Shahut zadi - Episode 19

شہوت زادی 


قسط 19


 شبی کی بات سن کر میں نے ہاں میں سر ہلا اور ۔۔۔۔ کچھ دیر انتظار کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔ان کا شو دیکھنے کے لیئے میں بھی سٹور روم کی طرف چل پڑی۔۔۔۔۔۔ یہاں میں آپ کو اپنے سٹور کی لوکیشن کے بارے میں بتا دوں ہمارا سٹور ۔۔۔ گھر کے آخری کونے میں واقع ہے۔۔۔ عام طور پر اس طرف کوئی بھی آتا جاتا نہیں ۔۔۔ ویسے تو سٹور عام طور پر بند ہی رہتا تھا۔۔۔ لیکن ہوا کے آنے جانے کے لیئے ہم اس کی ایک کھڑکی ہمیشہ ہی کھلی رکھتے تھے۔۔۔ اور میں سٹور کی طرف جاتے ہوئے یہی دعا کر رہی تھی ۔۔۔۔۔کہ کاش اس وقت سٹور کی وہ کھڑکی ۔۔کھلی ہو۔۔۔۔ اور پتہ نہیں یہ میری دعا کا اثر تھا یا کوئی اور بات تھی کہ ۔۔۔ دور سے ہی مجھے سٹور سے چھن چھن کر باہر کی طرف آتی ہوئی روشنی نظر آ گئی۔۔۔۔۔ اور اس روشنی کو دیکھ کر خود بخود میرے قدم اور تیز ہو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔

 جس وقت میں نے سٹور سے اندر جھانک کر دیکھا اس وقت شبی ایک درمیانے سائز کی پیٹی کو اُٹھا کر عافیہ کی بتائی ہوئی جگہ پر رکھ رہا تھا۔۔۔۔ جبکہ عافیہ عین اس کے پیچھے کھڑی تھی۔۔۔ اب بھائی نے پیٹی کو فکس کرنے کے بہانے اپنا بازو ۔۔ تھوڑا پیچھے کیا۔۔ اور جان بوجھ کر عافیہ کی بھاری چھاتیوں کے ساتھ ۔۔ مسل دیا۔۔۔ پھر یہ حرکت اس نے دو تین بار کی ۔۔۔۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عافیہ نے ایک بار بھی اسے منع نہیں کیا۔۔۔۔ اور اس کے پاس کھڑی اس کو ڈائیریکشن دیتی رہی۔۔۔۔اور جب وہ پیٹی متعلقہ جگہ پر ایڈجسٹ ہو گئی۔۔۔۔ تو عافیہ وہاں سے مُڑی اور تھوڑی دور جا کر چھوٹے چھوٹے بکسوں کو ۔۔ تریب دینے لگی۔۔۔۔ادھر جیسے ہی بھائی اس پیٹی کو مطلوبہ جگہ پر ایڈجسٹ کر کے واپس پلٹا ۔۔۔تو دیکھا کہ عین اس وقت عافیہ جھک کر ایک چھوٹی سی پیٹی پر رکھے چھوٹے چھوٹے سوٹ کیسوں کو ترتیب دے رہی تھی ۔۔۔۔۔ عافیہ کے جھکنے کی وجہ سے اس کی موٹی گانڈ جو کہ پہلے ہی باہر کو نکلی ہوئی تھی مزید باہر کی طرف آ گئی تھی۔۔۔۔ اور یہ دیکھ کر شبی آگے بڑھا ۔۔۔۔اور اس کی گانڈ کے ساتھ اپنا لن فکس کر کے بولا۔۔۔۔ اور کیا کرنا ہے عافیہ۔۔۔؟ ادھر عافیہ اپنی گانڈ پر بھائی کے لن کا لمس پا کر ایک دم پلٹی اور تیزی سے بولی ۔۔ تیری بین دا پھدا۔۔۔۔۔ گالی سن کر شبی بڑی ڈھٹائی سے کہنے لگا۔۔۔ وہ تو ٹھیک ہے اب بتاؤ ۔۔ آگے کیا کرنا ہے۔۔تو عافیہ اس پر گرجتے ہوئے بولی۔۔۔۔ باز آ جاؤ ۔۔۔ یہ تم نے میرے ساتھ دوسری دفعہ یہ حرکت کی ہے۔۔۔اب اگر دوبارہ ایسا کیا تو۔۔ میں باجی سے تمہاری شکایت لگا دوں گی اور میں بھائی کے ساتھ ساتھ میں نے بھی عافیہ کے لہجے سے محسوس کر لیا کہ وہ بھائی پر مصنوعی غصہ جھاڑ رہی تھی۔۔۔۔ اسی لیئے عافیہ کی بات سن کر شبی مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔ آپ کس حرکت کی بات کر رہی ہو محترمہ۔۔۔۔ اس پر عافیہ دوبارہ سے اسی ٹون میں کہنے لگی۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔ تیری ماں بہن دونوں کا پھدا۔۔۔ معصوم مت بنو میں سب سمجھتی ہوں۔۔ اس پر بھائی نے عافیہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہنے لگا۔۔۔ جب تم سب سمجھتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ توپھر میری بات کو کیوں نہیں سمجھتی۔۔ اس پر عافیہ نے بھائی سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا اور بولی۔۔۔ پہلے کام تو کرنے دے۔ تو بھائی دوبارہ سے اس کا ہاتھ پکڑ کر بولا۔۔۔۔ اتنا نا ترسا ۔۔۔۔۔ اور ساتھ ہی ۔۔ اس نے عافیہ کا ہاتھ چوم لیا۔۔۔ بھائی کے ہاتھ چومنے کی دیر تھی ۔۔۔ کہ شرم سے عافیہ گلنار ہو گئی۔اور بھائی کی طرف دیکھ کر ہولے سے بولی۔۔۔ بہن چود۔۔حرامی۔۔۔۔۔پھر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔ ۔۔۔۔ نہ کر ۔۔۔ کوئی آ جائے گا۔۔۔ اس پر بھائی زبردستی اس سے گلے لگ کر بولا۔۔۔ فکر نہ کر کوئی وی نئیں آئے گا۔۔۔ بھائی کی بات سن کر عافیہ کپکپاتے ہوئے ہونٹوں سے کہنے لگی ۔۔۔ پھر بھی ۔۔۔ میری تسلی کی لیئے ۔۔۔تم ایک نظر باہر دیکھ آؤ عافیہ کی بات سن کر بھائی کہنے لگا ٹھیک ہے تم ٹھہرو میں ابھی دیکھ کر آتا ہوں ۔۔

