Shahut zadi - Episode 7

شہوت زادی 


قسط 7


چنانچہ خالہ لوگوں کے جانے کے بعد میں نے یہ ساری باتیں بھائی کو بتائیں ۔۔۔ اور ساتھ ہی فوزیہ باجی کی وارننگ کے بارے میں بھی بتایا تو یہ دیکھ کر میں حیران رہ گئی کہ بجائے ڈرنے یا معزرت کرنے کے بھائی نے بڑی ڈھٹائی سے کہا ۔۔۔ کہ جب تک وہ فوزیہ کی بنڈ نہ مار لے تب تک وہ اس پر ٹرائیاں کرتا رہے گا۔۔۔ پھر اسی رات ۔۔ بھائی کی زبردست فرمائیش پر میں نے بھائی سے گانڈ مروا لی تھی۔۔۔ لیکن اس دفعہ اس نے پوری تیاری کی ہوئی تھی اور تھوک کی بجائے اس نے میری گانڈ کے رِنگ پر بہت سارا سرسوں کا تیل لگایا تھا جس سے میری گانڈ کا رِ نگ نرم ہو گیا تھا اور پھر اس نے اسی طرح اپنے لن پر بھی بہت سارا آئیل لگا کر میری بقول بھائی بنڈ ماری تھی۔۔۔۔۔

اگلے دن جب میں نے یہ بات عاشی سے کی تو وہ ایک دم ہی جوش میں آ گئی ۔۔۔۔ اور پھر بڑے غصے میں کہنے لگی ۔۔۔صبو توں ترت حرام دی ایں ۔۔۔۔ ( صبو تم پکی حرامن ہو) ۔۔۔ اور جب میں نے اس کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگی۔۔۔ آپی تے مزے لے جا رہیئں تے بہن دا کوئی خیال نہیں ( خود تو مزے لے رہی ہو اور میرا کوئی خیال نہیں ہے)۔۔۔ پھر وہ تھوڑی سیریس ہو گئی۔۔۔۔اور چلتے ہوئے ادھر ادھر دیکھتےہوئے کہنے لگی ۔۔۔صبو سنا ہے کہ بنڈ مروانے سے بڑی پیڑ ہوندی اے( سنا ہے کہ گانڈ مروانے سے بڑی درد ہوتی ہے) پھر کہنے لگی تمہارے اس بارے میں کیا تجربہ ہے؟؟ تو میں نے اس سے کہا۔۔۔۔ عاشی یار پہلے پہلے تو واقعی ہی بڑی درد ہوتی ہے ۔۔۔اور خاص طور پر جب تک ٹوپا گانڈ کے اندر داخل نہیں ہوا تھا تب تک تو دن میں تارے نظر آ رہے تھے ۔۔۔ ہاں جب (لن کی) کیپ (فُل ) اندر چلی گئی ۔۔۔۔۔ تو کچھ سکون سا محسوس ہوا تھا ۔۔۔۔ ورنہ تو جب تک کیپ نے میرے رنگ کو کراس نہیں کیا تھا۔۔۔ مجھے بڑا سخت درد ہوا تھا ۔۔۔۔ میری بات سن کر عاشی نے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری اور کہنے لگی۔۔۔۔۔ سچی دس صبو ۔۔۔ بنڈ مروان دا صواد آیا سی ؟ ( سچ بتاؤ صبو ۔۔۔۔۔ گانڈ مرانے کا کچھ مزہ بھی آیا تھا ۔۔۔ تو میں نے رات والا واقعہ کو یاد کرتے ہوئے اس سے کہا ۔۔۔۔۔۔ جب تک ٹوپا اندر نہیں داخل ہوا تھا تب تک تو درد ہی درد تھا ۔۔۔ ہاں جب ۔۔۔ ٹوپا اندر چلا گیا ۔۔۔ اور بھائی کا لن روانی کے ساتھ اندر آنے جانے لگا۔۔۔ تو پھر مجھے بھی مزہ ملنا شروع ہو گیا تھا۔۔۔۔

میری بات سن کر اچانک ہی عاشی رک گئی اس وقت اس کا گورا چٹا چہرہ بہت سرخ ہو رہا تھا ۔۔۔ اور وہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ صبو۔۔ مجھے لن چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر کہنے لگی میں نے تم کو پہلے بھی بتا یا تھا کہ انگلی سے اب میرا گزراہ نہیں ہوتا ۔۔۔ پھر بڑی ہی جزباتی ہو کر بولی۔۔۔۔۔۔۔۔ صبو میری پھدی لن منگدی اے۔۔( صبو میری پھدی لن مانگتی ہے) عاشی کی بات سن کر اچانک میرے زہن میں ایک آئیڈیا آیا ۔۔۔ اور میں نے اس سےکہا ۔۔۔۔ عاشی ۔۔۔۔۔ ایک لن ہے تو سہی اگر تم چاہو تو۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ چونک اُٹھی۔۔۔اور بڑی بے تابی سے کہنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔ چھیتی دس ۔۔۔ حرام دیئے۔۔۔۔( حرام ذادی جلدی بتاؤ) تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ وہ شبی ہے ۔۔۔ شبی کا نام سن کر وہ ۔۔۔۔۔ایک دم سے چپ ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر کہنے لگی۔۔۔۔ پر یار وہ ابھی چھوٹا ہے۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا کہ وہ چھوٹا ضرور ہے لیکن زہر اک ٹوٹا ہے۔۔۔۔۔اور اس کا ہتھیار کافی ٹھیک ہے ۔۔۔ پھر اسے دلیل دیتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ دیکھو نا اس کام کے لیئے ہم لوگوں کو جس قسم کی پرائیویسی کی ضرورت ہوتی ہے اس کے لیئے شبی سب سے فِٹ بندہ ہے۔۔۔ میری بات سن کر اس نے سر ہلایا اور کہنے لگی ۔۔۔ کہتی تو تو ٹھیک ہے۔۔۔۔ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

