شہوت زادی
قسط 11
تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔۔ یہ دیکھ کر انہوں نے میری قمیض کو تھوڑا اوپر کیا ا ور برا کو ایک طرف کر کے میری چھوٹی چھوٹی چھاتیوں کو ننگا کر دیا اور کہنے لگے ۔۔۔۔۔۔صبو کیا وہ تمہاری ان چھاتیوں سے بھی کھیلا تھا ؟؟۔۔۔۔ اور پھر میرے جواب کا انتظار کیئے بغیر انہوں نے میرے نپل کو اپنے منہ میں لیا اور انہیں بے دریغ چوسنے لگے-
جیسے ہی راشدی صاحب نے میرے نپلز کو چوسنا شروع کیا ۔۔۔تو شہوت کے مارے میرا بہت برا حال ہو گیا تھا ۔۔اور ان کے چھاتیاں چوسنے سے میرے اندر آگ مزید بھڑک اُٹھی تھی ۔۔۔ اور پھر بے قرار ہو کر میں نے راشدی صاحب کے لن پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔۔۔۔ ان کے لن پر ہاتھ رکھنے کی دیر تھی کہ راشدی صاحب نے اپنے منہ میں لیا ہوا میرا نپل باہر نکالا اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگے ۔۔۔۔ اس کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر دباؤ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنا آزار بند کھولا اور شلوار کو نیچے کر کے اپنے لن کو ننگا کر دیا۔۔۔ اور پھر میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن پر رکھ دیا۔۔۔ اس وقت ان کا لن فل جوبن پر اکڑا کھڑا تھا۔۔۔ یہ دیکھ کر راشدی صاحب نے مجھے ایک بوسہ دیا اور میرے کان میں۔کہنے لگے۔۔۔ صبو ۔۔پہلے کبھی میں اتنی جلدی گرم نہیں ہوا تھا
۔اور نہ ہی آج تک اتنی جلدی یہ (لن ) کھڑا ہوتا تھا جتنی جلدی تم نے اسے کھڑا کر دیا ہے ۔۔۔اس کے بعد انہوں نے میرے ساتھ تھوڑی سی کسنگ کی اور پھر میری طرف دیکھ کر کہنے لگے اچھا یہ بتاؤ کہ کیا تم نے اظہر کے ساتھ وہ والا کام بھی کیا تھا۔۔۔۔ ان کی بات سن کر میں نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگی وہ والا کون سا کام؟ اس پر انہوں نے بڑی نشیلی سی نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگے ۔۔۔۔ وہ والا کام جو انگلش رسالوں میں ہوتا ہے ۔۔۔۔ یعی انگلش سٹائل۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے انگھوٹھے کو منہ میں ڈالا اور چوپے کا اشارہ کر دیا۔۔۔۔ان کا اشارہ سمجھ میرے اندر ایک کرنٹ سا دوڑ گیا ۔۔۔۔لیکن میں نے ان سے کہا کہ ۔۔ نہیں جی ۔۔۔ میں نے ان کے ساتھ ایسا کوئی کام نہیں کیا ۔۔تو راشدی صاحب کہنے لگے ۔۔۔ اس کے ساتھ تو تم نے واقعی ہی نہیں کیا ۔۔۔ لیکن ۔۔ اگر میں کہوں تو میرے ساتھ کر لو گی؟ اس کے ساتھ ہی انہوں نے میرے سر کو پکڑ کر اپنے لن کی طرف جھکانا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔ جب میرا منہ ان کے لن کے ہیڈ کے پاس پہنچا تو وہ کہنے لگے۔۔۔۔ صبو ۔۔۔ سب سے پہلے اپنے زبان نکال کر میرے ہیڈ اور باقی کے لن پر پھیرو ۔۔۔۔ ان کی ہدایت سن کر میں نے اپنی زبان نکالی اور ان کے کہنے کے مطابق سب سے پہلے ان کے لن کے ہیڈ پر زبان پھیرنا شروع کر دی۔۔۔ اس کے بعد ۔۔۔ میں نے ان کے لن کو پکڑا اور اوپر سے نیچے تک۔۔۔۔۔ اور نیچے سے اوپر تک اس کو چاٹنا شروع کر د یا میں ان کے سخت لن کو اوپر سے لیکر نیچے تک بار بار چاٹ کر مزے لے رہی تھی ۔۔۔کہ وہ کہنے لگے اب میں ان کے لن کے ہیڈ پر کو گول گول زبان پھیروں اور میں نے ایسا ہی کیا ۔۔۔ میرے لن چاٹنے سے راشدی صاحب اتنے مست ہوئے کہ ان کے منہ سے بے ساختہ آہ۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔اوں۔۔۔ جیسے آوازیں نکلنا شروع ہو گئیں ۔۔ پھر کچھ دیر بعد وہ کہنے لگے ۔۔۔۔بس۔۔بس۔۔صبو ۔۔تم نے میرے لن کو بہت اچھا چاٹا ہے ۔۔۔اب اسے پنے منہ میں لیکر چوسو۔۔ ان کی بات سنتے ہی میں نے نظر اُٹھا کر ان کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔ اور پھر ان کے لن کو اپنے منہ میں لے لیا ۔۔۔اور چوسنے لگی۔۔۔ ان کے لن کو اپنےمنہ میں ڈالنے کی دیر تھی کہ راشدی صاحب کے منہ سے سسکیوں کا طوفان نکلنا شروع ہو گیا اور انہوں نے میرے سر کو پکڑ کر اپنے لن کے اوپر نیچے کرنا شروع کر دیا۔۔۔۔ کچھ دیر تک میں ایسے ہی ان کا لن چوستی رہی ۔۔۔۔ پھر خود ہی انہوں نے میرے سر کو اپنے لن سے ہٹایا اور کہنے لگے۔۔۔ صبو ۔۔۔۔آج تو تم نے مزہ دینے کی حد کر دی۔۔۔۔
پھر کہنے لگے اب تم اپنے کپڑے اتار کے نیچے لیٹ جاؤ۔۔۔ اس پر میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ وہ راشدی صاحب ۔۔۔ اور پھر کہتے کہتے رُک گئی۔۔۔ میرے اس طرح کرنے سے اپنے کپڑتے اتارتے ہوئے راشدی صاحب رُک گئے اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگے۔۔۔۔ جو کہنا ہے کھل کر کہو صبو۔۔۔ اس پر میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ راشدی صاحب آپ بھی انگلش سٹائل کرتے ہو؟ پہلے تو راشدی صاحب میری بات کو بلکل نہ سمجھے اور میری طرف دیکھ کر سوالیہ نظروں سے کہنے لگے ۔۔۔ کیا مطلب؟ پھر اچانک ہی ان کے دماغ میں میری کہی ہوئی بات آ گئی اور ۔۔۔۔ وہ میری طرف دیکھ کر کہنے لگے۔۔۔ ہوں۔۔ تم چٹوانے کی بات کر رہی ہو؟ تو میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔ اس پر وہ کہنے لگے ۔۔۔ میں ہر فن مولا ہوں ۔۔۔ تم بیڈ پر لیٹو ۔۔۔۔میں کپڑے اتار کے آتا ہوں ۔۔ ان کی بات سن کر میں نے بھی جلدی سے اپنے باقی کے کپڑے اتارے اور ننگی ہو کر ان کے پلنگ پر لیٹ گئی۔۔۔ کچھ دیر بعد راشدی صاحب بھی اپنے کپڑے اتار کے پلنگ پر آ گئے۔۔۔ اور جیسے ہی ان کی نظر میری بالوں والی پھدی پر پڑی تو وہ ایک دم چونک کر کہنے لگے۔۔۔۔ صبو بیٹا ۔۔۔تم اپنی پاکی نہیں کرتی ہو؟ ۔۔۔۔۔ان کی بات سن کر میں کہنے لگی ۔۔ جی کیا کہا آپ نے ؟ اتنی دیر میں وہ میرے چوت کے پاس بیٹھ چکے تھے اس لیئے انہوں نے میری چوت پر اُگے ہوئے بڑے بڑے بالوں کو اپنی انگلیوں میں پکڑا اور کہنے لگے ۔۔۔ ان کو کیوں نہیں کاٹتی؟ تو میں نے جواب دیتے ہوئے کہا ۔۔۔