اس کے ساتھ ہی بھائی کمرے سے باہر نکلا ۔۔۔اور مجھے کھڑکی کے پاس کھڑا دیکھ کر میرے پاس آ گیا اور پھر سرگوشی میں کہنے لگا۔۔۔ باجی سب اوکے ہے نا۔۔تو میں نے اسے مختصراً ساری صورتِ حال سے آگاہ کردیا۔۔۔۔۔میری بات سن کر وہ کچھ دیر رُکا ۔۔۔۔۔۔۔پھر۔۔ اپنے قدموں کی آواز پیدا کرتا ہوا واپس سٹور روم میں داخل گیا ۔۔اور اندر جاتے ہی اس نے سٹور کو کنڈی لگا دی۔۔۔ اسے کنڈی لگاتے دیکھ کر عافیہ کہنے لگی ۔۔۔ ماں چود کنڈی کیوں لگا رہا ہے ؟ تو بھائی نے جواب دیا۔۔۔۔ تمہاری تسلی کے لیئے۔۔۔ پھر اس کے پاس جا کھڑا ہوا اور کہنے لگا۔۔۔ میں پورے گھر کا ایک چکر لگا کر آیا ہوں ۔۔ صبو باجی کچن میں کھڑی ہے۔۔۔ خالہ باہر گئی ہوئیں ہیں ۔۔اور گڈی باجی دوائی لے کر سوئی ہوئی ہے۔۔۔ اتنا کہہ کر اس نے عافیہ سے گلے ملنے کے لیئے اپنے دونوں بازو کھول دیئے۔۔۔۔ لیکن دوسری طرف عافیہ اس سے گلے ملنے کے لیئے ایک انچ بھی آگے نہ بڑھی ۔۔۔اور اپنی جگہ کھڑی رہی ۔۔۔ 

یہ دیکھ کر بھائی خود ہی آگے بڑھا ۔۔اور عافیہ کو اپنے گلے کے ساتھ لگا لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر عافیہ نے کوئی مزاحمت نہ کی بلکہ بھائی کے ساتھ چمٹ گئی۔۔ کچھ دیرکے بعد بھائی نے اپنے ہونٹ عافیہ کی گردن پر رکھ دیئے۔۔۔۔ اور جیسے ہی بھائی کے ہونٹ عافیہ کی گردن پر پڑے تو عافیہ کے منہ سے ایک سسکی سی نکل گئی۔۔۔۔۔۔ ہائے۔۔۔ عافیہ کے منہ سے ہائے کی آواز سن کر بھائی کا تو پتہ نہیں لیکن مجھ پر شہوت سوار ہونا شروع ہو گئی تھی۔۔۔ادھر بھائی نے عافیہ کی گردن پر بوسوں کی بوچھاڑ کر دی تھی۔۔اور کم سن عافیہ بھائی کی بانہوں میں مچل رہی تھی۔۔۔۔ اور میں نے بھائی کی شلوار کی طرف دیکھا تو ۔۔۔ عافیہ کی گردن کو چومتے ہوئے بھائی کا لن بھی کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔اور میرے خیال میں عافیہ نے بھی بھائی کے لن کو اپنی ٹانگوں کے بیچ میں محسوس کر لیا تھا تبھی تو بھائی کے ساتھ گلے لگی عافیہ اب اپنی چوت والے حصے کو بھائی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔ ادھر بھائی نے اب اپنے منہ سے زبان نکال لی تھی ۔۔۔اور وہ اپنی زبان کو عافیہ کے لال گالوں پر پھیر رہا تھا۔۔۔جس سے عافیہ ۔۔۔ مست ہو کر اپنی چوت کو مزید ۔۔ بھائی کے لن کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کررہی تھی اور پھر کہہ رہی تھی ۔۔ بس کر ۔۔۔۔۔۔ ہائے۔۔۔۔ بس کر۔۔۔ لیکن اس دفعہ بھائی کی زبان ۔۔۔ عافیہ کے گالوں کو گیلا کرتے ہوئے اس کے منہ میں غائب ہو گئی تھی۔۔۔۔۔ اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے عافیہ نے اپنے دونوں ہونٹوں کو جوڑا ۔۔۔اور بھائی کی زبان کو چوسنا شروع ہو گئی۔۔۔۔ یہ دیکھ کر بھائی نے قمیض کے اوپر سے ہی عافیہ کی چھاتیوں پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا تھا۔۔۔ 

ادھر اپنی چھاتیوں پر بھائی کا ہاتھ لگتے ہی عافیہ کچھ اور گرم ہو گئی تھی ۔۔۔۔اور اس نے بھائی کی زبان کو اپنے منہ سے نکلا اور ۔۔۔۔۔ پھر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے جلدی سے برا سمیت اپنی قمیض اتار دی۔۔۔اور اپنی ایک چھاتی کو پکڑ کر بھائی کے منہ میں دے کر بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیسی آگ لگا دی ہے تم نے بہن چود۔۔۔۔اب میری چھاتی کو چوسو۔۔۔ اور بھائی نے عافیہ کی بھاری چھاتی کو اپنے منہ میں لیا اور اسے چوسنے لگا۔۔۔ مزے کے مارے کراہتے ہوئے عافیہ کی آنکھیں بند ہونا شروع ہو گئیں ۔۔ لیکن اتنے مزے کے باوجود بھی اس نے بھائی کا ہاتھ پکڑا اوراپنی پھدی پر رکھ کر بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیری بین دا پھدا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری پھدی نوں مروڑ ۔۔۔(تمہاری بہن کی چوت۔۔۔۔۔۔۔ میری پھدی کو مسلو)لیکن بھائی نے بجائے اس کی پھدی مسلنے کے ۔۔اس کی چھاتی کو اپنے منہ سے ہٹایا ۔۔۔۔اور ۔۔۔۔ عافیہ کو شلوار اتارنے کا بولا۔۔۔۔ عافیہ نے بھائی کی طرف دیکھا اور اپنی شلوار اتارتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔۔۔ تم بھی اتارو نا۔۔۔ اور عافیہ کی بات سن کر بھائی نےایک دم سے اپنے سارے کپڑے اتار دیئے۔۔۔۔ جیسے ہی بھائی ننگا ہوا۔۔۔۔ اس کی دو ٹانگوں کے بیچ میں کھڑا ہوا۔۔۔۔ اس کے موٹے اور لمبے لن کو دیکھ کر ۔۔ عافیہ کے منہ میں پانی بھر آیا ۔۔اور وہ آگے بڑھی اور بھائی کا لن پکڑ کر بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہن چود ۔۔تیرا ہتھیار ۔۔۔ بہت اعلیٰ ہے۔۔۔ اس کی بات س کر بھائی نے عافیہ کو لن چوسنے کا اشارہ کر کے بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا چوسو گی؟ تو عافیہ کہ جس کی نگاہیں ابھی تک بھائی کے لن پر لگی ہوئیں تھیں ۔۔۔ اس کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگی ۔۔اور پھر بولی۔۔۔۔ ہاں میں اسے ضرور چوسوں گی۔۔۔۔۔اس کی بات سن کر بھائی پاس پڑی پیٹی پر بیٹھ گیا۔۔۔اور عافیہ نے اپنا سر نیچے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بھائی کے لن کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اسے دیکھنے لگی۔۔۔ پھر اس نے اپنا منہ کھولا ۔۔۔اور بھائی کے لن کو اپنے منہ میں لے گئی۔۔۔۔ عافیہ کے منہ میں لن جاتے ہی ۔۔۔ اچانک ہی اس وقت میرا دل یہ چاہنے لگا۔۔ کہ کاش اس وقت بھائی کا یہ لن عافیہ کی بجائے میرے منہ میں ہوتا۔۔۔۔اور میری بات کی تائید کرتے ہوئے پھدی نے بھی اپنے اندر سے ایک قطرہ پانی کا چھوڑتے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھائی کے لن کی فرمائیش کر دی۔۔۔۔

