Shahut zadi - Episode 2

شہوت زادی 


قسط 2


تفریع کے وقت وہ مجھے سکول کے گراؤنڈ کے آخیر میں لگی ٹاہلی کے نیچے لے گئی ۔۔۔ اور وہاں بیٹھتے ہی میں نے اس سے کہا ہاں اب بول یہ کیا چکر ہے؟ میری بات سنتے ہی پہلے تو اس نے بڑی راز داری سے ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔پھر کہنے لگی۔۔۔ وعدہ ہے نا کہ تو عاشی کے علاوہ اور کسی کو بھی یہ بات نہیں بتائے گی ؟تو میں نے اس سے کہا کہ یار ایک دفعہ وعدہ کر جو لیا ہے۔۔۔ اور پھر اس سے بولی۔۔ اب خدا کے اور سپنس نہ ڈال ۔۔۔تو وہ کہنے لگی ۔۔ بات سپنس کی نہیں ہے صبو جی ۔۔۔۔۔ پھر خود ہی کہنے لگی ۔۔۔تم نے ٹھیک اندازہ لگایا تھا صبو ۔۔ خالی پیریڈ میں ۔۔۔ میں کورس کی کتاب نہیں بلکہ سیکسی کتابیں پڑھتی ہوں ۔۔۔ سیکسی کتاب کے بارے میں سن کر میرا دل دھک دھک کرنے لگا اور میں نے بڑی یقینی سے اس کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔تُو ۔۔تو ٹھیک کہہ رہی ہے نا ۔۔۔مذاق تو نہیں کر رہی ۔۔تو وہ ایک دم سنجیدہ ہو کر بولی ۔۔ نہیں قسم سے میں بلکل ٹھیک کہہ رہی ہوں پھر کہنے لگی۔۔دیکھو تمہارے پوچھنے پر میں نے تم کو یہ سب بتایا ہے اب خدا کے لیئے ۔۔ ۔۔ مجھے سمجھانے کی کوشش نہ کرنا کہ یہ بری بات ہے ۔۔وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ کیونکہ مجھے سیکسی کتابیں بڑھنا بہت اچھا لگتا ہے ۔۔ اس کے منہ سے سیکسی کتابوں کا ذکر سن کر میرے اندر ایک ہل چل سی مچ گئی تھی کیونکہ ۔۔۔ میں نے اور عاشی نے ان کتابوں کے بارے میں سُن تو رکھا تھا مگر یہ کہاں سے ملتی ہیں اس بارے میں ہمیں کچھ معلوم نہ تھا اور اگر پتہ بھی ہوتا تو ہماری اتنی جرات نہ تھی کہ ہم لوگ ایسی کتابوں کو منگوا کر پڑھ سکتیں ۔۔۔اب میں نے زرینہ کی طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔ اچھا میں تمہیں نہیں سمجھاتی لیکن کیا تم یہ بات بتا سکتی ہو کہ تم اس قسم کی کتابیں تم لاتی کہاں سے ہو؟ 

میری بات سن کر وہ کہنے لگی بس مل جاتی ہیں ۔۔۔ لیکن اس کی یہ بات مجھ سے ہضم نہ ہوئی اورپھر میرے کریدنے پر اس نے بتلایا کہ اس قسم کی کتابیں اس کا ایک" یار" (لور-محبوب) مہیا کرتا ہے۔۔۔ جو کہ اس کے گاؤں کے نمبردار کا بیٹا ہے۔۔یار کا ذکر سن کر میں بڑی حیران ہوئی اور اسی حیرانی میں اس سے کہنے لگی ۔۔تت تمہارا کوئی یار بھی ہے؟ میری بات سن کر وہ ہنس پڑی اور کہنی لگی ۔۔ اوئے مولوی صاحب ۔۔۔۔۔ نہ صرف میرا بلکہ اس کلاس میں آدھی لڑکیوں نے یار بنائے ہوئے ہیں ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ پھر بولی ۔۔۔ ہاں پوری کلاس میں اگر کوئی واقعی ہی شریف بیبیاں ہیں تو وہ تم دونوں بہنیں ہو ورنہ تو جن کے یار نہیں ہیں وہ بھی ادھر ادھر منہ ضرور مار لیتی ہیں۔۔پھر آنکھ مار کر بولی کہ کیا خیال ہے صبو جی تم یہ کتاب پڑھنا پسند کرو گی؟ اس کی بات سن کر میرا سانولا چہرہ ایک دم سرخ ہو گیا اور اندر سے میرا جی چاہا کہ ابھی کی ابھی وہ مجھے یہ کتاب لا دے لیکن ۔۔۔ بھرم بھی کوئی چیز ہوتی ہے اس لیئے میں بظاہر نخرہ کرتے ہوئے بولی۔۔۔ نہیں بابا ایسی گندی کتابیں مجھے نہیں پڑھنی ۔۔تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ یار ایک بار پڑھ کر تو دیکھ تیرے چودہ طبق نہ روش ہو گئے تو پھر کہنا ۔۔۔۔ پھر ۔۔کچھ سوچ کر بولی ۔۔۔چل کتاب نہ پڑھ ۔۔ایسا کرتی ہوں میں تم کو فوٹوؤں والا رسالہ لا دوں گی ۔۔۔تم اس کو دیکھنا ۔۔۔۔ اور اگر وہ رسالہ تم کو پسند آ گیاتو ۔۔پھر میں تم کو پڑھنے کے لیئے بھی رسالے دوں گی ۔۔۔۔ اس پر میں نے نیم رضامندی ظاہر کرتے ہوئے اس کے کہا کہ۔۔۔ان فوٹوؤں والے رسالے میں کیا ہوتا ہے ۔۔تو وہ شرارت سے مسکرا کر بولی۔۔۔ یہ تم خود ہی دیکھ لینا۔۔۔

