شہوت زادی
قسط 5
اس دوران بھائی مسلسل میری گانڈ پر ہاتھ پھیرتا رہا ۔۔۔۔ ۔۔۔ جب میں اس کا سارا منہ چاٹ کر صاف کر چکی ۔۔۔تو بھائی نے اچانک ہی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شہوت ذدہ انداز میں میر ی طرف دیکھا ۔۔۔۔اور کہنے لگا۔۔۔۔ آپ کا کام ہو گیا باجی؟ تو میں نے اثبات میں سر ہلا کر اس سے کہا ۔۔۔ ہاں میرا کام ہو گیا میرے بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تب اس نے میری طرف دیکھا اور بڑے کھلے انداز میں کہنے لگا۔۔۔۔اب آپ میرا کام بھی کریں ۔۔۔۔ اس کی یہ بے باقی دیکھ کر میں حیران ہو گئی ۔۔اور اس سے کہنے لگی۔۔۔ بولا ۔۔۔ مجھے کیا کرنا ہے ۔۔۔ میری بات سن کر اس میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے لن پر رکھ کر بولا۔۔۔۔باجی اب آپ میرے اس کو ٹھنڈا کریں ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی شلوار اتار دی۔۔۔ اور اپنے لن کو ننگا کر کے بولا ۔۔۔۔۔۔ باجی مجھےاپنی گانڈ مارنے دیں۔۔۔۔ بھائی کی بات سن کر میں حیران رہ گئی اور سے بولی۔۔۔۔۔ گانڈ کیوں میرے بھائی ۔۔۔ اپنی بہن کی تم چوت مارو۔۔۔ تو وہ کہنے لگا۔۔۔۔ نہیں مجھے گانڈ اچھی لگتی ہے۔۔۔ چوت پھر کبھی ماروں گا۔۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے بڑی حیرانی سے شبی کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔ شبی یہ تم کہہ رہے ہو۔۔۔ کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے تمہارے منہ سے بات نہیں نکل رہی تھی اور اب تم ۔۔۔ یہ کیا چکر ہے ؟؟۔۔۔ میری بات سن کر شبی ایک دم مسکرایا ۔۔۔اور کہنے لگا۔۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے ہمارے درمیان ایک جھجھک سی تھی۔۔۔ جو آپ نے ختم کر دی ہے ۔۔۔۔ اب چونکہ میرے اور آپ کے درمیان کوئی پردہ نہیں رہ گیا ۔۔اس لیئے مجھے جو آپ سے چاہیئے تھا کہہ دیا ۔۔۔ اس پر میں نے اس سے کہا ۔۔کہ اچھا یہ بتاؤ کہ ۔۔ تم کو میری گانڈ ہی کیوں چاہیئے؟؟ جبکہ لوگ تو پھدی پر مرتے ہیں ؟۔۔۔ تو وہ کہنے لگا۔۔۔ باجی آپ تو جانتی ہی ہو کہ میں مدرسے میں پڑھتا ہوں ۔۔۔تو پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہاں پر یہ کام بہت زیادہ ہوتا ہے ۔۔۔ بھائی کی بات سن کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور میں نے اس سے بڑی حیرانی سے پوچھا۔۔۔۔ تو کیا تمہارےاستاد اور قاری صاحب کو منع نہیں کرتے ؟ تو وہ کہنے لگا۔۔۔ بلکل کرتے ہیں ۔۔۔ لیکن جب وہ لوگ خود ہی یہ کام کریں گے ۔۔۔ تو پھر ہم لوگ کیسے منع ہو سکتے ہیں۔ اس پر میں مزید حیران ہو گئی ۔۔۔ اور اس سے بولی تم کب سے یہ کام کررہے ہو ؟؟۔۔۔تو وہ۔کہنے لگا۔۔ بہت عرصہ پہلے سے۔۔۔۔۔پھر خود ہی بولا۔۔۔۔۔۔حیران نہ ہوں باجی۔۔۔ میں نے اب تک کافی بنڈیں پھاڑی ہیں ۔۔۔ اس کی بات سن کر میں بڑی محظوظ ہوئی اور اس سے پوچھنے لگی۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ۔۔۔۔کسی نے تمہاری بھی پھاڑی ہے؟ میری بات سن کر وہ تھوڑا شرمندہ سا ہو کر کہنے لگا۔۔۔۔ باجی ہمارے مدرسے میں" واری وٹہ" یعنی کہ ادلے کا بدلہ چلتا ہے ۔۔ اس لیئے جس کی ماریں ۔۔۔اس کو دینی بھی پڑتی ہے۔۔۔ پھر اس نے بڑی التجائیہ نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا ۔۔۔۔۔ باجی ۔مجھے عورتوں کی بنڈ مارنے کا بڑا شوق ہے ۔۔ اس لیئے مجھے اپنی بنُڈ مارنے دیں نا۔۔۔۔
بھائی کی یہ فرمائیش سن کر میں شش و پنج میں پڑ گئی۔۔۔۔ ادھر وہ بار بار میری منتیں کر رہا تھا کہ باجی بنڈ مارنے دو نا۔۔۔۔ پھر کچھ سوچ کر میں نے شبی کی طرف دیکھا اور اس سے کہنے لگی۔۔۔ ٹھیک ہے بھائی میں تم کو اپنی بنڈ مارنے دوں گی ۔۔ لیکن میر ی ایک شرط ہو گی تو وہ بے تابی سے بولا۔۔۔ کیا شرط باجی؟۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا کہ آئیندہ سے نہ تو تم کسی کو اپنی بنڈ دو گے اور نہ ہی کسی لڑکے کی بنڈ مارو گے۔۔۔۔ جب بھی تمہارا جی چاہے تم میری بنڈ مار لینا۔۔۔ میری بات سن کر وہ کہنے لگا۔۔۔ ٹھیک ہے باجی ۔۔۔ مجھے آپ کی شرط منظور ہے ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے مجھے گھوڑی بننے کو کہا ۔۔۔ اس کی بات سن کر میں اپنا منہ کھُڈے کی دوسری طرف کیا ۔۔۔اور اس کے سامنے گانڈ کر کے بولی۔۔۔ لے مار لے میرے بھائی۔۔۔ میری بات ختم ہوتے ہی ۔۔۔گھٹنوں کے بل چلتا ہوا شبی عین میری ہپس کے پیچھے آ کر کھڑا ہوگیا۔۔۔۔ اور مجھے اپنی دونوں ٹانگیں کھولنے کو کہا۔۔۔۔ اور جب میں نے اپنی دونوں ٹانگیں کھول دیں تو اس نے اپنی انگلیوں کی مدد سے میری گانڈ کے دونو ں پٹ کھولے اور ان کا معائینہ کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔ باجی آپ کی بنڈ تو بڑی کالی اور سوکھی ہوئی ہے۔۔۔ اس کی بات مجھے اچھی نہیں لگی اور میں نے اپنا منہ پیچھے کیا اور اس سے بولی۔۔۔۔ اگر میری بنڈ اتنی ہی کالی اور سوکھی ہے ۔۔۔تو پھر کسی اور کی جا کر مار لو۔۔۔۔ میری یہ جلی کٹی بات سنتے ہی بھائی کھسیانہ سا ہو گیا ۔۔۔۔اور ہنستے ہوئے بولا۔۔۔۔ وہ ۔۔وہ باجی میں تو مزاق کر رہا تھا۔۔۔۔ آپ کی بنڈ تو بڑی سیکسی اور کافی تنگ ہے۔۔۔ پھر اس کے ساتھ ہی اس نے میری گانڈ کے رنگ پر بہت سارا تھوک لگایا ۔۔۔۔اور کچھ اپنے لن پر لگا کر ۔۔۔۔ اس کے ٹوپ کو میری بنڈ کے درمیان رکھ دیا۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس نے ایک ذور دار گھسہ مارا۔۔۔۔۔چونکہ یہ میری پہلی بار تھی اوپر سے یہ بھی حقیقت ہے کہ واقعی اس وقت میری گانڈ بڑی ہی تنگ تھی۔۔اوپر سے بھائی نے پہلا گھسہ بجائے آرام سے مارنے کے ۔۔۔۔فل پاور سے مارا تھا ۔۔۔ اس لیئے ۔۔۔ بھائی کا گھسہ لگتے ہی میری آنکھوں کے سامنے نیلے پیلے تارے سے ناچنے لگ گئے اور مجھے ایسا لگا کہ کسی نے بہت بڑا لوہے کا پائپ میری گانڈ میں گھسا دیا ہو۔۔مجھے اس قدر شدید درد محسوس ہوا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس درد کی شدت سے خود بخود ہی میرے منہ سے ایک زور دار چیخ نکل گئی۔۔۔۔ اؤئی۔۔۔۔۔ امی جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے حلق سے نکلنے والی چیخ اتنی بلند تھی کہ وہ کھڈے کا حدود دربہ کراس کرتے ہوئے نیچے گھر میں بھی سنی گئی۔۔۔ عین اسی وقت نیچے سے ابا جو کسی کام سے ابھی گھر میں داخل ہی ہوئے تھے۔۔۔چیخ سن کر بڑی ہی گھبرائی ہوئی آواز میں بولے۔۔۔ ۔۔اوپر کون ہے؟۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔ کیا ہوا صبو پُتر۔۔۔؟؟۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔ ۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ۔۔۔ دگڑ دگڑ ۔دگڑ کی آوازیں آنے لگیں ابا بڑی تیزی کے ساتھ سیڑھیاں چڑھنے لگے تھے۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ادھر ابا کی آواز سنتے ہی میری اور شبی کی حالت غیر ہو گئی تھی۔۔۔۔اوپر سے ان کے سیڑھیاں چڑھنے کی آواز۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے جیسے یہ آواز نزدیک آتی جا رہی تھی ۔۔۔ ویسے ویسے ہم دونوں کی اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔پھر یہ آواز قریب ہوتی گئی ۔۔۔قریب ۔۔۔۔۔۔۔اور ۔۔۔ قریب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ ہی دیر بعد ۔۔۔ چھت پر قدموں کی آواز سنائی دی ۔۔۔ فوراً ہی میں نے کھُڈے کے سوراخوں سے دیکھا تو وہ بھائی تھا اس لیئے میں مطمئن ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔ اگلے ہی لمحے بھائی کھڈے کے دروازے پر کھڑا تھا۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی مجھے بھائی کی جزبات سے کانپتی ہوئی سرگوشی نما آواز سنائی دی ۔۔۔ باجی۔۔!!!!!!۔ بھائی کی آواز سن کر میں نے ٹاٹ کو ایک سائیڈ پر کیا ۔۔۔اور بھائی کی طرف دیکھتے ہوئے سرگوشی میں بولی۔۔۔ ۔۔۔۔ شبی اندر آ جاؤ۔۔۔ میری آواز سنتے ہی شبی نے اپنا سر جھکایا اور کھُڈے میں داخل ہو گیا ۔۔۔ جیسے ہی بھائی کھڈے میں داخل ہوا میں نےجلدی سے ٹاٹ کو واپس اپنی جگہ پر کر دیا ۔۔۔۔ ۔۔ دڑبے کے اندر آ کر ۔۔۔ شبی ۔۔سر جھکا کر بیٹھ گیا۔۔۔۔ ادھر میری اندر آگ لگی ہوئی تھی۔کہ شبی کچھ کہے تو "کام " شروع کروں لیکن دوسری طرف بھائی سر جھکائے بلکل چُپ بیٹھا تھا ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے ہی ہمت کرنے کی ٹھانی اور تھوڑا کھسک کر شبی کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی۔۔۔ ۔۔ اور اس سے سرگوشی میں بولی۔۔۔۔ کیسا لگ رہا ہے میرے بھائی؟ تو اس نے سر اُٹھا کر میری طرف دیکھا اور کانتپی ہوئی آواز میں کہنے لگا۔۔۔ ۔۔۔ باجی مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔۔۔ اس کی بات سن کر میں اس کے ساتھ تھوڑا اور جُڑ کر بیٹھ گئی۔۔۔اور اس کا منہ اپنی طرف کر کے بولی۔۔۔۔ بھائی بتاؤ نہ کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیئے؟؟؟؟؟ ۔لیکن میری باس سن کر وہ چپ رہا اور کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے جزبات سے رندھے ہوئے لہجے میں اس سے بولی۔۔۔ شرماؤ نہ بھائی ۔۔تمہارے دل میں جو بات ہے کہہ دو۔۔۔ میری بات سن کر اس نے ایک نظر مجھے دیکھا۔۔۔ اور پھر سر جھکا دیا ۔۔آخر میرے بار بار کے اصرار پر اس نے اپنا سر اُٹھایا ۔۔۔اور ۔۔۔ میری طرف دیکھ کر کہنے لگا ۔۔ جو ۔آپ کہو ۔۔۔ اسے یوں شرماتے دیکھ کر ۔۔ میں خود ہی کچھ کرنے کا سوچا ۔۔اور پھر یہ سوچتے ہی ۔۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔۔اور اپنے چھاتیوں پر رکھ دیا ۔۔اور کہنے لگی ۔۔۔شبی ۔۔۔ میری چھاتیاں کیسی ہیں؟ تو وہ اپنے ہاتھ کو میری چھاتیوں پر رکھے رکھے کہنے لگا۔۔۔باجی آپ کی چھاتیاں اچھی ہیں۔۔ تو میں نے اس سے کہا اچھا یہ بتاؤ۔۔۔میری چھاتیاں تم کو کپڑوں میں اچھی لگتی ہیں یا کہ ننگی؟ تو اس نے میری طرف دیکھا اور ہونٹوں پر زبان پھیر کر کہنے لگا۔۔۔ باجی۔۔۔۔چھاتیاں تو ننگی ہی اچھی لگتی ہیں ۔۔۔ تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔تو کیا خیال ہے بھائی ۔۔۔ میں اپنی چھایتوں کو ننگا نہ کر دوں؟ میرے منہ سے یہ بات سن کر اس نے ایک جھر جھری سی لی ۔۔۔اور بولا۔۔۔ ہاں باجی۔۔۔ کر۔۔ دو۔۔۔ اس کی بات سن کر جلدی سے میں نے اپنی قمیض کو اوپر کیا ۔۔۔ اور پھر ننگی چھاتیوں کو اس کے سامنے کرتے ہوئے بولی۔بھائی اب بتاؤ ۔۔ میری چھاتیاں کپڑوں میں اچھی لگتی ہیں یا ایسے ننگی ننگی ۔۔میری بات سن کر اس کو چہرہ مزید سرخ ہو گیا ۔۔ لیکن وہ کچھ نہ بولا ۔۔۔۔ چنانچہ اب میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی ۔۔۔ زرا چیک کر کے بتا ۔۔۔ کہ میری ننگی چھاتیاں کیسی ہیں؟ اور اس کے ساتھ ہی اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی چھاتیوں پر رکھ دیا۔۔۔ اس نے میری چھاتیوں کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور تھوک نگھلتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔ باجی آپ کی چھاتیاں بہت سخت ہیں ۔۔۔ تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ میرے بھائی۔۔۔ تمہاری بہن کی چھاتیاں اس لیئے سخت ہیں ۔۔۔ کہ ابھی تک ان کو تمہارے علاوہ کسی اور مرد نے نہیں پکڑا۔۔۔ اور تم نے بھی کہاں پکڑا ہے ۔۔۔ خود میں نے ہی تمہارا ہاتھ پکڑ کر ان پر رکھا ہے۔۔۔ ہاں اس سے پہلے بھی تم نے ان چھاتیوں پرا پنا ہاتھ رکھا تھا لیکن اس وقت تم سوئے ہوئے ہوتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔ اور اب جبکہ تم جاگ رہے ہو تو اپنی بہن کی چھاتیوں کو خوب ذور سے دباؤ نا۔۔۔۔ میری بات سن کر اس نے جوش میں آ کر میری چھاتیوں کودبانا شروع کر دیا۔۔۔ اور پھر اتنے زور سے دبایا کہ میری چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی اور میں نے سسکی لیتے ہو ئے اس سے کہا کہ بھائی۔۔۔ آرام سے ۔۔۔تو وہ کہنے لگا۔۔۔مجھے ایسے ہی دبانے دو نا باجی۔۔۔ لیکن اس کے بعد وہ بڑے آرام آرام سے میری چھاتیوں کو دبانے لگا۔۔۔۔ وہ میری چھاتیوں کو دباتے ہوئے مسلسل اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس کی شلوار بھی کافی اوپر کو اُٹھی ہوئی تھی۔۔۔ چھاتیوں کو دباتے دباتے اچانک ہی بھائی نے مجھ سے پوچھا۔۔ باجی آپ کی چھایتاں اتنی سخت کیوں ہیں ؟ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ میرے بھائی میری چھایتاں اس لیئے سخت ہیں کہ ان میں دودھ بھرا ہوا ہے ۔۔۔ پھر میں نے اپنی ایک چھاتی کا نپل اس کے منہ کے قریب کردیا اور کہنے لگی۔۔۔ بھائی میرا دودھ پیو گے؟ میری بات سنتے ہی اس نے اپنا منہ کھول دیا اور میری چھاتی کو اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگا۔۔۔۔ اس کے میرے نپل کو اپنے منہ میں لینے کی دیر تھی ۔۔۔ کہ مزے کی ایک تیز لہر میرے سارے جسم سے ہوتی ہوئی چوت تک جا پہنچی ۔۔۔اور مزے کی اس تیز لہر نے میری پھدی میں سپارک کا کام کیا ۔۔۔ کیونکہ اس کے ساتھ ہی میری چوت میں بہت تیزی کے ساتھ آگ بھڑک اُٹھی تھی ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے بھائی کے ساتھ اپنی دوسری چھاتی کو بھی رگڑتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔ زور سے چوس نہ میرے بھائی۔۔میری بات سن کر بھائی نے اور بھی جوش سے باری باری میری دونوں چھاتیوں کو چوسنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔ ادھر چھاتیاں چوستے دیکھ کر مجھے اپنے بھائی پر بہت زیادہ پیار آ رہا تھا اور میں شہوت کے نشے میں ٹُن ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔ اس لیئے میں نے بڑے ہی پیار سے بھائی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔۔ مُنا ۔۔۔۔۔۔ میری چھاتیوں سے دودھ نکل رہا ہے نا۔۔ میری چھاتیو ں کو چوستے چوستے منا یعنی کہ میرا بھائی بھی بہت گرم ہو چکا تھا ۔۔۔اس لیئے اس نے میری بات سن کر میری چھاتی سے اپنا منہ ہٹایا اور۔۔۔ اور میری طرف دیکھتے ہوئے جزبات سے چُور لہجے میں کہنے لگا۔۔۔۔ ہاں باجی ۔۔ آپ کی چھاتیوں سے دودھ نکل رہا ہے۔۔۔اور پھر اس کے ساتھ ہی اس نے دوبارہ سے میری چھاتیوں کو اپنے منہ میں لیا اور میرا دودھ پینے لگا۔۔۔۔ بھائی سے اپنی چھاتی کو چسواتے ہوئے مجھ پر ایک عجیب سا نشہ چڑھتا جا رہا تھا ۔۔اور اس لزت آمیز نشے کے زیرِ اثر میں ۔۔۔۔ میں بڑے پیار سے بھائی کے بالوں میں انگلیوں پھیرتے ہوئے آہستہ آہستہ سسکیاں لے رہی تھی۔۔۔۔اُف بھائی توُ کتنا اچھا بھائی ہے۔۔۔ اپنی بہن کو کتنا مزہ دے رہا ہے ۔۔۔آہ ہ ہ۔۔۔ بھائی اور زور سے چوس نہ بہن کی چھاتی کو ۔۔۔۔۔اُف ف فف فف ف ف ف۔۔۔
میری چھاتیوں کو چوستے چوستے اچانک بھائی نے سر اُٹھایا اور کہنے لگا۔۔۔ باجی آپ کی چھاتیوں کو چوستے ہوئے میرے ادھر (لن پر) پر ایک عجیب سی بے چینی ہو رہی ہے۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا کیسی بے چینی میرے بھائی؟ تو وہ معصومیت سے بولا۔۔۔ مجھے نہیں پتہ ۔۔۔۔ بس اس میں بڑی سخت قسم کی اکڑن پیدا ہو گئی ہے۔اور اس اکڑاہٹ کی وجہ سے میرے اس (لن ) میں بہت درد ہو رہا ہے ۔۔ پھر وہ کہنے لگا۔۔۔۔ باجی۔۔۔۔ آپ ہی میرے اس درد کو کچھ کم کر سکتی ہو تو میں نے اس سے کہا کہ وہ کیسے؟ تو وہ کہنے لگا۔۔ وہ ایسے باجی کہ آپ اس کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر تھوڑا دباؤ۔۔۔۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے اس کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے اپنا ہاتھ اس کے کھڑے ہوئے لن پر رکھ دیا۔۔۔۔ واقعی ہی اس کا لن بڑی سختی کے ساتھ اکڑا ہوا تھا ۔۔۔۔ اس لیئے میں نے اس کو مُٹھی میں پکڑ کر تھوڑا دبا یا ۔۔۔۔ اور اس کے لن کو دباتے ہوئے میں نے غور کیا تو جیسے ہی میں اس کے لن کو دباتی تھی ۔۔۔ وہ مزے سے مخمُور نظروں سے میری طرف دیکھتا تھا اور اشارے سے مجھے مزید دبانے کو کہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس طرح کچھ دیر تک میں اس کے لن کو دباتی رہی۔۔۔ پھر ۔۔۔ اس کی طرف دیکھ کر بولی۔کچھ درد کم ہوا؟۔تو اس نے ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔اس پر میں نے اس سے کہا ۔۔۔ لن کو دبانا بس کروں یا اور دباؤں ؟؟ تو وہ کہنے لگا۔۔۔۔ابھی کے لیئے اتنا ہی ٹھیک ہے اور وہ پھر سے میرے مموں کو چوسنے لگا۔۔۔۔اس کا لن ہاتھ میں پکڑنے اور اس سے ممے چسوانے کی وجہ سے میری پھدی میں آگ کا ایک بھانبڑ سا جلنے لگا تھا ۔۔۔اس لیئے میں نے بھائی کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔۔ اب بس کر دو بھائی۔۔۔ میری بات سن کر اس نے میرے مموں سے اپنا سر ہٹایا اور بولا۔۔۔ بس کردوں لیکن کیوں باجی؟ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ اس لیئے کہ ابھی تم نے میری پھدی بھی چوسنی ہے۔۔ میری بات سن کر اس کی آ نکھوں میں حیرانی امنڈ آئی اور وہ کہنے لگا۔۔۔ پھدی ؟؟؟؟۔۔۔مطلب آپ کی ؟؟۔۔۔۔۔۔ تو میں نے اپنی شلوار اتار کر اپنی پھدی کو اس کے سامنے کر دیا ۔۔۔ اور اس کی طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔۔ ہاں بھائی میری پھدی چوسو۔۔۔۔ میر ی با ت سن کر وہ تھوڑا حیران ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ابھی کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اچانک میں تھوڑا پیچھے کو ہٹی اور بھائی کے سر کو پکڑ کر اپنی پھدی کی طرف دبا دیا۔۔ اور اس سے بولی۔۔۔۔۔میری پھدی کو چوس نہ بھائی۔۔ اور بھائی کبھی مجھے اور کبھی میری کالی پھدی کی طرف دیکھ رہا تھا جس پر پھدی سے بھی بڑے بڑے کالے بال اُگے ہوئے تھے اسی لیئے وہ کبھی مجھے اور کبھی میری پھدی پر اُگے بڑے بڑے بالوں کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔ پھر میری بار بار کی فرمائیش سن کر اس نے ایک نظر میری طرف دیکھا پھر نیچے کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا۔۔۔۔ باجی میں آپ کی پھدی کہاں سے چوسوں ۔۔۔اس پر تو اتنے بڑے بڑے بال اُگے ہوئے ہیں ۔۔۔؟ تو میں نے اس کو بتایا کہ بھائی تم ان بالوں کو ایک طرف ہٹا کر میری چوت کو چاٹ سکتے ہو۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نے اس کے سر کو اپنی پھدی کی طرف دبا دیا۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اپنی دونوں ٹانگوں کو آخری حد تک کھول دیا۔۔۔ میری کھلی ٹانگیں دیکھ کر بھائی بھی گھٹوں کے بل نیچے بیٹھ گیا اور میری چوت پر منہ رکھ دیا۔۔۔۔۔ پھر اس کے بعد اس نے ایک گہرا سانس لیا۔۔۔ اور اپنا سر اُٹھا کر میری طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔ باجی۔۔۔۔ آپ کے ادھر (پھدی ) سے بڑی ہی ظالم قسم کی مہک آ رہی ہے۔۔۔اس پر میں نے اس سے پوچھا ۔۔۔ اچھا یہ بتا کہ میری پھدی سے آنے والی یہ مہک تم کو اچھی لگ رہی ہے یا برُی؟ میری بات سن کر بھائی اپنے ناک کو میری چوت کے بالوں میں میں لے گیا ۔۔۔اور وہاں پر اس نے ایک گہرا سانس لیا ۔۔۔اور چوت سے نکلنے والی مہک کو اپنے اندر سموتے ہوئے بولا۔۔۔ باجی آپ کی اس (چوت) سے اُٹھنے والی مہک اتنی شاندار ہے کہ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے میں نے کوئی نشہ کیا ہوا ہے۔۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ بھائی میری جان ۔۔۔ اس نشے والی چیز کو چاٹو نا۔۔۔۔ میری بات سن کر بھائی بڑی خوشی سے بولا۔۔۔ ابھی چاٹتا ہوں ۔۔۔ میری باجی۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی دو انگلیوں سے میری چوت کے بالوں کو ادھر ادھر کر کے اس کے لبوں کو ننگا کیا اور پھر اپنے منہ سے زبان نکلا کر ان لبوں پر رکھ دی۔۔۔ اور پھر اس نے میری چوت کو چاٹنا شروع کر دیا۔۔۔ جیسے جیسے اس کی زبان میری چوت پر لگتی ویسے ویسے میری جسم میں لزت کی لہریں اُٹھتی جاتیں تھیں اور ویسے ویسے جوش میں آ کر میں۔۔ سسکتے ہوئے ۔۔۔۔ اپنی ہپس کو نیچے سے تھوڑا اوپر کرتی اپنی چوت کو اس کے منہ میں گھسانے کی کوشش کرتی تھی۔۔۔۔اس کو نتیجہ یہ نکلا کہ میری چوت سے رسنے والا پانی اس کے منہ میں جانا شروع ہو گیا۔۔۔ اور پھر یہ دیکھ کر اس نے اپنا سر اوپر اُٹھایا ۔۔۔اور مجھ سے کہنے لگا۔۔۔۔ باجی ۔۔۔ آپ نمک کم کھایا کرو۔۔۔ تو میں نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔ وہ کیوں میرے پیارے بھائی ؟ تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ وہ ۔۔یوں کہ آپ کے چوت کے پانی میں نمک کی مقدار خاصی زیادہ ہے۔۔۔ اس پر میں نے ہنستے ہوئے اس سے کہا ۔۔ اچھا یہ بتاؤ کہ میری چوت کا جوس کیسا ہے؟ تو وہ بھی مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔ چوت کا پانی تو ٹھیک ہے لیکن اس میں نمک تھوڑا زیادہ ڈل گیا ہے۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے میری چوت کی لکیر پر اپنی زبان کو تیزی سے چلانا شروع کر دیا۔۔۔ یہ دیکھ کر میں اور بھی جوش میں آ گئی اور اس سے کہنے لگی۔۔۔ اپنی زبان کو چوت کے اندر ڈال۔۔۔ میری بات سن کر اس نے اپنی دونوں انگلیوں سے میری چوت کے لبوں کو تھوڑا اور کھولا ۔۔۔۔۔ اور اپنی زبان اندر ڈال دی۔۔۔۔جیسے ہی اس کی زبان نے میری چوت کی اندرونی تہہ کو چاٹا ۔۔۔۔ میرے منہ سے سسکیوں کا طوفان نکلنا شروع ہو گیا ۔۔۔ اور شاید جوش میں آ کر میں تھوڑا اونچی ۔۔۔۔۔۔ آواز میں سسکیاں لے بیٹھی تھی ۔۔۔تبھی تو بھائی نے میری پھدی سے اپنا سر ہٹایا اور کہنے لگا۔۔۔ باجی۔۔۔زرا آہستہ چیخیں ۔۔۔ اس کی با ت سن کر مجھے کچھ ہوش آ گیا اور میں نے اس سے کہا ۔۔۔ سوری بھائی ۔۔ لیکن میں کیا کروں کہ تمہاری زبان کی چٹائی نے مجھے پاگل کر دیا ہے ۔۔۔ پھر میں نے اس سے کہا کہ بھائی اب ایسا کرو کہ اپنی زبان کو میری پھدی میں ڈالنے کی بجائے میری میری چوت کے عین اوپر سجے اس موٹے دانے کو اپنے ہونٹوں میں لیکر چوسو۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ۔۔۔ اپنی انگلیوں کو بھی میری چوت میں اندر باہر کرو۔۔۔ میری بات سنتے ہی بھائی نے کسی معمول کی طرح ۔۔۔۔۔۔ میری ہدایت پر عمل کرتے ہوئےمیرے پھولے ہوئے دانے کو اپنے دونوں ہونٹوں میں لیا ۔۔۔ اور دوسری طرف اپنی دو انگلیوں کو میری چوت میں ڈال دیا۔۔ اور دانے کو چوستے ہوئے انگلیوں کو اندر باہر کرنے لگا۔۔۔۔بھائی کے اس عمل سے میں اس قدر بے خود ہو گئی کہ کچھ ہی دیر بعد میرے جسم میں اکڑن پیدا ہونا شروع ہو گئی۔۔۔۔ اور ۔۔ اس کے ساتھ ہی میرے منہ سے بے ربط سی باتیں نکلنے لگیں آہ۔۔۔ بھائی۔۔۔ی۔۔ی ی۔۔۔۔۔۔۔۔۔چ چچ ۔۔وسس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چوسسس۔۔۔۔س۔س۔س۔۔۔۔ انگلی تیز ۔۔۔چلا۔۔۔ اُف ۔۔ف۔میں مر گئی۔ئ ئی۔۔۔۔۔ ابھی میں نے اتنا ہی کہا کہ تھا ۔۔۔ اچانک ہی ۔۔۔ میری پھدی سے بہت سا را گرم پانی۔۔۔۔ ایک ریلے کی صورت میں ۔نکلا۔۔۔۔ اور۔۔ اس گرم پانی سے میرے بھائی کا سارا منہ لپڑ گیا۔۔۔ ادھر جیسے ہی میں چھوٹی ۔۔ اور کچھ دیر میں میرا سانس بحال ہوا تو ۔۔۔ ایک دم سے میں اوپر اُٹھی ۔۔۔اور بھائی کو بھی اُٹھا لیا ۔۔۔اور پھر کھُڈے میں ۔۔۔میں اور بھائی گھوناں کے بل آمنے سامنے کھڑے ہو گئے ۔۔۔ بھائی نے بڑے شہوت بھرے انداز میں میری طرف دیکھا ۔۔اور کہنے لگا۔۔۔۔۔مزے آیا باجی؟ ۔۔ اس کی بات سن کر میں ایک دم آگے بڑھی اور اس کو اپنے گلے لگا کر بولی۔۔۔ بہت مزہ آیا میری جان ۔۔ تم نے بہت مزہ دیا ۔۔۔ پھر میں نے اپنا چہرہ اس کے مقابل کیا اور اس کے منہ پر لگی اپنی ساری منی چاٹ لی۔۔۔
ابا کے سیڑھیاں چڑھنے کی آواز سن کر ایک لمحے کے لیئے تو مجھے اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی لیکن پھر اچانک ہی میرے ذہن میں خیال آیا کہ اگر ہم دونوں اس حالت میں پکڑے گئے تو بے موت مر جائیں گئے یہ خیال آتے ہی میں نے جلدی سے اپنی شلوار پہنی اور ۔۔۔ بھائی سے یہ کہتی ہوئی تیزی سے باہر نکل گئی کہ تم یہیں رُکو۔۔۔ اس وقت چونکہ میرے زیادہ وقت نہیں تھا اس لیئے میں نے دڑبے کا ٹاٹ ایک طرف کیا اور پھر بڑے ہی بے ڈھنگے انداز میں کھڈے سے سے باہر چھلانگ لگا دی۔۔ چھلانگ بے ڈھنگی ہونے کی وجہ سے میں ڈربے سے باہر ننگے فرش پر آڑھی ترچھی ہو کر گر گئی۔۔۔ اس طرح زوردار طریقے سے گرنے کی وجہ تھوڑے سے میرے گوڈے اور کافی حد تک میرے باذوؤں کی دونوں کہنیاں چھیلی گئیں ۔۔ اس کے ساتھ ساتھ میرے باقی جسم پر بھی کچھ خراشیں آئیں ۔۔۔ لیکن چونکہ اس وقت مجھے اس سے بہتر مجھے اور کوئی طریقہ نہ سوجھ رہا تھا
۔۔ اس لیئے میں نے یہ سب برادشت کیا اور عین اس وقت کہ جب ابا سیڑھیاں چڑھ کر چھت پر قدم رکھ رہے تھے میں بھی اپنی کہنیاں ملتی ہوئی اُٹھ کھڑی ہوئی تھی مجھے یوں کہنیاں ملتے ہوئے دیکھ کر ابا کہنے لگے ۔۔ کیا ہوا صبو پُتر؟ تو میں نے روہانسہ منہ بنایا اور ابا کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ وہ ابا میں کھُڈے کی چھت سے لکڑیاں اُٹھا کر اندر رکھنے کے لیئے آئی تھی ۔۔۔ لیکن پاؤں پھسلنے کی وجہ سے نیچے گر گئی۔۔۔ میری بات سن کر ابا آگے بڑھے اور میری دونوں کہنیوں کا معائینہ کرتے ہوئے بڑی شفقت سے کہنے لگے۔۔۔ شبی کہاں ہے؟ تو میں نے جلدی سے جواب دیا کہ وہ باہر دوستوں کے ساتھ کھیلنے گیا ہوا ہے اس پر ابا نے مجھے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ہزار دفعہ کہا ہے کہ اس کو زیادہ دیر تک باہر نہ گھومنے دیا کرو ۔۔۔ لیکن تم لوگ اس کی پرواہ بھی نہیں کرتے ۔۔۔پھر میری طرف دیکھ کر بڑی شفقت سے کہنے لگے صبو پُتر ۔۔ آئیندہ کھڈے کی چھت پر تم نے خود نہیں چڑھنا بلکہ اس نالائق کو چڑھانا ہے۔۔ ۔۔۔ تو میں ابا کی بات سن کر کہنے لگی ۔۔۔ٹھیک ہے ابا آئیندہ میں اس بات کا خیال رکھوں گی۔۔۔یہ سن کر ابا مسکرائے اور اسی شفقت سے کہنے لگے چل میری پتر نیچے چل ۔۔ میں تمہاری کہنیوں پر کوئی دوائی وغیرہ لگا دیتا ہوں ۔۔۔ سیڑھیان اترتے ہوئے ایک دفعہ پھر انہوں نے مجھ سے کہا ۔۔۔میری بات سن لی ہے نا کہ آئیندہ سے تم نے کھڈے کی چھت پر نہیں چڑھنا بلکہ اس کام کے لیئے شبی کو کہنا ہے اور پھر وہ مجھے ساتھ لیئے نیچے چلے آئے۔۔ابا کی باتیں سن کر میں نے سُکھ کا سانس لیا ۔۔۔ اور دل ہی دل اپنی کامیابی پر خوش ہو گئی۔۔۔
یہ اسی شام کا واقعہ ہے کہ اماں سے ملنے ہماری بڑی خالہ جو کہ ہمارے ٹاؤن سے 20/25 کلومیٹر دور رہتی تھیں آ گئیں۔۔۔ خالہ کے ساتھ ان کی بیٹی فوزیہ بھی آئی تھی جو کہ مجھ سے چار سال بڑی تھی میری طرح اس کا رنگ بھی سانولہ تھا بڑی بڑی چھاتیوں کے ساتھ ۔۔۔ اس کے ہونٹ قدرے موٹے اور تھوڑے لٹکے ہوئے تھے فوزیہ کی خاص بات اس کی بڑی سی گانڈ تھی جو کہ تھوڑی باہر کو نکلی ہوئی تھی اور اس بڑی سی گانڈ کے ساتھ جب وہ ایک ردھم میں چلتی تھی ۔۔۔تو دیکھنے والے کا دل بے قابو ہو جاتا تھا ۔۔۔ اس مستانی چال کے ساتھ فوزیہ باجی ایک مضبوط اور کافی ہاٹ جسم کی مالک تھی ۔۔ خالہ کے آنے پر اماں بہت خوش ہوئیں اور اور ان کو دیکھ کر کہنے لگیں ۔۔۔ آپا اس دفعہ آپ برے دنوں بعد آئی ہو ۔۔ اماں کی بات سن کر خالہ کہنے لگی ۔۔ میں تو پھر بھی گاہے بگاہے تم سے ملنے ا ٓ ہی جاتی ہوں لیکن تم نے تو ہمارے ہاں نہ آنے کی قسم کھائی ہے۔۔