ادھر عافیہ بھائی کے لن کو اپنے منہ کے اندر باہر کر رہی تھی ۔۔اور ادھر شہوت سے میرا برا حال ہو رہا تھا۔۔۔ چنانچہ میں نے ایک نظر اپنی گیلری میں دیکھا ۔۔اور پھر اسے سنسنان پا کر۔۔۔۔ اپنا ایک ہاتھ شلوار میں لے گئی۔اور اپنی پھدی پر جا کر رکھ دیا۔۔۔ اُف۔۔اس وقت شہوت کے مارے میری پھدی بہت تپی ہو ئی تھی اس لیئے میں نے اپنی دو انگلیاں پھدی میں ڈالیں اور پھر اندر کا نظارہ دیکھنے لگی۔۔۔ جہاں پر عافیہ ابھی تک بھائی کا چوپا لگا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد اس نے بھائی کے لن کو اپنے منہ سے نکالا اور ۔۔۔۔ بھائی کی جگہ خود پیٹی پر جا کر بیٹھ گئی۔۔۔ بتانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔۔۔ عافیہ کو پیٹی پر بیٹھے دیکھ کر بھائی نے اپنے دونوں گھنٹے فرش پر لگائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور عافیہ کی ٹانگوں کو کھول کر اس کی دل کش اور گیلی پھدی پر اپنی زبان رکھ دی۔۔۔ جیسے جیسے بھائی عافیہ کی پھدی کو چاٹتا جاتا ۔۔ویسے ویسے عافیہ کے منہ سے سسکیاں نکلتی جاتیں ۔۔ اور ان سسکیوں میں خاص کر وہ ۔۔۔ ہائے بڑے ہی سیکسی انداز میں کیا کرتی تھی۔۔۔ جسے سن کر مجھ پر بھی شہوت کا غلبہ شدید سے شدید تر ہونے لگتا تھا۔۔۔