اگلے دن گھر سے سکول آتے ہوئے میں نے عاشی کو اس بارے میں بتایا تو سن کر وہ خاصی پر جوش سی ہو گئی اور کہنے لگی۔۔۔ تم ضرور اس سے یہ رسالہ لینا ہم دونوں مل کر دیکھیں گی ۔۔۔ اور پھر سارے راستے ہم دونوں اسی بارے ڈسکس کرتی رہیں ۔۔۔ اور طے یہ پایا کہ زرینہ جو عاشی کی جگہ میرے ساتھ بیٹھی تھی اسے بیٹھے رہنے دینا ہے جبکہ عاشی بائیں جانب میری ساتھ بیٹھ جائے گی۔۔ چنانچہ سکول پہنچتے ہی اسمبلی سے پہلے زرینہ مجھے ایک طرف لے گئی اور کہنے لگی ۔۔۔۔وہ تمہارا رسالہ میں لائی ہوں ۔۔۔ تو میں نے بظاہر بے نیازی سے اس کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔اس کی کیا ضرورت تھی ؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ ایک بار دیکھ تو لو۔۔۔۔ اس طرح تھوڑے سے نخروں کے بعد میں نے اس سے رسالہ لینے کی حامی بھر لی ۔۔ چنانچہ ایک خالی پیریڈ میں اس نے بڑے طریقے سے اردو کی کتاب میں رکھ کر وہ رسالہ میرے حوالے کیا ۔۔۔ جو میں نے کانپتے ہاتھوں سے اس سے وصول کیا اور پھر چوری چوری اس کو دیکھنے لگی۔۔۔۔ رسالے کی پہلی تصویر دیکھتے ہی میری تو سٹی گم ہو گئی۔۔۔ وہ ایک گوری کی ننگی فوٹو تھی ۔۔۔ جس نے اپنے ہاتھ میں ایک کالے حبشی کا بڑا سا لن پکڑا ہوا تھا ۔۔۔ یہ تصویر دیکھ کر میں تو کانوں تک سرخ ہو گئی ۔۔اور اس کے ساتھ ہی میرے نیچے بھانبڑ جلنا شروع ہو گیا۔۔۔ جیسے جیسے میں ان تصوروں کو دیکھتی جاتی ویسے ویسے میرے چودہ طبق روشن ہوتے جاتے اور مجھ پر سیکس کے نئے نئے افق طلوع ہونا شروع ہو گئے ۔۔۔اور مجھے سیکس کی نئی نئی ڈیفی نیشن معلوم ہونا شروع ہو گئیں کہاں میں اور عاشی صرف گالوں کو چومنا اور مموں کو چوسنا ۔دبانا اور پھدی کو مسلنا ہی سیکس کی معراج سمجھتی تھیں جبکہ یہاں تو لِپ کسنگ ۔۔۔ پھدی چاٹنا ۔۔۔۔ اور لن چوسنا ۔۔۔ 

وغیرہ وغیرہ دیکھ کر میں اندر سے بڑی ہی پرُ جوش سی ہو گئی اور خاص کر میری چوت بہت سخت اشتعال میں آ گئی۔۔ لیکن بظاہر میں نے زرینہ کی طرف دیکھ کر کہا کہ ۔۔۔یہ گوریاں کتنی گندی ہوتی ہیں ۔۔ دیکھو نا ۔۔۔اس کی پیشاب والی جگہ کو منہ میں لیا ہوا ہے۔۔۔ جبکہ اندر سے میرا جی یہ کر رہا تھا کہ کاش ایسا موٹا اور کالا ڈنڈا مجھے مل جائے تو اپنی بھی موجیں ہو جائیں۔۔۔ میری بات سن کر زرینہ کہنے لگی۔۔۔ اس بات کو چھوڑ تو یہ بتا کہ رسالہ کیسا ہے؟ تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ اچھا رسالہ ہے ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔آرام سے دیکھ میں چھٹی کے وقت تم سے لے لوں گی۔۔۔ چنانچہ تفریع کے وقت اسی ٹاہلی کے نیچے بیٹھ کر میں نے عاشی نے جی بھر کر اس رسالے کی فوٹوؤں کو دیکھا اور پھر یہ بھی طے کیا کہ آئیندہ ہم بھی ایک دوسرے کی پھدیاں چاٹا کریں گی۔۔۔۔ تفریع کے بعد مطالعہ کے پیریڈ میں بھی ۔۔۔ میں چوری چوری وہی رسالہ دیکھتی رہی۔۔۔ اور پھر ۔۔۔ جب میرے جزبات عروج پر پہنچ گئے تو میں نے چپکے سے عاشی کے کان میں کہا۔۔۔ عاشی ۔۔ فوٹوویں دیکھ دیکھ کر میں تو آؤٹ ہو رہی ہوں۔۔ میری پھدی کا کچھ کر ۔۔۔تو وہ بھی بظاہر کتاب کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی حرام دیئے ۔۔۔اس وقت کچھ نہیں ہو سکتا چپ کر کے ٹیچر کا لیکچر سنو ۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے ٹیچر کی بات سننے کی بڑی کوشش کی لیکن نیچے سے میری پھدی میں سخت ابال آیا ہوا تھا اس لیئے میں نے۔۔۔۔پھر عاشی کی طرف جھکی اور بولی۔۔۔۔۔قسم سے عاشی بات میری برداشت سے باہر ہو گئی ہے۔۔تب عاشی نے برا سا منہ بنا یا اور بولی ۔۔۔ سنجا یوہنے ( پھدی مروانے والیئے) فوٹوؤں کو اتنا زیادہ نہیں دیکھنا تھا ۔۔اور پھر بولی اچھا ٹیچر سے اجازت لیکر کر تم واش روم کی طرف جاؤ میں بھی تھوڑی دیر تک آتی ہوں ۔۔۔ عاشی کی بات سن کر میں نے شکر کیا ۔۔۔اور ٹیچر سے اجازت لیکر کر واش روم کی طرف چلی گئی جو کہ ہمارے سکول کی کلاس رومز کے آخر میں ایک ساتھ لائین میں بنے ہوئے تھے۔۔۔

میں کلاس سے نکل کر آہستہ آہستہ ایک لائن میں بنے واش رومز کی طرف بڑھنے لگی جب میں ان کے قریب پہنچی تو پیچھے مُڑ کر دیکھا تو عاشی بھی تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے میری طرف آ رہی تھی میں نے اسے آخری واش روم کا اشارہ کیا اور جلد ی سے وہاں گھس کر عاشی کا انتظار کرنے لگی۔۔۔تھوڑی ہی دیر بعد عاشی بھی میرے واش روم میں آ گئی ۔۔۔اورکنڈی لگتے ہی اس نے اپنا ہاتھ میری شلوار کے اندر ڈال دیا ۔۔۔۔۔اور چوت پر ہاتھ لگا کر بولی۔۔۔۔۔ حرام دیئے لوکی جہیڑا کم رات دے اندھیرے وچ کردے نے ۔۔۔او ۔۔۔تُوں میتھوں شِکر دوپہرے کروا رہی ایں ۔۔۔۔(حرام ذادی ۔ لوگ جو کام رات کے اندھیرے میں کرتے ہیں تم وہی کام مجھ سے بھری دوپہر میں کروا رہی ہو) اور اس کے ساتھ ہی اس نے بڑی تیزی کے ساتھ میری پھدی کو مسلنا شروع کر دیا ۔۔۔۔   

