شہوت زادی
قسط 10
ایک دن کی بات ہے کہ میں کاکے اور راشدی صاحب کی بیٹی کو لیکر ہمسائیوں کے گھر گئی اور اس کے بچوں کے ساتھ راشدی صاحب کے بچے بھی کھیلنا شروع ہو گئے ۔۔۔۔۔ابھی ان بچوں کو کھیلتے ہوئے ہوئے آدھا گھٹہ ہی ہو ا تھا کہ ہمسائی کی بچی کے پیچھے بھاگتے ہوئے اچانک ہی راشدی صاحب کی بیٹی بڑے زور سے فرش پر گر گئی ۔۔۔ اور فرش پر گرتے ہی اس نے اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا۔اس کی دیکھا دیکھی چھوٹے راشدی صاحب نے بھی رونا شروع کر دیا ۔۔۔ دونوں کو روتا دیکھ کر میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور میں کبھی ایک کو چپ کرانے کی کوشش کرتی تو کبھی دوسرے کو۔۔ لیکن وہ دونوں بہن بھائی ایک ہی ٹون میں روئے جا رہے تھے خاص کر میں نے اس بچی کو چپ کرانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ مسلسل روتے ہوئے امی۔۔ امی کا ورد کر رہی تھی ۔۔۔ جب ہمسائی کہ جس کے گھر میں بچوں کو کھلانے کے لیئے لے کر گئی تھی نے دیکھا کہ بچی کسی بھی طور میرے قابو نہ آ رہی ہے تو وہ مجھ سے کہنے لگی کہ صبو بیٹا اس بچی نے اپنی اماں سے ہی چپ ہونا ہے تم ایسا کرو کہ اس کو لیکر گھر چلی جاؤ۔۔۔ اس خاتون کی بات سن کر میں سوچ میں پڑ گئی۔۔۔ وہ اس لیئے کہ میرے خیال میں ابھی راشدی صاحب اور اماں کا شو جاری ہو گا۔اور میں روتے ہوئے بچوں کو گھر لے جا کر انہیں ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔۔ اس لیئے میں نے بہانہ کرتے ہوئے اس خاتون سے کہا کہ خالہ جی اس وقت وہ بے چاری سوئی ہوں گی چنانچہ ۔۔ میں خود ہی انہیں اسے چپ کرانے کی کوشش کرتی ہوں ۔۔۔ لیکن میرے ہزار دفعہ چپ کرانے کے باوجود بھی ۔۔۔۔ وہ بچی نہ چپ ہوئی ۔یہ دیکھ کر وہ خاتون دوبارہ سے کہنے لگی بیٹی میری مانو تو اس کو اپنی امی کے پاس لے جاؤ اور اس بات کی فکر نہ کرو کہ اس وقت وہ سو رہی ہو گی کیونکہ وہ تو ہر وقت ہی سوئی رہتی ہے۔۔۔ چار و نا چار میں نے روتے ہوئے کاکے اور بچی کو ساتھ لیا اور راشدی صاحب کے گھر کی طرف چل پڑی ۔۔۔ اور راشدی صاحب کے دروازے سے تھوڑی دور ۔۔۔ سے ہی ۔۔۔۔۔۔ میں نے اونچی اونچی آوازوں میں بچوں کو چپ کرانا شروع کر دیا ۔۔ اور ان اونچی آوازوں میں بچوں کو چپ کرانے کا مقصد اماں لوگوں کو ہوشیار کرنا تھا کہ خبردار ہو جاؤ میں بچوں کو لے کر گھر آ رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔ اور پھر ایسا ہی ہوا ،۔۔۔ جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوئی تو دیکھا تو سامنے دونوں ہا تھ سینے پر باندھے راشدی صاحب کھڑے تھے۔۔۔ دونوں بچوں کو روتا دیکھ کر کہنے لگے ۔۔صبو بیٹا ۔۔۔ ان کو کیا ہوا؟ تو میں نے راشدی صاحب کو جواب میں بتلایا کہ کھیلتے ہوئے ان کی بیٹی فرش گر گئی تھی جس کی وجہ سے یہ رونا شروع ہو گئی تھی اور ابھی تک چُپ نہ ہو رہی ہے ۔۔۔ اتنا سن کر راشدی صاحب نے میرے ہاتھ سے بچی کو لیا اور اسے اُٹھا کر چپ کرانے لگ گئے۔۔۔ ۔۔ جبکہ کاکے کو میں نے چپ کرانا شروع کر دیا۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