 پھدی چٹواتے چٹواتے اچانک ہی عافیہ نے بھائی کا منہ اپنی پھدی سے ہٹا یا ۔۔۔اور کہنے لگی بس۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر بھائی کسی شرابی کی طرح اس کی طرف دیکھ کر بولا۔۔۔ ہن پھدی ماراں ( اب پھدی ماراں ) تو بھائی کی بات سن کر عافیہ کہنے لگی۔۔۔ ماں چودا۔۔۔ میری پھدی مارنی ۔۔نئیں ۔۔۔۔۔بلکہ میری پھدی نوں پھاڑنا اے ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے تھوڑی دور ایک پیٹی پر پڑی تلائی اُٹھائی اور واپس اسی پیٹی کی طرف آ گئی کہ جس پر کچھ دیر پہلے وہ بیٹھی بھائی سے اپنی چوت چٹوا رہی تھی۔۔۔ اس نے پیٹی پر تلائی بچھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر اس پر اپنی دونوں کہنیوں کو رکھا۔۔۔ اور اپنی ٹانگیں کھول دیں ۔۔اور گانڈ باہر نکال کر بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہن میری پھدی پھاڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑ۔۔۔۔۔ عافیہ کی شہوت میں ڈوبی ہوئی آواز سن کر بھائی اس کے پیچھے آیا ۔۔۔اور پھر اس نے عافیہ کی چوت پر اپنے لن کا ہیڈ رکھا۔۔۔اور اس سے کہنے لگا۔۔۔۔ بڑی گرم پھدی اے تیری ( تمہاری پھدی بہت گرم ہے) تو عافیہ کہنے لگی۔۔۔۔۔ ماں پھدیا ۔۔۔ گلاں نہ کر ۔۔۔۔۔۔۔ میری پھدی مار( مادر چود زیادہ باتیں نہ کرو ۔۔۔ میری پھدی مارو) عافیہ کہ بات سنتے ہی بھائی نے اس کی چوت میں ایک زور دار گھسا مارا ۔۔بھائی کا لن عافیہ کی تنگ چوت کو چیرتا ہوا سیدھا ۔۔ اس کی بچہ دانی سے جا ٹکرایا ۔۔۔۔۔۔۔ اور اس دھکے کے لگنے کی دیر تھی کہ۔۔۔ عافیہ کے منہ سے وہی دل کش اور لزت بھری سسکی نکلی۔۔۔ ہائےۓۓۓۓۓۓۓۓۓ۔۔۔ اور پھر اس کے بعد شبی نے عافیہ کی چوت کی پٹائی شروع کر دی۔۔۔ بیچ میں جب وہ عافیہ کی چوت میں کچھ ہ لکے گھسے مارتا ۔۔۔تو عافیہ ایک دم اپنا منہ پیچھے کی طرف کر کے کہتی۔۔۔۔ شبی بین چودا۔۔۔۔۔ میری پھدی مارنی نہیں پھاڑنی اے۔۔۔۔تیری ماں دا پھدا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنےلن نوں زور دی مار۔۔۔۔۔۔( شبی بہن چود۔۔۔۔ میں نے تمہیں کہا نا کہ میری پھدی کو مارنا نہیں پھاڑنا ہے ۔۔۔ اس لیئے مادر چود ۔۔۔ دھکے زور سے مارو) عافیہ کی یہ بات سن کر شبی کو جوش آگیا ۔۔اور پھر اس نے عافیہ کی چوت میں گھسوں کی برسات کر دی ۔۔۔۔اور ہر گھسے پر عافیہ یہی کہتی ۔۔۔۔۔ہائے ۔۔ئے ئے ۔۔۔میویں مار چھڈ ۔۔۔۔ ( مجھے مار دو) ۔۔۔اور پھر گھسے مارتے مارتے اور گھسے کھاتے کھاتے ۔۔۔ ان دونو ں کا اینڈ آ گیا۔۔۔۔ اور پھر۔۔۔۔میرے دیکھتے ہی دیکھتے ۔۔۔ شبی نے اپنے آخری دو تین گھسے فل سپیڈ سے مارے جنہیں ۔۔۔عافیہ نے بڑی آسانی سے برداشت کیا ۔۔اور ہائے ۔۔ہائے ۔۔۔ہائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کرتی ہوئی اپنی چوت کو پیچھے کی طرف کرنے لگی۔۔۔اور پھر اگلے ایک دو گھسوں کے بعد شبی عافیہ کی چوت میں ہی چھوٹ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جیسے ہی شبی عافیہ کی چوت میں چھوٹا میں نے اپنی چوت میں دی ہوئی دونوں انگلیوں کو نکالا ۔۔۔اور ان ا پر لگے چوت کےرس کو چاٹنے لگی ۔۔۔۔۔کیونکہ شبی اور عافیہ کے ساتھ ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔ میری چوت نے بھی پانی چھوڑ دیا تھا ۔۔اور اس وقت اپنی انگلیوں پر لگے اسی پانی کو میں اپنی زبان سے چاٹ رہی تھی ۔۔۔۔۔ کہ اچانک کسی نے پیچھے سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا ۔۔۔۔اپنے کندھے پر کسی کے ہاتھ کو محسوس کرتے ہی میں ایک فٹ اوپر کو اچھلی ۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں بڑے مزے سے اپنی انگلیوں پر لگی منی کو چاٹ رہی تھی کہ ۔۔ اچانک پیچھے سے کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔ اس وقت میں اپنی انگلیاں چاٹنے میں اتنی محو تھی کہ جیسے ہی کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔۔۔ میں ایک دم سے اچھل پڑی ۔۔۔۔ اور پیچھے مُڑ کر دیکھا تو وہ ماموں تھے جو اس وقت گڈی باجی کے ساتھ کاروائی ڈال کے اپس آئے تھے۔۔۔ اور میرے خیال میں گڈی باجی نے ان سے کافی مشقت لی تھی تبھی تو ماموں کے چہرے پر تھکاوٹ کے آثار بڑے واضع نظر تھے ۔۔ادھر میرے یوں اچھلنے پر وہ کچھ حیران ہو کر کہنے لگے ۔۔ کیا ہوا ؟؟۔۔ تو میں نے بات کو گول کرتے ہوئے بڑے سرسری سے لہجے میں ان سے کہا کہ کچھ نہیں ماموں جان میں اپنی ہی کسی سوچ میں گم تھی۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نے ان کو باہر کی طرف چلنے کا اشارہ کر دیا ۔۔۔۔۔ اور میرا اشارہ پا کر ڈھیلے ڈھیلے انداز میں چلتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھنا شروع ہو گئے ۔۔۔۔۔ ماموں کو تھکاوٹ سے چُور دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا ۔۔۔۔۔۔اور آخر میں نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ کیا بات ہے ماموں ۔۔۔ لگتا ہے کہ آج گڈی باجی نے آپ سے کچھ زیادہ ہی مشقت لے لی ہے ۔۔ میری بات سن کر ماموں ہنس کر بولے ۔۔۔ ہاں یار کچھ ایسا ہی ہے اتنے میں ہمارا گیٹ آ گیا اور ماموں گیٹ کھول کر تھکے تھکے قدموں سے گھر سے باہر نکل گئے۔۔

مامون کے جانے کے بعد میں سیدھی کچن میں چلی گئی اور دوپہر کے کھانے کا بندبست کرنے لگی ۔۔ کچھ دیر بعد ہی عافیہ بھی میرے پاس آگئی۔۔۔ تو میں نے اس سے پوچھا ۔۔ ہاں عافیہ۔۔۔ سٹور روم کو ٹھیک کر دیا۔۔۔۔ تو اس پر عافیہ نے میری طرف دیکھ کر آنکھ ماردی۔۔۔۔۔ اور پھر کہنے لگی ۔۔۔ سٹور روم کا تو پتہ نہیں باجی ۔ ۔۔۔ البتہ آپ کے بھائی نے ( اپنے پھدی کی طرف اشارہ کر کے) اس کو اے ون کر دیا ہے۔۔۔ اس کی بات سن کر میں ہنس پڑی تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ باجی میں ابھی نہا کر آتی ہوں ۔۔۔ اس طرح اگلے چند دن عافیہ اور بھائی نے میری نگرانی میں خوب خوب مستی کی ۔۔۔ پھر کچھ دن بعد بڑے ماموں عافیہ کو لینے کے لیئے آ گئے۔۔۔ اور پھر عافیہ کے جانے کے دو دن بعد بھائی بھی واپس گھر چلا گیا۔۔۔۔۔