 مجھے چونکہ پہلے ہی سے کافی گرمی چڑھی ہوئی تھی اس لیئے اس کے تھوڑی سی دیر چوت ملنے سے میری چوت نے پانی چھوڑ دیا۔۔ جیسے ہی میں خارج ہوئی اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔ بس ۔۔۔ تو میں نے شکریہ کے طور پر اس کے گال چومے اور اس کے ممے دبا کر بولی ۔۔بس ۔۔۔ تو وہ مجھ سے یہ کہتے ہوئے رُخصت ہوئی کہ اپنا حلیہ درست کر کے آ جاؤ ۔۔۔وہ تو چلی گئی ۔۔۔ لیکن میرے کانوں میں اس کا یہ جملہ مسلسل گونجتا رہا کہ ۔۔۔ لوگ جو کام رات کی تاریکی میں کرتے ہیں وہ ۔۔۔ پھر نا جانے کیوں میرے زہین عاشی کا کہا ہوا ۔۔۔رات کی تاریکی میں ۔۔۔۔رات کی تاریکی ۔۔۔ میرے ذہن میں مسلسل گردش کرتا رہا۔۔۔۔

 جیسا کہ میں نے شروع میں آپ کو بتایا ہے کہ ہمارے گھر میں دو ہی کمرے تھے ایک میں امی اور ابا سوتے تھے جبکہ دوسرے کمرے میں ۔۔۔ میں ۔۔۔اور میرا چھوٹا بھائی شعیب سوتے تھے۔۔۔۔ جس دور کی میں بات کر رہی ہوں اس وقت شعیب جسے پیار سے ہم شبی کہتے تھے۔۔۔۔ پانچویں کلاس میں پڑھتا تھا ۔۔۔ یہاں یہ بات بھی آپ لوگوں کے گوش گزار کر دوں کہ بڑی ہونے کی وجہ سے شبی کو ٹیوشن بھی پڑھاتی تھی اور پڑھاتے وقت اس کو خوب مارا بھی کرتی تھی ۔۔۔اس لیئے شبی کی مجھ سے جان جاتی تھی ۔۔۔ مطلب وہ مجھ سے بہت ڈرتا تھا۔۔۔ یہ اسی دن کی بات ہے کہ عاشی کے ہاتھ مارنے سے وقتی طور پر تو میری پھدی ٹھنڈی ہو گئی تھی ۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔ اس دن ننگی تصوریریں دیکھنے کی وجہ سے میں ضرورت سے سے کچھ زیادہ ہی گرم ہو گئی تھی۔۔۔ اور رسالے میں دیکھی ہوئی ننگی تصویریں بار بار میری آنکھوں کے سامنے آ جاتی تھی ۔۔۔۔اس لیئے میں بڑی بے چین تھی ۔۔۔ اور یہ سکول سے واپسی پر دوپہر کا واقعہ ہے کہ گرمی کی وجہ سے امی ابا اپنے کمرے میں سوئے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ ہماری چھوٹی بہن زینب بھی سوتی تھی جبکہ میں اور شبی ایک ہی بستر پر سویا کرتے تھے۔۔۔۔

دوپہر کا وقت تھا ۔۔۔ میں سکول سے واپسی پر گھر آئی اور یونیفارم وغیرہ اتار کر واش روم سے ہو کر واپس اپنے کمرے آئی تو دیکھا کہ شبی سیدھے منہ بستر پر لیٹا ہوا ہے میں زرا اس کے پاس گئی تو دیکھا کہ ۔۔وہ گہری نیند سو رہا تھا ۔۔۔ اسے دیکھ کر ابھی میں واپس ہونے ہی والی تھی کہ ۔۔۔ اچانک میں ٹھٹھک کر رُک گئی۔۔۔ اور جس چیز نے مجھے رُکنے پر مجبور کر دیا تھا۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔ وہ ۔۔۔ شیعب کا لن تھا۔۔۔۔ جو اس وقت الف کھڑا تھا ۔۔۔ گو کہ وہ اتنا بڑا نہیں تھا ۔۔۔ لیکن پھر بھی اس کی شلوار اوپر کو اُٹھی ہوئی تھی۔۔جسے دیکھ کر ۔میرے بڑھتے ہوئے قدم رُک گئےتھے ۔۔۔۔۔ اور میں ۔۔میری نظریں ۔۔ شعیب کی شلوار میں بنے ابھارپر جم سی گئیں ۔۔۔ عین اسی وقت مجھے رسالے میں دیکھے ہوئے کالوں کے لن یاد آ گئے۔۔۔۔ ان کے لن کا یاد آنا تھا ۔۔۔۔ کہ میں پسینہ پسینہ ہو گئی ۔۔۔۔ اور چھوٹے بھائی کا لن دیکھتے ہوئے میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔۔۔۔ پھر میں نے یہ کہہ کر اپنی نظروں کو وہاں سے ہٹا دیا ۔۔۔ کہ ۔۔یہ۔یہ میں کیا کر رہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