ادھر راشدی صاحب نے اپنی بیٹی کو کاندھے سے لگایا اور ۔۔پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ہی دیر میں روتے ہوئے وہ بچی نہ صرف چپ ہو گئی بلکہ راشدی صاحب کے کندھے سے لگ کر سو بھی گئی ۔۔۔ ۔۔۔ جبکہ دوسری طرف میری گود میں پکڑا ہوا کاکا ابھی تک رو رہا تھا جسے میں چپ کرانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی۔۔لیکن وہ کسی طور بھی چپ نہ ہو رہا تھا ۔۔۔ ۔۔۔ جیسے ہی بچی کی نیند تھوڑی گہری ہوئی ۔۔۔۔۔ راشدی صاحب اسے کاندھے سے لگائے ہوئے میرے پاس آئے اور کہنے لگے ۔۔تم اس کو اندر ( اپنی ماں کے پاس ) ڈال آؤ اتنے میں ۔۔۔ میں کاکے کو چپ کرانے کی کوشش کرتا ہوں ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے سوتی ہوئی بچی کو میرے ہاتھوں میں پکڑایا اور خود کاکے کو لیکر چپ کرانے لگ گئے۔۔۔ ادھر میں نے بچی کو اٹھایا اور اسے دوسرے کمرے میں قاری صاحب کی مسز کے پاس ڈال آئی جو کہ اس وقت گہری نیند سو رہی تھی ۔۔ اور واپس آ کر دیکھا تو حیرت انگیز طور پر کاکا بھی چپ کر چکا تھا ۔۔ اور راشدی صاحب کے کندھے سے لگا نیم غنودگی کے عالم میں تھا۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی قاری صاحب نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھی اور مجھے خاموش ہونے کا اشارہ کیا۔۔۔۔ان کا اشارہ دیکھتے ہی میں چپ کر کے ان کے پاس کھڑی ہوئی ۔۔۔ پھر تجربہ کار راشدی صاحب نے کچھ ہی منٹوں میں کاکے کو بھی چپ کرا کے سلا دیا ۔۔۔۔ اور پھر مجھے دیتے ہوئے بولے کہ اسے بھی اپنی امی کے پاس ڈال آؤ۔۔
چنانچہ کاکے کو بھی میں نے قاری صاحب کی بیگم کے پہلو میں ڈال کر میں وہاں سے باہر آ گئی۔۔۔ دیکھا تو سامنے قاری صاحب کھڑے تھے۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے کہ اب ان دونوں کی کیا پوزیشن ہے؟؟؟ تو میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جی دونوں اپنی امی کے ساتھ لگے سو رہے ہیں۔۔۔ اس کے بعد میں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے قاری صاحب سے پوچھا کہ ۔۔۔ میری اماں کہاں ہیں ؟ تو قاری صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ وہ تو کب کی اپنے گھر چلی گئیں ہیں۔۔۔۔۔ اس پر میں نے حیران ہوتے ہوئے کہا کہ وہ کس وقت گئیں تھیں؟ تو قاری صاحب کہنے لگے جب آپ بچوں کو لیکر ہمسائیوں کے گھر گئیں تھیں تو اس وقت آپ کی چھوٹی بہن ہمارے گھر آئی تھی جس نے بتلا یا تھا کہ گھر میں کوئی مہمان آئے ہیں جن کا سن کر آپ کی امی اس کے ساتھ فوراً ہی روانہ ہوگئی تھیں۔۔۔
قاری صاحب کی بات سن کر میں اپنا سر نیچے کر کے بولی ۔۔۔ اب مجھے بھی گھر جانے کی اجازت ہے ۔۔۔ تو میری بات سن کر قاری صاحب کہنے لگے ۔۔۔۔ چلی جانا ۔۔ لیکن اس سے پہلے ایک منٹ کے لیئے میری بات سنتی جاؤ۔۔۔ قاری صاحب کی اس بات پر۔۔۔۔۔۔۔ دل میں چور ہونے کی وجہ سے ۔۔۔۔۔ میں ایک دم سے گھبرا گئی اور سوچنے لگی کہ پتہ نہیں قاری صاحب مجھ سے کیا بات کرنے والے ہیں؟ کہیں ۔۔۔ اتنا سوچتے ہی میرے ماتھے پر ٹھنڈی تریلی (پسینہ ) نمودار ہو گئی ۔۔۔اور میں دل ہی سوچنے لگی کہ اب میں قاری صاحب کے سوالوں کا کیا جواب دوں گی؟ لیکن بظاہر میں قاری صاحب کی طرف دیکھے بغیر ہی بولی ۔۔۔ جی فرمایئے کیا بات ہے قاری صاحب؟ تو وہ کہنے لگے ۔۔ وہ بات یہاں کرنے والی نہیں ہے اس لیئے تم میرے ساتھ کمرے میں آؤ۔۔۔ قاری صاحب کی یہ بات سن کر میں اندر سے لرز سی گئی اور سمجھ گئی کہ جس بات کی وجہ سے میں کئی دنوں سے قاری صاحب سے کنی کترا رہی تھی ۔۔۔ آج وہی بات میرے سامنے آ گئی تھی گویا کہ جس سے ڈرتے تھے وہی بات ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ ہزار وسوسوں کے ہوتے ہوئے میں قاری صاحب کے عقب میں چلی جا رہی تھی ۔۔۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی قاری صاحب خود تو پلنگ کے پاس پڑے موڑھے پر جا کر بیٹھ گئے اور مجھے پلنگ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔ ان کا اشارہ دیکھ کر ۔۔۔۔۔۔میں بڑے ڈھیلے انداز میں پلنگ پر جا کر بیٹھ گئی اسی پلنگ پر کہ جہاں پر وہ اماں کے ساتھ چودائی شو کیا کرتے تھے۔۔اس وقت کمرے میں گھمبیر خاموشی چھائی ہوئی تھی اور میں پلنگ پر سر جھکائے بڑی پریشان سی بیٹھی تھی کہ اچانک ہی میرے کانوں میں قاری صاحب کی آواز گونجی ۔۔۔ وہ کہہ رہے تھے پریشان ہونے ۔۔۔۔ اور ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔ میں نے صرف تم سے دو تین سوال پوچھنے ہیں ۔۔۔۔ اس پر میں نے سر اُٹھا کر ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔۔۔۔ لیکن منہ سے کچھ نہیں بولی۔۔۔ میری نظروں کا مفہوم جان کر پہلے تو قاری صاحب نے کھنگار کر اپنے گلے کو صاف کیا ۔۔۔۔اور پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگے۔۔۔ صبو بیٹی سب سے پہلے تو تم میرے اس سوال کا جواب دو کہ آخر تم مجھ سے اتنا کیوں چھپتی پھرتی ہو۔۔۔؟ اس پر میں اپنا سر جھکائے ہوئے بولی۔۔۔ آپ کو کچھ غلط فہمی ہوئی ہے ورنہ میں تو آپ سے ہر گز نہیں چھپ رہی تھی میری بات سن کر قاری صاحب نے ایک ہلکا سا قہقہ لگایا اور کہنے لگے تم کیا مجھے بے وقوف سمجھتی ہو؟
پھر تھوڑا سیریس ہو کر کہنے لگے۔۔۔۔دیکھو بیٹا میں نے دینا دیکھی ہے اور میں یہ بات اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ کون مجھے سے چھپ رہا ہے اور کون سامنے آ رہا ہے ۔۔۔ پھر اپنے زہن پر زور دیتے ہوئے کہنے لگے ۔۔۔ بیٹی کہیں تم اس دن والے واقعہ کے حوالے سے تو نہیں مجھ سے چھپ رہی ہو ؟ ان کی بات سن کر مجھے ایک کرنٹ سا لگا ۔۔۔ لیکن میں چُپ رہی اور پلنگ پر سر جھائے بیٹھی رہی ۔۔۔ مجھے مسلسل خاموش دیکھ کر وہ بڑے ہی نرم لہجے میں کہنے لگے۔۔۔ ارے بابا کچھ تو بولو۔۔۔ کہ میں سچ کہہ رہا ہوں ناں؟ لیکن میں شرم کے مارے منہ سے کچھ نہ بولی ۔۔اور سر جھکائے بیٹھی رہی۔۔۔ یہ دیکھ کر قاری صاحب نے اپنے موڑھے کو تھوڑا آگے کھسکایا اور میرے قریب ہو کر بیٹھ گئے ۔۔۔پھر انہوں نے میری ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر میرے منہ کو تھوڑا اوپر اُٹھایا ۔۔۔۔اور کہنے لگے۔۔۔میرے خیال میں یہی بات ہے۔۔۔ پھر بڑی شفقت سے کہنے لگے چلو منہ سے نہیں ۔۔۔۔تو اشارے سے ہی کہہ دو کہ میری بات سچ ہے -
