شہوت زادی
قسط 3
چھٹی کے وقت رسالہ واپس کرتے ہوئے زرینہ نے مجھ سے کہا کہ وہ اگلا رسالہ سیکسی کہانیوں والا لائے گی ۔۔جس کی سٹوریاں پڑھ کے تم حیران رہ جاؤ گی ۔۔۔ زرینہ کی بات سن کر میں نے اس کا شکریہ تو ادا کیا ۔۔ لیکن وہ کن کہانیوں کا ذکر کر رہی تھی اس کا میں نے کوئی خاص نوٹس نہیں لیا ۔۔۔ کیونکہ اس وقت میرے ذہن میں رات کو کرنے والا پروگرم چل رہا تھا اور میں دل ہی دل میں یہ پلان بنا رہی تھی کہ آج رات شبی کے ساتھ میں فلاں جگہ اپنی چوت رگڑوں گی ۔۔فلاں جگہ ۔۔۔ پر اس کا ہاتھ رکھوں گی وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔
اسی لیئے چھٹی کے بعد گھر آ کر میں بڑی بے چینی سے رات ہونے کا انتطار کرنے لگی ۔۔۔۔ لیکن رات آنے سے پہلے ہی میرا کام خراب ہو گیا ۔۔۔ مطلب یہ کہ مجھے پیریڈز آ گئے تھے ۔۔چنانچہ یہ دیکھ کر میں نے پیریڈز کے ختم ہونے تک رات والا پروگرام ملتوی کر دیا ۔۔ ہاں سوتے میں اس کے ساتھ ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ جاری رکھی۔۔۔– اگلے دن سکول جاتے ہوئے جب عاشی نے مجھ سے پوچھا کہ رات دی سنا تو میں نے برا سا منہ بناتے ہوئے اسے اپنے پیریڈز کے بارے میں بتایا ۔۔۔ تو میری بات سن کر وہ ہنس پڑی اور کہنے لگی۔۔۔ چنگا ہویا ۔۔اے ۔ ۔۔۔ تیرا یہی علاج ہے ۔۔۔ اسی طرح اگلے چار پانچ روز امن شانتی رہی ہاں اس دوران زرینہ روز ہی اردو کہانیوں پر مبنی پڑھنے والے رسالے لاتی رہی۔۔۔ جن کی کہانیاں پڑھ پڑھ کر میں اور عاشی بڑی خوار ہوئیں۔اور ان سٹوریز کو پڑھ پڑھ کر مجھے اور عاشی کو ایک بار پھر ایک دوسرے کی چوت چاٹنے کا شوق پیدا ہو گیا۔لیکن مصیبت یہ ہوئی کہ جیسے ہی میرے پیریڈز ختم ہوئے عاشی کے شروع ہو گئے اور ہم دونوں ٹھنڈی آہیں بھر نے کے باوجود موقعہ ملنے پر ایک دوسرے کے ساتھ مزے لیتی رہیں –
دوسری طرف زرینہ سے میری دوستی مزید گہری ہو گئی تھی اور پتہ نہیں کیوں ۔۔وہ اکثر ہی میرے سانولے حُسن کی بڑی تعریف کیا کرتی تھی ۔۔آخر ایک دن میں نے اس پوچھ ہی لیا کہ وہ میرے حُسن کی اتنی تعریفیں کیوں کرتی ہے؟ تو میری بات سن کر وہ کہنے لگی۔۔۔۔ایک میں ہی نہیں ۔۔۔ صبو ۔۔جی تمہارے اس نمکین حسن کے تو کافی عاشق پیدا ہو گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اس کی بات سن کر میں بڑی حیران ہوئی اور اس سے پوچھنے لگی کہ عاشق اور میرے ؟؟؟؟ تو وہ بولی ۔۔۔ارے تم کو معلوم نہیں کہ تم کتنی سیکسی لڑکی ہو پھر وہ گنگناتے ہوئے بولی۔۔۔تیری چال بھی سیکسی ۔۔۔۔تیرے بال بھی سیکسی ۔۔۔ تیرے ہونٹ بھی سیکسی ہیں۔۔۔ ۔۔۔۔ پھر اس نے میری طرف دیکھا اور آنکھ مار کر بولی ۔۔۔ میری جان تو سیکسی بہت ہی سیکسی ہے۔۔ اس کے بعد وہ ایک دم سے سیریس ہو گئی اور کہنے لگی ۔۔۔ صبو جی۔۔۔ہمارے گاؤں کا ایک لڑکا تو تمہارا نام لیکر جیتا مرتا ہے ۔۔۔ اور پھر اس کے بعد اس نے اس لڑکے کی مجھ سے محبت کا ۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ ایسا سماع باندھا کہ ۔میں اندر سے باغ باغ ہوئی ۔۔۔ اور اسی خوشی میں ۔۔۔تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد زرینہ سے ۔۔۔بولی ۔۔کہ وہ لڑکا کون ہے ؟ جو میری محبت میں اتنا پاگل ہوا پھرتا ہے تو وہ کہنے لگی۔۔ہے ایک لڑکا جس پر تمہارے حسن کا جادو چل چکا ہے۔۔اس کی بات سن کر میں پھسل ہی گئی اور اس سے کہا بتا نا وہ کون ہے ؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ کیا فائدہ بتانے کا کہ۔۔۔۔ تم ٹھہری ایک نیک پروین ۔۔۔اور مزہبی قسم کی لڑکی ۔۔۔۔۔۔