یہ میرا چھوٹا بھائی ہے۔۔۔ سگا چھوٹا بھائی۔۔۔ اور باہر جانے کے لیئے آگے بڑھ گئی۔۔۔۔ لیکن ابھی میں دو ہی قدم آگے بڑھی تھی ۔۔۔ کہ ۔۔۔ پھر سے میری آنکھوں کے آگے ۔۔۔ رسالے میں دیکھے ہوئے کالوں کے بڑے بڑے لن گھوم گئے ۔۔۔ اور میں نے یہ کہہ کر خود کو روک لیا کہ دیکھوں تو سہی کہ شبی کا لن ان کالوں کے لنوں سے کتنا چھوٹا ہے۔۔۔۔ اور دھڑکتے دل کےساتھ اُلٹے قدموں سے واپس ہو گئی۔۔۔۔ اور ایک بار پھر شبی کے کھڑے ہوئے لن کو دیکھنے لگی ۔۔۔ اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ کہیں امی یا زینب نہ اُٹھ جائے چنانچہ میں جلدی سے دروازے کے پاس گئی اور باہر جھانک کر دیکھا تو ۔۔باہر ۔۔۔۔ ہُو کا عالم تھا ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں واپس ہوئی ۔۔۔۔ اور شبی کی طرف بڑھنے لگی۔۔۔۔ اس وقت میرے دل میں طرح طرح کے خیال آ رہے تھے۔۔۔۔ لیکن میں خود کو مختلف دلیلیں دیتی ۔۔۔شبی کی چارپائی کی طرف بڑھنے لگی۔۔۔۔اس کا لن ابھی تک ویسے ہی کھڑا تھا۔۔۔پتہ نہیں کیوں اس وقت میں بڑی احیایط کے ساتھ بڑے پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی تھی ۔۔اور بڑے ہی احتیاط سے چلتے ہوئے جیسے ہی میں شبی کی چارپائی کے قریب ۔۔۔ پہنچی ۔۔ ۔۔۔ بہت احتیاط کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اچانک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنی طرف سے تو میں بڑی ہی احتیاط کے ساتھ شبی کی طرف بڑھ رہی تھی ۔۔۔ لیکن پھر پتہ نہیں کیا ہوا ۔۔ یا پھر شاید اس کی چھٹی حس نے کچھ کام کیا تھا ۔۔۔۔کیونکہ جونہی ہی میں اس کی چارپائی کے قریب پہنچی تو اچانک ہی شبی ہڑ بڑا کر اُٹھ کھڑا ہوا ۔۔اور ادھر ادھر دیکھنے لگا ۔۔پھر۔۔جیسے ہی اس کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ ایک دم خوف ذدہ سا ہو گیا اور ۔۔۔ میری طرف دیکھ کر بولا ۔۔۔ کیا ہوا باجی؟ تو میں نے حسبِ معمول اس سے تھوڑی سختی سے کہا ۔۔۔ کیا ہونا ہے؟ میرے لہجے کی پھنکار سن کر وہ بے چارہ سہم گیا ۔۔۔اور مزید کوئی بات کیئے بغیر چارپائی سے اُٹھ کر خاموشی سے باہر چلا گیا۔۔۔ اسے باہر جاتے دیکھ کر میں کافی مایوس ہوئی اور اپنا سر پکڑ کر چارپائی پر بیٹھ گئی۔چونکہ اس وقت میرے جزبات عروج پر تھے اس لیئے اس مایوسی کی وجہ سے میرے سر میں درد ہونا شروع ہو گیا ۔۔۔ لیکن میں نے اس درد کی پروہ نہ کی اور خاموشی سے بستر پر لیٹ گئی۔۔۔۔ اور چارپائی پر کروٹیں بدلتے ہوئے شبی کے بارے میں سوچنے لگی۔۔۔۔ اور پھر سوچتے سوچتے آخرِ کار میرے ذہن میں ایک ترکیب آ ہی گئی ۔اس ترکیب کا ذہن میں آنا تھا کہ میں چارپائی سے اُٹھ بیٹھی اور اس ترکیب کو فول پروف بنانے کے لیئے میں اس کے باقی جزیات پر بھی غور کرنے لگی۔۔۔ اور پھر ساری جزیات طے کرنے کے بعد جب میرے حساب سے جب یہ منصوبہ فائینل ہو گیا تو میں نے ایک دفعہ پھر اس پر غور کیا ۔۔۔ اور یہ سب طے کرنے کے بعد۔۔۔ میں خود کو ایک دم سے ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگی۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی حیرت انگیز طور پر میرے سر کا درد بھی غائب ہو گیا ۔ چنانچہ میں چارپائی سے اُٹھی اور کمرے سے باہر آ گئی۔۔ اب مجھے بڑی شدت سے رات ہونے کا انتظار تھا۔۔۔ 

              ہر چند کہ وہ گرمیوں کے دن تھےاور جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ گرمیوں کے دنوں میں گاؤں اور قصبوں کے لوگ کھلے صحن یا چھت پر سونا پسند کرتے ہیں ۔۔ لیکن چونکہ ان دنوں ہمارے علاقے میں اچانک ہی چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں ایک دم سے بہت اضافہ ہو گیا تھا اور یہ گروہ چوری اور ڈکیتی کے ساتھ ساتھ مزاحمت پر اکثر گھر والوں قتل کو بھی کر دیا کرتے تھے اس لیئے علاقہ بھر میں ان کی بڑی دہشت پھیل گئی تھی ۔۔ چنانچہ اسی ڈر کی وجہ سے انہی دنوں ہم لوگ باہر صحن یا چھت پر نہیں بلکہ کمروں کے اندر کنڈیاں وغیرہ لگا کر سویا کرتے تھے ۔۔۔ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ شام کو کھانا کھانے کے بعد حسبِ معمول میں اپنے کمرے کی طرف جانے لگی ۔۔۔تو پیچھے سے اماں نے روز کی طرح ایک بار پھر سختی سے تاکید کی کہ سوتے وقت دروازے کو کُنڈی لگا کر سونا ۔۔۔۔اور جیسا کہ آپ کو پتہ ہے کہ میں تو پہلے ہی یہی چاہتی تھی کہ جب میں بھائی کے ساتھ واردات ڈال رہی ہوں تو دروازہ لاک ہو۔۔۔اس لیئے میں نے اماں کی بات سن کر خاموشی سے سر ہلا دیا اور اپنے کمرے میں چلی آئی ۔(اور میں کمرے میں اس لیئے پہلے آتی تھی کہ روز مجھے چارپائی پر بستر درست کرنا اور اسے جھاڑنا وغیرہ ہوتا تھا )۔چنانچہ اس رات بھی چارپائی پر بستر وغیرہ جھاڑنے کے بعد میں ۔۔۔ شبی کا انتظار کرنے لگی۔ پھر تھوڑی ہی دیر بعد ۔۔۔ شبی بھی آ گیا ۔۔