قاری صاحب کی بات سن کر میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔۔ یہ دیکھ کر قاری صاحب نے ایک گہری سانس لی اور کہنے لگے تو میرا اندازہ درست نکلا ۔۔۔تم اسی دن والے واقعہ کی بنا پر مجھ سے کنی کترا رہی تھی۔۔۔ پھر تھوڑا توقف کر کے کہنے لگے ۔۔۔ لیکن بیٹا اس دن تو ۔۔۔میں نے آپ کی جان بچائی تھی ۔۔۔۔ پھر بھی آپ میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہی ہو؟ ۔۔۔۔۔پھر کہنے لگے کہ بیٹا ا س بات کا تم اپنے منہ سے جواب دو تو بڑی مہربانی ہو گی۔۔۔ اس پر میں نے سر جھکائے جھکائے ان سے کہا ۔۔۔۔ وہ قاری صاحب میں ڈر گئی تھی کہ کہیں آپ وہ والی بات امی کی موجودگی میں نہ پوچھ لیں اس پر وہ مسکرائے اور کہنے لگے۔۔۔ بیٹا آپ نے یہ کیسے سوچ لیا کہ میں آپ کی امی جو کہ میری بہن لگتی ہیں کے سامنےآپ کا پردہ فاش کر دوں گا؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔ پھر کہنے لگے ۔۔۔ نہیں بیٹا نہیں۔۔۔ میں ایسا بندہ ہر گز نہیں ہوں۔۔۔ پھر کہنے لگے ۔۔۔دیکھو بیٹا میں مرتا ۔۔۔مر جاؤں گا لیکن آپ کے راز کو کبھی بھی افشاں نہیں کروں گا۔۔۔۔اس کے بعد انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگے ۔۔ تم میری بات کو سمجھ رہی ہو نا بیٹی ۔۔۔ اور میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔۔ اس کے بعد ہم دونوں کے بیچ کافی دیر تک خاموشی طاری رہی۔۔۔ پھر اس خاموشی کو قاری صاحب نے ہی توڑا اور بولے۔۔۔۔۔۔ ۔۔
اچھا بیٹا اگر میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہوں تو کیا آپ اس کا سچ سچ جواب دیں گے؟؟؟؟؟؟۔۔۔تو میں نے سر جھکائے ان سے کہا ۔۔۔ آپ پوچھیں ۔۔۔۔۔ اور دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ یہ قاری کا بچہ اسی بات کی طرف آ رہا ہے کہ جس کی وجہ سے میں اس سے بھاگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ دل ہی دل میں اماں کو بھی کوسنے دے رہی تھی کہ جاتے ہوئے مجھے بتا دیتی تو میں بھی ان کے ساتھ چلی جاتی ۔۔۔۔اور اس قاری سے میری جان چھوٹ جاتی ۔۔۔۔۔ میں انہی سوچوں میں گم تھی کہ۔۔۔۔ قاری صاحب مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے۔۔۔۔۔۔۔ سوچو بیٹا اس دن اگر میری جگہ آپ کے ابا ہوتے تو کیا ہوتا ؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔ ابا کا نام سن کر میں نے ایک جھر جھری سی لی ۔۔۔۔ لیکن منہ سے کچھ نہ بولی۔۔۔اس پر وہ کہنے لگے ۔۔۔ تمہارے وجود کا کانپنا اس بات کی دلیل ہے کہ تمہیں اچھی طرح سے اندازہ ہے کہ اگر وقت میری جگہ ۔۔۔۔۔ تمہارے ابا ہوتے تو اب تک تمہارا ۔۔۔ چہلم بھی ہو چکا ہونا تھا ۔۔۔پھر کہنے لگے یہ میں ہوں کہ جس نے نہ صرف یہ کہ تمہاری عزت بحال رکھی بلکہ کسی کو اس کے بارے میں کچھ بھی نہ بتایا ۔۔۔۔ اور تو اور میں نے اتنا بڑا رسک لیکر کر تمہارے بیگ کو بھی جائے واردات سے غائب کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔
بات تو وہ ٹھیک کہہ رہے تھے ۔۔۔اس لیئے قاری صاحب کی بات سن کر میرے دل میں ان کے لیئے ممنونیت اور بڑھ گئی جبکہ دوسری طرف اتنی لمبی تمہید باندھنے کے بعد وہ کہنے لگے ۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ کہ تمہارے اس لڑکے کے ساتھ کب سے تعلق تھے؟ ان کی بات سن کر میں شش و پنج میں پڑ گئی اور ان سے بولی۔۔۔ وہ قاری صاحب۔۔۔ میری بات سنتے ہی انہوں نے اپنا دائیاں ہاتھ فضا میں بلند کیا اور کہنے لگے دیکھو مجھے تمہارے سکینڈل کے بارے میں سب پتہ ہے کیونکہ بڑے قاری صاحب نے ڈیرے پر جا کر اس لڑکے۔۔۔۔ پھر سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہنے لگے ۔۔۔ کیا نام تھا اس کا ۔۔۔۔۔ پھر میری طرف دیکھ کر کہنے لگے تم بتاؤ نا اس کا نام ۔۔تو میں نے ہولے سے کہہ دیا ۔۔۔ جی اظہر۔۔۔۔ میرے منہ سے اظہر کا لفظ سنتے ہی وہ ایک دم جوش میں آ گئے اور بولے ہاں ۔۔ہاں یہی نام تھا اس لونڈے کا ۔۔۔ پھر میری طرف گہری نظروں سے دیکھ کر بولے۔۔۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ اظہر سے ساری تفتیش میں نے کی تھی ۔۔۔اور وہ حرامذدہ تو تمہارا نام بھی لے رہا تھا ۔۔۔ لیکن میں نے اسے ڈرا دھمکا کر اس بات سے منع کر دیا تھا ۔۔۔۔ اتنا کہہ کر ایک دفعہ پھر انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگے۔۔۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ تمہاری اس لڑکے کیا نام تھا ۔۔۔ ہاں اظہر کے ساتھ دوستی کیسے ہوئی؟ قاری صاحب کا سوال سن کر میں سوچ میں پڑ گئی اور کچھ دیر تو چپ رہی پھر قاری صاحب کے بار بار کے اصرار پر کہنے لگی ۔۔۔ وہ ۔۔۔ قاری صاحب میری ایک کلاس فیلو تھی اس کے زریعے سے میری اظہر کے ساتھ دوستی ہوئی تھی۔۔۔ اس پر قاری صاحب نے میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔۔۔ کہیں اس لڑکی کا نام زرینہ تو نہیں تھا؟
قاری صاحب کے منہ سے زرینہ کا نام سن کر میں نے بڑی حیرانی سے ان کی طرف دیکھا اور کہنے لگی آپ کو کیسے معلوم ؟ تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا ۔۔ بیٹا میں نے پہلے ہی آپ کو بتایا ہے کہ تمہاری خاطر اظہر سے اس کیس کی تفتیش میں نے کی تھی ۔۔۔ پھر کہنے لگے تم کو شاید معلوم نہیں کہ تم کو ایک پلان کے تحت پھنسایا گیا تھا۔۔۔ ان کی بات سن کر میں نے بڑی حیرانی سے ان کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔ پلان کے تحت ۔۔ لیکن وہ کیسے قاری صاحب ؟ تو وہ کہنے لگے وہ ایسے صبو کہ اس لڑکے اظہر کو تم پسند آ گئی تھی ۔۔۔ بس تم کو اپنے ساتھ سیٹ کرنے کے لیئے اس نے زرینہ ۔۔۔جو کہ اس کی سابق معشوقہ تھی کے زریعے تم پر یہ جال پھینکا تھا ۔۔۔ اور تم بڑی آسانی کے ساتھ اس کے جال میں پھنس گئی تھی۔۔۔