 اور بات آئی گئی ہو گئی۔۔۔۔۔ اس طرح اگلے تین چار دن تک میں اسے شبی کے ساتھ اپنے سیکس کے بارے میں بڑھا چڑھا کر ۔۔۔۔۔۔ جھوٹی سچی باتیں بتاتی رہی ۔۔۔ جس سے اس کو اپنے اندر لن لینے کے کا مزید شوق پیدا ہو گیا۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے ایک دفعہ بھی اس کو شبی کے ساتھ سیکس کا نہیں کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔ وجہ یہی تھی کہ کہیں وہ اس کا غلط مطلب نہ لے لے۔۔۔۔ ایک دن سکول جاتے ہوئے جب میں پروگرام کے مطابق چپ چاپ اس کے ساتھ چل رہی تھی تو اچانک ہی اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔ کیا بات ہے صبو آج تم بڑی چپ چپ ہو ۔۔۔۔ راتی لُلاُ نئیں ملیا ؟ ( رات لن نہیں لیا؟) تو میں نے اس سے کہا ایسی بات نہیں ہے یار ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ تو پھر کیا بات ہے؟ پھر خود ہی بولی ۔۔۔۔۔ جو بھی بات ہے اس کو گولی مارو۔۔۔۔۔۔ بس مجھے رات ہونے والے سیکس کی سٹوری سناؤ؟ اس پر میں نے اس کو خوب نمک مرچ لگا کر سٹوری سنائی ۔۔۔۔ جس کے اینڈ میں وہ ایک بار پھر جزباتی ہو گئی۔۔۔ اور میرے طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔ صبو ۔۔۔ میری پھدی ۔۔۔۔۔ ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ اس دفعہ بجائے اس کے میں نے اس کو ۔۔۔ اس کی پسندیدہ گالی دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔ حرام دیئے پھدی لن منگدی اے تو انوں لن کھلا ندی کیوں نئیں ۔۔۔ پھر مزید بولی ۔۔۔۔ حرام دیئے ۔۔۔ اپی وی ترسنی ایں۔۔ تے اپنی پھدی نوں وی ترسانی ایں ( حرام زادی اگر تمہاری پھدی لن مانگتی ہے تو اسے لن کھلتی کیوں نہیں ۔۔۔ ۔۔۔ حرام زادی خود بھی لن کے لیئے ترس رہی ہو اور پھدی کو بھی ترسا رہی ہو) ۔۔۔۔ میری بات ختم ہو تے ہی اچانک وہ کہنے لگی۔۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ ۔۔۔۔ شبی میرے ساتھ سیکس کرنے پر مان جائے گا؟ اس کی بات سن کر میں نے کہا ۔۔ پہلے تم بتاؤ کہ تم راضی ہو؟ تو وہ اثبات میں سر ہلا کر بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں یار ۔۔۔۔ بنا لن کے اب میں نہیں رہ سکتی ۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ ٹھیک ہے میں آج شبی سے پوچھ لوں گی۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔۔۔ ایک بات اور صبو۔۔۔۔ اور وہ یہ کہ میں نے اس کے ساتھ تمہارے گھر میں سیکس نہیں کرنا ؟ تو میں نے اس سے کہا کہ تو پھر کہاں کرنا ہو گا؟ تو وہ بولی۔۔۔ ہمارے گھر کے اس کمرے میں جہاں میں اور تم سیکس کیا کرتی ہیں ۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔۔

سکول سے واپسی پر دوپہر کے وقت جب میں اور بھائی اکیلے تھے تو میں نے اس کے ساتھ فوزیہ کی بات شروع کر دی ۔۔ میری بات سنتے ہی اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور پھر کہنے لگا۔۔۔۔۔ ایک بات لکھ لو باجی ۔۔۔۔اور وہ یہ کہ ایک نہ ایک دن میں فوزیہ باجی کی گانڈ ضرور ماروں گا۔۔۔۔۔ اس پر میں نے اس سے کہا کہ اچھا یہ بتا کہ فوزیہ کے ساتھ ساتھ اور کس کی گانڈ تم کو اچھی لگتی ہے تو اس پر اس نے محلے اور رشتے داروں میں جس جس خاتون کی موٹی گانڈ تھی اس کے بارے میں بتا دیا لیکن حیرت انگیز طور پر اس نے عاشی کا نام نہیں لیا۔۔۔۔ اس لیئے جب بھائی خاموش ہوا تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔کمال ہے بھائی ایک نام تو تم بھول ہی گئے ہو ۔۔۔ تو وہ بڑی حیرانی سے بولا کون سا نام ؟ تو میں نے جب عاشی کا نام لیا۔۔۔ تو وہ برا سا منہ بنا کر بولا۔۔۔۔۔ ارے باجی آپ اس نک چڑھی کی بات کر رہی ہو ۔۔ جس کا نخرہ ہی بہت زیادہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر میں نے اس سے کہا ۔۔۔۔ بھائی تو اس کے نخرے کو چھوڑ بس یہ بتا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہے کیسی؟ تو بھائی میری طرف دیکھ کر بولا۔۔۔ وہ ۔۔۔وہ۔۔۔ باجی عاشی باجی تو ایک دم پٹاخہ ہےپٹاخہ۔۔ ۔۔۔ لیکن ہے بڑی مغرور ۔۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ فرض کرو ۔۔۔ وہ تم سے سیکس کرنا چاہے تو؟ میری بات سن کر وہ ایک دم زمین سے ایک فٹ اوپر اچھلا ۔۔۔ اور بڑی بے یقنی سے کہنے لگا۔۔ سیکس ۔۔۔۔۔ میرے ساتھ اور وہ بھی ۔۔۔ عاشی باجی۔۔۔۔حیرت سے ابھی تک اس کا منہ کھلا ہوا تھا ۔۔۔اور وہ بڑی بے یقینی سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔پھر جب میں نے اسے ساری بات سمجھائی ۔۔۔ تو کچھ ہچکچاہٹ کے بعد وہ مان گیا۔۔۔۔۔

  دوپہر کا وقت تھا ۔۔اور سورج سوا نیزے پر آیا ہوا تھا ۔۔۔۔اس دن کچھ زیادہ ہی گرمی پڑ رہی تھی لیکن یہ گرمی اس گرمی سے بہت کم تھی جو اس وقت عاشی کے جسم میں گھوم رہی تھی اس کا صرف اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے میں نے سکول کا بیگ لیا اور اماں سے کہنے لگی ۔۔۔۔ امی میں عاشی کے گھر پڑھنے جا رہی ہوں ۔۔۔ تو حسب ِ معمول امی نے وہی بات کی جو وہ روز کیا کرتی تھیں ۔۔۔یعنی کچھ آرام کر لو ۔۔ پھر ٹھنڈے ویلے چلی جانا۔۔ ۔۔۔ لیکن میں امی کو کیا بتاتی کہ یہ ایک ایسا ہوم ورک تھا کہ جو صرف گرم ویلے ہی کیا جا سکتا تھا ۔۔۔۔۔ اس لیئے میں نے امی کو صرف اتنا کہا ۔۔۔ کُج نہیں ہوندا ۔۔۔۔ (کچھ نہیں ہوتا ) اور باہر نکل گئی ۔۔۔۔پھر میں بیگ لیئے ہوئے عاشی کے گھر پہنچی ۔۔۔ اور اوپر دیکھا تو عاشی کی چھت پر کھڑا بھائی میرے اشارے کا منتظر تھا-- 