اسی طرح دن گزرتے گئے ۔۔۔۔ پھر ایک دن کی بات ہے کہ بڑی خالہ جان اپنے واش روم میں نہا رہیں تھیں کہ اچانک وہ پھسل کر گر پڑیں۔۔۔۔اور ان کے اس طرح گرنے سے ان کے " چوُکلے " کی ہڈی ٹوٹ گئی۔۔۔ گھر میں شور مچ گیا اور عدنان انہیں لیکر کر لا ہور چلے گئے ۔۔۔۔ جہاں پر میو ہسپتال میں ان کی ہڈی کو جوڑ دیا گیا ۔۔۔ لیکن اس کے باوجود بھی خالہ ساری رات درد کے مارے کراہتی رہیتں تھیں۔۔۔۔۔ درد کے ساتھ ساتھ خالہ کو بلڈ پریشر اور شوگر کا عارضہ بھی لاحق ہو گیا۔۔۔۔ اور ڈاکٹروں نے اس بات کی سختی سے تاکید کی تھی کہ صبع شام ان کا بلڈ پریشر چیک کر کے اس کا چارٹ بنایا جائے ۔۔ اس کے ساتھ ڈاکٹروں نے تکلیف کی وجہ سے سے ان کو دن رات پین کلر کا ٹیکہ بھی تجویز کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کام کے لیئے عدنان کے دوست سمیع جو کہ ہمارے محلے سے تھوڑی دور مین بازار میں کلینک کرتا تھا ۔۔ کی خدمات حاصل کی گئیں ۔۔۔خالہ کو چیک کرتے ہوئے سمیع نے بھائی کو بتلایا کہ چونکہ دن کے ٹائم وہ ایک سرکاری ہسپتال میں میل نرس کا کام کرتا ہے ۔۔اس لیئے وہ دن کے وقت خالہ کا بلڈ پریشر نہیں چیک کر سکے گا ہاں ہر شام وہ یہ خدمات ضرور سر انجام دے گا ۔۔ عدنان کا دوست ہونے کی وجہ سے میرا سمیع سے کوئی پردہ نہ تھا اس لیئے میری موجودگی میں اس نے عدنان کو بتلایا کہ دن کے وقت اس کا چھوٹا بھائی ۔۔۔۔کاشی کہ جسے سب لوگ پیار سے چھوٹے میاں کہتے تھے۔۔۔ اور جو میٹرک کے بعد آج کل فارغ تھا ۔اس لیئے وہ دن کے وقت کلینک پر ہوتا تھا ۔۔۔ سمیع کہنے لگا کہ چھوٹے میاں ۔۔۔۔۔روزانہ آ کر نہ صرف یہ کہ خالہ جان کو پین کلر ٹیکا بھی لگا جائے گا بلکہ ان کا بلڈ پریشر بھی چیک کر چارٹ ہر لکھ جایا کرے گا ۔۔۔ پھر کہنے لگا کہ اب مجھے اجازت دیں ۔۔۔۔۔ کل صبع چھوٹے میاں آپ کے گھر آجائے گا۔۔۔۔ ۔۔۔ اس پر عدنان نے اس سے پوچھا کہ دیکھ لو یار ۔۔۔ کاشی بہت چھوٹا ہے وہ یہ کام آسانی سے کر لے گا؟ عدنان کی بات سن کر سمیع کہنے لگا۔۔۔۔۔ اس بات کی تم فکر نہیں کرو ۔۔۔یہ میری ذمہ داری ہے۔۔۔

دوسری طرف خالہ کی دیکھ بھال کے لیئے میں اور گڈی باجی نے آپس میں اپنے اپنے اوقاتِ کار طے کر لیئے تھے ۔۔۔ چونکہ صبع کے وقت میں فری ہوتی تھی اور گڈی باجی گھر کا کھانا وغیرہ بنایا کرتی تھی اس لیئے خالہ کے ساتھ صبع کے وقت رہنے کی میں نے ڈیوٹی سنبھال لی تھی ۔۔۔۔۔اسی طرح شام کے بعد اگلی صبع تک گڈی باجی نے خالہ کو سنبھالنا ہوتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اگلے دن کی بات ہے کہ میں اس وقت صحن میں بیٹھی گڈی باجی کے ساتھ سبزی چھیل رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی ۔۔ دستک کی آواز سن کر میں اُٹھی اور باہر جا کر دروازہ کھول دیا۔۔۔ اور دیکھا تو ایک چھوٹا سا لڑکا کہ جس کا رنگ گورا۔۔۔ سرخی مائل ہونٹ ۔۔۔۔ چھریرا سا بدن ۔۔۔۔اور جس کے معصوم سے چہرے پر چھوٹے چھوٹے بال بھی تھے۔۔۔ سر پر کسی مدرسے کی پگڑی پہنے ہاتھ میں بلڈ پریشر کا آلہ پکڑے کھڑا تھا۔۔۔ مجھے دیکھ کر وہ تھوڑا سا گھبرا گیا اور کہنے لگا۔۔۔کہ عدنان صاحب کا گھر یہی ہے تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔تب وہ کہنے لگا۔۔۔ کہ اس کا نام کاشی ہے اور وہ ڈاکٹر سمیع کا چھوٹا بھائی ہے۔۔۔ اور وہ اماں جی کو ٹیکہ لگانے اور ان کا بلڈ پریشر چیک کرنے آیا ہے ۔۔۔ کاشی کے منہ سے اپنا نام سن کر مجھے یاد آ گیا کہ رات اس کے بھائی نے اسی کے بارے میں بتایا تھا ۔ اس لیئے میں ایک طرف کھڑی ہو گئی ۔۔۔۔۔اور اسے اندر آنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔ اور پھر اس کو اپنے ساتھ لیئے ۔۔۔ خالہ جی کے کمرے میں لے آئی۔۔۔ جہاں پر وہ ۔۔۔ خالہ کا بلڈ پریشر اور میں اس کو چیک کرنے لگی۔۔۔ ۔۔۔۔ بلا شبہ 15/ 16 سال کا وہ لڑکا بہت ہی معصوم اور بڑا ہی کیوٹ سا تھا۔۔۔۔ بلڈ پریشر چیک کرتے ہوئے میں نے اس کا تھوڑا سا انٹرویو لیا۔۔۔ تو میرے ہر سوال پر اس نے بڑے شرما شرما کر جواب دیئے۔۔۔اس کی لڑکیوں کی طرح شرمانے کی ادا پر میں قربان ہو گئی ۔۔۔۔۔اور ویسے بھی ایسی سویٹ ٹافی کو بھلا کون چھوڑتا ہے؟ اس لیئے اس کی طرف دیکھتے ہوئے میرے اندر ایک کھچڑی سی پکنے لگی۔۔۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجھے اس بات کا بھی احساس تھا کہ یہ لڑکا عدنان کے بیسٹ فرینڈ کا چھوٹا بھائی ہے اس لیئے۔۔۔ اس کے ساتھ کچھ بھی کرتے وقت ۔۔۔ مجھے ہر پہلو کو مدِ نظر رکھنا ہو گا۔۔۔۔ خیر اس دن تو وہ چلا گیا ۔۔ لیکن میرے اندر ایک ہل چل سی مچا گیا ۔۔۔۔ اسے دیکھ کر گڈی باجی بھی نہ رہ سکی اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ میری جان لڑکا تو بہت چکنا ہے ۔۔۔۔اس پر میں نے بھی اس کی طرف دیکھتے ہوئے ہاں میں سر ہلا دیا ۔۔۔