اس کے بعد قاری صاحب نے پندرہ بیس منٹ تک میرے ساتھ زرینہ اور اظہر و دیگر معاملات کے علاوہ بھی دوسری باتیں بھی کیں جس کی وجہ سے میرے دل میں ان کا خوف کافی حد تک دور ہو گیا ۔۔۔۔۔اور پھر کچھ ہی دیر میں انہوں نے مجھ سے مزید کچھ اس قسم کی باتیں کیں کہ جنہیں سن کر کمرے میں بنی خوف کی فضا ایک دم تحلیل ہو گئی اور اس کی جگہ ۔۔۔۔۔۔۔ ایک آزاد ماحول نے لے لی تھی ۔۔بلا شبہ قاری صاحب کو باتیں کرنے کا فن آتا تھا تبھی تو بیس پچیس منٹ میں ہی انہوں نے صرف یہ مجھے اپنے ساتھ کہ فری کر لیا تھا ۔۔۔ بلکہ اب میں ان کے ساتھ کھل کر گفتگو بھی کر رہی تھی ۔۔۔۔ قاری صاحب نے مجھے بتلایا کہ زرینہ کے زریعہ وہ دونوں (اظہر اور اس کا دوست جو اس دن زرینہ کےساتھ پکڑا گیا تھا ) لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنساتے تھے اورپھر ہسپتال کے اسی کمرے میں ان کے ساتھ عیاشی بھی کرتے تھے۔۔۔۔۔ پھر وہ کہنے لگے صبو بیٹا یہ لوگ مختلف لڑکیوں پر مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے تھے یہ بتاؤ کہ آپ کے ساتھ ان لوگوں نے کیا ہتھکنڈا استعمال کیا تھا؟ قاری صاحب کی بات سن کر ایک لمحے کو تو میں گھبرا گئی پھر تسلی دینے پر بولی ۔۔۔ ۔۔۔ قاری صاحب وہ لڑکی انگریزی رسالے لایا کرتی تھی جس میں کہ ۔۔۔میری بات سنتے ہی قاری صاحب کہنے لگے بس بس ۔۔۔۔ میں سمجھ گیا ۔۔۔۔ اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگے تم انہی رسالوں کی بات کر رہی ہو ناں کہ جن میں وہ لوگ میاں بیوی والے کرتب کرتے ہیں۔۔۔ ان کے منہ سے نکلا ہوا کرتب کا لفظ ۔۔۔میری سمجھ میں نہیں آیا اس لیئے میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔کر تب مطلب؟ تو قاری صاحب پہلے تو مسکرائے اور پھر وہ موڑھے سے اُٹھ کر میرے ساتھ پلنگ پر بیٹھ گئے ۔۔۔۔ اور میری ران پر ہاتھ مارتے ہوئے بولے۔۔۔ارے کرتب کا مطلب وہی ہے جو عورت اور مرد تنہائی میں کیا کرتے ہیں ۔۔۔۔ قاری صاحب کی بات سن کر میں شرم سے لال ہو گئی ۔۔اور اپنا منہ نیچے کر لیا۔۔۔۔ تب انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور مزاحیہ انداز میں بڑے ہی بے تکلف ہو کر کہنے لگے۔۔۔ وہی یار جس میں عورت اورمرد ننگے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کےساتھ ہی ان کا ہاتھ دوبارہ سے رینگتا ہوا ۔۔۔ میری رانوں کی طرف چلا گیا۔۔۔ جس کے ٹچ سے مجھے کچھ کچھ ہونے لگا۔۔۔۔۔
میری رانوں پر ہاتھ پھیرنے کے بعد وہ کہنے لگے۔۔۔۔ایسے رسالے دیکھ کر تو میرے جیسا بڈھا بھی جوان ہونے لگتا ہے جبکہ تم تو ابھی بلکل نوجوان بلکہ نو خیز ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو یہ بتاؤ۔۔کہ ایسے رسالے دیکھ کر تم نے خود پر کیسے قابو پایا؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک بار پھر اپنا ہاتھ میری ران پر رکھ دیا۔۔۔۔ ان کا ہاتھ بار بار میر ی رانوں کو چھو رہا تھا۔۔۔اور اپنی رانوں پر یوں ہاتھ رکھنے سے میں قاری کا مطلب اچھی طرح سے سمجھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔ اورپھر اس بات کو سمجھ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں شہوت ذادی ۔۔۔۔ اندر سے گرم ہو نے لگی۔۔۔۔۔۔ ابھی میں اسی سوچ میں تھی کہ قاری صاحب نے دوسرا سوال جُڑ دیا اور کہنے لگے اچھا صبو یہ بتاؤ کہ ۔۔۔۔۔۔۔