کال گرل
رائٹر سید مصطفی احمد
قسط نمبر.9
مجھے اُس وقت نا سپیڈ بریکر نظر آ رہا تھا نا ہی خراب روڈ میری پہلی کوشش یہی تھی کہ کسی طرح جلد از جلد سدرہ کے پاس پہنچ جاٶں۔۔۔۔۔
میں نے گاڑی جیسے ہی خادم حسین کے گھر کے سامنے روکی مجھے خادم حسین گیٹ سے باہر نکلتا نظر آیا۔۔۔
جلدی آٸیں صاحب جی جی بی بی جی کی طبیعت بہت خراب ہے۔۔۔
چلو چلو میں اندر داخل ہوتے ہی سیڑھیا چڑھنے لگا تو خادم حسین نے مجھے آواز دی صاحب جی بی بی نیچے روم میں ہیں۔۔۔۔۔۔
میں اُس کی بات کا جواب دیٸے بنا روم کی طرف بڑھ گیا۔۔
روم میں داخل ہوتے ہی میں نے دیکھا کہ سدرہ کو بھابھی نے پیچھے سے سہارا دے کے اپنی گود میں لٹایا ہوا ہے۔۔۔
اور سدرہ کا سر دبا رہی ہیں۔۔۔۔
اندر داخل ہوتے ہی سدرہ نے نیم وا آنکھوں سے مجھے دیکھا آپ آ گٸے شاہ سر۔۔۔
میرے آنسو اب سارا کنٹرول کھو کے آنکھوں سے بہنے لگے😢
آٹھ ماہ کسی جانور کے ساتھ بھی گزارو تو انسان کو اُس سے بھی محبت ہو جاتی ہے
وہ تو جیتی جاگتی گڑیا جیسی لڑکی تھی میرا جزباتی ہونا بنتا تھا۔
میں آ گیا ہوں سِڈ کچھ نہیں ہو گا تمہیں
میں نے سدرہ کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوٸے کہا۔۔۔
خون بہنے کی وجہ سے سدرہ کے کپڑے کافی خراب نظر آ رہے تھے
لیکن اب وقت نہیں تھا کہ کپڑے چینج کرواٸے جاتے اِس لٸے میں نے بھابھی کو کہا کہ اٹھیں اِسے سہارا دے کے گاڑی میں لے چلتے ہیں
بھابھی اور میں نے کوشش کی سہارا دے کسی طرح سدرہ کو گاڑی تک لے جاٸیں۔۔۔
لیکن سدرہ چلنے کے قابل نہیں تھی
میں نے آواز دی سِڈ اٹھو ہاسپٹل چلتے ہیں
لیکن سدرہ نے کوٸی جواب نہ دیا
میں نے زرہ اونچی آواز میں پکارا
چل اٹھ جا میرا بچہ ہاسپٹل چلیں میڈیسن لینے۔۔۔۔
لیکن سدرہ کی طرف سے کوٸی حر کت نہ ہوٸی۔۔۔
مجھے اپنی سانس رکتی ہوٸی محسوس ہوٸی
میں بے اختیار سدرہ پہ جھکا اور اس کو اپنی بانہوں میں اٹھا لیا اور تیزی سے گاڑی کی طرف بڑھ گیا بھابھی آپ کمبل اور تکیہ لے کے آٸیں جلدی۔۔۔
گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ سدرہ کو لٹایا اور اس کی لیگ بھابھی نے گود میں رکھ لی۔۔۔
میں نے گاڑی سٹارٹ کی تو خادم حسین نے کہا میں بھی چلتا ہوں لیکن میں نے منع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔
نہیں تم گھر ہی رکو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں گھر پہ رہنا ضروری ہے۔۔۔۔۔
میں نے خود پوری عمر رشتوں کی دوری دیکھی ہوٸی تھی اِس لٸے مجھے احساس تھا کہ یہ ازیت کتنی خطرناک ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔
سدرہ کے لٸے مجھے بہت دکھ محسوس ہو رہا تھا وہ نازک سی لڑکی آج بیمار تھی اور افسوس کا مقام یہ تھا کہ اُس کے پاس کوٸی بھی خونی رشتہ موجود نہیں تھا۔۔۔۔😭
میرے لب بار بار رب کی بارگاہ میں سدرہ کی صحت کے دعا مانگ رہے تھے۔۔۔۔
آغا خان یونیورسٹی ہاسپٹل کی ایمرجنسی میں سدرہ اور بھابھی کو چھوڑ کے میں ایڈمن بلاک چلا گیا۔۔۔
جہاں پہ مجھے پچاس ہزار کیش جمع کروانے کا بولا گیا
اب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا کے میں تو جلدی میں پیسے لانا بھول گیا ہوں۔۔۔۔
پاکٹ میں ہاتھ ڈالا تو مشکل سے بارہ ہزار نکلے میں نے وہ کاٶنٹر پہ موجود لڑکے کو پکڑاٸے ہوٸے کہا آپ لوگ ٹریٹمنٹ سٹارٹ کرواٸیں۔۔۔
پیسے آدھے گھنٹے تک آ جاتے ہیں
اُسے اپنا اور پیشنٹ کا نام لکھوا کے سلپ لی اور واپس ایمرجنسی آ گیا
سدرہ کو چیک اب کرنے کے بعد فورًا نیوروسرجیکل وارڈ کے آٸی سی یو میں شفٹ کر دیا گیا۔۔۔
بیس منٹ بعد مجھے ڈاکٹر نے اندر بلایا اور ایڈمشن سلپ مانگی۔۔
میں نے فورًا سلپ نکال کے ڈاکٹر کو پکڑا دی۔۔۔
ڈاکٹر نے ایک طاٸرانہ سی نظر سلپ پہ ڈالی اور مجھ سے مخاطب ہوا۔۔۔
مسٹر مصطفی آپ کے پیشنٹ کی حالت بہت سیریس ہے ہم ان کا فلحال سی ٹی سکین کروا رہے ہیں اِس کے بعد ہی کچھ آٸڈیا ہو گا ان کو کیا ہواہے۔۔۔
پلیز سر جلدی کریں جو بھی کرنا ہے میں نے التجا کی
او کے مسٹر شاہ آپ باہر ویٹ کریں۔۔۔
میں آٸی سی یو سے باہر آ گیا۔۔۔
میرے باہر آنے کے کچھ ہی دیر بعد مجھے نرسنگ سٹاف سدرہ کو سی ٹی سکین روم کی طرف لے کے جاتا دکھاٸی دیا۔۔
میں بھی تیز تیز قدم اٹھاتا اُن کے ساتھ چلنے لگا سدرہ کا چہرہ اب پرسکوں تھا۔۔۔
لیکن ایسا لگتا رہا تھا کہ وہ رو رہی ہے اُس کی آنکھوں سے پانی بہ رہا تھا😢😢😢
نرسنگ سٹاف سدرہ کو لے کے سی ٹی سکین روم میں داخل ہو گیا
میں نے جیب سے سیل نکالا اور ٹاٸم دیکھا تو صبح کے پانچ تیس ہو رہے تھے میں نے کچھ سوچتے ہوٸے ماموں کا نمبر سیرچ کیا اور کال ملا دی۔۔۔
تیسری رنگ پہ ماموں نے کال پک کر لی۔۔۔
اسلام علیکم ماموں
وعلیکم سلام مصطفی خریت ہے اتنی صبح کال۔۔
ماموں بس کوٸی مسلہ تھا ایک دوست کی طبیعت اچانک رات کو خراب ہو گٸی تھی ہم آغا خان ہسپتال میں ہیں
آپ کچھ پیسے لے کے آ جاٸیں باقی تفصیل بعد میں بتاٶں گا۔۔۔
آپ آ جاٸیں ابھی ارجنٹ۔۔
میں نے یہی مناسب سمجھا کہ ماموں کو سدرہ کے بارے میں سب مل کے بتاٶں گا۔۔۔
میں بس تیس منٹ میں آیا اللہ رحم کرے گا تو پریشان نا ہو۔۔کتنے پیسے لاٶں مصطفی۔
ماموں پچاس ہزار لے آٸیں
او کے میں آیا الله حافظ
الله حافظ ماموں۔۔