کہ مجھے اپنی چوت پر بال رکھنا بڑا پسند ہے۔۔۔ تو وہ میرے بالوں سے کھیلتے ہوئے تھوڑی ناگواری سے بولے۔۔۔ لیکن کیا تم کو معلوم ہے کہ ان کو ہفتے میں ایک دفعہ کاٹنے کا حکم ہے۔۔۔۔ اس لیئےآئیندہ سے تم اس بات کا خیال رکھنا ان کی بات سن کر میں نے ان کو ٹالنے کی غرض سے کہا ۔۔ ٹھیک ہے راشدی صاحب آئیندہ میں اس بات کا خیال رکھوں گی۔۔۔۔اور دل میں ان کو ایک گالی دیتے ہوئے بولی سالے یہ جو تم میرے ساتھ کر رہے ہو ۔۔اس کا کہاں پر حکم ہے؟ میری بات سن کر راشدی صاحب کہنے لگے ۔۔۔شاباش ۔۔۔اور پھر وہ اپنی جگہ سے اُٹھے اور میری ٹانگوں کے بیچ میں آ گئے اور پھر میری پھدی کی طرف جھک گئے۔۔اور اپنی دو انگلیوں کی مدد سے میری پھدی کے بالوں کو ادھر ادھر کیا ۔۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میں نے اپنے دانے پر ان کے گرم تھوک کو محسوس کیا۔۔۔ انہوں نے میرے دانے پر تھوکا اور۔۔ پھر اپنی زبان نکال کر اسے چاٹنے لگے۔۔۔۔ ان کے دانہ چاٹنے سے مجھے اتنا مزہ آیا کہ میں ۔۔۔۔۔۔ ان کی زبان کے نیچے ماہیء بے آب کی طرح تڑپنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے یوں تڑپتا دیکھ کر انہوں نے میری پھدی سے اپنا سر ہٹایا ۔۔۔۔ اور کہنے لگے۔۔۔۔ مزہ آ رہا ہے نا۔۔۔۔ اور پھر سے نیچے میری پھدی پر جھک گئے اور اب میری چوت کی لکیر کو چاٹنا شروع ہو گئے۔۔۔۔ کافی دیر تک وہ میری چوت کو چاٹتے رہے اور ان کے اس طرح چاٹنے سے ان کی زبان کے نیچے میں ۔۔ تڑپتی رہی اور ان سے کہتی رہی کہ ۔۔۔راشدی صاحب اور چاٹو۔۔۔۔ اور میری چوت سے نکلنے والا پانی بھی ٹیسٹ کرو۔۔۔۔اور وہ بے دریغ ایسا ہی کرتے رہے یہاں تک کہ جب انہوں نے میری چوت سے اپنا منہ ہٹایا ۔۔۔تو اس وقت ان کے ہونٹوں کے آس پاس کا سارا ایریا ۔۔۔۔ میری چوت کے پانی سے لتھڑا ہوا تھا۔۔۔۔
چوت چاٹنے کے کے بعد انہوں نے مجھے گھوڑی بننے کو کہا ۔۔۔۔ اور خود ہی اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہنے لگے ۔۔۔ کہ چونکہ ان کو گانڈ بڑی پسند ہے اس لیئے وہ میری گانڈ بھی چیک کرنا چاہتے ہیں اور اگر ان کو میری گانڈ پسند آ گئی تو وہ مجھے پیچھے سے کریں گے۔۔۔ ان کی بات سن کر میں نے اپنا منہ دوسری طرف کیا اور ان کی طرف اپنی گانڈ کر دی۔۔۔ اب انہوں نے میری گانڈ کے ساتھ خود کو ایڈجسٹ کیا اور پھر میری گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے ۔۔۔۔ اپنی ٹانگوں کو تھوڑا اور کھلا کرو۔۔۔ اور میں نے ایسا ہی کیا۔۔۔ اب انہوں نے اپنی ایک انگلی ۔۔۔ میری گانڈ کے رنگ پر پھیری اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔اچانک ہی مجھ سے مخاطب کر کے کہنے لگے۔۔۔صبو ۔۔۔تم نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا۔۔۔؟ تو میں نے حیران ہو کر اپنی گردن کو ان کی طرف موڑا اور کہنے لگی ۔۔۔کونسا جھوٹ؟؟؟؟؟؟؟ تو وہ بولے۔۔۔۔۔ اظہر کے ساتھ سیکس والی بات ؟ اور پھر خود ہی کہنے لگے۔۔۔۔ دیکھو صبو ۔۔ میں گانڈ مارنے کا ماسٹر ہو ں ۔
اور بلا مبالغہ اب تک ہزاروں گانڈیں مار چکا ہوں۔۔۔۔۔اور گانڈ دیکھ کر مجھے ایک منٹ میں پتہ چل جاتا ہے کہ یہ گانڈ کنواری ہے یا اس میں کوئی لن گیا ہے ۔۔۔اور پھر میری موری میں اپنی انگلی ڈال کے بولے اور تمہاری یہ گانڈ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ اس یہ ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ مروائی گئی ہے۔۔۔ پھر میری گانڈ پر ہلکا سا تھپڑ مارتے ہوئے کہنے لگے ۔۔۔ کتنی دفعہ مروائی ہے؟ ان کی بات کے جواب میں ۔۔۔۔ میں ان سے یہ تو نہیں کہہ سکتی تھی کہ میں نے اپنی گانڈ ۔۔۔ اظہر سے نہیں بلکہ بھائی سے مروائی ہے اور بار بار مروائی ہے ۔۔۔ اس لیئے ۔۔۔۔ ان سے جھوٹ بولتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔۔ وہ بس راشدی صاحب ۔۔۔۔۔۔یہ بتاتے ہوئے مجھے شرم آ رہی تھی۔ میری بات سن کر انہوں نے ایک فاتحانہ قہقہہ لگایا اور کہنےلگے۔۔۔ دیکھا میری بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی ۔۔۔
پھر انہوں نے میری گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ۔۔ ایک بات کہوں صبو۔۔۔۔ میرا تجربہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ تمہاری گانڈ بہت مزے کی ہو گی۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے میری گانڈ پر بہت سا تھوک لگایا اور کہنے لگے ۔۔۔ تیار ہو جاؤ ۔۔ اب میں تمہاری گانڈ مارنے والا ہوں۔۔۔ پھر انہوں نے کچھ تھوک اپنے لن پر بھی لگایا اور اپنا ٹوپا میری گانڈ کی موری پر رکھتے ہوئے بولے۔۔۔۔ امید تو نہیں کہ تم کو درد ہو ۔۔۔ لیکن پھر بھی۔۔۔۔ تھوڑا بہت درد برداشت کر لینا۔۔۔اس کے ساتھ ہی ۔۔۔انہوں نے ہلکا سا دھکا لگایا ۔۔۔اور ان کے لن کا ہیڈ میری گانڈ میں گھس گیا۔۔۔ چونکہ اپنے بھائی سے میں روزانہ رات کو گانڈ مرواتی تھی ۔۔۔اس لیئے لن آ جا کر میری گانڈ خاصی یوز ٹو ہو چکی تھی۔۔اسی لیئے راشدی صاحب کے لن کے ہیڈ کے جانے سے مجھے بس معمولی سی تکلیف ہوئی۔۔۔اور وہ بھی اس لیئے کہ راشدی صاحب کا لن میرے بھائی کے لن سے تھوڑا بڑا اور موٹا تھا ۔۔۔ ورنہ تو لن کے اندر جاتے ہی مجھ پر ایک عجیب سی سرشاری کی کیفیت طاری ہو جایا کرتی تھی۔۔۔ ۔ان کے لن کے ہیڈ کو اپنی گانڈ میں محسوس کرتے ہی مجھ پر وہی عجیب سی خماری طاری ہونے لگی تھی۔۔۔۔ اور میرا دل کر رہا تھا کہ راشدی صاحب جلدی سےاپنا سارا لن میری گانڈ میں اتار کر ان آؤٹ کرنا شروع کر دیں ۔۔۔۔۔چنانچہ ان کا ہیڈ اپنی گانڈ میں لیئے میں اسی خماری کے عالم میں ان سے بولی۔۔۔راشدی صاحب ۔۔۔۔ باقی کا لن بھی اندر ڈالو ۔۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ کہنے لگے۔۔۔ میری بات سن لو صبو۔۔تم بہت بڑی شہوت ذادی ہو