کہ زرینہ تم کو صرف انگریزی رسالے ہی دیا کرتی تھی یا پڑھنے والے اردو رسالے بھی دیتی تھی۔۔۔۔۔ان کی بات سن کر میں نے اندر ہی اندر ان کے ساتھ مستی کا فیصلہ کر لیا اور ان کی طرف دیکھ بظاہر شرماتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔وہ جی ۔۔۔۔ اردو رسالے بھی دیتی تھی ۔۔ جس پر قاری صاحب میری ران پر رکھا ہاتھ۔۔۔۔ تھوڑا اور اندر کی طرف لے گئے اور میری چوت سے تھوڑی دور اپنے ہاتھ کو روک کر بولے۔۔۔۔ اردو کہانیوں والے رسالے تو نری تباہی ہوتے ہیں ۔۔۔۔ میرے جیسا بندہ بھی اگر پڑھ لے تو گرمی کے مارے اس کا برا حال ہو جاتا ہے۔۔۔پھر میری طرف دیکھ کر بولے۔۔۔تم کو گرمی نہیں چڑھتی تھی۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میری رانوں پر دھری ان کی گستاخ انگلی رینگتی ہوئی ۔۔چلی اور جا کر میری چوت کے لبوں کو ٹچ کر دیا ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔اور میری طرف دیکھتے ہوئے میرے ردِ عمل کا جائزہ لینے لگے۔۔۔ ادھر جیسے ہی ان کی انگلی نے میری گرم چوت کے لبوں کو ٹچ کیا ۔۔۔۔۔۔تو نہ چاہتے ہوئے بھی میر ے منہ سے ہلکی سی سسکی نکل گئی۔۔۔ جو قاری صاحب نے نوٹ کر لی۔۔۔۔۔ اور پھر اپنی دو انگلیوں سے گرمی کے مارے میرے موٹے ہوتے ہوئے دانے کو چھو کر بولے۔۔۔۔ لگتا ہے تم کو رسالے میں پڑھی ہوئی کوئی جنسی کہانی یاد آ گئی ہے۔۔۔
لیکن میں نے ان کے سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔۔۔ تو اب انہوں نے براہِ راست میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا کہ اچھا صبو یہ بتاؤ کہ تم نے اظہر کے ساتھ کتنی دفعہ ملاپ کیا تھا؟ اس کے ساتھ ہی ا نہوں نے میرے دانے پر رکھا ہاتھ وہاں سے ہٹایا اور میری چوت کی دنوں پھانکوں کے درمیان پھیر کر بولے۔۔۔۔۔۔ بول نا۔۔۔۔ اور دوسری حرکت انہوں نے یہ کی کہ اپنے دوسرے ہاتھ سے مجھے اپنی دونوں ٹانگوں کو مزید کھولنے کا اشارہ کیا ۔۔۔جو کچھ ہچکچاتے ہوئے میں نے اپنی دنوں ٹانگوں کو کھول دیا۔۔۔ میری ٹانگیں کھولنے سے ان کی گستاخ انگلیاں بڑی آسانی کے ساتھ میری چوت کی پھانگوں کے آر پار رینگنے لگیں ۔۔جس سے میں مزید گرم سے گرم تر ہوتی گئی۔۔۔ اور اس وقت میرا جی کرنے لگا کہ قاری صاحب ابھی کے ابھی اپنے لن کو میرے اندر ڈال دیں ۔۔۔ لیکن وہ ستم گر ۔۔۔ مجھ پر سوال پہ سوال کر کے میری گرمائیش کو اور بڑھا رہا تھا ۔۔۔۔۔میں انہی سوچوں میں گم تھی کہ اچانک ہی قاری صاحب نے میرے دانے کو اپنی دو انگلیوں میں پکڑ کر ہکا سا دبایا اور کہنے لگے ۔۔۔۔ میں نے تم نے کچھ پوچھا ہے صبو ۔۔۔۔۔ اس پر میں نے سر اُٹھا کر ان کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔ایک بار بھی نہیں۔۔۔۔۔ تو وہ میرے دانے کو مسلتے ہوئے بولے۔۔۔ پکی بات ہے ؟ تو میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔ اس کے بعد قاری صاحب نے میرے دانے کو اپنی انگلیوں میں پکڑا ۔۔۔۔اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگے۔۔۔۔ کیسا لگ رہا ہے صبو؟ تو میں نے ان کی انکھوں میں چپھی شہوت کو دیکھ اپنا سر جھکا لیا اور منہ سے کچھ نہیں بولی۔۔۔۔لیکن ان کی آنکھوں میں شہوت کو دیکھ کر میری پھدی مزید گرم ہونا شروع ہو گئی۔۔۔ ادھر میرے منہ سے کوئی جواب نہ پا کر قاری صاحب نے میرے دانے کو مزید مسلتے ہوئے بڑے ہی ہوس بھرے لہجے میں کہا ۔۔۔۔۔ بتا نہ صبو ۔۔۔ ان کی بات سن کر ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ ۔۔۔۔