عاشی کے گھر داخل ہوتے ہی میری نگاہ عاشی کے کمرے کی کھڑکی کی طرف گئی ۔۔ جہاں کھڑکی سے چپکی عاشی میرا ہی انتظار کر رہی تھی مجھے اندر داخل ہوتے دیکھ کر وہ اپنے دروازے میں آگئی ۔۔۔۔اور پھر میرا اشارہ کرنے پر اس نے بھی آل اوکے کا سگنل دے دیا۔۔۔چنانچہ اس کی طرف سے سگنل ملتے ہی میں نے بھائی کو اشارہ کر دیا تو وہ بڑے ہی محطاط انداز میں سیڑھیاں اترنے لگا۔۔۔ پھر وہ خاموشی سے عاشی کے کمرے میں چلا گیا۔۔۔ اس کے پیچھے پیچھے میں بھی کمرے میں داخل ہو گئی۔۔۔ اور جیسے ہی میں اندر داخل ہوئی عاشی نے آگے بڑھ کے دروازے کو کنڈی لگا دی ۔۔۔ کمرے کو کنڈی لگاتے ہی عاشی سامنے پلنگ پر بیٹھ گئی جبکہ شبی پہلے ہی پلنگ کے پاس پڑے موڑھے سر جھکائے قدرے۔۔۔۔۔ کنفیوز سا بیٹھا ہوا تھا ۔۔ جبکہ دوسری طرف پلنگ پر بیٹھی عاشی میری طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔ کچھ دیر تک کمرے میں گھنی خاموشی رہی ۔۔۔۔ ان دونوں میں ۔۔۔ واحد میں ایسی فرد تھی کہ جس کے ان دونوں کے ساتھ جنسی تعلق تھے اس لیئے ان دونوں کو کھولنے کے لیئے مجھے ہی کچھ کرنا تھا ۔۔۔ چنانچہ میں آگے بڑھی اور شبی کا ہاتھ پکڑ کر عاشی کے ہاتھ میں دے دیا۔۔۔ پتہ نہیں کیوں ۔۔۔ بھائی کا ہاتھ لگتے ہی عاشی نے ایک جھٹکا سا کھایا اور اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا۔۔۔۔ اور میں نے دیکھا تو عاشی اور بھائی دونوں کے چہرے شرم کے مارے لال ہو رہے تھے ۔۔۔ بھائی نےتو مرد ہونے کی وجہ سے پھر بھی گزارا کر جانا تھا ۔۔۔ لیکن مسلہ عاشی کا تھا کہ اس کے چہرے پر شدید کشمکش کے آثار نظر آ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

یہ دیکھ کر میں نے بھائی کو موڑھے سے ا ُٹھایا اور عاشی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔ بھائی یہ تو شرم ہی کرتی رہے گی ۔۔۔ اس لیئے آؤ ہم کچھ مستی کر لیں۔۔اس کے ساتھ ہی میں نے بھائی کا چہرہ اپنے سامنے کیا ۔۔۔ اور پھر عاشی کی طرف دیکھتے ہوئے اس سے بولی۔۔۔۔۔ بھائی میرے ہونٹوں پر ایک چوما دو۔۔۔۔ میری بات سن کر بھائی نے ایک نظر عاشی کی طرف دیکھا پھر ۔۔۔تھوڑا جھجھکتا ہوا آگے بڑھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے۔۔۔۔ اور پھر میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لیکر چوسنے لگا۔۔۔ جب بھائی میرے ہونٹ چوس رہا تھا تو ہمارے اس عمل کو عاشی بڑے غور سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ پھر میں نے عاشی کی طرف دیکھتے ہوئے ایک ۔۔سسکی لی ۔۔ اور بھائی کے منہ سے منہ ہٹا کر بولی۔۔۔۔۔ اُف تم کتنے سیکسی ہو بھائی۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی دوبارہ سے کسنگ سٹارٹ کر دی۔۔۔۔ کچھ دیر بعد میں نے بھائی کے ساتھ کسنگ کرتے ہوئے۔۔۔۔ بھائی کی قمیض اتار دی ۔۔۔ اور پھر اگلے ہی لمحے ۔۔۔ اپنی قمیض اور برا کو اتار کر پرے پھینک دیا۔۔۔۔۔اور پھر عاشی کی طرف دیکھتے ہوئے ۔۔۔۔ بھائی سے کہنے لگی۔۔۔میرے بھائی میری چھاتیوں کو اپنے منہ میں لے کر خوب چوسو۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ عاشی کی نظریں بھائی کی شلوار کی طرف لگی ہوئیں تھیں جہاں بھائی کے تنے ہوئے لن کی وجہ سے شلوار اوپر کو اُٹھی ہوئی تھی۔۔۔ ادھر بھائی میری ننگی چھاتیوں کو چوس رہا تھا کہ دوسری طرف عاشی بھائی کے لن کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔اور بار بار اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رہی تھی۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے بھائی کے منہ سے اپنی چھاتی کو ہٹایا اور اس کو پکڑ کر عاشی کے پاس لے گئی۔۔۔بھائی کو اپنی طرف آتے دیکھ کر عاشی نے بھائی کے لن سے اپنی نظروں کو ہٹا لیا تھا اور اب چوری چوری اس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ 