تم نے اس سے ملنا تو ہے نہیں۔۔اس لیئے اس بے چارے کو اپنی آگ میں جلنے دو۔۔۔ زرینہ کی یہ بات سن کر اندر سے میں تڑپ ہی گئی ۔۔۔اور اس لڑکے کا نام جاننے کے لیئے بے چین ہو گئی ۔۔لیکن بظاہر اسی متانت سے بولی۔۔۔۔۔ تم بتاؤ تو سہی اگر لڑکا اچھا ہو تو ملنے کا بھی سوچ لوں گی ۔۔۔میری بات سن کر اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی آ گئی اور وہ کہنے لگی ۔۔۔اوکے میں بتاتی ہوں اور پھر اس نے مجھے اس لڑکے کے بارے میں تفصیل سے بتایا جو کہ زرینہ کے گاؤں کا رہنے والا تھا ۔۔۔۔ اور وہ بھی زرینہ کے ساتھ ہمارے ٹاؤن میں پڑھنے کے لیئے آتا تھا ۔ میں نے اس لڑکے کو دیکھا ہوا تھا۔ وہ بھی میری طرح سے رنگ میں تھوڑا سانولہ تھا اور مجھ سے ایک کلاس آگے یعنی میٹرک کا سٹوڈنٹ تھا لڑکوں کا سکول ہمارے سکول سے تھوڑا ہی آگے تھا۔۔۔
مجھے اپنے عاشق کے بارے میں بتانے کے بعد زرینہ نے مجھے اس اس بات کی سختی سے تاکید کی تھی کہ میں کسی طور بھی اس بات کا ذکر عاشی سے نہ کروں اور میرے پوچھنے پر کہنے لگی ۔۔۔۔۔ صبو یار اتنی بھولی بھی نہ بنو ۔۔۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ وہ تمھاری "شریکہ برادری" میں سے ہے؟ اور ابھی تو وہ تمھارے ساتھ پڑھتی ہے اور تمہاری دوست ہے۔۔۔ لیکن سوچو اگر کل کو ۔۔۔ ۔۔ تمہارے ساتھ لوگوں کی ان بن بھی ہو سکتی ہے ۔۔۔تو ایسے موقعہ پر شریکے والیاں ایک دوسرے کا سارا کھچا چھٹا کھول کے رکھ دیتی ہیں ۔اس لیئے میری مانو تو اس بات کا اس سے ذکر نہ کرو ۔۔غرض کہ یہ بات اس نے کچھ ایسے طریقے سے سمجھائی کہ میں نے عاشی سے اس بات کا زکر نہ کرنے کی ٹھان لی۔۔۔ ادھر دن بدن زرینہ سے میری قربت کو دیکھ کر عاشی نے بھی ایک دو ست بنا لی تھی۔۔ لیکن اس کے باوجود ہم دونوں اکھٹے ہی سکول آتی جاتی تھیں۔۔۔اور موقعہ ملنے پر ۔۔ایک دوسری کے ساتھ مزے بھی لیتی تھیں۔۔۔اور اب تو ہم نے ایک دوسری کی پھدیاں بھی چاٹنا شروع کر دیں تھیں چنانچہ گھر وں تک ہماری دوستی ابھی تک ویسی کی ویسی تھی ۔۔۔۔۔ لیکن سکول میں آ کر ہم دونوں الگ الگ ہو جاتیں تھیں ۔۔اور سارا دن اپنی اپنی دوستوں کے ساتھ مگن رہتیں تھی ۔۔۔۔مزے کی بات یہ ہے کہ ابھی تک آپس میں ہم نے اس تبدیلی کے بارے میں ایک دوسرے کے ساتھ کوئی ڈسکس نہیں کی تھی ۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ہم دونوں نے ایک خاموش معاہدے کے تحت اس تبدیلی کو قبول کر لیا تھا اور اب ہم دونوں ہی اپنی اپنی کمپنی میں خوش تھیں ۔۔۔ ہاں ایک بات بتانا تو میں بھول ہی گئی کہ اس عاشقی کے ساتھ ساتھ شبی کے ساتھ میرا رات کا پروگرام بھی جاری تھا۔۔۔ زرینہ نے جس لڑکا کو میرا عاشق بتایا تھا اس کا نام اظہر تھا ۔۔وہ ایک بھرے ہوئے جسم کا مالک تھا۔۔ ۔۔ اور جس دن سے میں نے زرینہ کو اظہر کے بارے میں تھوڑی آمادگی ظاہر کی تھی اس سے اگلے دن سے اظہر روز ہی چھٹی کے وقت مجھے اپنی شکل دکھاتا تھا ۔وہ یوں کہ اکثر ہی چھٹی کے وقت وہ ۔۔ہمارے راستے میں کہیں نہ کہیں کھڑا ہوتا تھا ۔اور اس بات کا صرف مجھے پتہ ہوتا تھا کہ وہ میرے لیئے کھڑا ہے ۔۔ میں اس کو روز دیکھتی ضرور تھی لیکن عاشی کے سامنے نہ تو میں نے اس کے ساتھ کوئی اشارہ بازی کی تھی اور نہ ہی اس کے متعلق اس سے کوئی گفتگو کی تھی