جب تک ماموں ہاسپٹل آٸے ڈاکٹر نے سدرہ کا سی ٹی سکین کر کے اسے واپس آٸی سی یو میں شفٹ کر دیا ۔
سلام دعا کے بعد ماموں نے پیسے مجھے دیتے ہوٸے فکر مندی سے پوچھا۔۔۔۔۔
کون سا تمارا دوست ہے مصطفی اور یہ تمہاری قمیض پہ اتنا خون کیوں لگا ہوا ہے سب ٹھیک تو ہے نا کوٸی پریشانی کی بات تو نہیں۔
ماموں میں پیسے جمع کروا کے آیا پھر بتاتا ہوں ۔
میں پیسے جمع کروایا کے آیا تو ماموں آٸی سی یو کے باہر رکھی چیٸرز پہ بیٹھے ممانی کو کال کر رہے تھے۔۔۔۔
میرے پاس جانے پہ میں نے انہیں اتنا کہتے سنا کہ مصطفی کے کسی دوست کی طبیعت خراب ہے اور وہ ہاسپٹل ایڈمنٹ ہے
ادھر آیا ہوں ماموں نے مجھے دیکھتے ہی کہا کہ مصطفی آ گیا پوچھ کے پھر بتاتا ہوں ۔
ہاں مصطفی کون سا دوست ہے بتاٶ مجھے اور یہ خون کیوں لگا ہے قمیض پہ اتنا۔
میں نے ماموں کو سدرہ سے ہونے والی پہلے ملاقات سے لے کہ اب تک ہونے والی ہر بات بتا دی۔
ماموں میری بات خاموشی اور پوری توجہ سے سنتے رہے اور کافی بار نظریں اٹھا کے میرے چہرے کو غور سے دیکھا میں اپنی بات پوری کر کے خاموش ہو گیا۔۔
کچھ دیر یوں ہی خاموشی رہی پھر ماموں بولے تو آواز کافی سخت تھی۔
شاہ صاحب اب آپ بڑے ہو گٸے ہیں اپنے فیصلے خود کرنے لگے ہیں جو کہ اچھی بات ہے لیکن افسوس ہوا کے تم نے ماموں کو بتانا بھی مناسب نہیں سمجھا
بھلے تم اپنی مرضی کر لیتے میں تمہارا ساتھ بھی دیتا لیکن مجھے پتہ تو ہوتا ماموں کی آواز میں غصہ اور دکھ شامل تھا۔۔۔
ماموں ایسی بات نہیں سدرہ جس کنڈیشن میں اُس وقت تھی اُس کے لٸے ضروری تھا کے وہ اکیلے رہے کوٸی روک ٹوک کوٸی کچھ کہنے والا نہ ہو۔۔۔
دوسری بات اگر آپ سے بات کر کے میں آپ کو منا بھی لیتا تو آپ کبھی بھی ایک گارڈ کے گھر مجھے سدرہ کو چھوڑنے نہ دیتے۔۔۔۔
آپ اپنے گھر رکھتے اور یہی میں نہیں چاہتا تھا
کے آپ سدرہ کو اپنے گھر رکھیں
تم ایسا کیوں نہیں چاہتے تھے کیا ہم لوگوں پہ بھروسہ نہیں تم کو ماموں نے خفا ہوتے ہوٸے کہا۔۔۔۔۔
آپ پہ بھروسہ ہے ماموں آپ بھلے سخت ہیں لیکن اصول کے پکے ہیں
تو پھر کیا وجہ تھی ماموں نے اب سخت اور تیز آواز میں پوچھا۔۔
اصل وجہ یہ تھی کے فیضان جوان ہے۔۔۔
وہ زیادہ تر گھر پہ ہی ہوتا ہے
بھاٸی کامران بھی بھلے شادی شدہ ہیں لیکن ہیں تو مرد ہی اِس لٸے میں یہ رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔۔۔۔۔
پھر ممانی کی سوچ کے مطابق چلنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔۔۔۔۔
کل کو اگر کوٸی اونچ نیچ ہو جاتی بھلے غلطی لڑکوں کی بھی ہوتی لیکن پھر بھی ممانی کا سارا بلڈن سدرہ پہ ہوتا۔۔۔
وہ سدرہ کو ہی برا بھلا کہتی کے وہ ہی ایسی ہے میرے بیٹے تو معصوم ہیں۔۔۔