۔ ویسے تو وہ روز ہی اسی ٹائم پر کمرے میں آیا کرتا تھا لیکن اس رات مجھے ایسا لگا کہ جیسے وہ بہت لیٹ آیا ہو ۔۔۔ یہ شبی کی پکی روٹین تھی کہ وہ کمرے میں داخل ہو کر پہلے میرے ساتھ روز مرہ کی گپ شپ کرتا اور پھر کچھ دیر بعد میرے ساتھ ہی چارپائی پر سو جایا کرتا تھا لیکن پتہ نہیں کیوں آج شبی کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر ۔۔۔ مجھے خواہ مخواہ ہی انگڑائیاں کیوں آنے لگیں تھیں ؟؟۔۔ چنانچہ جیسے ہی شبی کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔ اپنے آپ ہی مجھ پر ایک مستی سی چھانے لگی ۔اور میں نے ایک توبہ شکن انگڑائی لیتے ہوئے اس سے کہا ۔۔ آج بڑے لیٹ آئے ہو؟ میری بات سن کر وہ بے چارہ خاصہ حیران ہوا ۔۔۔۔۔اور اسی حیرانی میں ۔۔۔میری طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔میں تو کوئی لیٹ نہیں باجی ۔بلکہ۔۔ میں تو اپنے ٹائم پر آیا ہوں ۔۔اور پھر میری حالت سے بے خبر اس نے اپنے جوتے اتارے اور بستر پر آ کر لیٹ گیا اور پھر کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد وہ نیند کی آغوش میں چلا گیا ۔۔۔ ادھر میں اس کے پاس لیٹی ۔۔۔ اس کی نیند گہری ہونے کے انتظار میں چارپائی پر کروٹیں بدلتی رہی ۔۔۔ اسی دوران آدھی رات ہو گئی اور جب مجھے اس بات کا پکا یقین ہو گیا کہ شبی گہری نیند میں چلا گیا ہے تو میں نے اسے چیک کرنے کی خاطر ۔۔۔اسے ہلکی سی آواز میں شبی کہہ کر پکارا ۔۔۔ لیکن دوسری طرف سے کوئی جواب نہ آیا ۔۔۔ اس کے بعد میں نے تھوڑی تیز اور غصے بھری آواز میں کہا ۔۔۔ شبی کیا تم جاگ رہے ہو؟ لیکن اس بار بھی دوسری طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔۔۔ تب میں ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بڑی آہستگی سے چارپائی اُٹھی۔۔اور اس کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔ وہ چاندنی رات تھی اور چاند کی چاندنی ہمارے روشن دان اور کھڑکی سے چھن چھن کر کمرے میں آ رہی تھی۔۔۔ جس سے ہمارا تاریک کمرا تھوڑا سا روشن ہو گیا تھا ۔۔۔ اتنا روشن کہ اس ملگجے سے اندھیرے میں مجھے شبی کی دھندلی سی صورت نظر آ رہی تھی۔۔۔ اب میں نے چارپائی پر بیٹھ کر اس کی آنکھوں کے سامنے اپنا ایک ہاتھ لہرایا ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس کے منہ پر ہلکی سی چپت مار کر ۔۔ بولی ۔۔۔شبی ۔۔۔او شبی کے بچے۔۔ لیکن وہاں سے کوئی جواب نہ پا کر میں تھوڑا مطمئن ہو گئی اور پھر ادھر سے ۔۔۔اطمینان حاصل ہونے کے بعد میں نے ایک دفعہ پھر ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔ہر طرف ایک گہری خاموشی چھائی تھی ۔۔۔۔اورپھر اسی خاموشی اور خالی پن دیکھ کر ۔میں نے شبی کی طرف دیکھا ۔۔۔اور آنے والے لمحات کا تصور کرتے ہوئے میرا دل دھڑکنے لگا۔۔۔اور میں اسی دھڑکتے دل کے ساتھ چارپائی پر شبی کے ساتھ جُڑ کر لیٹ گئی۔اور اس کے ردِ عمل کا انتظار کرنے لگی۔ ۔۔ جب وہاں سے کوئی ردِ عمل نہ آیا تو میں تھوڑا اور آگے بڑھی اور اس کی ٹانگوں میں اپنی ٹانگیں پھنسا لیں ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے شبی کو اپنے ساتھ چمٹا لیا۔۔۔۔ اور پھر دھیرے دھیرے اس کے بدن کے ساتھ اپنے بدن کو ملا لیا ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ۔۔۔ اپنے جسم کے زیرں حصے اور اپر باڈی کو اس کے جسم کے ساتھ مسلنے لگی ۔شبی کے ساتھ اپنی باڈی کو مسلتے ہوئے کچھ دیر بعد۔۔۔۔ 

 اچانک ہی مجھے اپنی رانوں کے اوپر ۔۔ کسی نوک دار چیز کی چھبن کا احساس ہوا ۔۔اور یہ نوک دار چیز میری دائیں ران کے اوپری حصے پر چُبھ رہی تھی ۔۔۔۔ میں نے اس کے جسم کے ساتھ اپنا جسم رگڑنا بند کیا اور اس چھبن کے بارے میں غور کرنے لگی ۔۔۔۔اور پھر فورا ً ہی مجھے اس بات کا احساس ہو گیا کہ وہ نوک دار چیز اور کوئی کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔بلکہ شبی کا لن تھا ۔ جو شاید میرے بدن کی رگڑ سے کھڑا ہو گیا تھا ۔شبی کے لن کا خیال آتے ہی میرے بدن میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی – چنانچہ میں فورا ً ہی شبی سے الگ ہوئی اور ایک سائیڈ پر ہو کر اس کے لن کی طرف دیکھنے لگی۔۔ اس وقت شبی ایک سائیڈ کروٹ لیئے ہوا تھا اس لیئے مجھے شلوار کے اندر سے اس لن ٹھیک سے نظر نہ آ رہا تھا۔۔۔ چنانچہ میں نے شبی کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی احتیاط سے اس کو کروٹ دلائی ۔۔۔۔اور اب میرے سامنے شبی سیدھا لیٹا ہوا تھا اور عین لن والی جگہ سے اس کی شلوار اوپر کو اُٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔ جسے دیکھ کر مجھے دن کو دیکھے ہوئے کالوں کے لن یاد آ گئے اور اس کے ساتھ ہی میرے من میں ۔۔۔شبی کا لن دیکھنے کی شدید خواہش پیدا ہو گئی۔۔۔.. اس خواہش کا میرے زہن میں آنا تھا کہ میں تھوڑا آگے بڑھی اور شبی کی طرف دیکھتے ہوئے پہلے تو اس کی قمیض کو اوپر کیا ۔۔۔ جس سے شلوار میں کھڑا اس کا لن تھوڑا واضع نظر آنے لگا۔۔ لیکن بیچ میں شلوار ہونے کی وجہ سے میرا مزہ تھوڑا کرکرا ہو گیا ۔۔ پھر بھی اس کی اُٹھی ہوئی شلوار میں سے اس کا لن دیکھ کر میرے جسم میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی ۔۔۔۔۔ اور میرے منہ میں پانی بھر آیا ۔۔۔ چونکہ مجھے شبی کا ننگا لن دیکھنے کی شدید حاجت ہو رہی تھی اس لیئے ۔۔۔ میں نے ایک نظر شبی کی طرف دیکھا اور پھر بڑی احتیاط سے ۔۔۔ اس کی طرف دیکھتے ہوئے ۔۔۔۔ میں نے اس کے نالے پر (آزار بند) پر ہاتھ رکھ دیا۔۔ اور پھر بڑی آہستگی کے ساتھ شبی کا نالا (آزار بند ) کھول دیا۔۔۔ اور پھر اس کی شلوار نیچے کر دی۔۔۔اور شبی کے ننگے لن کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔ جیسے ہی میری نظر شبی کے لن کی طرف گئی تو اسے دیکھ کر مجھے ایک جھٹکا سا لگا ۔۔۔۔۔ شبی کا لن ۔۔۔۔۔۔۔ جسے میں لن سمجھ رہی تھی وہ ایک چھوٹی اور پتلی سی للی تھی۔۔۔ جو اس وقت پوری قوت کے ساتھ بلکل سیدھ میں کھڑی تھی ۔۔ چونکہ اس وقت میرے ذہن میں رسالے میں دیکھے ہوئے کالوں کے لن گھوم رہے تھے اس لیئے شبی کی چو ٹی سی ۔۔۔للی کو دیکھ کر میں خاصی مایوس ہوئی ۔۔۔۔ کیونکہ نا چاہتے ہوئے بھی میں شبی کے لن کا مقابلہ رسالے میں دیکھے ہوئے حبشیوں کے بڑے بڑے لنوں سے کر رہی تھی ۔۔۔ جبکہ شبی کی للی میری درمیانی انگلی جتنی لمبی اور اسی جتنی موٹی تھی۔۔۔ جبکہ پتہ نہیں کیوں میں اس سے حبشیوں جتنے لن کی تو قع کر رہی تھی جو کہ شبی جیسے بچے کے ساتھ سرا سر ظلم تھا ۔۔ لیکن شہوت کے عروج کی وجہ سے اس وقت مجھے یہ بات سمجھ نہ آ رہی تھی۔۔چنانچہ ادھر سے مایوس ہو کر میں نے دوبارہ سے اس کی شلوار کو باندھا اور ۔۔۔ پھر ۔۔۔ شبی کی للی کی طرف دیکھتے ہوئے رسالے میں دیکھے ہوئے حبشیوں کے لنوں کے بارے میں سوچنے لگی۔۔۔ ۔۔  