۔۔اور مزے کی بات یہ ہے کہ اظہر کبھی ایک مخصوص جگہ پر نہیں کھڑا ہوتا تھا ۔۔ بلکہ میرے کہنے پر وہ روز جگہ بدل بدل کر ہمارے گھر کے راستے میں کہیں نہ کہیں کھڑا مل جاتا تھا۔۔۔۔ میں اور عاشی بڑے نارمل طریقے سے اس کے پاس سے گزر جاتی تھیں ۔ نہ میں اس سے کچھ کہتی اور نہ ہی وہ مجھ سے کوئی بات کرنے کی کوشش کرتا ۔۔۔ بس وہ روزانہ بقول زرینہ کے صرف میرے دیدار کے لیئے کھڑا ہوتا تھا ۔۔۔ اور جیسے ہی ہم اس کے پاس سے گزرتیں تو چند سکینڈ کے لیئے ہم دونوں کی نظروں سے نظریں ملا کرتی تھیں۔۔۔۔۔اور ان چند سیکنڈز میں ایک دوسرے سے ملنے والی ہماری نظریں بڑا کچھ کہہ جاتی تھیں۔۔۔ روز روز اس کے کھڑے ہونے سے عاشی کو کُھد بُد تو تھی لیکن چونکہ اس کے سامنے نہ تو میں نے کسی قسم کی دل چسپی کا اظہار کیا تھا اور نہ ہی اس نے کبھی کوئی اشارہ کیا تھا۔۔۔ اس لیئے عاشی چپ رہتی تھی ۔۔۔ ہاں ایک دو دفعہ اس نے یہ ضرور کہا کہ یہ لڑکا ہمیں روز ہی کہیں نہ کہیں کھڑا ملتا ہے اس پر میں نے اپنے لہجے کو بڑا ہی سرسری سا بنا کر اس سے کہا کہ چھٹی کا وقت ہے۔۔۔۔ یہ بھی دوسرے لڑکوں کی طرح لڑکیوں کو تاڑنے آتا ہو گا میری بات سن کر عاشی نے بڑی گہری نظروں سے میری طرف دیکھا ۔۔۔۔۔ لیکن وہ منہ سے کچھ نہیں بولی ۔۔۔۔اسی دوران زرینہ مجھ سے اظہر کے پیغامات شئیر کیا کرتی تھی ۔۔ ایک دفعہ اس نے اظہر کا رقعہ بھی دینے کی کوشش کی تھی لیکن میں نے ڈر کے مارے وہ رقعہ لینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔۔۔ اس لیئے اب زرینہ صرف اس کے پیغامات ہی دیا کرتی تھی۔ جس سے پتہ چلتا تھا کہ وہ مجھ سے بڑی محبت کرتا تھا اور میرے لیئے جان بھی دے سکتا تھا ۔۔اس کے ساتھ ساتھ ہر پیغام میں وہ مجھ سے ملنے کی بھی درخواست کیا کرتا تھا۔۔
ایک دن زرینہ نے مجھ سے کہا کہ صبو۔۔ اظہری کہہ رہا ہے کہ اور کتنا تڑپاؤ گی ؟؟۔۔۔۔بس ایک ملاقات ہی کرلو ۔۔۔کہ مجھے کچھ صبر آ جائے۔۔۔پھر کہنے لگی ۔۔۔ وہ تم سے ملنے کو بہت بے تاب ہے اس وقت تک میرے دل میں بھی اظہر کے لیئے کافی تڑپ پیدا ہو چکی تھی اور سیکسی سٹوریز پڑھ پڑھ کے ویسے ہی میری مت ماری ہوئی تھی اور میری پھدی موٹا سا لن مانگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اس لیئے میں نے اظہری کا پیغام سن کر اس سے کہا کہ یار اب تو میرا بھی اظہری سے ملنے کو بہت دل کرتا ہے ۔۔۔۔ لیکن اس طرح ملنے سے مجھے بہت ڈر لگتا ہے کہ اگر کسی کو پتہ چل گیا تو ؟ تم تو جانتی ہی ہو کہ ہماری فیملی کتنی مزہبی ہے اگر کسی طرح ان کو پتہ چل گیا تو میرے ابا مجھے زندہ گاڑ دیں گے ۔۔پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے مزید بولی کہ دوسری بات کہ جس کی وجہ سے میں نہیں مل سکتی ۔۔اس کے بارے میں تم اچھی طرح سے جانتی ہو۔۔۔ کہ میرے ساتھ ایک چوکیدار بھی ہوتا ہے ۔۔۔ ( چوکیدار سے میری مراد عاشی سے تھی کہ جو روزانہ مر ے ساتھ سکول آتی جاتی تھی) میری بات سن کر وہ کہنے لگی ۔۔ تمہاری دونوں باتیں ٹھیک ہیں ۔۔ لیکن یار میں کیا کروں کہ وہ تم سے ملنے کے لیئے مرا جا رہا ہے ۔۔۔ تم ہاں کرو تو میں تم سے اس کی ملاقات کروا سکتی ہوں ۔۔۔ کیسے کرواتی ہوں یہ مجھ پہ چھوڑ دو۔ پھر اس نے اپنا منہ میرے کان کے قریب لے آئی اور سرگوشی میں کہنے لگی ۔۔۔کہ میں تمہاری اظہری کے ساتھ ایسے خفیہ طریقے سے ملاقات کرواؤں گی کہ کسی کو کانوں کان بھی اس بات کی خبر نہیں ہو گی ۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اور بھی بہت سی چکنی چپڑی باتیں کیں اور مجھے بھر پور تسلی دی ۔۔۔اور اس کے تسلی کے بعد میں اس اظہر سے ملنے پر راضی ہو گئی۔۔۔
