شہوت زادی
قسط 8
یہاں میں پڑھنے والوں کی دل چسپی کے لیئے قاری راشدی صاحب کا تعارف کر ا دوں تو مناسب ہو گا ۔۔۔ قاری صاحب ہمارے قصبے کے سب سے بڑے مدرسے کے نائب ناظم تھے ۔۔اور میرا بھائی شبی بھی اسی مدرسے میں پڑھتا تھا ۔۔۔ یہاں دینی تعلیم کے ساتھ جدید تعلیم دینے کا بھی بندوبست تھا ۔۔۔ اس بڑے سے ۔۔۔ مدرسے کے ساتھ ہی قاری صاحب کا گھر تھا جو کہ مدرسے کی جانب سے انہیں رہنے کے لیئے دیا گیا تھا ۔۔۔ راشدی صاحب ایک گھٹے ہوئے اور مضبوط جسم کے مالک تھے ان کی گردن موٹی اور کافی چھوٹی تھی ۔۔۔ ان کا چہرہ بہت سرخ و سپید اور بارعب تھا انہوں نے اپنے چہرے پر داڑھی بھی رکھی ہوئی تھی ۔۔ جس کو وہ لال مہندی سے رنگا کرتے تھے ۔۔۔ لال داڑھی کے ساتھ ان کی مونچھیں صفا چٹ تھیں جبکہ سر پر ہمیشہ ہی ٹنڈ کراتے تھے ۔۔۔ اور اس بڑے سے گنجے سر پر ہمہ وقت جناح کیپ پہنا رکھتے تھے اس کے ساتھ ساتھ راشدی صاحب کافی ایکٹو آدمی تھی جبکہ ان کے بر عکس ان کی بیگم کافی موٹی اور سسب الوجود تھیں ۔۔ قاری صاحب کے دو بچے تھے ایک لڑکا اور ایک لڑکی ۔۔۔ دونوں ہی 5/4 سال کی عمر کے ہوں گے جن کو صبع کے وقت سنبھالنا میری ذمہ داری تھی ۔۔۔ جبکہ امی نے ان کی بیوی کے ساتھ دیگر گھریلو کاموں جیسے ہانڈی روٹی کرنا اور کپڑے وغیرہ دھونا کا کام سنبھالا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔...............بیوی کے ساتھ تو میں نے ویسے ہی کہہ دیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سارے کام اماں ہی کیا کرتی تھیں ۔۔۔۔ جبکہ ان کی بیوی اماں کے پاس بیٹھی یا تو اونگھتی رہتی تھی یا پھر اپنے کمرے میں جا کر بستر پر سو جایا کرتی تھی۔۔۔ ابا کو ناشتہ وغیرہ دے کر میں اور اماں راشدی صاحب کے گھر آ جایا کرتے تھے اور ان کے گھر دو تین ۔۔۔ یا کام زیادہ ہو تو بعض دفعہ چار گھنٹے بھی رہ کر ہم لوگ واپس آ جا یا کرتے تھے۔۔۔
ادھر جس دن سے ہم نے راشدی صاحب کے گھر جانا شروع کیا تو اسی دن سے میں ایک اَن جان سے ڈر کی وجہ سے میں اماں کے ساتھ ہی چپکی رہتی تھی ۔۔۔وہ کچن میں جاتی تو میں بھی راشدی صاحب کے بچے لیکر ان کے پاس کچن میں بیٹھ جاتی تھی ۔۔۔۔ اور اگر وہ کپڑے دھو کر سکھانے کے لیئے چھت پر جاتی تو میں بھی بچوں کو لیکر کر امی کے ساتھ ہی چھت پر چلی جاتی تھی ۔۔۔ اصل بات یہ تھی کہ میں ہسپتا ل والے واقعہ کی وجہ سے راشدی صاحب کا اکیلے میں سامنا نہ کرنا چاہتی تھی ۔۔۔کہ مبادا وہ مجھ سے کوئی بات نہ پوچھ بیٹھیں وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اپنی طرف سے تو میں یہ سارا بندوبست ظاہر ہے قاری صاحب کی وجہ سے کر رہی تھی لیکن ۔۔ دوسری طرف میرا اس طرح اماں کے ساتھ ساتھ چپکے رہنا ان کو ایک آنکھ نہ بھا رہا تھا ۔۔۔ اور وہ اکثر مجھ سے کہتی تھیں کہ ۔۔۔ گشتی رنے میرا کھیڑا چھوڑ ( گشتی عورت میری جان چھوڑ)۔۔( ویسے بائی دا وے ۔گشتی ان کی پسندیدہ گالی تھی) ۔۔ لیکن میں اپنے اندر کے خوف کی وجہ سے ان کے ساتھ ساتھ رہنے پر خود کو مجبور پاتی تھی۔۔۔ ۔۔۔ اور وہ اکثر ہی مجھ سے کہا کرتی تھیں کہ گھر میں تو تم مجھے پوچھتی ہی نہیں ہو جبکہ قاری کے گھر آتے ہی میرے ساتھ ایسے چپک جاتی ہو کہ جیسے یہ قاری کا گھر نہیں کوئی بھوت بنگلہ ہو۔۔۔۔ لیکن اماں کی تمام تر ڈانٹ اور لعنت ملامت کے باوجود میں ان کا پیچھا نہ چھوڑا کرتی تھی ۔۔۔
پھر ایک دن کی بات ہے کہ میں راشدی صاحب کے چھوٹے بیٹے کہ جس کی عمر تین چار سال ہو گی۔۔۔ کو لیکر امی کے پاس کچن میں بیٹھی تھی کہ اچانک ہی امی نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔صبو بیٹی قاری نے آلو گوشت پکانے کے لیئے کہا ہے لیکن وہ گوشت تو مجھے دے گئے ہیں لیکن آلو ۔۔۔دینا بھول گئے ہیں ۔۔۔اس لیئے تم ایسا کرو کہ اس لڑکے کو لیکر اپنے گھر جاؤ اور وہاں کچن میں پڑی ٹوکری میں سے تین چار موٹے موٹے آلو لے آؤ۔۔۔ امی کی بات سن کر میں نے اس بچے کو اپنے کاندھے سے لگایا اور اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔۔۔۔ ابھی میں نے قاری صاحب کی گلی کا نکڑ ہی کراس کیا ہو گا کہ اچانک قاری صاحب کے بیٹے کہ جسے ہم سب پیار سے کاکا کہتے تھے نے میرے اوپر سُو سُو کر دیا۔۔۔۔۔ جس سے کاکے کی ساری نیکر خراب ہو گئی۔۔۔ جیسے ہی کاکے نے سُوسُو کرنا شروع کیا تھا تو میں نے اس کو کندھے سے ہٹا کر ایک دم ایک طرف کر دیا تھا جس کی وجہ سے اس کا تھوڑا سا ہی پیشاب مجھ پر گر ا تھا لیکن ۔۔ چونکہ اس کی ساری نیکر خراب ہو گئی تھی۔۔۔۔اس لیئے کاکے کی گیلی نیکر دیکھ کر میں نے سوچا کہ پہلے گھر جا کر کاکے کی نیکر کو تبدیل کر لیا جائے پھر اپنے گھر جاؤں گی یہ سوچ کر میں وہاں سے واپسی کے لیئے مُڑی اور پھر چلتی ہوئی واپس قاری کے گھر میں داخل ہو گئی اور پھر سیدھی قاری صاحب کی بیوی کے کمرے میں چلی گئی ۔۔ جہاں پر وہ موٹا سا پیٹ لیئے پلنگ پر ہلکے ہلکے خراٹے لے رہی تھی اس کے ساتھ ہی اس کی چھوٹی بیٹی بھی سوئی ہوئی تھی۔۔۔۔ قاری کی بیگم کو دیکھتے ہوئے میں نے ادھر ادھر کاکے کی دوسری نیکر تلاش کرنے کی کوشش کی ۔۔۔ لیکن مجھے وہاں کوئی نیکر دکھائی نہیں دی ۔۔۔ اس لیئے میں نے کاکے کو ادھر ہی بٹھایا اور اس کی نیکر ڈھونڈنے ۔۔ ساتھ والے کمرے کی طرف چل پڑی ۔۔۔ باہر آ کر دیکھا تو ساتھ والے کمرے کا دروازہ بند تھا۔۔۔ اور پھر جیسے ہی میں نے دروازے کو کھولنے کے لیئے اس کے پٹ پر ہاتھ رکھا تو اچانک مجھے اندر سے کھُسر پھُسر کی آوازیں سنائیں دیں ۔اور یہ آوازیں ایسی تھیں کہ جن کو سن کر میری چھٹی حس جاگ اُٹھی اور میں نے بجائے دروازہ کھولنے کے اس کے "کی" ہول سے جھانک کر دیکھا ۔۔۔تو سامنے کا نظارہ دیکھ کر میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔۔۔۔۔