جیسے ہی میں عاشی کے پاس پہنچی تو میں نے بھائی سے کہا ۔۔۔بھائی ۔۔عاشی چوری چوری تمہارے لن کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ پھر اس کے ساتھ ہی میں نے عاشی کا ہاتھ پکڑا اور بھائی کے لن پر رکھ دیا اور کہنے لگی۔۔۔ اسے یوں چوری چوری کیوں دیکھتی ہو؟؟ ۔۔۔ ہاتھ میں پکڑ کر چیک کرو نا۔۔۔۔۔۔ میرے ہاتھ پکڑے پر عاشی نے تھوڑی سے ۔۔۔۔ہچکچاہٹ دکھائی لیکن ۔۔۔ چونکہ میں نے اس کے ہاتھ کو بڑی سختی کے ساتھ پکڑا ہوا تھا ۔۔۔اس لیئے وہ بے چاری زیادہ ۔۔۔ دیر تک مزاحمت نہ کر سکی اور شلوار کے اوپر سے ہی بھائی کا لن پکر لیا۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی عاشی نے بھائی کا لن اپنے ہاتھ میں ۔۔پکڑا میں نے جلدی سے اس کی شلوار بھی اتار دی۔۔۔ اور اب بھائی کا ننگا لن عاشی کے سامنے تھا۔۔۔۔۔ بھائی کی شلوار اتارتے وقت عاشی نے بھائی کے لن پر سے ہاتھ ہٹا لیا تھا ۔۔۔۔ اس لیئے میں نے بھائی کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا ۔۔۔۔۔ اور اسے ہلاتے ہوئے عاشی سے بولی۔۔۔ عاشی بھائی کا لن کیسا؟ پہلے تو عاشی چپ رہی پھر میرے بار بار پوچھنے پر وہ کہنے لگی۔۔ م۔۔مم ۔۔مجھے کیا پتہ۔۔ اس دوران بھائی بلکل چپ کھڑا تھا۔۔۔۔۔ پھر میں آگے بڑھی اور عاشی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔ عاشی ۔۔ایسے لن چوستے ہیں ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے بھائی کا لن اپنے منہ میں لے لیا ۔۔۔اور دو تین بار چوس کے عاشی کی طرف دیکھا تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے مسلسل اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہی تھی۔۔۔ یہ دیکھ کر میں اوپر اُٹھی اور عاشی کا ہاتھ پکڑ کر ایک دفعہ پھر بھائی کے لن پر رکھ دیا ۔۔۔ خلافِ توقع اس دفعہ عاشی نے کوئی مزاحمت نہیں کی اور بڑے آرام سے بھائی کے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا تھا۔۔۔۔ میں نے کچھ دیر تک عاشی کو بھائی کا لن پکڑنے دیا۔۔۔۔پھر میں نے عاشی کی قمیض کو اتارنا شروع کر دیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر عاشی نے ایک جھر جھری سی لی ۔۔۔ اور پھنسے پھنسے لہجے میں کہنے لگی ۔۔۔ ک۔کیا کر رہی ہو؟ تو میں نے اس سے کہا۔۔۔۔۔ بھائی سے پھدی نہیں مروانی؟ میری بات سن کر وہ شرم سے لال ٹماٹر ہو گئی اور ۔۔۔ منہ سے کچھ نہ بولی ۔۔۔۔ اس پر میں شرارت سے بولی۔۔۔ اچھا بتاؤ نہ عاشی ۔۔۔۔۔ بھائی سے پھدی نہیں مروانی؟ تو اچانک ہی عاشی نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔ صبو ۔۔۔ پلیززز ۔۔اپنے بھائی سے کہو۔۔۔کہ یہ آج والے واقعہ کا کسی سے بھی زکر نہ کرے۔۔۔ اس بارے میں ۔۔۔ میں بھائی کو پہلے ہی سمجھا چکی تھی ۔۔۔اس لیئے جب میں نے اس سے عاشی والی بات کی تو وہ کہنے لگا۔۔۔ کیسی باتیں کر رہی ہو صبو باجی۔۔۔۔ بھلا اس طرح کی باتیں بھی کسی کو بتانے والی ہوتی ہیں؟؟ ۔۔۔ پھر بولا ۔۔۔۔ اور خاص کر اپنی بہنوں کی بات کو تو باہر کرنے کا مطلب اپنی ہی بے عزتی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا ۔۔ اور پھر اس کے بعد بھائی نے میرے بتائے ہوئے اسی ٹائپ کے کافی فقرے ادا کیئے ۔۔۔ جنہیں سن کر عاشی مطئن ہو گئی۔۔۔

اور پھر اس نے بجائے مجھ سے مخاطب ہونے کے براہِ راست بھائی سے بولی۔۔۔۔ قسم کھاؤ کہ ہمارے اس تعلق کے بارے میں تم کسی سے بات نہیں کرو گے۔۔۔ بھائی تو پہلے سے ہی تیار تھا ۔۔۔ چنانچہ اس نے جلدی سے ایک کی بجائے دو قسمیں کھائیں ۔۔۔ جس سے عاشی مزید مطمئن ہو گئی۔۔۔۔ اور ۔۔ میں نے واضع طور پر اس کے چہرے پر طمانیت کے آثار دیکھے ۔۔۔ میری طرح یہ بات بھائی نے بھی نوٹ کر لی تھی اس لیئے اس وہ عاشی کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔ اور کہنے لگا۔۔۔ باجی ۔۔۔ کپڑ ے اتاریں نا۔۔۔ بھائی کی بات سن کر عاشی گلنار سی ہو گئی ۔۔۔ اور جلدی سے اپنی قمیض اتار دی ۔۔۔پھر برا اتار کر بھائی کے سامنے کھڑی ہوگئی اس وقت عاشی کے بڑے بڑے ممے اس کے سینے پر جھول رہے تھے اور ان چھاتیوں پر اس کے نپل اکڑے کھڑے تھے ۔۔۔ اب بھائی آگے بڑھا اور عاشی کے دونوں مموں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر بولا۔۔۔باجی آپ کے تو بہت بڑے بڑے ہیں۔۔۔ پھر ۔۔۔ اس سے پہلے کہ عاشی کوئی جواب دیتی اس نے اس کا ایک نپل اپنے منہ میں لے لیا۔۔۔۔ اور اسے چوسنے لگا۔۔۔۔۔ عاشی کے نپل چوستے ہوئے بھائی کا ایک ہاتھ عاشی کی شلوار کی طرف گیا۔۔۔۔ اور اس نے عاشی کی شلوار اتار دی ۔۔۔۔۔ اب عاشی پوری طرح سے ننگی ہو گئی تھی۔۔۔۔۔ تب میں نے بھائی سے کہا۔۔۔۔ بھائی عاشی کے ممے کیسے ہیں ۔۔۔؟ تو وہ بڑے حریص لہجے میں بولا۔۔ باجی عاشی باجی کے ممے بڑے ہی سیکسی اور نپل نمکین ہیں۔۔۔ مجھے چوسنے میں بڑا مزہ آ رہا ہے۔۔۔ اور ایک بار پھر سے عاشی کے ممے چوسنے لگا۔۔۔ کچھ ہی دیر میں ۔۔۔ کمرے کی فضا مست ہو گئی اور اس مستی میں عاشی کی سسکیوں کی آوازیں سنائی دنیے لگیں۔۔۔ وہ کہہ رہی تھی۔۔۔۔ اُف بھائی ۔۔۔ اور ۔۔۔ چوس نا ں ۔۔ میرے ممے۔۔۔۔ پھر اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔ حرام دیئے اروں آ۔۔۔(حرام زادی ادھر آؤ) اور جب میں اس کے پاس پہنچی تو اس نے اپنے منہ سے زبان باہر نکال دی جسے آگے بڑھ کر میں نے اپنے منہ میں لے لیا ۔۔۔۔اور عاشی کی زبان چوسنے لگی۔۔۔۔