ماموں یہ انسانی فطرت ہے جو کمزور اور لاوارث ہو تا ہے سب اسے ہی دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔
اور اگر سدرہ کے ساتھ آپ کے گھر میں ایسا کچھ ہوتا تو آپ کا میرا تعلق خراب ہو جاتا۔۔۔
میں نے اپنی بات مکمل کر کے ماموں کی طرف دیکھا جو کسی گہری سوچ میں کھوٸے تھے۔۔
مصطفی ضروری نہیں یہ سب کچھ ہوتا اور اگر ایسا ہوتا بھی تو تمہارا میرا تعلق کیوں خراب ہوتا ماموں نے سنجیدگی سے پوچھا ۔۔
آپ کا میرا تعلق اس لٸے خراب ہوتا کہ فیضان آپ کا بیٹا اُس کی حرکتوں کا آپ کو بھی اچھے سے پتہ ہے ممانی کےلاڈ نے اُسے اور سر چڑھا رکھا ہے۔۔۔۔
ظاہری سی بات ہے اگر سدرہ آپ کے گھر میں رکتی تو سب کو کسی نہ کسی طرح اُس کے ماضی کا پتہ چل جاتا۔۔۔۔
اور فیضان سدرہ کو بے سہارا سمجھ کے لازمی اُس پہ ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کرتا۔۔۔
اور مجھے پورا یقین تھا کہ سدرہ سخت رد عمل دیتی کیونکہ وہ اِس چیز سے نکلنا چاہتی تھی اور فیضان کی ایسی حرکت مجھے بتاتی بات بڑھ جاتی تو بیچ میں ممانی بھی آتی۔۔۔
ممانی فیضان کی فیور کرتی کیونکہ وہ بیٹا تھا اُن کا۔۔۔۔
اور مجبورًا ممانی کی وجہ سے آپ کو بھی فیضان کی فیور کرنی پڑتی۔۔۔۔۔۔
اور آپ مجھے بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ میری سگی ماں تھیں وہ بھی جب انصاف سے ہٹ کے بات کرتی تھیں تو میں ان کی بھی بھرپور مخالفت کرتا تھا۔۔۔۔
اس لٸے آپ کا میرا تعلق آپ کے بیٹے اور آپ کی واٸف کی وجہ سے خراب ہو جاتا کیونکہ کہ میں سدرہ کے لٸے ہر صورت سٹینڈ لیتا اُسی کبھی تنہا نا چھوڑتا۔۔۔
بس اِس وجہ سے یہ سب کچھ چھپانا پڑا اور سدرہ کو الگ رکھنا پڑا۔۔۔۔
شاہ یار تجھے میرا بیٹا ہونا چاہیٸے تھا مجھے فخر ہے تجھ پہ اور میں تیرے فیصلے سے اگری ہوں اور سدرہ کو اپنی بیٹی مان کے جو ہو سکا اُس کے لٸے کروں گا۔۔😢😢😢
ماموں نے نم آنکھوں اور محبت سے ہاتھ میری طرف بڑھایا۔۔۔
جسے میں نے محبت سے تھام لیا۔۔۔
ماموں ایک منٹ باس کی کال آ رہی ہے میں نے باس کو ساری تفصیل بتاٸی اور ریکویسٹ کی کے جب تک سدرہ ٹھیک نہیں ہو جاتی۔۔۔میں آفس نہیں آ سکوں گا باس نے مجھے اپنے تعاون کی مکمل یقین دہانی کرواٸی اور مریض کا نام اور وارڈ پوچھ کے کال بند کر دی۔۔۔
اب ماموں بہت خوش تھے اور مجھ سے بہت محبت سے بات کر رہے تھے۔۔۔
اچانک ماموں نے پوچھا شاہ صاحب اس بات کا مونیبہ کو پتہ ہے۔۔۔
اِس سے پہلے کے میں کوٸی جواب دیتا نرس نے آواز دی آپ میں سے مصطفی کون ہے۔۔۔
جی میں ہوں میں نے اٹھتے ہوٸے جواب دیا۔