۔۔اندر کا منظر دیکھ کر تھوڑی دیر کے لیئے میں پریشان ضرور ہوئی ۔۔ ۔۔۔۔ لیکن اس پریشانی نے صرف چند سیکنڈ تک مجھے اپنے حصار میں رکھا ۔۔۔ پھر ۔۔۔ میں تیزی سے نارمل ہو گئی۔۔اور اندر کے منظر کے بارے سوچ سوچ کر مجھے بھی کچھ کچھ ہونا شروع ہو گیا ۔۔۔۔ دروازے کی جھری سے میں اماں کو دیکھا جو کہ دروازے کے بلکل سامنے پلنگ پر پیر لٹکائے بیٹھی تھیں جبکہ ان کے عین سامنے راشدی صاحب کھڑے تھے اور خاص کر راشدی صاحب کے جسم کا نچلا حصہ امی کے جسم کو چھو رہا تھا ۔۔۔۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس نچلے حصے کے ٹچ کے باوجود ۔۔ امی کوئی ری ایکشن دینے کی بجائے راشدی صاحب سے بڑے ہی بے تکلفی سے باتیں کر رہی تھی ۔۔۔ جبکہ میرے مشاہدے کے مطابق عام حالات میں امی راشدی صاحب کو بڑے ہی عزت و احترام سے بلایا کرتی تھیں لیکن اس وقت وہ راشدی صاحب سے کہہ رہیں تھی کہ ۔۔۔ زیادہ نیڑے آن دی کوشش نہ کریں مولوی ۔۔۔۔ میری کڑی اجے ایتھے ہی ہونی اے ( زیادہ نزدیک آنے کی کوشش نہ کرنا مولوی کہ میری بیٹی ابھی ادھر ہی ہے) اس پر راشدی صاحب نے اپنے جسم کے اگلے حصے کو امی کی کندھے سے ٹچ کرتے ہوئے کہا۔۔ فکر نہ کرو ۔۔مسرت ۔۔
میں نے خود اپنی آنکھوں سے تمہاری بیٹی کو گلی کی نکر مُڑتے ہوئے دیکھا ہے ۔۔۔ اس لیئے تم کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی راشدی صاحب نے اپنی شلوار کی اُٹھی ہوئی جگہ کو ایک دفعہ پھر امی کے بازؤں پر رگڑا۔۔۔ ادھر قاری صاحب کی بات سن کر امی نے کچھ سکھ کر سانس لیا اور قدرے ڈھیلی ہو کر بیٹھ گئی اور کہنے لگی ۔۔۔ میری بات مان جاؤ مولوی!!! ۔۔۔ صبو کے ابا کو ہم دونوں پر شک ہو گیا ہے تبھی تو اس نے صبو کو میرے ساتھ نتھی کر کے تمہارے گھر بھیجا ہے اور تم نے دیکھ ہی لیا ہو گا کہ یہاں آ کر ہر وقت صبو میرے ساتھ ہی چپکی رہتی ہے ۔۔۔ اس پر راشدی صاحب نے امی کا ہاتھ پکڑا اور اپنی شلوار کی ابھری ہوئی جگہ پر رکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔ مان جاؤ مسرت جی کہ یہ سب آ پ کا وہم ہے ۔۔۔ پھر کہنے لگے کہ تم کو اندازہ ہی نہیں کہ توفیق میرا کتنا اچھا دوست اور بھگت ہے وہ مر تو سکتا ہے لیکن مجھ جیسے نیک شریف بندے پر کبھی بھی شک نہیں کر سکتا راشدی صاحب کی بات سن کر امی تھوڑا طنزیہ ہنسی اور ان کی شلوار کی ابھری ہوئی جگہ پر ہاتھ مار کر بولیں ۔۔۔ ہاں ۔۔۔شرافت تو آپ کی شلوار سے باہر تک آ رہی ہے۔۔۔ اس پر دونوں نے ایک ہلکہ سا قہقہہ لگایا ۔۔۔۔