پھر ایک دن کی بات ہے کہ اتفاق سے اس دن بخار کی وجہ سے عاشی سکول نہیں آئی تھی ۔۔۔۔ اسمبلی کے وقت میں نے یہ بات زرینہ کو بتا دی کہ بخار کی وجہ سے عاشی آج نہیں آئی ہے۔۔۔۔۔ ۔۔۔ میری بات سن کر وہ بڑی خوش ہوئی اور مجھ سے کہنے لگی کیا خیال ہے ۔۔۔آج یار سے ملاقات نہ کر لی جائے ؟؟؟؟۔۔۔پھر اسملی ختم ہونے کے بعد مجھ سے کہنے لگی۔۔۔ تیار ہو جاؤ صبو۔۔۔ ۔۔ آج میں تمھاری اظہر سے ملاقات کرواؤں گی اس کی بات سن کر پتہ نہیں کیوں میرا دل دھڑکنے لگا ۔۔اور میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ اس سے پوچھا ۔۔ ملاقات کیسے کراؤ گی کہ اس بات کا تو اظہر کو پتہ ہی نہیں ہے ۔۔تو وہ کہنے لگی۔۔یار تُو اس بات کی چنتا نہ کر ۔۔۔۔ اظہر سے تمہاری ملاقات کرانا میرا کام ہے ۔۔پھر کہنے لگی ۔۔۔۔۔تمہیں پتہ ہے ۔۔۔اس ملاقات کے لیئے وہ روز ہی میری منتیں کرتا رہتا ہے۔ اس کے بعد اس نے میری طرف دیکھا اور بولی آج چھٹی کے وقت عاشی کی جگہ میں تمہارے ساتھ جاؤں گی اور جہاں جہاں میں تمہیں لے جاؤں تم نے چپ چاپ میرے ساتھ چلنا ہو گا۔ ۔۔۔ رہی اظہر کی بات تو میں اسے اشارے سے بتا دوں گی۔۔۔ پھر کہنے لگی۔۔۔ تم دونوں کی ملاقات کے لیئے پہلے سے ہی میں نے جگہ سوچی ہوئی ہے۔۔۔
اس دن سکول میں ۔۔۔ میں سارا دن اظہر کے بارے میں ہی سوچتی رہی۔۔۔ اور چھٹی کا انتظار کرتی رہی ۔۔ پھر خدا خدا کر کے چھٹی کی گھنٹی بجی جیسے ہی میں جانے کے اُٹھی تو زرینہ نے مجھے بیٹھے رہنے کا اشارہ کیا ۔۔۔اور پھر جب ساری کلاس چلی گئی تو سب سے آخر میں ہم دونوں سکول سے نکلیں اور میں دھڑکتے دل کے ساتھ اظہر سے ملنے کے لیئے چل پڑی اس وقت میری عجیب حالت ہو رہی تھی ۔۔۔ڈر بھی لگ رہا تھا اور اظہر سے ملنے کا شوق بھی غالب آ رہا تھا۔۔۔ راستے میں زرینہ پتہ نہیں کیا کیا باتیں کر رہی تھی لیکن میں اپنی ہی سوچوں میں گم اس کے ساتھ چلی جا رہی تھی۔۔۔ سکول سے تھوڑے ہی فاصلے پر ہمیں اظہر کھڑا ملا ۔۔۔ جس کو دیکھ کر زرینہ نے مجھے کہنی ماری اور کہنے لگی۔۔۔ وہ دیکھ سامنے تیرا یار کھڑا ہے ۔۔ پھر پتہ نہیں اس نے اظہری کو کیا اشارہ کیا کہ وہ ایک دم سے تقریباً بھاگتا ہوا وہاں سے چل پڑا۔۔۔ اس کو یوں جاتے دیکھ کر میں نے زرینہ سے کہا ۔۔۔ کہ اسے کیا ہوا ہے؟ تو وہ بولی۔۔۔ کچھ نہیں میں نے اشارے سے ملاقات والی جگہ جانے کا بتایا ہے ۔۔۔ اس کی بات سن کر میں بڑی حیران ہوئی اور اس سے بولی ۔۔۔ ملاقات والی جگہ ؟ یہ کہاں ہے ؟ تو وہ میری طرف آنکھ مار کر کہنے لگی ابھی پتہ چل جائے گا۔۔۔پھر میرے اصرار پر اس نے بتلایا کہ اس ملاقات والی جگہ کے بارے میں بتایا ۔۔۔
کسی زمانے میں ہمارے ٹاؤن میں ایک چھوٹا سا ڈنگر ہسپتال بنا تھا ۔۔ جس میں ایک ڈنگر ڈاکٹر اور اس کا باقی سٹاف ہوا کرتا تھا ۔۔۔ پھر ایسا ہوا کہ اس ڈاکٹر صاحب کا وہاں سے تبادلہ ہو گیا ۔۔اور کافی عرصہ تک کوئی نیا ڈنگر ڈاکٹر وہاں تعین نہ ہو سکا ۔۔ پھر ہمارے پاس کے ایک گاؤں کے لڑکے نے جو کہ نیا نیا ویٹنری ڈاکٹر جسے ہم ڈنگر ڈاکٹر یا سلوتری بھی کہتے ہیں نے اپنا ٹرانسفر وہاں کروا لیا ۔۔۔ لیکن بجائے ہمارے قصبے میں آنے کے اس نے اپنے گاؤں میں یہ کام شروع کر دیا اور ہپستال کی ساری دوائیاں وغیرہ اپنے ہاں لے گیا ۔۔اسی طرح جب سارا سامان وہاں شفٹ ہو گیا تو باقی سٹاف بھی وہاں چلا گیا ہاں اس کا چوکیدار ہفتے میں ایک آدھ چکر لگا لیا کرتا تھا ۔۔۔۔ لیکن وہ بھی صرف چکر لگا کر چلا جایا کرتا تھا ۔۔۔اور اس طرح ہسپتال کی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ اس کی حالت خستہ ہونے لگی ۔۔۔
یہ ہسپتال ہمارے ٹاؤن کے ایک کونےپر واقعہ تھا اور اس ہسپتال کے آگے کھیت وغیرہ شروع ہو جاتے تھے ۔۔ اور ہسپتال کی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے خصوصاً اس کی بیک سائیڈ پر پاس کافی خود رپودے اور جھاڑیں اُگ آ ئیں تھیں ۔۔۔اور ان جھاڑوں کے پاس بہت سارے درختوں کا ایک جھنڈ تھا اور ہم نے اس ہسپتال کے پیچھے ان جھاڑیوں کی اوڑھ میں ملنا تھا ۔۔۔ کیونکہ ہسپتال کے سامنے سے زرینہ کے گاؤں کو راستہ جاتا تھا ۔۔۔ اوراس راستے سے تھوڑا ہٹ کر یہ ہسپتال بنا تھا جو آج کل ویران تھا ۔۔ ہاں شام کو ہمارے گاؤں کے لڑکے یہاں کرکٹ یا والی بال وغیرہ کھیلتے تھے۔۔۔ چنانچہ میں اور زرینہ چلتے ہوئے وہاں پہنچ گئیں ۔۔ جیسے ہی ہسپتا ل نزدیک آیا ۔۔۔تو زرینہ نے ایک نظر پیچھے دیکھا اور پھر مجھ سے کہنے لگی ہسپتال کی پچھلی سائیڈ پر وہ جو بڑی بڑی جھاڑیا ں ہیں نا ۔۔۔۔۔۔ وہاں تمہارا یار کھڑا ہو گا تم جاؤ۔۔۔ اور اگر کسی نے راستے میں پوچھ لیا تو کہہ دینا کہ میں یہاں پیشاب کرنے آئی تھی۔۔ ۔۔ اب میں نے ایک نظر زرینہ کی طرف اور پھر بڑی بڑی جھاڑیوں کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے تم بھی ساتھ چلو نا۔۔۔ میری بات سن کر وہ ہنس پڑی اور کہنے لگی کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔ تو جا ۔۔۔تمہاری چوکیداری کے لیئے میں یہاں کھڑی ہوں نا۔۔۔۔ اورپھر وہ مجھے دھکا دے کر بولی۔۔۔ یہ جھاڑیاں بس دور سے ایسی لگتی ہیں ۔۔ تم پاس جاؤ گی تو پتہ چلے گا کہ اندر ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔۔۔اس کی بات سن کر میں نے ڈرتے ڈرتے وہاں پہلا قدم رکھ دیا۔۔۔ ہسپتال کے پیچھے بڑی بڑی جھاڑیاں اور گھاس پھونس اُگی ہوئی تھی ۔۔۔۔اور انہی جھاڑیوں کے بیچ میں کہیں وہ کھڑا تھا۔۔۔ اس وقت میرا دل دھک دھک کر رہا تھا اور میں ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بڑی احتیاط سے چلی جا رہی تھی۔۔۔۔ ابھی میں نے تھوڑا ہی راستہ طے کیا تھا کہ اچانک ہی اظہری میرے سامنے آ کر کھڑا ہوگیا۔۔۔۔ اسے یوں اچانک سامنے دیکھ کر میری تو چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔۔۔ اور اسے دیکھ کر میں نے شرم سے اپنا چہرہ جھکا لیا۔۔۔ اس وقت پتہ نہیں کیوں مجھے اس سے بڑی شرم ا ٓرہی تھی۔۔۔ اور اپنی اس حالت پہ میں خود بھی حیران تھی ۔۔ کیونکہ میں وہ لڑکی تھی جو کہ آدھی رات کو اپنی شلوار اتار کے بھائی کے ساتھ مزے لیتی تھی۔۔۔۔ لیکن اس وقت میں شرم سے دھری ہوئی جا رہی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ میں کانپ بھی رہی تھی۔۔۔ کچھ دیر تک ہم دونوں میں مکمل خاموشی رہی
پھر اس نے ہی ابتدا کی اور بولا ۔۔۔ ۔۔۔۔ کیسی ہو صبو؟ تو میں نے بجائے جواب دینے کے اپناسر ہلا دیا۔۔۔۔ میری حالت دیکھ کر وہ تھوڑا ہنسا اور کہنے لگا۔۔۔۔ یہ تم اتنی کانپ کیوں رہی ہو؟ میری طرف دیکھو میں کوئی بھو ُ بلا (بھوت) تو نہیں ہوں ۔۔۔ پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑا ۔۔۔ اور بولا ۔۔ پلیزززز مجھ سے نہ ڈرو۔۔۔ لیکن یہ ڈرنا میرے بس میں تھوڑی تھا ۔۔۔اس لیئے میں ویسے ہی سر جھکائے کانپتی رہی تھوڑی دیر بعد اس نے اپنے ہاتھ میری تھوڑی پر رکھا اور میرا منہ اوپر کر دیا ۔۔۔ اور بڑے ہی رومانٹک لہجے میں بولا ۔۔ صبو ۔۔۔ آئی لو یو۔۔۔۔ پھر بولا ۔۔ تم بھی مجھ سے پیار کرتی ہو؟ تو میں نے اس کی طرف دیکھے بغیر ہی ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔۔ جسے دیکھ کر وہ کہنے لگا ۔۔۔ میری جان میں تمہارے منہ سے یہ بات سننا چاہتا ہوں۔۔ اور پھر اس کے بار بار اصرار پر میں نے ۔۔ صرف اتنا کہا ۔۔۔ جی میں وی۔۔۔ کہہ کر دوبارہ سے سر جھکا لیا اس وقت شرم کے مارے میرا سانولہ چہرہ لال ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد اس نے مجھ سے تھوڑی اور محبت بھری باتیں کیں ۔۔۔ جن کا میں نے بس ہوں ۔۔ہاں ۔۔۔ میں جواب دیا۔۔۔۔ اور پھر اس سے کہنے لگی ۔۔۔ اب میں چلتی ہوں ۔۔ میری بات سن کر وہ تڑپ گیا اور کہنے لگا۔۔۔۔ ابھی تو آئی ہو ۔۔۔ لیکن میرے باربار اصرار پر وہ کہنے لگا۔۔۔۔اچھا ایک شرط پر اجازت دیتا ہوں ۔۔۔ تم کل پھر آنا ۔۔۔ تو میں نے کہا۔۔۔ جی کوشش کروں گی ۔۔۔ میری یہ بات سن کر وہ بڑا خوش ہوا ۔۔۔اور اس نے آگے بڑھ کر مجھے اپنے گلے سے لگا لیا۔۔۔۔ اور پھر فوراً ہی میرے گالوں کو چوم کر بولا۔۔۔۔۔۔ پلیزززززززز کل ضرور آنا۔میں انتظار کروں گا ۔۔اور میں اس سے وعدہ کر کے جس راستے سے آئی تھی اسی راستے سے واپس آگئی۔۔۔۔