قاری صاحب۔۔۔۔کہ اچانک انہوں نے بیچ میں ہی میری بات کاٹ دی اور کہنے لگے ۔۔۔ ۔۔۔ قاری نہیں ۔۔۔بلکہ اب سے تم مجھے راشدی صاحب کہو گی ۔پھر کہنے لگے ہاں اب بولو کہ تم کیا کہہ رہی تھی؟۔۔۔۔۔ اس پر میں شرماتے ہوئے ان سےبولی ۔۔۔۔ اچھا لگ رہا ہے راشدی صاحب ۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ خوش ہو کر کہنے لگے۔۔۔۔۔۔تو پھر کیا خیال ہے میں خود کو یہیں تک محدود رکھوں یا کچھ آگے بڑھوں ؟ ۔۔۔۔لیکن میں نے ان کی اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔۔۔ تو وہ بولے بتاؤ نا صبو ۔۔۔۔ کہ میں مزید آگے بڑھوں؟ لیکن اس دفعہ بھی۔۔۔ مجھے خاموش پا کر انہوں نے ایک بار پھر سے میری چوت کی پھانکوں میں اپنی انگلی پھیری ۔۔۔ اس وقت تک میری گرم پھدی نے رطوبت چھوڑنا شروع کر دی تھی۔۔۔۔ چنانچہ جیسے ہی ان کی انگلیاں میری چوت کی لکیر کے آر پار ہوئیں تو میری پھدی کی رطوبت سے وہ گیلی ہو گئیں۔۔۔۔ یہ دیکھ کر انہوں نے اپنی انگلیوں کو میری چوت کی لکیر میں غوطہ دیا جس سے میری چوت کے پانی سے ان کی انگلیاں بھیگ گئیں ۔۔۔۔اور پھر اپنی گیلی انگلیوں کو میری آنکھوں کے سامنے لہرا کر بولے ۔۔صبو تم بھلے اپنے منہ سے کچھ نہ بولو ۔۔۔۔لیکن تمہارے اس گیلے پن نے میرے سوال کا جواب دے دیا ہے۔۔۔
اس کے بعد انہوں نے مجھے اپنے ساتھ چمٹا لیا اور کہنے لگے ۔۔۔اچھا یہ بتاؤ ۔۔اظہر کے ساتھ کوئی کسنگ کرنے کا موقعہ بھی ملا تھا یا نہیں؟۔۔۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے ہونٹوں کو میرے گالوں پر رکھا اور انہیں چوم کر بولے۔۔۔۔ میں اس والی کسنگ کی بات نہیں کر رہا بلکہ وہ والی کسنگ۔۔۔۔کہ جس میں دونوں فریق ایک دوسرے کے ہونٹوں کو چومتے اور زبانیں چوستے ہیں ۔۔۔۔۔راشدی صاحب جان بوجھ کر ایسے الفاظ استعمال کر رہے تھےکہ جس سے میں جنسی طور پر مزید مشتعل ہوتی جا رہی تھی۔۔۔ ۔مزید یہ کہ ان کی اس طرح کی حرکتوں کی وجہ سے شہوت تو مجھ پر پہلے ہی چڑھی ہوئی تھی لیکن جب سے ان کے ہونٹوں نے میرے گالوں کو چھوا تھا ۔۔۔۔تو اس سے میری شہوت عروج پر پہنچ گئی تھی ۔۔۔۔ اور اس شہوت نے پوری طرح سے مجھے اپنے قبضے میں کر لیا تھا ۔۔۔ اور میں شہوت ذادی۔۔۔ فُل گرم ہونے پر کچھ دلیر بھی ہو گئی ۔۔۔اس لیئے میں نے اپنا ہونٹ ان کے ہونٹوں پر رکھا اور ۔۔۔ان کو چھوکر بولی۔۔۔راشدی صاحب یہ والی کسنگ ہم نے خوب کی تھی۔۔۔۔ میری بات سن کر انہوں نے اپنی زبان کو میرے منہ میں دیا۔۔۔اور میری زبان کے ساتھ اپنی زبان کو بہت دفعہ لڑایا۔۔۔۔۔۔ پھر میری زبان کو اپنے منہ میں لیکر چوسنے کے بعد کہنے لگے ۔۔۔۔۔ اور یہ والی کسنگ بھی کی تھی؟
جاری ہے