اور پھر اس کے بعد اماں تھوڑا فکر مندی سے بولیں ۔۔۔ کہ راشدی صاحب کسی حد تو تمہاری یہ بات بھی درست ہے لیکن ایک بات کی مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ تمہارے گھر آ کر صبو سارا وقت میرے ساتھ ہی کیوں چپکی رہتی ہے؟ جبکہ اس کے بر عکس گھر جاتے ہی وہ مجھ سے ایسے الگ ہو جاتی ہے کہ جیسے میں کوئی چھوت کی بیماری ہوں ۔۔۔ ۔۔۔۔پھر انہوں نے راشدی صاحب کی طرف دیکھا اور کہنے لگیں۔۔۔۔ اور تم کو شاید پتہ نہیں مولوی ۔۔۔ کہ بڑی ہونے کی وجہ سے صبو اپنے باپ کے کتنے قریب ہے اسی لیئے تو مجھے شک ہو رہا ہے۔۔
امی کی بات سن کر راشدی صاحب نے انہیں بازو سے پکڑ کر اوپر اٹھایا اور انہیں اپنے گلے سے لگاتے ہوئے کہنے لگے ۔۔۔اگر تم کو صبو پر اتنا ہی شک تھا تو تم نے اس کو ساتھ کیوں آنے دیا ؟ اور اس کے ساتھ ہی راشدی صاحب نے امی کو ایک ٹائیٹ سی جھپی لگا دی لیکن امی کی سوئی ابھی تک مجھ پر ہی اڑی ہوئی تھی۔۔۔۔ اور دروازے کے دوسری طرف کھڑی میں سوچ رہی تھی کہ امی جان!!!۔۔۔ کاش میں آپ کو بتا سکتی کہ یہاں آ کر میں آپ سے کیوں چپکی رہتی ہوں۔۔۔۔۔ جبکہ ادھر راشدی صاحب کی بات سن کر امی کہہ رہی تھیں ۔۔۔ کیا بتاؤں مولوی میں نے تو بڑے جتن کیے لیکن تم کو تو ۔۔ توقیق کا پتہ ہی ہے کہ ایک دفعہ جو اس نے بات کہہ دی پھر اس پر قائم رہتا ہے۔۔ چاہے اس کو اس میں نقصان ہی کیوں نہ اُٹھا نا پڑ جائے۔۔۔
۔۔۔۔ اب جبکہ میری اماں کا کریکٹر تھوڑا کھل کر آپ کے سامنے آ رہا ہے تو میں اپنے پڑھنے والوں کی دل چسپی کے لیئے میں امی کا حلیہ بیان کر رہی ہوں ۔۔۔ میری امی ایک چھوٹے قد کی عورت تھی اور جس وقت کا میں آپ کو یہ واقعہ بیان کر رہی ہوں اس وقت ان کی عمر لیٹ تھرٹیز میں ہو گئی۔۔ اتنی عمر کے باوجود بھی انہوں نے اپنے آپ کو بڑا سنبھالا ہوا تھا۔۔۔ میرے بر عکس ان کی چھاتیاں اور ہپس (گانڈ) بہت بڑی اور پرُ کشش تھی ۔۔۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان کی بڑی بڑی چھاتیاں ۔۔۔۔ اور موٹی سی گانڈ ا ن کے چھوٹے سے قد پر بہت سجتی تھیں ۔۔ امی تھوڑی موٹی اور ان کا پیٹ زرا سا باہر کو نکلا ہوا تھا ۔۔۔ آنکھیں میری طرح کالی اور رنگ سانولہ تھا۔۔۔ جس میں میری طرح غضب کی سیکس اپیل پائی جاتی تھی ۔۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ امی گرمیوں میں ہمیشہ جارجٹ کاٹن کی نہایت باریک قمیض کے نیچے کبھی بھی شمیض نہیں پہنا کرتی تھیں۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ وہ ساری گرمیاں سفید یا ہلکے رنگ کی قمیضیں پہنا کرتی تھیں۔۔۔ اور اس ہلکے رنگ کی قمیضوں کے نیچے ہمیشہ ہی وہ کالے رنگ کا برا استعمال کیا کرتی تھی ۔۔ جو کہ ان کی باریک سی کرتی میں بڑی بڑی چھاتیوں پر چڑھا ہوا صاف دکھائی دیتا تھا۔۔۔ ہم سب کے سامنے تو وہ یونہی رہا کرتی تھیں لیکن جیسے ہی ابا گھر پر آتے تو اسی وقت وہ اپنے اوپر ایک موٹی سی چُنی اوڑھ لیا کرتی تھی جس سے ان کی کالی برا چھپ جاتی تھی۔۔۔ ہاں امی کی ایک اور بات یاد آ گئی کہ جب ابا گھر پر نہ ہوتے تو وہ چارپائی پر اُلٹی لیٹا کرتی تھی۔۔جس سے ان کی موٹی سی گانڈ۔۔۔بڑی نمایاں نظر آتی تھی ۔۔۔اور اسی عالم میں وہ کبھی کھبی بھائی کو اپنی ٹانگیں دبانے کے لیئے بھی کہا کرتی تھی۔۔۔۔ اور اس بات کا مجھ سے بھائی نے تو کبھی ذکر نہیں کیا لیکن ۔۔۔۔ مجھےمعلوم تھا کہ وہ امی کی موٹی گانڈ کو دیکھ کر بڑا خوش ہوا کرتا تھا۔۔۔۔اور کبھی کبھی ان کی رانوں کو دباتے دباتے ۔۔۔ان کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ امی راشدی صاحب کے گلے سے لگی کہہ رہی تھیں کہ مولوی جب توفیق صبو کو میرے ساتھ نہ بھیجنے پر رضا مند نہ ہوا ۔۔۔۔ تو میں نے اس کے ساتھ صبو کی جگہ زینب کو بھیجنے کی بھی بات کی تھی ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ لیکن وہ اڑیل ٹٹو ۔۔اس بات پر بھی نہیں مانا تھا ۔۔۔۔۔۔ بات ختم کرتے ہی امی نے ایک نخریلی مگر سیکسی سی چیخ ماری ۔۔ اوئی ماں ۔۔۔ امی کی چیخ سن کر راشدی صاحب کہنے لگے ۔۔۔ کیا ہوا میری جان؟؟؟؟؟۔۔۔ تو امی بڑی ادا سے کہنے لگیں ۔۔ ۔۔۔ ہونا کیا تھا مولوی ۔۔۔تم نے اتنی زور سے جھپی لگائی ہے کہ تمہارا ۔۔۔۔۔۔یہ ( لن ) بڑے زوروں سے میری رانوں میں سے چُھب گیا ہے ۔۔۔ پھر راشدی صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔ پتہ نہیں اپنے اس جانور کو تم کیا کھلاتے ہوکہ ۔۔ظالم کا بچہ آج تک ویسے کا ویسا ہی ہے۔۔۔۔ امی کی بات سن کر راشدی صاحب بڑے خوش ہوئے اور اس دفعہ امی کی ٹانگوں میں اپنے لن کو دباتے ہوئے بولے۔۔۔ تم کو معلوم ہے مسرت کہ میرا یہ جانور نرم اور گرم غذا کھاتا ہے جس کی وجہ سے یہ ابھی تک مست ہے۔۔۔ راشدی کی بات سن کر امی اٹھلاتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔۔ راشدی جی یہ گرم غذا کی بات تو کچھ سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ نرم غذا کون سی ہوتی ہے؟ امی کی بات سنتے ہی قاری صاحب کا ہاتھ حرکت میں آیا اور انہوں نے امی کی موٹی گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔۔ نرم غذا سے مراد ۔۔۔ گانڈ ہے میری جان ۔۔راشدی صاحب کی بات سن کر امی نے ایک جھر جھری سی لی اور کہنے لگی۔۔۔۔ پر اس دفعہ مجھ سے گانڈ کی توقعہ نہ رکھنا ۔۔۔ اس پر راشدی صاحب حیران ہو کر کہنے لگے۔۔۔ مسرت پہلے تو تم نے کبھی بھی یہ پابندی نہیں لگائی تھی۔۔۔۔ تو امی مسکرا کر کہنے لگیں ۔۔۔۔۔