 اور جیسے ہی میرے زہن میں کالوں کے بڑے بڑے لنوں کا تصور آیا ۔۔۔میں ایک بار پھر گرم ہو نے لگی۔۔۔۔اور جو کیفیت شبی کے لن کو دیکھ کر ہوئی تھی ۔۔۔۔ وہ آہستہ آہستہ ختم ہونے لگی ۔۔ اور پھر اچانک میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ ۔۔۔ کاش ۔۔۔۔شبی کی جگہ کوئی بڑے لن والا مرد ہوتا۔۔تو۔۔۔۔۔ یہ خیال آتے ہی میرے جسم کے زیریں حصے میں دو ٹانگوں کے سنگم پر بنی چوت میں پانی آنا شروع ہو گیا۔اور میں دوبارہ سے اپنی فارم میں آ گئی ادھر چوت میں پانی آتے ہی ۔۔مجھ پر مزید گرمی چڑھ گئی ۔۔۔ چنانچہ اسی گرمی کے تحت میں نے ایک نظر کمرے میں دوڑائی اور پھر شبی کی طرف دیکھ کر میں نے اسے دوبارہ سے اپنی باہوں میں لے لیا ۔۔۔اور پھر اس کو اپنے ساتھ چمٹا کر میں نے اپنی دونوں ٹانگوں کو تھوڑا سا اور کھولا اور شبی کی نوک دار چیز کو ۔۔اپنی ۔ دونوں ٹانگوں کے بیچ میں کر لیا ۔۔اور اپنے ہپس کو ہلانے لگی۔ ۔۔ہپس ہلانے سے اس کی نوک دار للی جب میرے دانے سے رگڑ کھاتی تو ۔۔۔ مجھ پر مستی کی ایک عجیب لہر سوار ہو جاتی تھی ۔۔۔۔۔کچھ دیر تک میں ایسا کرتی رہی ۔۔۔۔ میں اس کی للی کو جتنا اپنی چوت کے دانے یا لیکر پر پھیرتی ۔۔۔ میرے اندر اتنی ہی آگ بھڑکتی جاتی تھی۔۔۔ اور پھر تھوڑی بعد ۔۔۔

 اس کی للی رگڑتے ہوئے میری چوت نے پانی چھوڑ دیا ۔۔۔ ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اس نوک دار چیز کو اپنی ۔۔ ٹانگوں کے بیچ سے ہٹایا ۔۔۔اور ۔۔۔۔ تھوڑا ایک طرف ہو کر بیٹھ گئی ۔۔ شبی کے ساتھ اپنے جسم کو ٹچ کرنے ۔۔۔۔۔اور باالخصوص اس کی نوک دار چیز کی میرے دانے پر رگڑ سے مجھے کافی سکون ملا تھا ۔لیکن میرے اندر لگی ہوئی آگ ابھی ٹھنڈی نہ ہوئی تھی ۔اسی لیئے۔۔ میں علحٰیدہ ہو کر ۔دوبارہ سے۔۔ اس کی شلوار میں اُٹھی ہوئی نوک دار چیز کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔ جبکہ دوسری طرف شبی للی کھڑی کیئے ویسے کا ویسا ہی بے سدھ سو رہا تھا ۔۔۔۔ ۔۔اس بات پر میں تھوڑا حیران بھی ہوئی پھر یاد آیا کہ شبی ہمیشہ ہی گھوڑے بیچ کر گہری نیند سویا کرتا تھا لیکن پھر بھی میں نے اپنی تسلی کے لیئے اسے ہلا جُلا کر ٹٹولا تو واقعی ہی اسے سوتے ہوئے پایا ۔ ۔۔۔۔۔ چنانچہ اس طرف سے مطمئن ہو کر کر پہلے تو میں نے اپنی قمیض کو تھوڑا اوپر کیا ۔۔۔۔

اور پھر اپنی چھوٹی چھوٹی چھاتیاں کو ننگا کر دیا ۔۔۔ اور ۔۔۔پھر شبی کی طرف دیکھتے ہوئے میں نے اپنے جزبات سے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑلیا ۔۔۔۔اور۔۔۔ پھر اس کے ہاتھ کو بڑی آہستگی سے اپنی ننگی چھاتیوں پر رکھ دیا۔۔۔ اور پھر اس کے ہاتھ کو پکڑ کر اپنی چھاتیوں پر گھمانے لگی۔۔ ۔۔۔۔ ایسے کرتے ہوئے مجھے بڑی لزت ملی اور ۔۔ پھر اس کا ہاتھ گھماتے ہوئے ۔ مجھے اس کام میں اتنا مزہ ملا۔۔۔ کہ ایسا کرتے ہوئے میری چھاتیوں کے چھوٹے چھوٹے نپل اکڑ گئے اور میرے بدن میں شہوت کی گرمی بڑھنے لگی۔۔۔۔۔۔۔