اس کے بعد حسبِ پروگرام روزانہ ہی اس لڑکے نے ہمارے گھر آنا شروع کر دیا ۔۔۔اور اس مولوی ٹائپ بچے کو دیکھ کر روز ہی میں۔۔۔۔۔ اپنے ۔۔۔۔۔ ارادے بناتی اور۔۔۔۔۔۔ روز ہی۔۔۔ انہیں توڑتی رہی۔۔۔۔۔کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں ۔۔ کیونکہ یا تو اس لڑکے کو اپنے بھائی کی طرف سے اس بات کی سخت ہدایت تھی کہ اس نے ہم لوگوں کے ساتھ کوئی فالتو بات نہیں کرنی۔۔۔ نگاہ نیچ رکھنی ہے ۔۔۔۔۔ اور بلا بلا۔۔۔۔جبکہ دوسری طرف اس لڑکے کے بارے میں میرے اندر ۔۔۔ کی ہل چل دن بدن تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی تھی اور دوسرے لفظوں میں یہ لڑکا میرے لیئے ایک چیلنچ بنتا جا رہا تھا۔۔۔ وہ فکس ٹائم پر آتا ۔۔خالہ کا بلڈ پریشر چیک کرتا۔۔۔۔ ان کو ٹیکہ لگاتا ۔۔۔اور میرے اصرار پر بھی۔۔وہ چائے شربت نہ پیتا تھا۔۔۔۔۔کہتا تھا کہ بھائی نے سختی کے ساتھ منع کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ چنانچہ جیسے ہی اس کا کام ختم ہوتا وہ بڑی تیزی کے ساتھ واپس چلا جاتا تھا۔۔۔ لیکن کب تک؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔

پھر ایک دن کی بات ہے ۔۔۔ کہ اس وقت میں اس کی طرف سے تقریباً مایوس ہی ہو گئی تھی ۔۔۔ اس لیئے میں نے اسے خالہ کے پاس چھوڑا ۔۔اور خود ہانڈی دیکھنے کے لیئے کچن میں چلی گئی کیونکہ اس دن گڈی باجی اپنے کمرے میں ماموں کے ساتھ مصروف تھی۔۔۔۔کچن سے واپسی پر میں خالہ کے کمرے میں جا رہی تھی کہ اچانک ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے دروازے پر رکُنا پڑا ۔۔۔ کیا دیکھتی ہوں کہ چھوٹے میاں نے خالہ کے بازو پر بلڈ پریشر چیک کرنے والا آلہ لگایا ہوا تھا ۔۔۔ لیکن اس لڑکے کو ایک نظر دیکھ کر ہی میں سمجھ گئی تھی ۔۔۔۔۔کہ اس لڑکے کا دھیان بلڈ پریشر کی طرف نہیں ۔۔۔ بلکہ کہیں اور ہے۔۔۔۔ اور پھر میں نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو ۔۔۔ میں حیران رہ گئی۔۔۔۔ کیا دیکھتی ہوں کہ۔۔۔۔ چھوٹے میاں کی نظریں ۔۔بلڈ پریشر کے آلے کی طرف کم اور ۔۔۔۔۔۔۔ خالہ کے کھلے گلے کی طرف زیادہ تھیں۔یہاں پر میں مختصراً اپنے قارئین کو بتاتی چلوں کہ اس عمر میں بھی خالہ کی چھاتیوں بہت سخت اور شاندار تھیں جنہیں دیکھ کر کوئی بھی شخص پاگل ہو سکتا تھا اور ۔۔۔۔ یہ تو بے چارہ ایک چھوٹا سا لڑکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ اس دن گڈی باجی نے خالہ کو کپڑے تبدیل کروائے تھے۔۔۔اور شاید وہ خالہ کو قمیض پہناتے وقت اس کا اوپر والا بٹن لگانا بھول گئی تھی۔۔۔اور دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ خالہ کی چھاتیاں بہت سخت تھیں ۔۔۔۔۔اس لیئے گرمیوں کے موسم میں وہ ویسے بھی برا نہیں پہنا کرتی تھی۔۔۔اس لیئے میں نے دیکھا کہ خالہ کی ایک چھاتی ان کی قمیض کے باہر آ کر نپل تک ۔۔۔۔۔۔ نظر آ رہی تھی اور چھوٹے میاں اسے دیکھتے ہوئے بار بار ۔۔۔ اپنے لن کو کھجا رہے تھے ۔۔۔۔۔ اور اس کےساتھ ساتھ جزبات کی شدت سے اس کا کیوٹ چہرہ پہلے سے زیادہ لال ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سین دیکھ کر ایک دم سے میرے زہن میں کاشف میاں کو چودنے کا آئیڈیا آ گیا۔۔اور میں نے چھوٹے میاں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ سالے اب تجھے میرے ہاتھوں سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔۔۔۔۔۔اور پھر اس دن کے بعد میں نے کچھ دن تک کاشف کے ساتھ یہی سین دھرایا ۔۔ اس دن کے بعد اس کے آنے سے پہلے میں بڑی تکنیک سے خالہ کی ایک چھاتی کو ننگا رکھتی تھی ۔۔۔ جہاں تک خالہ کا تعلق ہے تو پین کلر ٹیکے لگنے اور مختلف دوائیاں کھانے کی وجہ سے سے وہ ہمیشہ ہی ادھ موئی رہا کرتی تھیں ۔۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ آتے ساتھ ہی سب سے پہلے کاشف ان کا بلڈ پریشر چیک کرتا تھا ۔۔۔۔ پھر اس کے بعد وہ ان کو پین کلر کا ٹیکا لگا کر ۔۔۔۔ چوری چوری دروازے کی طرف دیکھتا ۔۔۔۔۔اور پھر کسی کو نہ پا کر وہ بڑے غور سے ۔۔۔ خالہ کی ادھ کھلی چھاتیاں کی طرف دیکھ کر اپنے لن کو مسلنا شروع کر دیتا تھا۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ اور اس کی حالت دیکھ کر میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ ۔۔۔ کلینک جا کر وہ ضرور مُٹھ مارتا ہو گا۔۔ کیونکہ جیسے ہی میں کمرے میں داخل ہوتی تو اسی وقت وہ اپنے لن کو آگے پیچھے کر اپنی ٹانگوں میں دبا کر بھاگ جایا کرتا تھا۔۔۔۔ میں کافی دنوں تک اس کے ساتھ یہی کھیل کیلتی رہی ۔۔۔۔ مقصد یہ تھا کہ وہ اس بات کو ایک روٹین کا معاملہ سمجھے ۔۔۔