کچھ دیر بعد عاشی نے اپنی زبان کو میرے منہ سے نکالا اور کہنے لگی۔۔۔۔ صبو ۔۔اینوں کہہ میری پھدی چٹے ( صبو اسے کہو کہ میری چوت چاٹے) ممے چوستے ہوئے بھائی نے بھی عاشی کی بات سن لی تھی چنانچہ اس نے عاشی کے مموں کو چھوڑا ۔۔۔۔اور عاشی کو پلنگ پر لیٹنے کو کہا۔۔۔۔۔ اور پھر جیسے ہی عاشی پلنگ پر لیٹی ۔۔۔۔۔وہ گھٹنوں کے بل چلتا ہوا اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان پہنچا۔۔۔۔۔۔اور پھر اس اس کی پھدی کی طرف جھک گیا۔۔۔۔ اور پھر اس کی بالوں سے پاک پھدی دیکھ کر چونک گیا۔۔۔ اور سر اُٹھا کر عاشی سے بولا۔۔۔۔ واہ باجی آپ کی پھدی تو بڑی کمال ہے اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی زبان باہر نکالی اور اس کی پھدی کو چاٹنا شروع کر دیا۔۔۔ ادھر عاشی پھدی چٹواتے ہوئے مزے کے مارے بے حال ہوتی جا رہی تھی ۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے میری طرف دیکھا اور آنکھ مار کر بولی۔۔۔صبو ۔۔ مرد دی جیبھ دا صواد ای ہور اے( صبو مرد کی زبان کا اپنا مزہ ہے)۔۔۔اور جیسے جیسے بھائی کی زبان اس کی چوت پر پھرتی جاتی تھی اس کی سسکیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔پھراچانک ہی عاشی فلُ جوبن میں آ گئی ۔۔۔اور بھائی کے سر کو اپنی پھدی پر دباتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حرام دے یا ۔۔۔توُں پھدی بڑی سوہنی چٹ دا ایں ۔۔۔( حرام زادے تم پھدی اچھی چاٹتے ہو۔۔۔) اور اس کے ساتھ ہی عاشی بھائی کے منہ میں ہی چھوٹ گئی۔۔۔ 

کچھ دیر بعد عاشی نے بھائی کو اوپر اُٹھایا اور کہنے لگی۔۔۔ مجھے اپنا لن دکھاؤ۔۔۔ عاشی کی بات سن کر بھائی فوراً ہی گھٹنوں کے بل کھڑا ہو گیا۔۔۔اور اپنے لن کو عاشی کے سامنے کر دیا۔۔۔۔ اب عاشی میری طرف متوجہ ہوئی اور کہنے لگی ۔۔۔۔ مجھ ے لن چوسنا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس نے بھائی کا لن پکڑا اور اپنے منہ میں لے لیا ۔۔۔اور پھر بڑے جوش کے ساتھ اس کے لن کو اپنے منہ میں اندر باہر کرنے لگی۔۔۔۔ کچھ دیر تک وہ ایسے ہی کرتی رہی۔۔۔ پھر اس نے بھائی کا لن اپنے منہ سے نکلا ۔۔۔۔۔اور دوبارہ پلنگ پر لیٹ گئی اور بھائی کو مخاطب کر کے بولی۔۔۔۔۔میری پھدی مار۔۔۔۔ یہ سن کر ب ھائی آگے بڑھا ۔۔ اور اس نے عاشی کی دونوں ٹانگیں اوپر اُٹھا کر اپنے لن کو عاشی کی چوت پر فٹ کیا۔۔۔ اور پر ہلکی سی پُش کےساتھ لن کا ٹوپا عاشی کی چوت میں داخل کر دیا۔۔۔جیسے ہی بھائی کا لن عاشی کی چوت میں داخل ہوا ۔۔۔ عاشی کے ایک طویل سسکی لی ۔۔۔ اور کہنے لگی۔۔۔۔۔ لن پورا ڈال ۔۔۔۔۔ اور بھائی نے دوسرا ۔۔ گھسہ مارا۔۔۔تو اس کا لن عاشی کی چوت میں غائب ہو گیا۔۔۔ اور پھر اس کے بعد بھائی نے عاشی کی چوت میں پمپنگ شروع کر دی۔۔۔۔ جیسے جیسے بھائی اپنے لن کو عاشی کی چوت میں ان آؤٹ کرتا ۔۔ویسے ویسے عاشی خوشی سے سسکیاں بھرتی اور میری طرف دیکھ کر کہتی ۔۔۔ اینوں کہہ لن ہور موٹا کرے۔۔۔۔۔ ( اسے کہوں لن کو اور موٹا کرے) تو میں شرارت سے عاشی کو کہتی ۔۔ کتنا موٹا کرے ۔۔۔ تو عاشی ۔۔۔۔ مزے میں کہتی اتناااااااااااااا۔۔۔۔۔۔۔۔اس پر میں عاشی سے کہتی ۔۔۔۔ بہن چود اس طرح تو تیری پھدی پھٹ جائے گی ۔۔۔۔تو وہ جوش میں کہتی ۔۔۔ پھدی ہی تو پھڑوانی ہے نا ۔۔۔حرام دیئے۔۔۔۔اور پھر بھائی اور تیز گھسے مارنے کا کہتی ۔۔۔۔ کچھ دیر بعد اچانک ہی عاشی اور بھائی دونوں نے ایک ساتھ سسکنا شروع کر دیا۔۔۔ عاشی بھائی سے کہہ رہی تھی حرام دے یا ۔۔۔۔۔ کس کے مار( حرام ذادے زور سے مار) جبکہ بھائی گھسے مارتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔۔ باجی باجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور کچھ سیکنڈ کے بعد دونوں نے ایک ساتھ چیخنا شروع کر دیا۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔پھر ۔۔ دونوں ایک ساتھ چھوٹ گئے۔۔۔۔۔