پابندی تو ابھی بھی نہیں ہے لیکن اس دفعہ میرا جی چاہ رہا ہے کہ تمھارے اس جانور کو خوب گرم غذا کھلاؤں ۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اچانک امی فکر مندی سے کہنے لگیں۔۔ اب ہمیں بس کرنا چاہیئے کہ صبو کے آنے کا وقت ہو گیا ہے۔۔۔ میرا ذکر سن کر اچانک ہی راشدی صاحب بے زاری سے بولے ۔۔ یہ کیا صبو صبو لگا رکھی ہے۔۔۔۔ کہا نا کہ ابھی اس کے آنے میں ٹائم ہے پھر اچانک ہی انہوں نے اپنا منہ امی کی طرف کیا اور بڑے ہی معنی خیز لہجے میں کہنے لگے۔۔۔۔۔ اگر تم کو صبو کی ذیادہ فکر ہے ۔۔۔ تو کیا خیال ہے میں اسےبھی "فکس" نہ کر دوں؟۔۔ اسی بہانے تمہاری گرم غذا کے ساتھ ساتھ اس کی نرم غذا ۔۔(گانڈ) بھی کھا لوں گا۔۔۔ ۔۔ راشدی صاحب کو بات سن کر امی ایک دم اس سے الگ ہو گئیں اور تھوڑی ناراضگی سے کہنے لگیں۔۔ مجھے معلوم ہے مولوی کہ لڑکی پھنسانا تمہارے لیئے کوئی مسلہ نہیں ہے لیکن۔۔۔۔۔۔۔ خبردار!!!!!۔۔۔۔ تم صبو کے ساتھ ایسا ویسا کچھ بھی نہیں کرو گے۔۔ اس پر راشدی صاحب حیران ہو کر کہنے لگے وہ کیوں جی؟ ۔۔راشدی صاحب کی بات سن کر امی اپنی ایڑھیوں کے بل کھڑی ہو گئیں ۔۔۔۔اور پھر راشدی صاحب کے ہونٹ چوم کر بولیں ۔۔۔۔ وہ اس لیئے میری جان کہ میرے ہوتے ہوئے تم کسی اور کی طرف دیکھو ۔۔۔۔یہ مجھ سے برداشت نہیں۔چاہے وہ میری بیٹی ہی کیوں نا ہو۔۔۔۔ پھر انہوں نے راشدی صاحب کو پیار سے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ میری بات مان لو مولوی۔۔۔۔ اور مجھ سے الگ ہو جاؤ کہ صبوکسی بھی وقت آ سکتی ہے۔اس پر راشدی صاحب نے اماں کو اپنے بازؤں کے گھیرے میں مزید کستے ہوئے کہا ۔۔ کہ اگر میں ایسا نہ کروں تو؟ ۔۔۔راشدی کی بات سن کر اماں مسکرا ئیں ۔۔ اور انہیں پنجابی کا ایک مشہور گیت سناتے ہوئے بولیں ۔۔۔ تیرا کی جاناں اے پرائے پُت دا۔۔۔۔ وال وال ہو جاؤ میری گُت دا۔۔۔ ( پکڑے جانے پر تم پرائے مرد کا کچھ نہیں جانا ۔۔۔۔ ہاں میرے سر پر ایک بال بھی نہیں رہے گا ۔۔۔ مطلب سر پہ اتنے جوتے پڑیں گے ) امی کا گیت نما شعر سُن کر راشدی صاحب کہنے لگے ۔۔۔ ٹھیک ہے مسرت میں تم سے الگ ہو جاتا ہوں لیکن یہ بتاؤ کہ ۔۔۔۔ میرے ساتھ پیار والا کھیل کب کھیلو گی؟ ان کی بات سن کر امی کہنے لگیں ۔۔۔۔ اڑیا ۔۔۔ جی تے میرا وی بڑا کردا اے ۔۔۔۔۔۔۔( دل تومیرا بھی بہت کرتا ہے ) ۔۔۔ پھر اچانک ہی وہ فیصلہ کن لہجے میں کہنے لگیں۔۔۔۔۔۔ٹھیک اے مولوی ۔۔ کل توں تے میں انج ملاں گے جیوں ۔۔۔ ٹچ بٹناں دی جوڑی) ( ٹھیک ہے مولوی صاحب کل میں اور تم ۔۔۔۔۔۔ ایسے ملیں گے جیسے ٹچ بٹن آپس میں جُڑتے ہیں ) امی کی بات سن کر راشدی صاحب ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ کہنے لگے ۔۔اپنی بات پر قائم رہنا ۔۔ مسرت ۔۔۔۔۔ اس پر امی شرارت بھرے لہجے میں کہنے لگیں میں قائم ہوں تم بس اینوں قائم رکھیں ۔۔۔۔( میں اپنی بات کی پابند ہوں تم بس اپنے لن کو کھڑا کرنا ) ۔۔۔۔