پھر ایک دن کی بات ہے کہ اب مجھے اس بات کا پکا یقین ہو گیا تھا کہ چڑیا جال میں پھنس چکی ہے ۔۔۔ اس لیئے سب سے پہلے تو میں نے گڈی باجی کو اپنے ارادے کے بارے میں بتلایا ۔۔ جسے سن کر وہ جزبات سے بھرے لہجے میں کہنے لگی ۔۔اس کا مطلب ہے کہ آج تم اس چکنے کو چودنے لگی ہو ۔۔۔ اور پھر میری پھدی میں اپنی ایک انگلی کرتے ہوئے بولی۔۔۔جب اس چکنے کا لن اپنے اندر ڈالنے لگو تو مجھ بے چاری کی چوت کو بھی یاد رکھنا ۔۔۔۔۔ تو میں نے ا ن کے گال پہ ایک پپی دیتے ہوئے کہا ۔۔۔ میری جان ۔۔۔۔۔پہلے مجھے تو چود لینے دو۔۔۔ پھر تمہارا بھی سوچیں گے ۔۔۔۔ باجی سے فارغ ہونے کے بعد۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔ اس دن میں نے کاشی کے آنے سے پہلے ہی۔۔۔۔۔ خالہ کو ایک نہایت ہی باریک سا گھسا ہوا ۔۔۔ کاٹن کا کرتہ پہنایا ۔۔ اور پروگرام کے مطابق ان کی چھاتیوں کو آخری حد تک ننگا کر کے ان کو ایسی شیپ دی کہ جس کو دیکھ کر ۔۔۔۔۔ کاشی تو کیا ۔۔۔ اچھا خاصہ جوان مرد بھی اپنے ہوش کھو بیٹھے۔۔۔۔

اس کے آنے تک میں نے گڈی باجی کو بھی اپنے کمرے تک محدود ہونے کا کہہ دیا تھا۔۔۔۔ اور خود کچن میں چلی گئی۔۔۔ پھر جیسے ہی دروازے کی گھنٹی بجی ۔۔۔ میں بڑے آرام سے دروازے تک گئی ۔۔۔۔ لیکن دروازہ کھولتے ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اپنے منہ ہی منہ میں کچھ اس طرح سے بُڑبڑائی کہ جس سے وہ آسانی کے ساتھ س ن سکے۔۔۔ چنانچہ دروازہ کھولتے ہی میں نے اس سے کہا۔۔۔۔ بیٹا کنڈی لگا لینا کہ میری ہانڈی جلنے والی ہو گئی ہے ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں بھاگتی ہوئی کچن کی طرف چلی گئی۔۔۔ اور چولہے پر رکھی ہوئی ہانڈی میں خواہ مخواہ ہی چمچ مارنے لگی۔۔ اتنے میں گڈی باجی بھی آ گئی اور کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ اب تم جاؤ۔۔ تو میں نے اس سے کہا۔۔۔۔ اتنی جلدی بھی کیا ہے۔۔ ابھی تو پہلے اس نے خالہ کا بلڈ پریشر چیک کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ان کو پین کلر ٹیکا لگائے گا۔۔۔ اور اس کے بعد۔۔۔ وہ ان کی چھاتیوں کا نظارے لے گا۔۔۔

پھر کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد میں نے پاس پڑی ہوئی چادر کو اُٹھایا اور اپنے جسم پر اچھی طرح لپیٹنے کے بعد میں نے گڈی باجی کو آنکھ ماری اور وہاں سے چل پڑی۔۔۔ خالہ کے کمرے کے پاس آ کر میں نے اک زرا سا جھانک کر دیکھا ۔۔۔تو میرا تیر نشانے پر بیٹھ چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت چھوٹے میاں اپنی شلوار کے اوپر سے ہی اپنے لن کو پکڑ کر خالہ کی چھاتیوں کی طرف دیکھتے ہوئے اسے بری طرح سے ہلا رہے تھے۔۔۔ اور میں اس کی شلوار کے ابھار کی طرف دیکھتے ہوئے اس کے لن کی لمبائی اور موٹائی کا اندازہ لگا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔اور دروازے کی ایک سائیڈ سے اندر کی طرف جھانک رہی تھی ۔۔۔ پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے ۔۔۔۔۔۔۔ چھوٹے میاں نے ایک نظر دروازے کی طرف دیکھا ۔۔۔ اس وقت اس کا چہرہ جزبات کی شدت سے تپا ہوا تھا۔۔۔اور وہ ایک بار خالہ کی چھاتیوں کی طرف دیکھ کر اپنے ہوٹنوں پر زبان پھیرتا ۔۔۔اور پھر ۔۔دوسری نگاہ ۔۔۔۔ دروازے کی طرف ڈالتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ ان چھاتیوں کو چھونا چاہ رہا تھا ۔۔۔۔ ادھر یہ سوچ کرکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری منزل نزدیک آ گئی ہے۔۔۔۔ میرا دل کنپٹیوں میں دھڑکنے لگا۔۔۔۔۔اور اس کے لن کے بارے میں سوچتے ہوئے میرا حلق بھی خشک ہو گیا۔۔۔۔۔اور اس سے قبل کہ میں بھی جزبات کی شدت میں کچھ کر بیٹھتی ۔۔۔ جلدی سے میں نے اپنے آپ پر قابو پایا ۔۔۔اور اندر کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں پر چھوٹے میاں اپنے جزبات کے ہاتھوں سے مجبور ہو کر ۔۔۔۔ دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے ۔۔آگے بڑھ رہے تھے۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ بار بار اپنے تھوک کو بھی اپنے خشک ہوتے ہوئے حلق میں نگھل رہے تھے۔۔۔۔ ۔۔۔اور پھر آخرِ کار وہ سین آ ہی گیا کہ جس کے لیئے میں