۔اس لیئے کچھ دیر تک میں اس کے ہاتھ کو اپنی چھاتیوں پر گھماتی رہی ۔۔۔۔پھر اس کے تھوڑی د یر بعد میں اپنی چاپائی سے تھوڑا اوپر اُٹھی اور شبی کی طرف دیکھا ۔۔۔اور اس کی طرف سے کوئی ردِ عمل نہ پا کر میں ۔۔ پھر سے چارپائی پر لیٹ گئی ۔۔۔۔ اور ۔۔۔ خود بخود میرے ہاتھ ۔۔۔اپنی شلوار کے نالے (آزار بند ) کی طرف بڑھ گئے۔۔۔ ہر چند کہ کمرے میں میرے اور شبی کے علاوہ اور کوئی بھی نہ تھا۔۔۔ پھر بھی میں بڑی احتیاط برت رہی تھی ۔۔۔۔اور کوئی بھی حرکت کرنے سے پہلے میں آس پاس کے ماحول کو اچھی طرح چیک کر لیتی تھی۔۔۔ چنانچہ اپنی شلوار کا نالہ کھولنے سے پہلے میں نے ایک بار پھر ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔ اس وقت میرا پورا جسم پسینے میں بھیگا ہوا تھا۔اور بار بار میرے دل میں یہ خیال آ رہا تھا کہ اب بس کروں ۔۔کہ ایسا نہ ہو کہ شبی اُٹھ جائے ۔۔۔۔ یا خدا نخواستہ گھر کا کوئی فرد کھڑکی سے دیکھ نہ لے ۔۔ اسی خوف اور انجان اندیشوں یا شہوت کے باعث میرا سارا جسم بری طرح کانپ رہا تھا ۔۔۔۔ لیکن چونکہ اس وقت میرے سر پر شہوت سوار تھی ۔۔اس لیئے میں ۔۔۔۔ انجانے خوف اور ۔ اندیشو ں ۔ کے ہوتے ہوئے بھی ۔۔۔اپنی شلوار کا نالا کھول رہی تھی۔۔۔۔ پھر میں نے بڑی احتیاط ادھر ادھر اور شبی کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی شلوار کا نالا کھولا ۔۔۔۔ اور پھر شلوار کو اپنے گھٹنوں تک سرکا دیا۔۔۔۔ شلوار نیچی کرنےکے بعد میں ایک بار پھر اوپر اُٹھی اور ۔۔۔ اپنی چوت کو دیکھنے لگی ۔۔۔ لیکن رات اور پھر اوپر سے اس پر بھاری تعداد میں بالوں کے ہونے کی وجہ سے میں اپنی چوت کو اچھی طرح سے نہ دیکھ سکی ۔۔۔ اس لیئے میں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اپنا ایک ہاتھ اپنی پھدی پر رکھا ۔۔۔۔۔۔ اور ایک انگلی سے اپنی چوت کے لب چیک کرنے لگی۔۔۔ اُف ۔۔۔ میری چوت پانی کا پانی اس کے لبوں تک آیا ہوا تھا ۔۔۔ تھوڑی دیر تک میں نے اپنی چوت کے پانی میں انگلی پھیری ۔۔۔۔ پھر ۔۔۔ ایک نظر باہر دروازے کی طرف دیکھا ا ور پھر شبی کی طرف دیکھا۔۔۔۔ تو وہ ہنوز گہری نیند سویا ہوا تھا ۔۔۔۔ چنانچہ پھر سے میں چارپائی پر لیٹ گئی اور ایک بار پھر شبی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔۔۔۔ اور پھر بڑی آہستگی کے ساتھ اسے اپنی پھدی پر لے آئی۔۔۔ اور پھر اس کی ہتھیلی کو اپنے دانے پر ایڈجسٹ کیا اور بڑی نرمی سے اسے اپنے دانے پر مسلنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ۔۔ میرے دانے پر شبی کا ہاتھ لگتے ہی ۔۔۔۔۔۔میں مزے کی انوکھی دینا میں پہنچ گئی۔۔۔اور پھر جوش کے مارے میں اس کا ہاتھ اپنے دانے پر رکھے رکھے ۔۔۔ خود ہی اوپر نیچے ہونے لگی ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ میں کبھی تو اس کے ہاتھ کو اپنے دانے پرلاتی اور کبھی۔۔۔ چوت کے درمیان میں رکھ کر خود خوب ہلنے لگتی تھی۔۔۔ ۔۔۔۔ شبی کے ہاتھ میں پتہ نہیں کیا جادو تھا کہ کچھ ہی دیر بعد    

  ۔۔۔ ۔۔۔ میرے جسم میں مخصوص قسم کی اکڑن پیدا ہو گئی ۔۔ اور اپنے منہ کو سختی کے ساتھ بند کرنے کے باوجود بھی سرگوشیوں کی صورت میں میرے منہ سے مستی بھری آوازیں نکلنے لگیں ۔۔ ۔۔۔۔ایسی آوازیں جو چوت سے پانی نکلتے وقت نکلا کرتی ہیں۔۔۔ اور ۔۔پھر تھوڑی ہی دیر بعد میری چوت کے اندر سے ڈھیر سارا پانی برآمد ہونا شروع ہو گیا۔۔۔۔۔۔اور اس پانی کے نکلتے ہی میں ٹھنڈی پڑنا شروع ہو گئی۔۔۔ چنانچہ جب میری پھدی سے سارا پانی بہہ بہہ کر چارپائی کی چادر میں جزب ہو گیا تو میں نڈھال سی ہو گئی۔۔ اور میں نے شبی کا ہاتھ واپس اپنی جگہ پررکھا ۔۔۔اور ایک بار پھر چارپائی سے اُٹھ کر ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔ اور سب امن شانتی دیکھ کر مطمن ہو گئی ۔۔ اور پھر تھکاوٹ کی وجہ سے ۔۔اپنی پھدی کو صاف کیئے بغیر ہی شلوار باندھی۔اور بستر پر گر گئی ۔۔ اس وقت تھکن کے مارے میرا کافی برا حال تھا ۔۔۔۔چنانچہ بستر پر لیٹتے ہی میں نے شبی کی طرف کمر کی ۔۔۔۔۔ اور کروٹ بدل کر سو گئی۔۔۔

اگلے دن میں معمول کے مطابق اُٹھی اور پھر شبی کو بھی اُٹھا دیا ۔اُٹھتے ہی حسبِ معمول وہ پیشاب کرنے لیئے واش روم کی طرف بھاگ گیا ۔۔۔ اس کے باہر نکلتے ہی میں نے جلدی سے بستر کی چادر کو تبدیل کیا اور پھر سکول کی یونیفارم پہن کر باہر آگئی۔۔۔ اور پھر ناشتہ کرتے ہوئے بڑے غور سے شبی کو نوٹ کرنے لگی۔۔۔ مقصد صرف یہ تھا کہ آیا اس پر رات والے واقعہ کا کوئی اثر تھا کہ نہیں؟ لیکن بظاہر اس پر رات والی واردات کا کوئی خاص اثر دکھائی نہ دے رہا تھا ۔۔۔ سارا کام معمول کے مطابق پا کر میں دل ہی دل ۔۔۔ میں بڑی خوش ہوئی ۔۔۔ اور اس کے بعد میں بھی ناشتہ کر کے سکول جانے کے لیئے روانہ ہو گئی۔۔ اپنی رات والی واردات پر میں پھولے نہیں سما رہی تھی میری یہ حالت میری بیسٹ فرینڈ عاشی نے بھی نوٹ کر لی اور راستے میں مجھ سے پوچھنے لگی کہ کیا بات ہے صبو !!!!! آج تم ضرورت سے زیادہ ہی خوش نظر آ رہی ہو ؟ تو میں نے تھوڑے سوچنے کے بعد اس کو رات والی ساری واردات سنا دی۔۔۔ جسے سن کر وہ بڑی حیران ہوئی اور کہنے لگی۔۔ 