خالہ کی بات سن کر اماں تھوڑا شرمندہ سی ہو گئیں اور ان سے بولیں ۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے آپا۔۔ کیا کروں گھر کے کام کاج اور بچوں سے فرصت ہی نہیں ملتی ۔۔۔ اماں کی بات سن کر خالہ مسکرائیں اور قدرے طنزیہ لہجے میں بولیں ۔۔۔۔ لگتا ہے کہ ساری دینا کو تم نے ہی اپنے سر پر اُٹھایا ہوا ہے ۔۔۔ اور ۔۔ بچے پالنے کی فقط تمہاری ہی زمہ داری ہے ۔۔ باقی ہم سب لوگ تو ویسے ہی ویلے واندے پھرتے ہیں ۔۔ اس پر اماں بات کو ختم کرنے کی نیت سے بولیں ۔۔ آپا آپ کے آنے کا بہت بہت شکریہ اب یہ بتاؤ کہ کیا کھاؤ گی ؟ تو خالہ کہن ے لگی ۔۔ کھانے پینے کو چھوڑ ۔۔ تو سب سے پہلے مجھے چائے پلا۔۔۔اس پر فوزیہ باجی جو اب تک خاموشی سے دونوں بہنوں کی بات چیت سن رہی تھی مسکراتے ہوئے کہنے لگی ۔۔ ہاں ہاں خالہ امی کو جلدی سے چائے پلاؤ کہ ان کا نشہ ٹوٹ رہا ہے۔۔ فوزیہ کی اس بات پر دونوں بہنوں نے ایک فرمائشی قہقہہ لگایا ۔۔۔ اور پھر اماں یہ کہتے ہوئے وہاں سے ا ُٹھ گئی کہ میں چائے لیکر ابھی آئی۔
اماں کے جانے کے بعد خالہ میری طرف متوجہ ہوئیں اور مجھ سے میری پڑھائی اوردیگر مشاغل کے بارے میں بات چیت کرنے لگیں ۔۔ اسی دوران اماں چائے کے ساتھ بھاری مقدار میں کھانے پینے کے دوسرے لوازمات بھی لے آئیں جنہیں دیکھ کر خالہ کہنے لگیں کہ یہ اتنے تکالفات کی کیا ضرورت تھی؟ میرے لیئے تو بس ایک پیالی چائے ہی کافی تھی ۔۔۔ اس پر اماں مسکراتے ہوئے کہنے لگیں ۔ آپا یہ تکلف میں نے آپ کے لیئے تھوڑی کیا ہے یہ ساری چیزیں تو میں اپنی پیاری سی بھانجی فوزیہ کے لیئے لائی ہوں ۔۔۔۔۔۔ چائے پینے ے بعد اماں اور خالہ جھوٹے برتنوں کو اُٹھا کر کچن میں چلی گئیں اور وہاں اماں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنے لگیں ۔۔۔ مجھے ہوم ورک کرتے دیکھ کر فوزیہ بھی ان کے پیچھے پیچھے کچن میں چلی گئی۔ جبکہ میں ان سے تھوڑی دور بیٹھ کر اپنا ہوم ورک کر رہی تھی اتنے میں باہر سے شبی بھی آ گیا ۔۔۔ اور آتے ہی خالہ کو سلام کرنے کے بعد اس نے فوزی (فوزیہ) کے ساتھ گپ شپ شروع کر دی ۔۔۔۔ پھر وہاں سے اُٹھ کر میرے پاس آ کر بیٹھ گیا اور پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ آج تو بال بال بچے تھے۔۔پھر تھوڑا آگے بڑھ کر بڑی دھیمی آواز میں کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ باجی میں سوچ رہا تھا کہ اگر عین وقت پر آپ چھلانگ نہ لگاتیں تو آج ہمارا پکڑا جانا یقینی تھا ۔ بھائی کی بات سنتے ہی میری آنکھوں کے سامنے دن والا سارا منظر گھوم گیا۔اور پھر وہ منظر یاد آتے ہی میری ریڑھ کی ہڈی میں ایک سنسناہٹ سی ہو گئی۔۔۔۔ پھر یہ سوچ کر میں نے خود پر قابو پایا کہ اگر بھائی کے سامنے میں بھی ڈر گئی تو ہو سکتا ہے آئیندہ کے لیئے یہ میرے ساتھ پروگرام نہ کرے۔۔۔ اس لیئے میں اس کی طرف دیکھ کر مسکرائی اور ۔۔۔ اس کو تسلی دیتے ہوئے بولی کہ فکر نہ کرو بھائی ۔۔ جب تک میں ہوں ۔۔تم کو کچھ نہیں ہو گا۔ اور پھر اس کی طرف دیکھ کر بولی۔۔اچھا یہ بتاؤ کہ تم کھُڈے سے کس وقت نکلے تھے اور کہاں چلے گئے تھے۔۔؟ ؟ تو بھائی نے میری بات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ۔۔ ہمارے جانے کے کافی دیر تک وہ ڈر کے مارے اسی پوزیشن میں چُپ کر کے بیٹھا رہا ۔۔۔۔۔۔۔پھر جب اسے یقین ہو گیا کہ ابا گھر سے چلے گئے ہیں تو پھر اس کے بعد وہ ادھر ادھر دیکھتا ہوا کھڈے سے باہر نکلا ۔۔ ڈر کے مارے وہ سیڑھیوں سے نیچے اتر کر گھر میں نہیں آیا ۔۔۔۔بلکہ اپنی چھت پھلانگتے ہوئے چاچے کے گھر اتر گیا اور پھر وہاں سے باہر چلا گیا۔۔۔ پھر اس نے فوزیہ لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔۔۔ یہ لوگ کب آئے باجی؟ تو میں نے جواب دیا کہ ۔۔۔ابھی کچھ ہی دیر پہلے ۔۔۔تو اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے بڑے ہی معنی خیز انداز میں کہا کہ ۔۔۔ آپ نے فوزیہ باجی کی گانڈ دیکھی ہے؟ اس کے منہ سے یہ بات سن کر میں ایک دم چونک گئی اور گھبرائی ہوئی نظروں سے فوزی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ آہستہ بول کہیں وہ سن نہ لے۔۔۔۔ میری بات سن کر شبی ایک دم مسکرا دیا اور پھر اپنا منہ آگے کر کے بولا۔۔۔۔ باجی آپ نے فوزیہ باجی کی گانڈ دیکھی ہے؟ تو میں نے کہا دیکھی ہے ؟ کیا خاص بات ہے اس میں ۔۔۔؟؟؟؟؟اس پر وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔ ایک دم مست گانڈ ہے ان کی ۔۔۔ ابھی ہم یہی باتیں کر رہے تھے کہ اچانک فوزیہ جو کہ امی اور خالہ کے پاس بیٹھی تھی ہماری طرف آتے ہوئے بولی۔۔۔۔ یہ بہن بھائی کے در میان کیا کھسر پھسر ہو رہی ہے جناب؟ تو میں نے فوزیہ کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہنے لگی کچھ خاص نہیں باجی ۔۔۔۔ یہ ایسے ہی بکواس کر رہا تھا۔۔۔ اس پر فوزیہ نے شبی کی طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔۔ کون سی بکواس ؟؟۔۔۔ کچھ ہمیں بھی تو پتہ چلے؟ فوزی کی یہ بات سنتے ہی شبی فوراً ہی وہاں سے یہ کہتے ہوئے اُٹھا کہ یہ بات تو آپ کو باجی ہی بتا سکتی ہیں۔۔۔ اس پر فوزی نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو میں نے بڑی مشکل سے بات کو کور کیا۔۔۔۔
اس کے بعد میں اور فوزیہ عاشی سے ملنے اس کے گھر چلے گئے اور وہاں عاشی کے ساتھ خوب گپ شپ لگائی ۔۔ لیکن چونکہ فوزی ہم سے کافی بڑی تھی اس لیئے ہم دونوں نے اس کے ساتھ ایسی ویسی کوئی بات نہ کی ۔۔۔دوستو جیسا کہ آپ کومعلوم ہے کہ ہمارے گھر میں دو ہی کمرے تھے ایک میں اماں ابا اور چھوٹی بہن زینب سوتی تھی جبکہ دوسرے کمرے میں ۔۔۔۔۔ میں اور شبی سویا کرتے تھے۔۔ اس لیئے ہمارے گھر میں جب بھی کوئی مہمان آتا تھا تو اسے ہمارے کمرے میں سلایا جاتا تھا ۔۔۔۔ اس دن بھی ہمارے کمرے میں خالہ اور فوزیہ باجی ہماری چارپائی پر سوئیں تھیں ۔۔۔ جبکہ حسبِ روایت میرے اور بھائی کے لیئے اماں نے نیچے فرش پر ایک گدا بچھا دیا۔۔۔۔
خالہ اور خاص کر فوزیہ باجی کی وجہ سے اس رات میں نے بھائی کے ساتھ مستی نہ کرنے کی ٹھانی تھی ۔۔۔ اس لیئے خالہ لوگوں کے ساتھ باتیں کرتے کرتے میں بھی جلد ہی سو گئی تھی ۔۔۔ آدھی رات کا وقت تھا کہ مجھے اپنی شلوار میں کچھ سرسراہٹ سی محسوس ہوئی ۔۔ پہلے تو اسے میں اپنا وہم سمجھی ۔۔۔ لیکن جب یہ سرسراہٹ کچھ زیادہ بڑھ گئی۔۔۔ تو اسی سرسراہٹ کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی اور میں نے چونک کر دیکھا ۔۔ تو شبی کا ہاتھ میرے آزار بند پر تھا۔۔ اس کا ہاتھ اپنی شلوار پر دیکھتے ہی مجھے چارپائی پر سوئی فوزیہ اور خالہ جان کی یاد آ گئی۔۔۔۔اور پھر یہ سوچ کر ہی میری جان ہی نکل گئی کہ اگر یہ اُٹھی ہوئیں تو۔۔ ۔۔۔۔ یہ سوچ آتے ہی میں نے اپنے نالے (آزار بند) پر دھرا بھائی کا ہاتھ پکڑ لیا اور پھر اس سے سرگوشی میں بولی۔۔۔۔۔۔ کیا کر رہے ہو شبی؟؟؟ میری بات سن کر وہ بھی سرگوشی میں بولا ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ باجی میں آپ کی شلوار اتار رہا ہوں تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے قدرے سخت لہجے میں کہا ۔۔۔۔پاگل ہو گئے ہو کیا؟ ۔۔۔ خالہ لوگ اُٹھ جائیں گے۔۔۔ میری بات سن کر بھی اس نے میرے آزار بند پر رکھا ہاتھ اور بھی مضبوطی سے پکڑ لیا۔۔۔۔ اور بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باجی غور سے سنو ۔۔۔۔۔خالہ خراٹے لے رہیں ہیں ۔۔۔۔ اس کے کہنے پر میں نے بھی غور کیا تو کمرہ خالہ کے ہلکے ہلکے خراٹوں سے گونج رہا تھا ۔۔ خالہ کے خراٹوں کی آواز سن کر بھی میری تسلی نہ ہوئی اور میں نے بھائی سے کہا۔۔۔ ٹھیک ہے خالہ تو سو رہی لیکن ۔۔۔ فوزیہ باجی بھی تو ہیں ۔۔۔ میری اس بات پر بھائی کہنے لگا۔۔۔۔باجی زرا گدے سے اُٹھ کر دیکھو ۔ تو فوزیہ باجی ہماری مخالف سمت منہ کر کے سو رہی ہیں ۔۔۔۔۔چنانچہ بھائی کے کہنے پر میں نے سر اُٹھا کر دیکھا تو ۔۔۔۔ واقعی ہی فوزیہ باجی۔۔۔ ہمارے مخالف سمت اپنا کروٹ کے بل سو رہی تھی۔۔۔ پھر میں نے فوزیہ باجی کی اس پوزیشن پر بڑے دھیان سے غور کیا ۔۔۔۔
تو واقعی ہی انہیں بے سدھ سوتے ہوئے پایا۔۔۔ ۔۔۔ یہ منظر دیکھ کر اب میں بھائی کی طرف متوجہ ہوئی ۔۔۔ اور اس سے پوچھا ۔۔۔اب بتاؤ ۔۔۔ کہ تم میرا نالا (آزار بند) کیوں کھول رہے تھے؟۔۔ میری بات سنتے ہی بھائی نے شہوت بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور ۔۔۔ پھر کہنے لگا۔۔۔۔ باجی میں نے آپ کو کرنا ہے۔۔۔ بھائی کی بات سنتے ہی ایک دم میرے چیونٹیاں سی رینگنے لگیں اور اندر سوئی ہوئی شہوت پھر سے جاگ اُٹھی ۔۔۔ اور میں نے خالہ کی چارپائی کی طرف دیکھتے ہوئے خود ہی اپنا آزار بند کھول دیا۔۔۔اور بھائی سے بولی۔۔۔ لو میں نے اپنی شلوار اتار دی ہے۔۔ تو بھائی کہنے لگا۔۔ باجی اب اپنا منہ دوسری طرف کر لیں ؟ بھائی کی بات سن کر میں نے بڑی حیرانی سے اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔۔ وہ کیوں بھلا؟
جاری ہے