نے اتنا انتظام کیا تھا۔۔ ۔۔۔۔۔ میں نے دیکھا کہ چھوٹے میاں آگے بڑھے۔۔۔ اورررررررررررررررررررررر۔۔اب انہوں نے ایک نظر دروازے کی طرف دیکھا اور پھر اپنے ایک کانپتے ہوئے ہاتھ کو خالہ کی ننگی چھاتی پر رکھ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ ان کے دوسرے ہاتھ میں لن پکڑا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دو بار انہوں نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے جھجھک کر خالہ کی چھاتی پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر ۔۔۔ کسی کو نہ پا کر وہ تھوڑا ۔۔۔اور شیر ہو گیا۔۔۔۔۔ اس وقت اس کا چہرہ لال ٹماٹر ہو رہا تھا۔۔ اور میں نے دیکھا کہ اس کے چہرے پر کشمکش کے واضع آثار نظر آ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔جبکہ اس کا خالہ کی چھاتی پر دھرا ہاتھ ۔۔۔ بری طرح سے کانپ رہا تھا۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں آگے بڑھنے ہی لگی تھی۔۔۔۔۔کہ ۔۔۔۔ میں نے دیکھا کہ چھوٹ و میاں ۔۔۔۔۔۔اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بری طرح سے کانپ رہے تھے ۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی خالہ کی چھاتی پر دھرا ان کا ہاتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اپنی شلوار کے نالے کی طرف تھا۔۔۔۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنا نالہ کھول دیا۔۔۔۔ اور قیمض کو اونچا کر دیا۔۔۔ اب میری نظر اس کے لن پر پڑی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُف ف فف ف ف ف ۔ کیا بتاؤں دوستو۔۔ اس کا لن بہت گورا لیکن اس میں پنک رنگ کی جھلک بہت نمایاں تھی۔۔۔۔ سائز اور موٹائی میں ۔۔۔۔۔ بس ٹھیک ہی تھا۔۔۔۔ خاص کر اس کے ٹوپے کا رنگ ۔۔۔۔ بہت پنک تھا۔لن کے آس پاس سنہرے رنگ کے پتلے پتلے بال تھے ۔۔اور دور سے اس کا لن اتنا کیوٹ لگ رہا تھا۔۔۔ کہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے خود بخود ہی میرے منہ میں پانی بھر آیا ۔۔۔۔۔ جبکہ دوسری طرف اس نے ایک بار پھر دروازے کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اپنے لن پر تھوک لگا کر۔۔۔ جیسے ہی مُٹھ مارنے لگا۔۔۔۔۔ میں نے دھڑام سے دروازہ کھولا۔۔۔۔۔۔۔ اور چھوٹو کی طرف دیکھتے ہوئے میرا چہرے غصے سے لال پیلا ہو گیا۔۔۔۔ جبکہ دوسری طرف چھوٹو میاں ۔۔۔ کے ایک ہاتھ میں لن تھا ۔۔۔ جبکہ اس کا دوسرا ہاتھ خالہ کی چھاتی پر رکھا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی ۔۔۔۔۔چھوٹو کا رنگ پیلا پڑ گیا۔۔۔۔اور وہ ایسے ہو گیا کہ کاٹو تو لہو نہیں۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی وہ بیدِ مجنوں کی طرح تھر تھر کانپنے لگا۔۔۔ اب میں آگے بڑھی اور اس کے قریب پہنچ کر دھاڑتے ہوئے بولی۔۔۔۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ میری دھاڑ سن کر چھوٹو ایک دم ہوش میں آ گیا ۔۔۔اور جلدی سے نیچے جھک کر اپنی شلوار کو اوپر کرنے لگا۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اس کے ہاتھ کو پکڑ لیا۔۔۔۔ اور ایک بار پھر اونچی آواز میں دھاڑی ۔۔۔۔ یہ تم کیا کر رہے تھے کتے کے بچے۔۔۔۔۔۔۔

میری دھاڑ سن کر اس کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہو گئے اور وہ میری طرف دیکھتے ہوئے روہانسا ۔۔۔ہو کر کہنے لگا۔۔۔۔ مجھے معاف کر دو باجی۔۔۔۔ اب میں کچھ مزید آگے بڑھی اور اس کے کیوٹ سے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر بولی۔۔۔۔۔ اس پر تو تھوک لگا ہوا ہے ۔۔۔ پھر اس کی طرف آنکھیں نکالتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ آنے دو عدنان کو ۔۔۔اسے بتاتی ہوں کہ اس کے دوست کا بھائی اس کی امی کی چھاتیوں کو دیکھ کر مُٹھ مار رہا تھا۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے بڑی نرمی کے ساتھ اس کے ادھ موئے لن کو سہلانا شروع کر دیا۔لیکن وہ بد بخت میرا اشارہ نہ سمجھا ۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ میری مُٹھ والی بات کا سن کر اس کے تو فرشتے ہی کوچ کر گئے تھے۔۔۔۔۔ اور اس نے میرے سا منے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ دیئے اور زار و قطار روتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ باجی آپ پلیز۔۔۔۔۔۔آپ جو مرضی ہے سزا دے دو ۔۔۔ لیکن عدنا ن بھائی کو مت بتایئے گا۔۔۔ اور یہ بات سن کر بھائی نے ابا سے کہہ کر مجھے گھر سے نکلوا دینا ہے۔۔۔۔ اس پر میں اپنی تیوری کو مزید چڑھاتے ہوئے اس سے کہنے لگی۔۔۔۔۔اچھا ہے نا تم جیسے حرامزادے کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہیئے۔۔۔میری بات سن کر وہ میرے قدموں میں گر گیا ۔۔۔وہ روتا جاتا اور یہی بات کہتا جاتا۔۔۔۔ کہ باجی پلیزززززززززززززززززز۔۔ مجھے معاف کر دو۔۔۔ میں نے اسے کچھ دیر تک ایسے ہی رہنے دیا۔۔۔۔ پھر میں نے اپنے لہجے کو نرم کیا اور اس سے بولی۔۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔۔ میں تمہاری اس کا حرکت عدنان سے تزکرہ نہیں کروں گی۔۔۔۔۔ میری بات سنتے ہی وہ ایک دم سے اُٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھتا ہوا بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سچ باجی؟؟؟؟؟؟


جاری ہے 

*

Post a Comment (0)