۔۔ تمہاری گانڈ مار کے مجے مزہ آئے گا۔۔ ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ایک اور ہلکا سا گھسہ مارا۔۔۔ اور ان کا لن پھسل کر تھوڑا ۔۔۔۔اور اندر آ گیا۔۔۔ جس سے مجھے بڑا مزہ ملا۔۔۔۔۔لیکن میں ان کے پورے لن کو اپنے اندر لینا چاہ رہی تھی ۔۔۔اس لیئے میں نے اپنی گانڈ کو ان کی طرف دباتے ہوئے کہا۔۔۔ جڑ تک ڈال نا۔۔۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ بھی جوش میں آ گئے اور ایک دم سے ایک ذور دار گھسہ مارا ۔۔۔۔ جس سے ان کا پورے کا پورا لن پھسلتا ہوا ۔۔۔ میری گانڈ کے اینڈ تک پہنچ گیا۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی مزے اور سرُور کی ایک تیز لہر میرے سارے بدن میں پھیل گئی۔۔۔اور میں نے ان سے کہا۔۔۔۔۔ گھسوں کو روکنا نہیں۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی راشدی صاحب نے اپنا ایک ہاتھ نیچے کیا اور میرے دانے کو مسلتے ہوئے کہنے لگے۔۔۔فکر نہیں کرو صبو۔۔۔۔۔۔۔ اب میں رکنے والا نہیں ہوں۔۔۔ اور پھر انہوں نے میری گانڈ پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے ۔۔۔ان کے ہر گھسے سے مزے کے مارے میں ساتویں آسمان پر پہنچ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اور ان سے ڈُو مور کا مطالبہ کرتی جا رہی تھی۔۔۔کافی دیر تک وہ ایسے ہی میری گانڈ میں اپنے لن کو ان آؤٹ کر کے مجھے مزہ دیتے رہے۔۔۔۔ پھر اچانک میں نے محسوس کیا کہ راشدی صاحب کی ٹانگیں بُری طرح سے کانپنا شروع ہو گئیں ہیں ۔۔۔اور میں سمجھ گئی کہ اب قاری صاحب چھوٹنے والے ہو گئے ہیں ۔۔۔۔ چنانچہ یہ بات سوچتے ہی میں نے چلاتے ہوئے ان سے کہا ۔۔۔۔ کہ ۔۔۔اور زور سے مارو ۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔ جیسے جیسے ۔۔۔ میں ان کو زور سے کہتی ۔۔۔وہ اتنے ہی زور سے مجھے گھسہ مارتے جا رہے تھے اور ان کے ان گھسوں سے میں اپنے مزے کے انتہا پر پہنچ گئی تھی ۔۔۔اور مزے کی پیک پر پہنچنے کی وجہ سے میری خواہ مخواہ ہی چوت نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا۔۔۔ اور ادھر راشدی صاحب نے میری گانڈ میں اپنا امرت دھارا چھوڑا ۔۔۔ادھر ۔۔۔۔۔میری چوت نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راشدی صاحب سے فارغ ہو کر میں سیدھی اپنے گھر گئی کیونکہ پروگرام کے مطابق آج شبی نے زینب لوگوں کو سیکس کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑنا تھا ۔۔۔۔۔ جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوئی دیکھا تو سامنے ہی شبی کھڑا تھا اور اس وقت اس کی شکل پر بارہ بج رہے تھے ۔۔۔ مجھے دیکھ کر اس نے مجھے کمرے میں آنے کا اشارہ کیا۔۔ جیسے ہی می ں کمرے میں پہنچی تو میں نے اس سے کہا۔۔۔ ہاں بتاؤ شبی کہ تمہارے مشن ( جو کہ زینب کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کا تھا ) کا کیا ہوا؟ میری بات سن کر شبی نے بڑی پریشانی کے عالم میں میری طرف دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باجی وہ زینب ۔۔۔۔۔ اس کی شکل دیکھ کر پہلے ہی میں پریشان ہو گئی اور اسی پریشانی کے عالم میں اس سے پوچھنے لگی۔۔۔۔ زینب کو کیا ہوا ؟؟؟۔۔۔۔
؟؟ میری بات سن کر شبی نے ایک نظر کمرے کے باہر دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری بات سنتے ہی بھائی نے ایک دفعہ پھر پریشانی کے عالم میں اپنے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہنے لگا۔ ۔۔۔۔وہ ۔۔باجی وہ ۔۔۔۔ زینب۔۔۔۔ تو میں نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا ۔ اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں یار ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ بلکہ آرام سے بیٹھ کر مجھے تفصیل سے بتاؤ کہ آخر بات کیا ہوئی تھی؟؟ ۔۔۔۔۔ میری تسلی دینے اسے کچھ حوصلہ ہوا اور وہ کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔. باجی آج دوپہر کو کہ جب آپ قاری صاحب کی طرف گئیں ہوئیں تھیں اور امی نیچے مصروف تھیں تو میں نے ساجد اور زینی کو پکڑنے کے لیئے اپنی چھت پر ناکہ لگا لیا تھا ۔۔۔ اس پر میں نے حیران ہو کر ا س سے پوچھا کہ چھت پر ایسی کون سی جگہ ہے؟ تو وہ کہنے لگا کہ باجی میں ممٹی کی چھت پر لیٹ گیا تھا۔۔۔۔ جہاں سے نیچے کا منظر اور چھت صاف نظر آتی ہے اس پر میں مزید حیران ہو گئی اور اس سے پوچھنے لگی کہ یار اتنی تیز دھوپ میں لیٹ کر تمہاری جلد کو کچھ نہیں ہوا تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ ہر گز نہیں باجی ۔۔۔ اس پر میں نے حیران ہو کر اس کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ وہ اس لیئے کہ میں نے اپنے نیچے چٹائی بچھائی ہوئی تھی ۔۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔۔ باجی مجھے ممٹی کی چھت پر بیٹھے کافی دیر ہو گئی تھی ۔۔۔۔اور قریب تھا کہ میں مایوس ہو کر وہاں سے اُٹھ جاتا ۔۔۔ ۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی دوران میری نظر زینی پر پڑ گئی ۔۔ جو کہ اس وقت سیڑھیوں چڑھ کر ہماری چھت پر پہنچ چکی تھی ۔۔۔۔ ۔۔۔اور اپنی چھت پر آ کر بڑے محتاط انداز میں ادھر ادھر دیکھ رہی تھی ۔۔۔ کہنے لگا کہ جب اس کو یقین ہو گیا کہ ہر طرف امن شانتی ہے تو اس نے ایک بار پھر پورے چھت کا چکر لگایا ۔۔۔۔۔۔ اور آس پاس کے گھروں کی کو دیکھنے لگی ۔۔۔۔اور میرے خیال میں ادھر سے بھی آل اوکے دیکھ کر وہ چاچے کی چھت کی طرف چلی گئی ( جو کہ ہمارے چھت کے ساتھ بلکل جڑی ہوئی تھی) میرے خیال میں وہاں پہلے سےہی کسی جگہ ساجد چھپا بیٹھا تھا۔۔۔۔ کیونکہ چاچے کی چھت پر پہنچ کر اس نے اس طرف دیکھا اور پھر کوئی اشارہ کر کے وہ اپنے چھت پر آ گئی ۔۔۔۔۔ اس کے بعد اس نے ایک دفعہ پھر نیچے گھر میں جھانک کر دیکھا اور پھر آہستہ آہستہ چلتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کھڈے کا پردہ ہٹایا اور ایک دفعہ پھر مُڑ کر ممٹی کی طرف دیکھا اور پھر کھڈے کے اندر گھس گئی۔۔۔۔
۔۔۔ بات کرتے ہوئے شبی نے تھوڑا سا وقفہ لیا اور پھر کہنے لگا کہ جیسے ہی زینی کھڈے میں داخل ہوئی تو ۔۔۔۔ اسے اندر جاتے دیکھ کر میری عجیب سی حالت ہو گئی اور میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔۔۔ پھر زینی کی طرف سے فارغ ہو کر اب میرا سارے کا سارا ۔۔۔۔۔۔۔ دھیان چاچے کی چھت کی طر ف چلا گیا تھا کہ جس طرف جا کر زینی نے کچھ اشارہ کیا تھا ۔۔۔یقیناً یہ اشارہ اس نے ساجد کے لیئے ہی کیا ہو گا ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ اور پھر میرے اندازے کے عین مطابق ۔۔۔۔۔ کچھ ہی دیر کے بعد ۔۔۔ میں نے ساجد کو دیکھا جو بڑی ہی محتاط نظروں سے ہماری چھت کی طرف دیکھ رہا تھا اور پھر ۔۔۔۔۔ وہاں پر کسی کو نہ پا کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگلے ہی لمحے اس نے ہمارے چھت کی چھوٹی سی دیوار پھلانگی ۔۔۔ ۔۔۔۔ اور بڑی بے تابی کے ساتھ ہمارے کھڈے کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔ اور ۔۔ جب وہ کھڈے کے قریب پہنچا تو اس نے ایک نظر ہماری سیڑھیوں کی طرف دیکھا اور پھر اگلے ہی لمحے اس نے کھڈے کا پردہ ہٹایا اور اندر گھس گیا ۔۔۔ یہ منظر دیکھ کر میرا تو خون ہی کھول اُٹھا اور یقین کرو باجی ۔۔۔ ایک دفعہ تو میرا جی چاہا کہ میں ابھی بھاگ کے جاؤں اور ان دنوں کی ایسی کی تیسی کر دوں ۔۔۔ پھر یہ سوچ کر چُپ رہا کہ ۔۔آپ نے مجھے ایسا کرنے سے منع کیا ہے ۔۔۔۔ چنانچہ میں خون کے گھونٹ پی کر وہیں ممٹی کی چھت پر لیٹا رہا ۔۔۔ اور اس بات کا انتظار کرنے لگا کہ وہ اپنا سیکس پروگرام شروع کریں تو میں ان کو پکڑوں کیونکہ میرا خیال تھا کہ ابھی تو کھڈے میں ان کا کسنگ سین وغیرہ چل رہا ہو گا۔۔۔ پھر کچھ دیر لیٹنے کے بعد میں ممٹی کی چھت سے نیچے اترا اور پنجو ں کے بل چلتا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کھڈے کے قریب پہنچ گیا۔۔۔۔۔ اور اینٹوں کے بنے سوراخ کے ساتھ آنکھ لگا کر دیکھا تو۔۔۔ کھڈے میں زینی لیٹی ہوئی تھی اس کی آنکھیں بند تھیں ۔۔ اور اس کی قمیض اوپر کو اُٹھی ہوئی تھی اور اس کی بھاری چھاتیاں ساجد کے دونوں ہاتھوں میں پکڑی ہوئیں تھیں اور وہ ان کو اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے مسل رہا تھا۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں واپس ہو گیا ۔۔ کیونکہ آپ نے مجھے ان کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کا کہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ممٹی میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں بیٹھ کر ایک ایک پل مجھ پر ایک ایک سال کے برابر لگ رہا تھا۔۔۔۔ چنانچہ تنگ آ کر میں واپس کھڈے کی طرف آیا اور ۔۔۔۔۔ اور پہلے کی طرح اینٹوں سے بنے سوراخ سے اندر کا نظارہ دیکھنے لگا۔۔۔۔۔۔ یہاں تک بات سنا کر اس نے اپنی آنکھوں کو پھیلایا اور کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا بتاؤں باجی ۔۔۔۔۔کہ اس وقت کھڈے میں ساجد لیٹا ہوا تھا۔۔۔۔اور اس کی شلوار اتری ہوئی تھی۔۔۔ اور اس کا لن زینی کے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا ۔۔۔اور وہ اس کو آگے پیچھے کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر شبی نے بڑی حیرت سے میری طرف دیکھ کر کہنے لگا۔۔۔۔ باجی پھر آپ کو پتہ ہےکہ پھر کیا ہوا؟ تو میں انکار میں سر ہلاتے ہوئے اس سے بولی مجھے کیا پتہ یار ۔۔۔تم کچھ بتاؤ گے تو پتہ چلے گا ناں ۔۔۔۔اس پر وہ کہنے لگا۔۔۔۔ پھر باجی یوں ہوا کہ میرے دیکھتے ہی دیکھتے زینی ۔۔۔
ساجد کی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں اپنا سر لے گئی۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔اور ۔۔۔باجی۔۔۔ یہ دیکھ کر میری حیرانی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ اس نے ساجد کے لن کو اپنے منہ میں لے لیا۔ اور اسے چوسنے لگی ۔۔ اس پر میں نے شبی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔اس میں حیران ہونے کی کونسی بات ہے؟ میں روزانہ ہی تمہارے لن کو اپنے منہ میں لیتی ہوں۔۔۔ تو میری بات کو کاٹتے ہوئے شبی کہنے لگا ۔۔۔۔ باجی آپ کی بات اور ہے ۔۔۔آپ تو کافی بڑی اور سمجھدار ہو۔۔۔۔ پر باجی زینی تو ابھی بہت چھوٹی اور ناسمجھ ہے۔۔ اس کو اس طرح لن چوسنے کا کیسے پتہ چلا۔۔۔۔؟؟ ۔اس پر میں نے شبی کے گال کو تھپ تھپایا اور اس سے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے پیارے بھائی۔۔۔۔ چھوٹی وہ میری اور تمہاری نظروں میں ہے ورنہ ۔۔۔ تم کو شاید پتہ نہیں ۔۔۔دو سال سے اس کو پیریڈز آ رہے ہیں ۔ ۔۔اس لیئے میرے حساب سے تو وہ جوان ہی ہے۔۔۔۔ میری بات سن کر شبی کی آنکھیں ۔۔حیرت سے پھٹنے کے قریب ہو گئیں اور وہ کہنے لگا۔۔۔یہ آپ کیا کہہ رہی ہو باجی؟؟؟۔۔۔۔یعنی پورے دو سال سے؟ تو میں نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔۔۔ اس پر وہ کہنے لگا۔۔۔۔ لیکن اس بات کا پہلے آپ نے مجھ سے تزکرہ نہیں کیا۔۔۔۔ تو میں نے اس کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ پہلے کبھی اس موضوع پر بات جو نہیں ہوئی تھی۔۔۔میری بات سن کر اس نے سر ہلا دیا۔۔اور اس کے ساتھ ہی وہ کہنے لگا کہ چلو باجی پیریڈز کی حد تک تو یہ بات درست ہے لیکن میری سمجھ میں ابھی تک یہ بات نہیں آ رہی کہ اس کو لن چوسنے کا کیسے پتہ چلا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔ اس پر میں نے اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔ شبی میری جان ۔۔۔۔۔۔۔ اس میں حیرت کی کو نسی بات ہے ۔۔۔ جہاں تک لن چوسنے اور پھدی چاٹنے کا تعلق ہے تو جیسا کہ تم بھی اس بات سے اچھی طرح واقف ہو کہ آج کل یہ بات تو ہر جوان ہونے والا بچہ اور بچی جانتے ہیں ۔۔۔۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اس قسم کے ننگے انگریزی ۔۔۔۔ رسالے اور فلمیں عام مل جاتی ہیں کہ جس میں مرد اور عورت ایک دوسرے کے نہ صرف یہ کہ جنسی اعضاء کو چاٹتے ہیں بلکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ بعض تصویروں میں گوریوں کی زبان پر تو مرد کی منی بھی رکھی ہوئی صاف نظر آتی ہے جسے دیکھ کر لڑکے اور لڑکیاں متاثر ہوتے ہیں اور ایکد وسرے کے ساتھ ان جیسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔۔ اس کے بعد اپنے تجربے کو یاد کرتے ہوئے میں بھائی سے کہنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے خیال میں فلمیں تو نہیں البتہ ساجد نے زینی کو دیکھنے کے لیئے یہ رسالے ضرور دیئے ہوں گے تبھی تو تمہارے بقول زینی بڑے شوق سے ساجد کا لن چوس رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ میری اتنی لمبی بات سن کر اس نے اپنے سر کو ہاں میں تو ہلا دیا تھا لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کی آنکھیں بتا رہیں تھیں کہ وہ ابھی تک حیرت میں مبتلا ہے۔۔شاید ا سے میری کہی ہوئی بات ہضم نہ ہو ر ہی تھی ۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اس سے کہا۔۔۔ ان باتوں کو چھوڑو ۔۔۔ یہ بتاؤ کہ آگے کیا ہوا ؟؟۔۔۔۔ تو میری بات سن کر شبی حیرت کے دریا سے نکلتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوہ ہاں۔۔۔۔ باجی۔۔۔ اس کے بعد میں یہی دیکھتا رہا ۔۔۔۔ کہ زینی بڑے شوق سے اس کے لن کو چوستی رہی پھر ۔۔ نیچے لیٹے ہوئے ساجد نے اسے کوئی اشارہ کیا ۔۔۔اور زینی نے اس کے لن کو اپنے منہ سے نکالا اور ۔۔۔ اپنی شلوار اتار کے گھوڑی بن گئی۔۔۔ اسی اثنا میں اپنی جگہ سے اُٹھ کر ساجد بھی گھٹنوں کے بل چلتا ہوا ۔۔اس کے پیچھے آ گیا ۔۔۔۔ اور یہ سین دیکھ کر ۔۔۔اچانک ہی مجھے یاد آگیا کہ میں یہاں ان کی سیکس موی دیکھنے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلکہ۔۔۔۔ ان کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کے لیئے آیا ہوں ۔۔۔ یہ سوچ کر میں نے کھڈے کے سوراخ سے لگی اپنی آنکھوں کووہاں سے ہٹایا اور ۔۔اور دھیرے دھیرے چلتا ہوا ممٹی کے اندر آ گیا۔۔۔ اور کچھ دیر توقف کے بعد میں ایک دو سڑھیاں نیچے اترا ۔۔۔۔اور پھر انہی سیڑھیوں پر جان بوجھ کر زور زور سے قدم مارتا ہوا ۔۔۔ ممٹی پر پہنچ گیا۔ اور پھر چھت پر آ کر خواہ مخواہ ہی آپ کو آوازیں دینے لگ گیا۔۔۔۔ کہ باجی باجی۔۔۔ آپ کہاں ہو؟؟؟۔۔۔ آوازیں دینے کے ساتھ ساتھ میرا ساتھ دھیان کھڈے کی طرف ہی لگا ہوا تھا ۔۔۔
پھر میں نے پروگرام کے مطابق ایسے ہی اونچی آواز میں ہانک لگائی کہ یہ کھڈے میں کون ہے؟ میری آواز سنتے ہی کھڈے میں کچھ کھسر پھسر ہوئی اور اس سے پہلے کہ میں کھڈے کے قریب پہنچتا ۔۔۔۔اچانک ہی کھڈے کا پردہ ہٹا اور اس میں سے اپنی شلوار کو باندھتا ہوا ۔۔۔ساجد باہر نکلا اور میری طرف دیکھے بغیر ہی بھاگ وہ بھاگ کر ہماری چھوٹی سی دیوار کے پاس پہنچا اور پھر اسے پھلانگتا ہوا ۔۔۔۔ اپنی چھت پر کود گیا ۔۔۔ میں نے بھتیرا رولا ڈالا ۔۔۔۔ لیکن وہ بھاگ گیا ۔۔۔اس کے بھاگ جانے کے بعد میں ۔۔ کھڈے کی طرف متوجہ ہوا تو دیکھا کہ اس میں سے زینی نکل رہی تھی اسے دیکھ کر حقیقت میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے غصہ آ گیا ۔۔۔۔اور میں نے غصے کے عالم میں اس سے پوچھا کہ یہ تم لوگ کھڈے میں کیا کر رہے تھے؟ تو بجائے شرمندہ ہونے کے۔۔۔ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ وہ کہنے لگی۔۔۔ وہی جو تم اور عاشی ۔۔۔صبو باجی کے ساتھ مل کے ان کے کمرے میں کرتے ہو۔۔۔ کہنے لگا زینی کی یہ بات سن کر ایک لمحے کے لیئے تو میں اپنے سارے تور پور بھول گیا ۔۔۔۔اور بڑی حیرانی سے اس کی طرف دیکھ کربولا ۔۔۔کہ یہ تم کیا بکواس کر رہی ہو؟ تو وہ بڑے اطمینان سے کہنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں بکواس نہیں کر رہی بلکہ مجھے سب معلوم ہے کہ تم خود عاشی باجی اور صبو باجی کے ساتھ خراب ہو ۔۔۔۔ اتنا کہہ کر اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا ۔۔۔ کیا بتاؤں باجی ۔۔۔