اس سے اگلے دن کی بات ہے میں گھر میں بیٹھی ہوم ورک کر رہی تھی کہ بھائی گھر میں داخل ہوا اور سیدھا میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔۔۔ اس سے گپ شپ کرتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا ۔۔۔کہ بھائی۔۔۔۔۔ کل مزہ آیا تھا۔۔۔تو وہ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولا۔۔ باجی عاشی باجی کے ساتھ سیکس کا اپنا ہی مزہ ہے ۔۔۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولا۔۔۔ ویسے باجی اس کی پھدی آپ کی پھدی سے زیادہ صاف اور گوری ہے پھر شرارت سے بولا۔۔۔اور تو اور باجی عاشی باجی کی بنڈ بھی آپ کی بُنڈ سے زیادہ موٹی اور گوری ہے۔۔۔۔عاشی کی تعریف سن کر میں اندر سے جل گئی لیکن اس پر ظاہر نہیں کیا کیونکہ اگر میں اسے یہ بات بتا دیتی تو اس نے مجھے اور چھیڑنا تھا۔۔۔ اس لیئے میں نے بات بدلنے کی خاطر اس سے پوچھا کہ اچھا یہ بتاؤ کہ تمہاری پڑھائی کیسی جا رہی ہے؟ تو وہ کہنے لگا۔۔۔ ایک دم فسٹ کلاس ۔۔۔ پھر اچانک ایسا لگا کہ جیسے اسے کوئی بات یاد آ گئی ہو۔۔ اور وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔ باجی آج قاری صاحب ہمارے گھر آنے والے ہیں۔۔۔ قاری صاحب کا نام سن کر میں ایک دم چونک پڑی اور اس سے پوچھا ۔۔ کون سے قاری؟ تو وہ کہنے لگا وہی قاری راشدی صاحب جو کہ ابا کے دوست بھی ہیں قاری راشدی صاحب کا نام سن کر اندر سے میں ہل گئی۔ اور میری آنکھوں کے سامنے ڈنگر ہسپتال والا گھوم گیا۔۔۔ اس لیئے میں نے بھائی سے پوچھا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ کہ وہ کیوں آرہے ہیں؟ تو وہ بھائی کہنے لگا ۔۔کس لیئے آ رہے ہیں اس کا تو پتہ نہیں ۔۔۔ ہاں البتہ وہ مجھ سے یہ ضرور پوچھ رہے تھے کہ تمہارے ابا کس وقت گھر پر ہوتے ہیں۔۔۔۔ مجھے ان سے کوئی ضروری کام ہے ۔۔ ابا اور کام کا نام سن کر اندر سے میں بڑی پریشان ہوئی اور سوچنے لگی ۔۔۔ کہ کہیں وہ ۔۔۔۔۔۔ اس سے آگے سوچنے کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔۔۔کچھ دیر بیٹھ کر بھائی تو چلا گیا لیکن مجھے سوچوں کے ہجوم میں اکیلا چھوڑ گیا۔۔۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قاری صاحب ابا کے دوست تھے لیکن اس سے پہلے وہ اس طرح بتا کر کبھی ہمارے گھر نہیں آئے تھے۔۔ پھر آج انہیں پوچھنے کی ضرورت کیوں پر گئی۔؟؟کہیں وہ۔۔۔۔۔ یہی سوچتے سوچتے ۔۔۔۔۔۔شام ہو گئی۔۔۔۔ اور میں پریشانی کے عالم میں صحن میں ہی بیٹھی رہی ۔۔۔ اسی دوران اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔اور میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔۔۔ اتنے میں دوبارہ دستک ہوئی تو مجھے اماں کی آواز سنائی دی۔۔ صبو جا کر دیکھو کون ہے؟ اور میں نے ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولا تو ۔۔۔سامنے قاری راشدی صاحب کھڑے تھے۔۔۔۔  مجھے سامنے دیکھ کر پتہ نہیں کیوں مجھے ایسا لگا کہ وہ کچھ غصے میں ہیں ۔۔پھر انہوں نے شعلہ بار نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر بڑے ہی پر اسرار لہجے میں بولے۔۔۔۔۔۔ ابا گھر پر ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟

چونکہ اس وقت میرے دل میں ڈنگر ہسپتال والے واقعہ کا چور چھپا بیٹھا تھا اس لیئے قاری صاحب کو دیکھ کر میری حالت بہت عجیب ہو رہی تھی ۔اور۔ان کی طرف دیکھتے ہوئے میں نہ جانے کن خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔۔۔ مجھے یوں چپ دیکھ کر اس دفعہ قاری صاحب قدرے جلال سے بولے ارے سنتی ہو۔۔ تمہارے والد محترم توفیق صاحب گھر پر ہیں؟ ابھی قاری صاحب نے اتنا ہی کہا تھا کہ ۔۔ اندر سے مجھے امی کی آواز سنائی دی وہ پوچھ رہی تھیں کہ ۔۔ ۔۔ باہر کون ہے صبو۔۔ امی کی بات سن کر میں نے اپنا منہ دروازے کے اندر صحن کی طرف کر کے جواب دیا کہ امی باہر قاری راشدی صاحب کھڑے ابا کا پوچھ رہے ہیں راشدی صاحب کا سن کر امی دوڑتی ہوئی دروازے پر آئیں اور مجھے ڈانٹتے ہوئے بولیں ۔۔ باہر کیوں کھڑا کیا ہے ۔۔۔قاری صاحب کو اندر آنے دو۔۔۔اور پھر خود دروازہ کھول کر قاری صاحب سے مخاطب ہو کر بولیں ۔۔۔ باہر کیوں کھڑے ہیں؟ اندر آئیے نا ۔۔ یہ آپ کا اپنا ہی گھر ہے ۔۔۔ لیکن قاری راشدی صاحب جو ابھی تک باہر کھڑے تھے تھوڑا جھجھک کر بولے ۔۔۔۔ بہت بہت شکریہ بہن جی ۔۔۔ لیکن مجھے توفیق بھائی صاحب سے ملنا تھا ۔۔۔کیا بھائی صاحب گھر پر موجود ہیں؟ تو اماں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جی وہ گھر پر ہی ہیں آپ تشریف لے آیئے۔۔۔ امی کی بات سن کر قاری صاحب نے اپنے سر پر رکھی جناح کیپ کو درست کیا اور امی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بولے ۔۔۔ بہت شکریہ بہن جی ۔۔۔۔ اگر آپ ایک منٹ کےلیئے بھائی صاحب کو باہر بلا لیں تو آپ کی بڑی مہربانی ہو گی ۔۔۔ اتنی آنا کانی سن کر ابا جو کہ اپنے کمرے میں آرام کر رہے تھے بھی اُٹھ بیٹھے اور آنکھیں ملتے ہوئے باہر آ گئے اور امی کی طرف دیکھ کر کہنے لگے ۔۔ بار کون اے مسرت؟ (باہر مسرت کون ہے؟) تو امی جو کہ ابھی تک دروازے میں کھڑی تھیں ابا کی آواز سن کر دروازے سے ایک طرف ہٹ کر بولیں ۔۔۔۔۔۔۔ وہ جی راشدی صاحب آئے ہیں ۔۔۔۔ راشدی صاحب کا نام سن کر ابا کو جیسے کوئی کرنٹ سا لگ گیا تھا ۔۔۔اور وہ ایک دم چوکس ہو کر بولے ۔۔۔۔ تو نیک بخت ان کو اندر آنے دو ناں ۔۔۔ اس پر امی دروازے سے ہٹ کر واپس آتے ہوئے بولیں ۔۔۔ میں نے تو بھتیرا کہا ہے لیکن وہ آپ کو ہی بلا رہے ہیں ۔۔۔ امی کی یہ بات سنتے ہی ابا ایک دم سے باہر چلے گئے۔۔۔اور راشدی صاحب کو بڑی عزت و احترام سے لیکر لے کر اندر آ گئے تب تک امی نے صحن میں بچھی چارپائی پر پھرتی سے بستر بھی بچھا دیا تھا ۔۔۔۔ اور اس چارپائی کے سامنے ایک موڑھا بھی رکھ دیا تھا۔۔۔۔ 

