طے ہوتے تھے 

 اُس سے بہت زیادہ دے جاتے تھے ایک بار ایک مرد اتنا خوش ہوا میرے ساتھ کے پچاس ہزار دے گیا کہ یہ کام چھوڑ دو یہ میرا نمبر ہے

 جب بھی ضرورت ہو کال کرنا اور پیسے لے لینا بس کبھی کبھار ملنے آٶں گا تمہیں۔۔۔

لیکن سر صرف پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا پیسے کچھ ماہ میں لگ جاتے ہیں۔۔

اصل چیز ہوتی ہے سر پرستی جس میں انسان کو تحفظ محسوس ہوتا ہے 

مجھے تحفظ دینےوالا کوٸی نہیں ملا تھا 

اس معاشرے میں بنا مرد کے سہارے والی عورت راستے میں لگے بل بورڈ کی طرح ہوتی ہے جسے ہر کوٸی دیکھتا ہے

لیکن شاہ سر وہ آپ ہیں جنہوں نے مجھے عزت دی جنہوں نے اپنی عزت داٶ پہ لگاٸی۔۔

 اِس بات کی پرواہ کیٸے بنا کہ میں کون ہوں آپ نے عملی طور پہ میرے لٸے کچھ کیا۔۔

سدرہ اب بولے جا رہی تھی اور میں حیران تھا کہ یہ لڑکی انتی گہری سوچ رکھتی ہے۔۔

اور اتنی باریکی بینی سے ہر چیز کا مشاہدہ کرتی ہے اچھا ٹھیک اب مجھے چوڑا مت کرو موٹا ہو جاٶں۔۔۔

ہاہاہاہاہاہا ہو جاٸیں موٹے سر 

 اور آپ کی اطلاح کے لٸے عرض ہے کہ موٹے پتلے سے کردار پہ کوٸی فرق نہیں پڑتا۔۔

جس نے اچھے رہنا ہے اس نے موٹے ہو کے بھی اچھا ہی رہنا ہے ۔۔۔

ہاہاہاہا کسی بات میں جیتنے مت دینا مجھے

اور ہاں میری بیوی بہت ظالم اور ڈاکو رانی ٹاٸپ ہے جو مجھے کسی کے ساتھ فری نہیں ہونے دیتی۔۔۔

اِس لٸے تمہارے ساتھ میں ایسے رہتا ہوں شریف شروف بن کے میں نے بات بدلنے کی کوشش کی۔۔

واٶ سر ملواٸیں ہمیں بھی میم سے سدرہ نے خوش ہوتے ہوٸے کہا

نہیں ملوا سکتا ابھی

کیوں سر 

کیوں سر کی بچی اِس لٸے کہ ابھی وہ ماٸیکے ہے رخصتی نہیں ہوٸی۔۔۔۔لیکن کچھ ماہ تک ہو جاٸے گی رخصتی تو مل لینا۔۔۔

میں ضرور ملوں گی شاہ سر اُن سے جن کی محبت آپ کو بھٹکنے نہیں دیتی۔۔۔

بے شک اُن محبت اور میری ماں کی تربیت کے سبب ہی یہ ممکن ہوا۔۔۔ 

 سر آپ کی امی کدھر ہیں

اچھا یہ پھر بتاٶں گا میں آفس میں ہوں تو بعد میں بات کروں گا اللہ حافظ

 اللہ حافظ سر۔۔

سدرہ کی کال بندہ کر کے میں نے فلیکس والے کو کال کی اور بتایا کہ ولایت ٹیوشن سنٹر نام لکھ دو۔۔۔

سنڈے والے دن ہم نے ایک دیگ بریانی کی منگواٸی اور باقاعدہ سدرہ کے ٹیوشن سنٹر کا افتتاح کر دیا اور آس پاس کے دس بیس لوگوں کو بلا کے دعا میں شامل کیا۔۔۔

سدرہ ٹیوشن سنٹر کا نام اپنے پاپا کے نام پہ دیکھ کچھ پل کے لٸے تو سدرہ بلکل چپ ہو گٸی اور آنسوٶ سے آنکھیں بھر آٸی اُس کی 

 لیکن پھر میرے سمجھانے پہ چپ ہو گٸی اور میرے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے بس اتنا کہا کہ پتہ نہیں میری کس نیکی کے بدلے آپ مجھے ملے ہیں شاہ سر۔۔

نیکی کا بدلہ اللہ دیتا ہے انسان کسی نیکی کا بدل نہیں ہو سکتا خیر چلو واپس چلتے ہیں میں اب بہت تھک گیا ہوں واپس جا کے آرام کرنا ہے ۔۔۔