آپ کو ڈاکٹر صاحب بلا رہے ہیں اپنے روم میں آٸیں میں آپ کو گاٸڈ کر دوں۔۔۔
میں ماموں کو بتا کے نرس کے ساتھ چلا گیا۔
ڈاکٹر کے روم میں داخل ہوا تو وہ سدرہ کی سی ٹی سکین دیکھ رہے تھ۔
آٸیے آٸیے مسٹر مصطفی بیٹھیں آپ۔۔۔
مسٹر شاہ سی ٹی سکین کی رپورٹ میں نے چیک کر لی ہے
آپ کے پیشنٹ کو برین ٹیومر ہے لاسٹ سٹیج پہ
ڈاکٹر نے یہ کہتے ہوٸے نظریں جھکا لی۔۔۔
ڈاکٹر کے یہ الفاظ مجھ پہ کسی نیو کلیٸر بم کی طرح گرے دل دماغ سن ہو گیا بولنے کی صلاحیت ختم ہو گٸی میں خالی خالی نظروں سے ڈاکٹر کو دیکھنے لگا۔
مسٹر شاہ آپ میری بات کو سمجھ رہے ہیں نا ہم مزید کنفرم کرنے کے لٸے آج ہی آپ کے پیشنٹ کا ایم آر آٸی بھی کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر نے دوبارہ سوال کیا۔۔
ایسا نہیں ہو سکتا سر پلیز کچھ کریں اُس نے کبھی کسی کے ساتھ برا نہیں کیا۔۔
بلکے اُسے زندگی نے بہت دکھ دیٸے ہیں بہت ستایا ہے اُسے ابھی تو کچھ دن پہلے ہی سکھ کی طرف اُس نے قدم بڑھاٸے ہیں۔۔۔۔
پلیز سر آپ پیسوں کی پرواہ مت کریں ہم سے جو بھی بن سکا ہم کریں گے۔۔
پلیز میں اب بچوں کی طرح ڈاکٹر کے سامنے ہاتھ جوڑ رہا تھا
مسٹر شاہ آپ نے بہت دیر کردی آپ کا مریض سخت زہنی تکلیف میں رہا ہے
لگتا ہے آپ کے مریض نے ڈپریشن اور سٹریس سے بچنے کے لٸے بہت ہیوی میڈیس یوز کی ہیں جن کی وجہ سے برین ٹیومر جیسی مہلک بیماری نے جنم لیا۔۔۔
اب ان کی برین واٸنز میں بلیڈ کلوٹنگ سٹارٹ ہو گٸی اُن کے دماغ نے ضرورت سے زیادہ خلیات پیدا کر دیٸے تھے
اور مردہ خلیات ریموو نہیں ہو سکے تھے اگر آپ چھے سات ماہ پہلے آ جاتے تو ہم کچھ کر سکتے تھے
آپ کا مریض زندہ ہے یہ بھی مجھے ایک میریکل لگ رہا ہے
سر اُس کو ہوش کب آٸے گا
ہم نے ٹریمنٹ سٹار کر دی ہے مجھے امید ہے کل تک ہوش آ جاٸے گا۔۔۔
ڈاکٹر نے مجھے مکمل تفصیل سے آگاہ کیا سر اس کی کوٸی تفصیل بتاٸیں اور پلیز کوٸی بھی اچھا ہاسپٹل ہے تو اِس حوالے سے تو ہمیں وہاں ریفر کریں میں نے نم آنکھوں سے ڈاکٹر سے التجا کی۔۔۔
مسٹر شاہ برین ٹیومر دماغ میں پائی جانے والی خلیات کی غیر معمولی یا بے قابو اضافہ کے ذریعے ہوتا ہے ۔
صحت مند انسانی جسم میں عام خلیات کے بوُڑھے ہونے یا ختم ہو جانے پر نئی خلیات اُن کا مقام حاصل کر لیتی ہیں
اِس عمل میں کبھی کبھی گڑبڑی ہو جاتی ہے اَور جسم میں غیر ضروری نئی خلیات پیدا ہو جاتی ہیں ،
جبکہ جسم کو اُن غیر ضروری نئی خلیوں کی ضرورت نہیں ہوتی ہے یہ پُرانی اَور قریب المرگ خلیات خود ختم نہیں ہوتی ہیںں