میں نے اس سے کل آنے کا وعدہ تو کر لیا تھا لیکن دل ہی دل میں یہ سوچ رہی تھی کہ کل اس سے کیسے ملوں گی؟ پھر خیال آیا کہ اگر عاشی ۔۔۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی میں دل ہی دل میں عاشی کو مزید بیمار رہنے کی دعائیں کرنے لگی۔۔۔ہر چند کہ اظہر کے ساتھ ملاقات میں ۔۔۔۔ میں نے کچھ نہیں کہا تھا ۔۔۔ لیکن خاص کر مجھے اس سے گلے ملنے کا بہت مزہ آیا تھا ۔۔۔اور جو اس نے میرے گال کو چاما تھا۔۔۔وہ تو اور بھی "صوادلہ" تھا۔۔۔۔۔چنانچہ اس دن میں عاشی کے مزید بیمار رہنے کی دعائیں مانگتی رہی۔۔۔ اور میری یہ دعا ۔۔۔ یوں قبول ہوئی کہ ۔۔۔ اسی شام میرے چاچے کو اطلا ع ملی کہ عاشی کے نانا پر فالج کا اٹیک ہوا ہے ۔۔ اس اطلاع کا ملنا تھا کہ عاشی اور اس کی اماں بمعہ میری ماں کے فوراً ہی نانا کی خبر گیری کے لیئے روانہ ہو گئے۔۔۔ عاشی جاتے جاتے مجھے چار دن کی چھٹی کی درخواست بھی دے گئی تھی ۔
آپ نے وہ محاورہ تو ضرور سنا ہو گا ۔۔۔ کہ سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا۔۔۔۔ تو اس وقت یہ محاور مجھ پر بڑا فٹ نظر آ رہا تھا ۔۔۔ کیونکہ ایک تو چوکیدار یعنی کہ عاشی نہیں تھی اور دوسری گھر لیٹ آنے پر باز پرس کرنے والی میری اماں ۔۔۔۔بھی تین چار دن کے لیئے گھر سے چلی گئی تھی۔۔۔۔ اس لیئے اب میں بے غم ہو کر اپنے محبوب یعنی کہ اظہری سے مل سکتی تھی۔۔۔
چنانچہ اگلے دو تین دن میں اور اظہری ہسپتال کے پیچھے اُگی ہوئی انہیں بڑی بڑی جھاڑویوں میں ملتے رہے ۔۔اور ان دو تین ملاقاتوں میں ۔۔۔ میرا ڈر خاصہ دور ہو گیا تھا ۔۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ آخری ملاقات میں اس نے جاتی دفعہ میرے ساتھ لپ کسنگ بھی کی تھی۔۔۔ اور یہ پہلی دفعہ تھی کہ کسی مرد کے ہونٹوں نے میرے کنواروں ہونٹوں کو چھوا تھا ۔۔ اور مجھے اس کے ہونٹوں کا لمس اتنا اچھا لگا تھا ۔ کہ میرا دل چاہ رہا تھا کہ وہ میرے ہونٹ چوستا جائے ۔۔۔۔ ہوا کچھ یوں تھا ۔۔کہ جب میں نے اظہری سے وداع لینے کا کہا تو حسبِ معمول اس نے مجھے اپنے گلے سے لگا لیا۔۔۔اور پھربجائے گالوں پر کس کرنے کے اس نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیئے۔۔۔ اور اس کے ہونٹوں کا میرے ہونٹوں سے مس ہونا تھا کہ میرے اندر ایک عجیب سی مستی بھر گئی ۔۔۔۔ ا ور اسی مستی کے عالم میں ۔۔۔ میں اس کے اور قریب ہو گئی۔۔۔۔ ادھر کچھ دیر تک وہ میرے ہونٹوں کو چوستا رہا ۔۔۔۔۔پھر اچانک ہی اس نے اپنی زبان میرے منہ میں ڈال دی۔۔۔اُف۔ف۔فف۔ف۔ف۔ف۔۔ف۔۔۔۔۔ اس کی زبان کا میری زبان سے ٹکرانا تھا۔۔۔ کہ میرے سارے وجود میں ایک کرنٹ سا دوڑ گیا۔۔۔اوراس سے قبل کہ میں اپنے حواس کھوبیٹھتی ۔۔۔ میں فوراً اس سے الگ ہو گئی ۔۔۔اور پھر ۔۔۔ بھاگ کر واپس چلی گئی۔۔۔۔۔ بھاگی اس لیئے کہ میرے اندر شہوت نے سر اُٹھانا شروع کر دیا تھا۔۔۔اور مجھے معلوم تھا کہ اگر اس نے ایسے ہی اپنی زبان کا میری زبان سے ٹکراؤ جاری رکھا تو ۔۔۔۔میری شہوت بے قابو ہو جائے گی ۔۔۔۔۔اور اگر میری شہوت بے قابو ہو گئی تو۔۔۔۔۔۔۔ اسی لیئے میں وہاں بھاگ آئی تھی۔۔۔