حرام دییئے ۔۔۔۔نکے بھرا نوں تے بخش دینا سی( حرام ذادی چھوٹے بھائی کو تو بخش دیتی) تو میں نے اسے جواب دیتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ جب میں نے اپنی نکی بہن کو ( اشارہ عاشی کی طرف تھا کیونکہ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ وہ میرے چاچے کی بیٹی تھی ) نہیں بخشا تو بھائی کو کیسے بخش سکتی ہوں ۔۔۔ میری بات سن کر عاشی ہنسی اور ایک گالی دیتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ توں پکی حرام دی ایں ۔۔پھد ا یوہنے تیری پھدی ویچ بڑا ووڈا کیڑا اے جیہڑا تینوں سکھ دا سا نہیں لین دیندا ۔۔ ( حرام زادیئے ۔۔۔ پھدی مروانے والی تیری چوت میں بہت بڑا کیڑا ہے جو تجھے چین نہیں لینے دیتا ) اور پھر اس کے بعد اس نے کرید کرید کر مجھ سے رات کے واقعہ کے بارے میں سوالات کرنے شروع کر دیئے جو میں نے تھوڑے مرچ مصالحہ لگا کر اس کو سنا دیا۔۔جسے سن کر اس کا چہرہ سُرخ ہو گیا اور پھر اس نے بڑی شوخی سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔ شبی کا لن کیوں نہیں لیا؟ تو میں نے اسے سچ بتاتے ہوئے کہا کہ یار دل تو بڑا تھا ۔۔۔ لیکن اس کی للی بہت چھوٹی ہے میری بات سن کر وہ کہنے لگی ۔۔۔ کیا سائز تھا اس کی للی کا؟ تو میں اسے اپنی درمیانی انگلی دکھاتے ہوئے بولی ۔۔۔ یہ سائز تھا۔۔۔ عاشی نے بڑے غور سے میری درمیانی انگلی کی طرف دیکھا اور پھر کہنے لگی۔۔ اور موٹائی کتنی تھی؟۔۔تو میں نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ میری اس انگل جتنی ہی موٹی بھی تھی۔۔۔ یہ سن کر اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور کہنے لگی تب تو واقعی ہی تمہارے لیئے اس کی للی بہت چھوٹی تھی۔۔۔۔ پھر ایک دم اس نے مجھے گالی دی اور کہنے لگی ۔۔۔ حرام دیئے ۔۔۔۔ اس چھوٹے سے بچے کی اتنی ہی للی ہو گی نا ۔۔۔ تو میں نےاس کی طرف دیکھ کر دانت نکالتے ہوئے کہا کہ بے شک اتنا ہی ہو گی پر ۔۔۔۔۔۔تُو تو جانتی ہی ہے کہ میں نے اس چھوٹی سی للُی کا کیا کرنا تھا ؟ چونکہ میرا اس چھوٹی سی للی سے گزارا نہیں ہونا تھا اس لیئے میں نے شبی سے دوسرے طریقے سے سُکھ لیا ہے کیونکہ تم تو جانتی ہی ہو کہ مجھے شبی کے لن سے نہیں اپنی پھدی ٹھنڈی کرنے سے غرض تھی اس لیئے میں نے اپنی پھدی کو ہر ممکن طریقے سے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کوشش میں بہت حد تک کامیاب رہی ہوں ۔ تب عاشی نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔ ہلا فیر ہن کی صلاح ای؟ ( اچھا یہ بتاؤ کہ اب تمہارا کیا پروگرام ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ) تو میں نے بھی اس کی طرف دیکھتے ہوئے آنکھ ماری اور کہنے لگی۔۔۔ کہ شام سویرے ہن موجا ں ای موجاں ۔۔۔

سکول میں پہنچی تو زرینہ نے مجھے بتایا کہ آج وہ میرے لیئے ایک دوسرا رسالہ لائی ہے ۔۔۔ اور پھر اس نے وہ رسالہ میرے حوالے کر دیا یہ رسالہ بھی پہلے کی طرح صرف تصویروں سے بھرا ہوا تھا پہلے رسالے کی نسبت اس میں فرق یہ تھا کہ اس میں ننگی گوریوں کے ساتھ حبشیوں کے برعکس گوروں کی تصویریں تھیں حبشیوں کی طرح ان گوروں کے بھی بڑے بڑے لن تھے ۔۔۔ میں نے اور عاشی نے یہ رسالہ پہلے تفریع پھر خالی پیریڈ میں دیکھا ۔ اور اس رسالے کو دیکھ کر مجھ سے زیادہ عاشی بہت زیادہ گرم ہو گئی تھی ۔۔۔ گرم تو میں بھی ہوئی تھی تھی لیکن مجھ پر اس درجے کی گرمی نہ چڑھ سکی تھی کہ جتنی گرمی عاشی کو چڑھی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ابھی رات کو ہی میرا بہت بڑا آرگیزم ہو ا تھا ۔۔جبکہ دوسری طرف عاشی کے گرم ہونے کی ایک وجہ میری صبع والی سیکس سے بھر پور داستان تھی جسے میں نے خوب نمک مرچ لگا کر اسے سنایا تھا اور جسے سن کر اس کے ہوش اُڑ گئے تھے اور وہ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر بار بار مجھ سے ایک ایک لمحے کے بارے میں تفصیل پوچھتی رہی تھی پھر کیا ہوا ؟۔۔۔ تم نے کیا کیا ؟۔۔۔اپنی پھدی کو اس کے جسم کے کس کس حصے پر رگڑا ؟؟ ۔کس جگہ پھدی رگڑنے کا ذیادہ مزہ آیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ دوسرا وہ رسالہ واقعی میں ہی بڑا شاندار تھا ۔۔۔ چنانچہ تفریع کے بعد خالی پیریڈ میں جب میں اور عاشی وہ رسالہ دوسری دفعہ دیکھ رہی تھیں ۔۔۔ تو اچانک ہی عاشی ۔۔۔ نے اپنا منہ میرے کان کے قریب کیا اور کہنے لگی۔۔۔۔میرا کُج کر صبو۔۔۔(صبو میرا کچھ کرو) تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔۔ کیا ذیادہ چڑھ گئی ہے؟ تو وہ بجائے جواب دینے کے کہنے لگی۔۔میں واش روم میں جا رہی ہوں ۔۔۔ جلدی سے تم بھی آ جانا۔۔۔۔۔۔۔۔چنانچہ اس کے جاتے ہی ۔۔۔میں بھی اُٹھی اور ۔۔۔۔اسی کارنر والے واش روم میں جا کر اس کی پھدی کو خوب مسلا تھا جس کی وجہ سے اس کی چوت کا بخار کچھ کم ہوا۔۔۔۔جب اس کو کچھ تسلی ہو گئی تو میں واپس آگئی۔۔۔۔۔۔۔


جاری ہے 

*

Post a Comment (0)