جبکہ اُن کو خود ختم ہو جانا چاہئے اکثر اِن فاضل خلیوں کی تعمیر یا بڑے پیمانے پر ہونے والے ٹِشوز کی ترقی کو ہی ٹیومر کہا جاتا ہے
خصوصاً ٹیومر دو قسم کے ہوتے ہیں جِن کو خير انديش ٹیومر بے ضرر اَور تشدد آمیز کینسر ٹیومر کہا جاتا ہے ۔
برین ٹیومر ایک مہلک بیماری ہے ہالانکہ اِس بیماری کو مختلف اقدامات کے ذریعے علاج کیا جا سکتا ہے
لیکِن سب سے زیادہ مریضوں کی نو سے بارہ مہینے کی مہلت تَک موت ہو جاتی ہے اَور تین فیصد سے کم مریض تین سال تَک زندہ رہتے ہیں
مہلک ٹیومر کینسر ٹیومر کو ابتدائی برین ٹیومر اَور ثانوی برین ٹیومر دو حصوں میں تقسیم کی جا سکتی ہے ۔
ابتدائی برین ٹیومر دماغ کے اندر شروع ہوتا ہیں ۔
ثانوی برین ٹیومر کہِیں سے بھی پَیدا ہو سکتا ہے ، لیکِن یہ پُورے جسم میں پھَیل جاتا ہے ۔ اِس ٹیومر کو میٹاسٹیسِس ٹیومر کے طور پر جانا جاتا ہے
ابتدائی برین ٹیومر کئی قسم کا ہوتا ہیں اس طرح کے ٹیومر کو ٹیومر کے قسم یا دماغ کے حصے میں پائے جانے والے یا شروع ہونے والے مقام کے نام کے مُطابق جانا جاتا ہے
مثال کے لئے اَگر برین ٹیومر گلائل خلیات میں شروع ہوتا ہے تو اِس کو گلِیوما لاصقی سلعہ کہا جاتا ہے
اس طرح دوسری طرح کے ٹیومر دماغ کے حصوں میں پَیدا ہونے کی بنیاد پر جانے جاتے ہیں۔۔
اب ہم اگلے اڑتالیس گھنٹوں میں فیصلہ کریں گے کہ آیا آپ کے مریض کی سرجری کی جاٸے یا نہ۔۔۔
اور مسٹر شاہ آپ ملک ابرار صاحب کے ادراے کے ایک قابل ایمپلاٸی ہیں انہوں نے خود مجھے ابھی کال کر کے خصوصی طور پہ کہا ہے کہ آپ کے پیشنٹ کو ہر طرح کی سہولت دی جاٸے
اور میں آپ کو کہیں بھی ریفر ہونے کی صلاح نہیں دوں گا آپ کے مریض کے پاس وقت کم ہے خدا کا شکر ادا کریں وہ زندہ ہے اُس کے ساتھ ٹاٸم سپنڈ کریں فیملی ممبرز
ڈاکٹر نے مجھے پوری تفصیل سے آگاہ کیا اور میرے دل کی حالت بس اللہ ہی جانتا تھا۔۔۔۔میری آنکھوں کے سامنے بار بار سدرہ کا معصوم چہرہ آ رہا تھا اب آنسو واضع طور پہ میرے چہرے کو بھگو رہے
سر کتنا ٹاٸم ہے اُن کے پاس میں نے دل پہ جبر کر کے ڈاکٹر سے پوچھا۔۔۔
مسٹر شاہ ایک ماہ سے تین ماہ۔۔
اب میں ڈاکٹر کے سامنے اور رکتا تو شاید وہی صبر ختم ہو جاتا اور میں ٹوٹ جاتا اِس لٸے ڈاکٹر سے اجازت لے کے میں باہر آ گیا۔۔
مجھ میں ہمت نہیں تھی سدرہ کا سامنا کرنے کی مگر اس حقیقت کو تسلیم کرنا تھا۔۔۔
اور پھر میں نے ایک مضبوط ادارے کےساتھ اپنے قدم نیورولوجیکل وارڈ کی طرف بڑھا دیٸے۔۔۔
کیو
نکہ مجھے اپنی اِس پیاری دوست کے لٸے ابھی بہت کچھ کرنا تھا اور اس کے ساتھ اب ایک ایک پل ہسنا کے گزارنا تھا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