وقت بہت سکون سے گزر رہا تھا اور میں سدرہ کی طرف سے بلکل ریلیکس تھا کیونکہ وہ بہت خوش تھی اور بہت محنت سے بچے کو پڑھا رہی تھی اور اب اُس کے ٹیوشن سنٹر کا ایک نام بن گیا۔۔۔

چھے مہینے میں سدرہ کے پاس بچیوں کی تعداد چالیس سے اوپر ہو گٸی تھی اور اُس کےسارے خرچے نکال کے 

اُسے ایک موباٸل لے کے دیا اس کے پیسے بھی نکال کر سدرہ کے اب بھی میرے پاس کوٸی ڈیڑھ لاکھ سے اوپر جمع تھے۔۔۔

اُس دن سنڈے ہم لوگوں نے ساتھ گزارا اور خوب انجوٸے کیا اب وہ مجھ سے کافی فری ہو گٸی تھی 

 میں نے کافی بار کہا کہ کسی اچھی جگہ تمہاری شادی کر دیتا ہوں لیکن وہ ہر بار ٹال دیتی

اور مجھ پہ زور دیتی کہ آپ رخصتی کر کے منیبہ باجی کو لیں آٸیں میں آپ دونوں کی خدمت کروں گی اور آپ کے بچے سنبھالوں گی😥😥

کبھی کبھی میرا دل بہت شدت سے چاہتا کہ منیبہ کو سدرہ کے بارے میں بتاٶ 

 لیکن پھر یہ سوچ کے چپ ہو جاتا کہ مونیبہ نہیں سمجھ سکے گی اور سدرہ اور میرے رشتے کو غلط سمجھے گی

اس لٸے رخصتی کے بعد سدرہ سے ملوانے پہ بات چلی آ رہی تھی۔

لیکن میرا اللہ واحد جانتا ہے سدرہ کے

ساتھ گزارے اِن آٹھ مہینوں میں 

کبھی بھی میں نے اُسے غلط نظر سے دیکھا تک نہیں تھا ہاں وہ انتہا کی خوبصورت تھی اس کو دیکھ کے کس کا بھی ایمان خطرے میں سکتا تھا۔۔۔

اِن آٹھ مہینوں کی عبادت نے سدرہ کے چہرے کو مکمل نور سے بھر دیا تھا

جب سے وہ خادم کے گھر آٸی تھی تب سے وہ مسلسل پانچ وقت کی نماز اور تہجد ادا کر رہی تھی 

 اور اب تو دو ماہ سے اُس نے صبح کے وقت محلے کے بچوں کو قرآن پاک پڑھانا بھی شروع کر دیا تھا۔۔۔۔

چار بجے ہم لوگ سفاری پارک سے نکلے اور میں سدرہ کو اُس کی رہاٸش پہ ڈراپ کر کے گھر آ گیا۔۔۔۔۔

رات کو تین بجے مسلسل موباٸل کی واٸبریشن سے میری آنکھ کھل گٸی نیم وا آنکھوں سے دیکھا تو سدرہ کا نمبر تھا 

 میں ایک دم جھٹکے سے اٹھ کے بیٹھ گیا اور دل کو کسی انجانے خوف نے گھیر لیا۔

میں نے فورًا کال پک کی اور سدرہ کے بولنے سے پہلے فکر سے پوچھا کیا ہوا خریت تو ہے 

 آگے سے مجھےسدرہ کی سخت ازیت میں ڈوبی آواز سناٸی دی شاید وہ رو رہی تھی۔۔۔

شاہ سر میرا سر درد سے پھٹ رہا ہے اور میرے ناک سے مسلسل خون بہ رہا ہے پلیز آپ آ جاٶ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے😥😥

تم حوصلہ رکھو میں میں ابھی آیا۔۔۔

اللہ حافظ میں نے سدرہ کا جواب سنے بنا کال کاٹ دی۔

میں نے نا جیکٹ پہنی نا شال لی کچھ بھی نہیں بس چپل پہنی اور گاڑی نکالی گھر بھی بنا لاک کیٸے نکل آیا۔۔۔

دل تھا کہ کٹ رہا تھا اور آج کچی آبادی کا راستہ مجھے سینکڑوں میل دور لگ رہا تھا نجانے کیوں سدرہ کی آواز کانوں میں گونج رہی شاہ سر مجھے ڈر لگ رہا ہے جلدی آجاٸیں اور یہ جملہ میری آنکھیں نم کر رہا تھا۔۔۔۔😥😥

جاری ہے۔۔۔

اب لے گی سٹوری دل کو چھونے والا موڑ جس نے

 مجھے یہ سٹوری لکھنے پہ مجبور کیا۔۔۔۔



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*

Post a Comment (0)