یہ اس دن کا واقعہ ہے کہ جس کے اگلے دن امی لوگوں نے واپس آنا تھا ۔۔۔اس دن کلاس میں بیٹھی ہوئی زرینہ نے مجھ سے کہا۔۔۔ کل بڑی بھاگی جا رہی تھی۔۔ خیر یت تو تھی ؟؟؟ تو میں نے اس سے کسنگ کے بارے میں بتایا ۔۔۔تو سن کر اس نے ایک جھرجھری سی لی اور کہنے لگی۔۔۔ یار زبانوں کے ٹکراؤ سے تو واقعی ہی بڑی آگ لگ جاتی ہے ۔۔۔ پھر مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔۔ کتنا مزہ آیا تھا ؟ تو میں نے سرخ ہوتے ہوئے کہا کہ مت پوچھ یار۔۔۔۔ اس پر وہ کہنے لگی ۔۔۔صبو تیرے ہونٹ بڑے جوسی اور سیکسی ہیں ۔پھر کہنے لگی۔۔۔ جب تم کو اتنا مزہ مل رہا تھا تو پھر مزے کو جی بھر کے لینا تھا ۔۔۔۔ یوں بیچ میں چھوڑ کے کیوں بھاگ آئی تھی؟۔۔۔ تو میں نے اس سے جھوٹ بولتے ہوئے کہا۔۔۔یار مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں کوئی آ نا جائے۔۔۔ تم کو تو پتہ ہے کہ وہ اوپن سی جگہ ہے جہاں کسی بھی وقت کوئی بھی آ سکتا ہے ۔۔۔ یہ سن کر اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی کہتی تو ٹھیک ہے یار۔۔۔۔۔ پھر اس کے بعد اس نے میرے ہونٹوں پراپنی انگلی رکھی اور میرے نرم ہونٹوں پر پھیر کر بولی ۔۔سچ کہہ رہی ہوں صبو۔ ۔۔ میرے خیال میں تو تم سے زیادہ ہونٹوں کی کسنگ کا ۔۔۔اظہری کو مزہ آیا ہو گا۔۔۔۔پھر کہنے لگی۔۔۔ چلو آج جی بھر کے اس کے ساتھ کسنگ کر لینا۔۔۔ آج میں تم سے اس کی ملاقات ایک ایسی جگہ کروؤں گی کہ جہاں کوئی ڈر جھکا نہیں ہو گا۔۔۔۔۔ اس پر میں نے اس سے پوچھا کیا مطلب؟؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ اوہ ۔۔سوری یار میں تم کو ایک بات تو بتانا بھول ہی گئی تھی کہ آج ہم لوگ ہسپتال کے اندر ملیں گے؟ اس کی بات سن کر میں حیران ہو گئی اور اس سے بولی ۔۔۔
ہسپتال کے اندر لیکن وہ کیسے ؟ اس کے تو گیٹ پر تالہ ہوتا ہے؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ بھولے بادشاہو ۔۔ تالا تو ہسپتال کے سامنے اس کے مین گیٹ پر ہوتا ہے ۔۔۔۔ پیچھے تو نہیں نا۔۔۔۔۔اس پر میں نے نہ سمجھتے ہوئے اس کی طرف دیکھا تو وہ کہنے لگی۔۔۔۔ اچھا میں تم کو تفصیل سے بتاتی ہوں پھر کہنے لگی۔۔۔ سنو صبو ۔۔۔ ڈنگر ہسپتال کی پچھلی دیوار کی کچھ اینٹیں ۔۔کافی عرصہ سے اکھڑی ہوئی ہے ۔۔اس لیئے اکثر میں اور میرا یار اس دیوار کو پھلانگ کر اندر کمروں میں ملتے ہیں ۔۔۔ وہاں نہ تو کسی کے آنے کا ڈر ہوتا ہے اور نہ کوئی آتا ہے۔۔اس لیئے آج میں اپنے یار سے اور تم اپنے یار سے ۔۔۔ہسپتال کی بیک سائیڈ سے اسی ٹوٹی دیوار کو پھلانگ کر ملیں گے۔۔۔۔ پھر آنکھ بند کر کے بولی ۔۔۔ وہاں کسی کا ڈر بھی نہیں ہو گا ۔۔۔ جتنی دیر مرضی ہے اپنے یار کے ساتھ کسنگ کرنا۔۔۔۔ اس کی بات سن کر میں بڑی خوش ہوئی اور تھوڑی سی انکوائیری کے بعد میں مطمئن سی ہو گئی۔۔۔۔۔
دوپہر کا وقت تھا میں اور زرینہ ادھر ادھر دیکھ کر ہسپتال کی چار دیوار پھلانگ رہیں تھیں ۔دیوار پھلانگ کر میں نے ہسپتال کے اندر نظر دوڑائی ۔۔۔تو ہر طرف ویرانی ۔۔۔اور سناٹے کا راج تھا۔۔۔۔ ابھی میں ہسپتال کا جائزہ لے ہی رہی تھی کہ زرینہ مجھے لیکر کر ایک سائیڈ پر بنے دو تین کمروں کے شیڈ کی طرف لے آئی ۔۔۔ اور پہلے کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے دیکھا کہ ۔۔۔ ہم سے پہلے ہی اس کمرے میں اظہر اور اس کے ساتھ ایک اور ہینڈ سم سا لڑکا کھڑا تھا ۔۔۔ جسے میں نہیں جانتی تھی لیکن اس دیکھ کر میں سمجھ گئی کہ یہی زرینہ کا"یار" ہو گا۔۔۔ تھوڑی علیک سلیک کے بعد اظہر نے میرا ہاتھ پکڑا اور ان سے کہنے لگا۔۔۔۔ اچھا جی آپ یہاں بیٹھ کر ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرو ۔۔۔میں اور صبو ۔۔ دوسرےکمرے میں جا رہے ہیں ۔۔ ا س کے ساتھ ہی ہم دونوں اس شیڈ کے اگلے کمرے میں آ گئے ۔۔