زینی نے مجھ سے یہ بات اتنے اطمینان اور زہریلے انداز میں کہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ کہ اسے سن کر ایک دم سے میں نہ صرف گھبرا گیا تھا بلکہ اس کی طنزیہ نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے ۔۔۔۔میں پانی پانی بھی ہو گیا ۔۔۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔۔کہ اس کی بات سن کر کچھ دیر کے لیئے تو میں سُن ہو کر رہ گیا ۔۔۔ پھر ۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں اس سے مزید کچھ کہتا وہ بڑے اطمینان سے چلتی ہوئی سیڑھیوں سے نیچے اتر گئی۔تھی ۔۔۔ اتنی بات کر کے شبی نے بڑی ہی پریشانی کے عالم میں میری طرف دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔۔ ۔۔۔باجی زینی کو نہ صرف میرے اور آپ کے تعلق بلکہ ۔۔۔ میرے عاشی کے ساتھ ہونے والے سارے واقعات کا بھی پتہ ہے۔۔۔۔ بھائی نے بات ہی ایسی کی تھی کہ اس کی بات سن کر ایک لمحے کے لیئے کو تو میں بھی ششدر رہ گئی تھی ۔۔
۔۔ اور کافی دیر تک حیرانی کے عالم میں اسے دیکھتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد جب میرے حواس کچھ بحال ہوئے تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ کہ بھائی ۔۔ ہو نہ ہو یہ بات اس کو ساجد نے بتائی ہو گی۔۔۔اور پھر میں نے شبی کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اس سے مخاطب ہو کر بولی ۔۔۔ تم فکر نہیں کرو بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ تو میری بات سن کر وہ کہنے لگا کیسے ٹھیک ہو جائے گا باجی۔۔۔ میرا تو خیال تھا کہ میرے یوں چھاپہ مارنے سے وہ لوگ ڈر جائیں گے ۔۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہو گیا ہے اور ہمیں لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔۔۔
شبی کی بات بھی درست تھی کیونکہ پہلے میرا پروگرام یہ تھا کہ بھائی کے چھاپہ مارنے وہ ڈر جائے گی ۔۔۔۔ اور میں اسی ڈر کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اسے ساجد سے متنفر کر دوں گی ۔۔۔ یوں سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے گی لیکن بھائی کے چھاپے کے بعد اب معاملے نے دوسرا رُخ اختیار کر لیا تھا ۔۔۔اس لیئے میرا زہن تیزی کے ساتھاس بات پر کام کر رہا تھا کہ اب کیا کیا جائے؟ پھر اچانک ہی میرے زہن میں زینی کی بیسٹ فرینڈ ۔۔۔ ثمینہ سیناری کا نام آ گیا۔۔۔ اور جوں جوں میں اس پوائینٹ پر غور کرتی رہی اس کے ساتھ ساتھ میرے شیطانی زہن میں ایک پلان تیار ہوتا رہا ۔۔۔۔۔اور پھر اگلے چند سیکنڈز میں ۔۔۔میرے زہن میں اس پلان کے سارے خدو خال نمایاں ہونا شروع ہو گئے ۔۔۔ لیکن اس پلان کی ساری کامیابی کا دارومدار ۔۔ثمینہ سنیاری کے تعاون پر تھا ۔۔۔ یہاں میں ثمینہ سیناری کے بارے میں ۔۔بتا دوں کہ وہ زینی کی سب سے اچھی دوست اور ہم نوالہ و ہم پیالہ تھی۔۔۔۔ زینی کی اچھی دوست ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ میری بھی بہت اچھی سلام دعا تھا ۔۔۔۔۔۔ زینی کے بر عکس ثمینہ سنیاری ایک گوری چٹی اور موٹاپے کی طرف مائل ایک بھرے بھرے جسم کی مالک تھی ۔۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ اس کی شکل و صورت کی بہت اچھی تھی اور موٹاپے کی وجہ سے زینی کی طرح وہ بھی اپنی عمر سے تھوڑی زیادہ دکھتی تھی۔۔۔۔
اپنے ذہن میں پلان ترتیب دینے کے بعد میں نے ۔۔۔ بھائی کی طرف دیکھا جو بڑی پریشانی کے عالم میں میری طرف ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔ چنانچہ جب میری اور اس کی نظروں سے نظریں ملیں تو وہ کہنے لگا۔۔۔ کہ پھر آپ نے کیا سوچا ہے باجی؟ تو میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا ۔۔ فکر نہ کر بچے سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ اس پر بھائی روہانسے لہجے میں کہنے لگا۔۔۔ فکر کیوں نہ کروں باجی ۔۔۔ فرض کرو کہ اگر زینی نے یہ بات اماں کو بتا دی تو؟ بھائی کی بات سن کر میں ہنس پڑی اور اس سے کہنے لگی ۔۔۔ نہیں میرے بھائی زینی کبھی بھی یہ بات اماں سے نہیں بتا ئی گی ۔۔۔وہ اس لیئے کہ اس طرح پھر اس کو ساجد کے ساتھ اپنے تعلق کی بھی وضاحت کرنی پڑے گی اور اس بات کو وہ کبھی بھی افورڈ نہیں کر سکے گی ۔۔۔۔ میری بات سن کر بھائی پھر بھی مطئن نہ ہوا اور بولا کہ پھر بتاؤ نہ باجی کہ اب کیا کیا جائے ؟ تو میں نے اس کو کہا کہ ۔۔۔ میرے بھائی ہو گا وہی جو ہم نے سوچا ہے ۔۔۔اور پھر اس کے استفسار پر میں نے اس کے ساتھ اپنا سارا پلان شئیر کر دیا۔۔۔ سن کر کہنے لگا ۔۔۔ پلان تو بہت اچھا ہے لیکن یہ بتاؤ کہ ثمینہ سنیاری اس بات کے لیئے راضی ہو جائے گی؟ تو میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ امید تو بہت ہے ۔۔۔باقی آگے کی آگے جانے۔۔۔