                  ایک طرف تو اماں اور ابو راشدی صاحب کو اس قدر پروٹو کو ل دے رہے تھے جبکہ دوسری طرف دور کھڑی میں یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہی تھی کہ پتہ نہیں یہ قاری کا بچہ ہمارے گھر کیا کرنے آیا ہے؟۔۔ ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی بار بار میری آنکھوں کے سامنے جب ہسپتال واقعہ گھومتا ۔۔تو میرا دل دھک دھک کرنے لگتا اور یہ سوچ کر میری جان ہی نکل جاتی کہ اگر اس نے میری شکایت لگا دی تو کیا ہو گا ؟ غرض ہزار طرح کی سوچوں اور وسوسوں نے مجھے چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا اور میں بظاہر تو بڑی مطئمن۔۔۔ لیکن اندر سے سخت پریشان تھی کہ پتہ نہیں کیا ہو نے والا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی سوچ کے تحت میں قاری صاحب کی ایک ایک حرکت کو بڑے ہی غور سے مانیٹر بھی کر تی جا رہی تھی لیکن بظاہر ابھی تک انہوں نے میری طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں انہی سوچوں میں گم تھی کہ ابا قاری صاحب کو لیکر صحن میں بچھی چارپائی کہ جس کے بستر پر اماں نے جلدی سے نئی چادر بھی بچھی دی تھی ۔۔۔ پر بٹھا کر خود سامنے موڑھے پر بیٹھ گئے ۔۔۔ جبکہ اماں ابا کے پاس اور میں ان دونوں سے ہٹ کر صحن کے پاس برآمدے کےایک پلر سے لگی کھڑی تھی۔۔۔ جیسے ہی قاری صاحب چارپائی پر بیٹھے تو ابا نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے پہلے تو ان کا بہت ادب سے شکریہ ادا کیا پھر کہنے لگے ۔۔جناب آپ نے خود کیوں زحمت کی ۔۔۔۔ مجھے بلا لیا ہوتا ۔۔۔ میں آپ کی خدمت میں خود حاضر ہو جاتا ۔قاری صاحب ابا کی یہ بات سن کر کہنے لگے ۔۔ایسی باتیں کر کے آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہو توفیق میاں۔۔۔۔۔۔۔پھر اس قسم کی رسمی باتوں کے بعد ابا نے ان سے کھانے کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے ۔۔۔ میں کھانا نہیں کھاؤں گا ہاں اگر ایک کپ چائے مل جائے تو کیا کہنے۔۔۔ قار ی صاحب کی بات سن کر ابا نے اماں کی طرف دیکھا اور اماں یہ کہتے ہوئے کہ ابھی لائی ۔۔۔ کچن کی طرف چلی گئیں ۔۔۔۔ اس دوران میرا سارا دھیان ابا اور قاری صاحب کی گفتگو کی جانب مبزول تھا ۔۔ لیکن ان کی باتوں میں مجھے بظاہر ایسی کوئی بات نظر نہ آ رہی تھی ۔۔ کوئی دس منٹ کے بعد اماں چائے کے ساتھ بسکٹ لیکر کر آگئیں اور مجھے اشارہ کیا تو میں اندر سے تپائی لے آئی اور قاری صاحب کے سامنے رکھ دی جہاں پر اماں نے ان کے سامنے چائے اور بسکٹ وغیرہ رکھ دیئے۔۔۔ اور خود ایک اور موڑھا لے کر ابا کے ساتھ ان کے سامنے بیٹھ گئیں۔۔۔۔