۔۔۔۔ وہ ایک بڑا سا کمرہ تھا جہاں کسی زمانے میں جانوروں کو باندھا جاتا ہو گا ۔۔ لیکن اس وقت وہ بلکل خالی تھا۔۔۔۔ بس ایک طرف کافی سارا گھاس پھونس پڑا ہوا تھا۔۔۔۔ ابھی میں کمرے کا جائزہ ہی لے رہی تھی کہ اظہر نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا اور کہنے لگا ۔۔ساڈے ول تک سجنا ۔۔۔(میری جان میری طرف بھی دیکھو) اس جیسے ہی میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ جلدی سے آگے بڑھا اور مجھے اپنے گلے سے لگا لیا اور میرے گال کو چوم کر بولا ۔۔ کہ۔۔۔ کل کیوں بھاگ گئی تھی؟ تو میں نے اس سے کہا کہ مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ کوئی آ نہ جائے۔۔ اس پر وہ کہنے لگا۔آج نہیں بھاگنا ۔۔تو میں نے بڑی شوخی کے ساتھ اس سے پوچھا وہ کیوں جی؟ تو وہ ایک بار پھر میرے گال کو چوم کر بولا کہ وہ اس لیئے جی کہ یہاں کوئی آتا جاتا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے میرے گرد اپنے باز وؤں کی گرفت مضبوط کی اور ۔۔ میری چھاتیوں کے ساتھ اپنی چھاتی کو پریس کرتے ہوئے کہنے لگا۔۔ وعدہ کرو ۔۔۔آج تو نہیں بھاگو گی نا۔۔۔ تو میں نے اس کی باہنوں میں کسماتے ہوئے کہا ۔۔ کہ نہیں میری جان ۔۔۔۔آج میں ادھر ہی ہوں تمہارے پاس!!۔۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ بڑا خوش ہوا اور اپنے منہ کو میرے کان کے قریب لاکر بولا۔۔ آئی لو یو میری جان ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے منہ کو تھوڑا نیچے کیا اور میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے ۔۔۔اور اس کے فوراً بعد اس نے اپنی زبان کو میرے منہ میں ڈال دیا۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی اس کی زبان میری زبان کے ساتھ ٹکرانے لگی۔۔۔۔اس ٹکراؤ کے ساتھ ساتھ اس کا ایک ہاتھ میری چھاتیوں پر چلا گیا اور وہ بڑی آہستگی کے ساتھ میری چھاتیوں کو دبانے لگا۔جس سے مجھے مزہ ملنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔
زبان کو چوسنے کے ساتھ ساتھ اس کا ہاتھ میرے سینے پر پھیرنے سے میرے اندر ایک عجیب سی کیفیت جنم لے رہی تھی۔۔اور اسی کیفیت کے زیرِ اثر میں بھی اس کے ساتھ چپک کر لگ گئی تھی ۔۔۔۔ اسی دوران مجھے اپنی دونوں رانوں کے بیچ اس کا سانپ لہراتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔اور ابھی میں اس صورتِ حال کا جائزہ ہی لے رہی تھی کہ اچانک اس کا ایک ہاتھ سرسراتا ہوا میرے قمیض کے نیچے آیا ۔۔۔اور ۔۔۔ میرے آزار بند کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ اس کا ہاتھ میرے آزار بند تک پہنچتا میں نے ایک دم سے اسکے بڑھتے ہوئے ہاتھ کو پکڑ لیا۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس سے الگ ہو گئی۔۔۔ تب اس نے بڑے پیار سے میری طرف دیکھا اور نشیلی آواز میں بولا ۔۔۔۔ میرا ہاتھ چھوڑ دو ۔۔۔پلیزززززززززز۔۔۔ تو میں نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے اس سے کہا ۔۔۔ نہیں ۔۔اظہر ۔۔۔ شادی سے پہلے میں یہ سب نہیں کرنا چاہتی ۔حالانکہ کہ اس وقت اندر سے میری دل یہی چاہ رہا تھا کہ ۔۔ کہ اس کا میری رانوں سے ٹکرانے والا سانپ جلدی سے میری چوت میں چلا جائے لیکن ۔۔محض۔اسے یہ جتانے کہ لیئے کہ میں ایسی لڑکی نہیں ہوں میں نے اس سے شادی والی بات کی تھی ۔۔۔ میری بات سن کر پہلے تو اس نے میری منتیں کرنا شروع کر دیں ۔ لیکن جب میں نے اسے تڑپانے کی خاطر صاف انکار کیا تو اچانک ہی اس کا رویہ تبدیل ہو گیا ۔۔۔ اور اب اس نے ۔ زبردستی مجھے اپنی باہنوں میں کس لیا ۔۔۔اور مجھے دبوچ کر اور میری گردن پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے اور پھر مجھ پر کسنگ کی بھر مار کرتے ہوئے بولا ۔۔۔ دو گی کیسے نہیں سالی ۔۔۔کہ میں نے تم پہ بہت خرچہ کیا ہوا ۔۔ہے ۔۔۔
جاری ہے