اگلی صبع حسبِ معمول میں اور امی قاری صاحب کے گھر چلی گئی ۔۔۔اور ھسبِ سابق قاری صاحب کی بیگم کے پاس جا کر بیٹھ گئیں ۔۔۔۔ ان کی بیگم کی حالت دیکھ کر میرے کان میں اماں کہنے لگی۔۔۔۔ ایک دو دن کی بات ہے۔۔۔۔ پھر کچھ دیر کی گپ شپ کے بعد میں نے کاکے کو اُٹھایا اور اماں کو بتا کر باہر چلی آئی۔۔۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ اماں تو پہلے ہی یہی چاہتی تھیں ۔۔۔ اس لیئے انہوں نے مجھے بخوشی اس بات کی اجازت دے دی ۔۔۔چنانچہ کاکے کو اُٹھائے اُٹھائے بجائے ہمسائیوں کے ۔۔۔ میں سیدھی ثمینہ سنیاری کے گھر کی طرف چل دی۔۔۔ جس کا گھر قاری صاحب اور ہمارے گھر کے درمیان واقعہ تھا۔۔۔ ثمینہ سیناری گھر پر ہی موجود تھی ۔۔۔۔ مجھے دیکھ کر بڑی خوش ہوئی ۔۔۔اور ہم دونوں برآمدے میں ہی بیٹھ گئیں ۔۔۔۔ چارپائی پر بیٹھتے ہی اس نے میرے آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے کاکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ گھر میں یہ تنگ کر رہا تھا سوچا کیوں نا اسے باہر گھومایا جائے ۔۔۔ میری بات سن کر وہ مطمئن ہو گئی اور اس دن میں نے اس کے ساتھ خوب گپ شپ کی۔۔۔ لیکن اسکے ساتھ زینی کے ٹاپک پر ایک لفط بھی نہیں کہا ۔۔۔۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ابھی میں اس کے ساتھ اپنی دوستی کو مزید بڑھانا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔۔ تا کہ بعد میں ۔۔۔ جب میں اسے کوئی کام کہوں تو وہ انکار نہ کر سکے ۔۔۔۔ اس طرح پلان کے مطابق اس دن میں نے اس کے ساتھ دو تین گھنٹے گزارے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ فری ہونے کی کوشش کی۔۔۔ جس میں ۔۔۔۔ میں کافی حد تک کامیاب رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح اگلے دو تین دن تک صبع صبع ہی میں کاکے کو لے کر ثمینہ سنیاری کے ہاں چلی جایا کرتی تھی۔۔۔ اس لیئے چند ہی دنوں میں ۔۔۔وہ زینی کے ساتھ ساتھ اب وہ میری بھی بہت اچھی دوست بن چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لیئے اب میں اس کے ساتھ وہ والی باتیں بھی ہلکے پھلکے انداز میں کر لیتی تھی کہ باتیں صرف گہری سہلیاں ہی کیا کرتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ چوتھے یا پانجویں دن کی بات ہے کہ اس دن قاری صاحب کے ہاں ڈلیوری بھی ہو گئی اور انہوں نے ایک لڑکی کو جنم دیا تھا۔۔۔۔ قاری صاحب کے ہاں ڈلیوری کی وجہ سے پروگرام کے مطابق اس دن میں ثمینہ سنیاری کے ہاں نہ جا سکی تھی ۔۔۔۔۔۔جب قاری صاحب کے ہاں بچی کی پیدائیش کا مرحلہ بخریت سر انجام پا گیا ۔۔۔ تو اس وقت ڈلیوری سے فارغ ہو کر آس پاس کی سب خواتین قاری صاحب کے بیٹھی باتیں کر رہیں تھیں کہ اماں نے اشارے سے مجھے اپنے پاس بلایا اور کچھ پیسے دیتے ہوئے کہنے لگیں کہ میں ان خواتین کے لیئے چائے وغیرہ کا بندوبست کرتی ہوں اتنے میں تم دوڑ کے جاؤ اور فضل کریانے والے سے بسکٹ وغیرہ لے آؤ۔۔۔ اماں کی بات سن کر میں نے برا سا منہ بنایا ۔۔۔۔۔اور فضل کریانہ والے کی طرف چل پڑی ۔۔اس وقت سہ پہر کا وقت تھا اور غضب کی گرمی پڑ رہی تھی۔۔۔ اور اس گرمی کی وجہ سے ہمارے ٹاؤن کے گلیاں و کوچے ویرانی کا منظر پیش کر رہے تھے۔۔۔۔ چنانچہ اس تیز دھوپ میں چلتی ہوئی ۔۔۔میں فضل کریانہ والے کے پاس جا پہنچی ۔۔۔۔ تو دیکھا کہ اس کا دروازہ ادھ کھلا ہوا تھا یہ دیکھ کر میں سمجھی کہ دروازہ بند کر کے چاچا اب آرام کر رہا ہو گا ۔۔۔اس لیئے اس آدھ کھلے دروازے کے قریب پہنچ کر میں واپسی کے لیئے جیسے ہی مُڑی ۔۔۔اچانک اندر سے مجھے کھسر پھسر کی آواز سنائی دی ۔۔۔ یہ سوچ کر کہ فضل چاچا دکان پر ہے اور شاید کسی گاہگ کے ساتھ بزی ہے ۔۔۔۔میں چپکے سے دکان کے اندر داخل ہو گئی۔۔۔۔ اور جیسے ہی میں دکان میں داخل ہوئی ۔۔۔۔ تو سامنے کا منظر دیکھ کر میں حیران رہ گئی۔۔۔۔۔ واہ کیا نظارہ تھا۔۔۔۔ کیا دیکھتی ہوں کہ دروازے کی اوڑھ میں ثمینہ سنیاری کھڑی تھی ۔۔۔۔ اور اس کی ساری قمیض اوپر کو اُٹھی ہوئی تھی جس سے اس کی موٹی موٹی چھاتیاں ننگی ہو گئیں تھیں ۔۔۔۔۔اور اس کی ان ننگی چھاتیوں کو چاچے فضل نے اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ رکھا تھا ۔۔۔۔اور انہیں دبا رہا تھا ۔۔۔ مجھے یوں اپنے پاس کھڑے دیکھ کر وہ دونوں ہی گھبرا گئے۔۔۔ اور خاص کر ثمینہ سنیاری کے چہرے کا تو رنگ ہی اُڑ گیا ۔۔اور میری طرف دیکھے بغیر ہی اس نے جلدی سے اپنی قمیض کو نیچے کیا ۔۔۔۔۔ اور بغیر کوئی بات کیئے وہاں سے بھاگ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے جانے کے بعد میں نے فضل چاچا کے ساتھ ایسے پیش آئی کہ جیسے میں نے کچھ دیکھا ہی نہیں اور اسے پیسے پکڑاتے ہوئے بسکٹ دینے کا کہا ۔۔۔ میری بات سن کر اس نے جلدی سے بہت سارے بسکٹ ایک شاپر میں ڈال کر میرے ہاتھ پکڑائے اور پیسے بھی واپس کرتے ہوئے میرے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا ۔۔۔اور کہنے لگا۔۔۔ صبو پتر ۔۔ میری عزت اب تمہارے ہاتھ میں ہے۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے اسے کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔۔ بسکٹ اور پیسے اُٹھا کر میں واپس قاری صاحب کے گھر آ گئی۔۔ راستے میں اس حادثے کے بارے میں سوچ سوچ کر میں بہت خوش ہوتی رہی کیونکہ اس حادثے کے بعد ثمینہ سنیاری میری "کانی" ہو گئی تھی ۔۔۔ اور اب میں جو چاہوں اس سے کام لے سکتی تھی ۔۔۔ چنانچہ یہی سوچتے ہوئے کہ اب میں نے ثمینہ سے کیسے کام لینا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک پروگرم ترتیب دے دیا۔۔۔