چائے وغیرہ پینے کے بعد قاری صاحب نے کچھ دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کیں ۔۔۔ پھر ابا سے مخاطب ہو کر کہنے لگے۔۔۔ وہ توفیق میاں ۔۔۔میں آپ کے پاس ایک غرض لے کر آیا تھا۔۔۔ تو ابا نے نہایت ادب سےجواب دیا کہ آپ حکم کریں جناب ۔۔۔ مجھ سے جو ہو سکا میں وہ ضرور کروں گا۔۔۔ابا کی بات سن کر راشدی صاحب کے چہرے بشاشت سی پھیل گئی اور ۔۔ انہوں نے ٹھہر ٹھہر کر کہنا شروع کر دیا کہ ۔۔۔۔ وہ میاں جیسا کہ آپ کو معلوم ہی ہے کہ ہماری بیگم صاحبہ امید سے ہیں ۔۔اور دس بارہ روز تک ہمارے گھر میں چاند اترنے والا ہے تو اس سلسلہ میں ۔۔ مجھے آپ کی مدد درکار ہے ۔۔۔ تو ابا نہ سمجھتے ہوئے کہنے لگے آپ حکم کریں ۔۔۔۔اس پر قاری صاحب کہنے لگے ۔۔۔ وہ جیسا کہ آپ کو معلوم ہی ہے کہ اس سے پہلے ہمارے جب بھی ڈیلوری کا موقعہ آتا تو ایسے میں گاؤں سے ہماری سالی صاحبہ آ جایا کرتی تھیں ۔۔۔ لیکن اتفاق کی بات ہے کہ اس دفعہ خود ان کے ہاں بھی کچھ یہی صورتِ حال ہے۔۔اس لیئے اس دفعہ وہ ہمارے ہاں نہیں آ سکتیں ۔۔۔ اتنی بات کرنے کے بعد راشدی صاحب نے براہِ راست ابا کی طرف دیکھا اور تھوڑا جھجھک کر بولے۔۔۔چنانچہ اس سلسلہ میں میری آپ سے درخواست ہے کہ اگر آپ بھابھی صاحبہ کو کچھ دنوں کے لیئے ہمارے ہاں بھیج دیں تو۔۔۔۔۔۔۔پھر جلدی سے بولی ۔۔۔۔۔ وہ بھی صرف صبع کے وقت کہ اس وقت میں مدرسے میں درس و تدریس کے سلسلہ میں مصروف ہوتا ہوں ہاں مدرسے سے چھٹی کے وقت بھابھی صاحبہ بے شک اپنے گھر آ جایا کریں ۔۔۔ ۔۔۔یہ بات کرتے ہی راشدی صاحب نے امید بھری نظروں سے ا با کی طرف دیکھا اور کہنے لگے ۔۔۔وہ توفیق میاں آپ تو جانتے ہی ہیں کہ میرے ایک اشارے سے بہت سے لوگ اس خدمت کے لیئے اپنی خواتین کو بھیجنے کے لیئے راضی ہو جائیں گے۔۔۔ لیکن ۔۔۔ میرا بھروسہ صرف آپ اور بھابھی جان پر ہے کہ پورے قصبے میں آپ جیسی نیک اور شریف فیملی نہ ہے۔۔۔اسی لیئے میں خود درخواست لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ۔۔۔اگر آپ قبول کر لیں تو آپ کی بڑی نوازش ہو گی۔۔۔۔راشدی صاحب کی بات سن کر ابا جوش میں بولے ۔۔ اس میں نوازش کی کونسی بات ہے جناب ۔۔۔ بندہ ہی بندے کے کام آتا ہے ۔۔۔۔۔ اس کے بعد ا با مزید جوش میں آ گئے اور کہنے لگے۔۔۔آپ میری بیگم کی بات کر رہے ہیں۔۔۔ لیکن کل سے میری بڑی بیٹی بھی اپنی ماں کے ساتھ آپ کے گھر آ جایا کریں گی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ابا کی یہ بات سن کر راشدی صاحب از حد خوش ہوئے اور کہنے لگے ۔۔۔ آپ کو اس بات کی جزا ملے گی ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ صاحب ۔۔۔( میری طرف اشارہ کر کے ) اس بیٹیا کی کوئی خاص ضررورت نہیں ۔۔ بس آپ بھابھی جی کو ہی بھیج دیا کریں ۔۔ تو بڑی نوازش ہو گی۔۔۔۔ لیکن ابا نے اصرار کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ نہیں جناب مجھے معلوم ہے کہ آپ کے بچے ابھی بہت چھوٹے ہیں ۔۔۔ اس لیئے میری بیٹی صبو ان کو سنھبالے گی جبکہ مسرت ہماری بھا بھی جی کی خدمت کیا کریں گی ۔۔۔ پھر ابا نے امی کی طرف دیکھا اور کہنے لگے ۔۔۔ کیوں مسرت میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں؟ تو امی نے کسی سعادت مند بیوی کی طرح سر ہلا کر جواب دیا۔۔۔۔۔ جیسے آپ کہیں ۔۔۔۔ پھر ابا کی طرف دیکھ کر کہنے لگی ۔۔۔ میری بات تو ٹھیک ہےجی ۔۔ لیکن میرا خیال میں صبو کی وہاں کوئی ضرورت نہیں ہو گی کیونکہ یہ پڑھنے والی لڑکی ہے تو یہ گھر میں رہ کر پڑھا کرے گی ۔۔۔امی کی بات سن کر ابا نے نفی میں سر ہلا یا اور کہنے لگے۔۔۔۔۔ ہر گز نہیں مسرت ۔۔۔۔ ہمیں ایک موقعہ مل رہا ہے قاری صاحب کی خدمت کا ۔۔۔اس لیئے میں ہرگز پیچھے نہیں ہٹوں گا ۔۔۔ پھر ابا نے میری طرف دیکھ کراشارے سے مجھے اپنے پاس بلایا ۔۔۔اور کہنے لگی ۔۔صبو پُتر کل سے تم نے اپنی اماں کے ساتھ قاری صاحب کے گھر جانا ہے اور ہاں اپنی کتابیں وغیرہ بھی ساتھ لے جانا ۔۔۔ اور جو چیز سمجھ نہ آئے بے دھڑک راشدی صاحب سے پوچھ لینا ۔۔۔ ابا کی بات سن کر قاری صاحب نے اپنا بڑا سا سر ہلایا اور ابا کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگے۔۔۔ کہ ۔۔۔۔ میرے خیال میں بچی کو آپ رہنے ہی دیں کہ ماں کے پیچھے گھر کے چھوٹے موٹے کام کاج کون کرے گی؟۔۔ تو اس پر ابا بڑے فخر سے کہنے لگے ۔۔۔۔ حضرت اس بات کی آپ فکر نہ کریں کہ چھوٹے موٹے کاموں کے لیئے میری چھوٹی بیٹی زینب جو ہے۔۔۔ جو کہ آپ کی دعا سے اس قابل ہو گئی ہے کہ گھر کے چھوٹے موٹے کام سنبھال سکے ۔۔۔ابا کی بات سن کر راشدی صاحب نے ایک دفعہ پھر ہیچر میچر کر نے کی کوشش کی ۔۔۔۔ لیکن ابا نہ مانے اور کہنے لگے کوئی بات نہیں حضرت صاحب ۔۔۔صبو کو ویسے ہی آج کل چھٹیاں ہیں ۔۔۔۔ اس لیئے اس کے سکول کا بھی حرج نہیں ہو گا ۔۔۔ ابا کی حتمی بات سن کر راشدی صاحب کچھ نہ بولے بس ان کے لیئے دعائے خیر کی ۔۔۔ اور پھر ان سے یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ کل صبع بھابھی جی کو بھیج دیجئے گا


جاری ہے 

*

Post a Comment (0)