اماں کو بسکٹ وغیرہ دینے کے بعد میں نے ان سے جانے کی اجازت لی تو وہ کہنے لگیں پہلے تم یہ چائے سرو کر دو پھر بے شک گھر چلی جانا۔۔۔ چنانچہ ان کے کہنے پر میں نے مہمان خواتین و حضرات میں چائے و بسکٹ وغیرہ پیش کرنے کے بعد میں اماں سے اجازت لی لیکن وہ کہنے لگی کہ تھوڑی دیر اور رُک جاؤ تو میں بھی تمہارے ساتھ وپس گھر چلوں گی۔۔۔ اماں کے کہنے پر میں وہاں رُک گئی اور پھر کچھ ہی دیر بعد میں اور اماں اکھٹے ہی گھر آ گئے۔۔۔۔۔ گھر آ کر میں شام ہونے کا انتظار کرنے لگی۔۔۔۔ اور پھر شام ہوتے ہی میں گھر سے نکلی ۔۔۔..۔۔۔۔۔۔ اب میری منزل ۔۔۔ثمینہ سنیاری کا گھر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثمینہ کے گھر پہنچ کر میں نے اس کی امی سے پوچھا کہ خالہ ثمینہ کہاں ہے تو وہ کہنی لگی ۔۔۔ وہ تو دوپہر سے ہی اپنے کمرے میں گھسی ہوئی ہے۔۔۔ اس پر میں سیدھی اس کے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔ دیکھا تو وہ سامنے ہی اپنے پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی۔۔۔ مجھے کمرے میں آتا دیکھ کر وہ ایک دم سے گھبرا گئی۔۔۔۔اور کہنے لگی۔۔۔ صبو باجی ۔۔آ۔۔آ۔۔آپ۔۔۔۔ ؟ تو میں نے اس کے پاس پلنگ پر بیٹھ گئی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر سہلاتے ہوئے بولی۔۔۔۔ ہاں کیوں میں تمہارے پاس نہیں آ سکتی ؟ میری بات سن کر وہ کہنے لگی ۔۔۔ کیوں نہیں آ سکتی آپ ۔۔۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے وہ کہنے لگی ۔۔۔صبو باجی ۔۔۔ وہ دوپہر کو جو ہوا ( اس بات پر وہ سخت شرم محسوس کر رہی تھی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے لیئے سوری۔۔۔ تو میں نے اس کا ہاتھ سہلاتے ہوئے تھوڑا دبایا اور اس کی طرف دیکھ مسکراتے ہوئے بولی ۔۔۔ اس میں سوری کی کون سی بات ہے یار۔۔۔۔ میری بات سنتے ہی اسے ایک جھٹکا سا لگا اور۔۔۔۔ وہ پلنگ سے اُٹھ بیٹھی اور میری طرف دیکھتے ہوئے بڑی حیرانی سے کہنے لگی ۔۔۔ ۔۔۔ یہ ۔۔۔۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہی ہو باجی ۔۔۔تو میں نے اس کی طرف آنکھ مار تے ہوئے کہا۔۔۔۔ اس میں حرج ہی کیا ہے کہ اگر تم نے کسی کے ساتھ تھوڑی سی مستی کر لی تو اس میں کسی کے باپ کا کیا جاتا ہے۔۔۔ میری اس بات کو سن کر حیرت سے اس کی بڑی بڑی آنکھیں پھیل گئیں ۔۔۔اور وہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔آپ سچ کہہ رہی ہو نا باجی؟۔۔۔۔ تو میں نے بدستور اس کے ہاتھ کو سہلاتے ہوئے کہا۔۔۔۔ اس میں جھوٹ کی کیا بات ہے یار؟ تم میری چھوٹی بہن کی بیسٹ فرینڈ ہو اور اس لحاظ سے تم بھی میری چھوٹی بہن اور دوست ہو ۔۔۔ ثمینہ کو ابھی تک میری بات کا یقین نہیں آ رہا تھا۔۔۔ اس لیئے اب اس نے بھی میرا ہاتھ تھام لیا اور کہنے لگی۔۔۔سچ بتاؤ صبو باجی واقعی ہی آپ دوپہر والے واقعہ کا کسی کے ساتھ تزکرہ نہیں کرو گی؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔ تو میں نے اس کو یقین دلاتے ہوئے کہا کہ اچھا یہ بتاؤ کہ اگر تمہاری چھوٹی بہن سے ایسی کو ئی بات ہو جائے تو تم کیا کرو گی؟ کیا تم اپنی چھوٹی بہن کے معاملے پر مٹی ڈالو گی یا اسے سرِ بازار اچھالو گی؟ میری بات سنتے ہی اچانک ثمینہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور میرے ساتھ گلے لگتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ تم بہت اچھی ہو باجی۔۔۔۔
جیسے ہی وہ مجھ سے گلے ملی ۔۔۔۔تو پروگرام کے مطابق میں نے اس کی چھاتیوں کے ساتھ اپنی چھاتیوں کو رگڑتے ہوئے کہا کہ۔۔۔ وہ تو ٹھیک ہے پر ثمینہ کی بچی یہ تو بتاؤ کہ مجھ سے چھوٹی ہونے کے باوجود بھی تم نے اپنی ان (چھاتیوں ) کو اتنا بڑا کیسے کر لیا؟ میری بات سن کر وہ شرما سی گئی اور کہنے لگی۔۔۔۔۔ آپ بھی نا باجی۔۔۔۔۔۔۔ اور مجھ سے الگ ہو کر بیٹھ گئی۔۔۔ اس پر میں نے اس کے منہ کو پکڑ کر اوپر کیا اور کہنے لگی ۔۔۔میں سچ کہہ رہی ہوں ثمینہ ۔۔۔۔۔ تیری یہ چھاتیاں بڑی سیکسی ہیں ۔۔۔ میری بات سن کر ثمینہ کے چہرے پر ایک رنگ سا آ گیا۔۔۔۔۔۔ لیکن وہ چُپ رہی ۔۔۔ اس پر میں نے اس کو کہاکہ بتا نا یار میں نے بھی اپنی ان چھوٹی چھوٹی چھاتیوں کو تمہاری طرح سے بڑا اور سیکسی کرنا ہے اب تو ہی بتا کہ ان کو میں بڑا اور سیکسی کیسے کروں؟؟؟؟۔۔۔
اس کے ساتھ ہی میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی چھاتیوں پر رکھ دیا اور بولی ۔۔دیکھ نا یار میری چھاتیاں کتنی چھوٹی چھوٹی ہیں ۔۔اور پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ ارے یار میری بات کا کچھ تو جواب دو ۔۔۔۔۔کہ آخر میں تمہاری بڑی بہن اور اچھی دوست ہوں۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میں نے اس کے ہاتھ کوپکڑ کر اپنی چھاتی پر رکھا اور ۔۔۔۔۔۔پھر دبا دیا۔۔۔۔۔ ثمینہ سنیاری فری تو میرے ساتھ پہلے ہی سے تھی اب میری اس حرکت سے اس کے اور میرے بیچ جو تھوڑی بہت جھجھک باقی رہ گئی تھی وہ بھی دور ہو گئی تھی (اور یہی تو میں چاہتی تھی) ۔۔۔ چنانچہ اس نے میری چھاتی پر رکھا ہوا اپنا ہاتھ ہٹانے کی زرا بھی کوشش نہ کی اور میری چھاتی پر ہاتھ دھرے دھرے کہنے لگی۔۔۔۔ باجی آپ کی چھاتیاں چھوٹی ضرور ہیں ۔۔ پر ۔۔۔ دیکھنے میں بڑی ہی غضب کی سیکسی ہیں ۔۔۔اس پر میں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور پروگرام کے مطابق اپنی قمیض کو اوپر کیا اور پھر برا کو ہٹاتے ہوئے اپنی چھاتی کو ننگا کر کے اس کے سامنے کر دیا اور بولی۔۔۔۔ اسے دیکھ کر سچ سچ بتاؤ کہ کیا یہ واقعی ہی سیکسی ہیں؟؟؟؟ ۔۔۔ میری ننگی چھاتی کو دیکھ کر وہ ایک دم سے گھبرا گئی اور ۔۔ دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی قمیض نیچے کرو باجی کوئی آ جائے گا۔۔۔۔ اس کے کہنے پر میں نے اپنی قمیض کو نیچے کر دیا اور پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ یہ لو میں نے اپنی قمیض کو نیچے کر دیا ہے ۔۔۔۔۔ اب بتا۔۔۔ کہ میری چھاتیاں کیسی ہیں ؟؟ ۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ میری ننگی چھاتی کو دیکھ کر ثمینہ تھوڑی سی گرم ہو گئی تھی ۔۔۔ اور یہ گرمی اس کی آنکھوں سے صاف دکھائی دے رہی تھی رہی تھی۔۔۔
جاری ہے