اماں کی فائینل بات سن کر میں کمرے کے دروازے سے الٹے پاؤں واپس ہوئی اور بھاگ کر کاکے کو اُٹھایا اور باہر نکل گئی ۔۔۔ اور پھر بھاگتے ہوئے اپنے گھر پہنچی اور اپنے کچن سے آلو لیکر واپس چلی پڑی ۔۔۔ جاتے ہوئے تو نہیں ۔۔ البتہ واپسی پر میں سارا راستہ یہی پلان بناتی رہی کہ کس طرح میں راشدی اور امی کا چودائی شو دیکھوں؟ ایک بات تو طے تھی کہ انہوں نے اسی کمرے میں کاروائی ڈالنی تھی کہ جس میں انہوں نے آج جپھی لگائی تھی ۔(کیونکہ ان کے دو ہی کمرے تھے)۔ اور مجھے کہاں چھپ کر یہ شو دیکھنا تھا ۔۔۔ سارے راستے میں اسی کے بارے میں غور و غوض کرتی رہی۔۔۔ لیکن مجھے کچھ بھی سمجھ نہ آیا ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میں اس بات پر بھی غور کرتی رہی کہ اگر کل امی نے مجھے دونوں بچے پکڑا دیئے ۔۔۔ تو ایسی صورت میں ۔۔۔ میں بچوں کو سنبھالوں گی یا ۔۔۔ان کا شو دیکھوں گی؟ یہ بھی بہت اہم نکتہ تھا۔۔۔۔۔ غرض کہ میں اپنے پلان کے ہر پہلو پر اچھی طرح سے غور کرتی جا رہی تھی ۔۔۔۔اور جب میں راشدی صاحب کے گھر کے نزدیک پہنچی تو کل کا ۔۔۔ سارا ۔۔۔پلان میرے دماغ میں ترتیب پا چکا تھا۔۔۔
یہ اگلے دن کی بات ہے کہ میں اور امی راشدی صاحب کے گھر جا رہے تھے اور میں نے نوٹ کیا تھا ان کے ہاں آج امی سپیشل تیار ہو کر کی جا رہی تھی آج انہوں نے نہانے میں بھی کافی ٹائم لگایا تھا ۔۔۔۔اور میرے اندازے کے مطابق انہوں نے اپنی چوت کی صفائی کی تھی کیونکہ واپسی پر ان کے ہاتھ میں بال صفا کریم پکڑی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.. پلان کے مطابق راشدی صاحب کے گھر میں داخل ہوتے ہی اس سے پہلے کہ امی میری کوئی ڈیوٹی لگاتیں ۔۔۔۔الُٹا میں ان سے بولی۔۔۔ ۔۔۔ امی آپ سے ایک بات کہنی تھی۔۔۔ امی کہ جو کہ آج بہت ہی خوش گوار موڈ میں تھیں ۔۔۔ نے بڑے ہی پیار سے جواب دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ہاں۔۔ بول صبوکیا بات ہے؟ تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔ وہ امی اگر اجازت ہو تو آج میں جلدی چلی جاؤں ؟ میری بات سن کر امی کے چہرے پر ایک چمک سی آ گئی ۔۔۔ لیکن بظاہر وہ بڑی ہی بے نیازی سے کہنے لگیں جلدی کیوں جانا ہے خیریت تو ہے؟ تو میں نے ان سے کہا کہ وہ امی ۔۔۔۔ مجھے حساب کے کچھ سوال سمجھ نہیں آ رہے تھے تو اس سلسلہ میں عاشی سے بات کی تھی ۔۔۔تو اس نے جلدی آنے کا کہا تھا پھر میں اور وہ اس میتھ والی ٹیچر کے گھر جا کر یہ سوال سمجھیں گی۔۔۔ میری بات سن کر امی نے ایک گہری سانس لی اور کہنے لگی۔۔ واقعہ ہی بیٹا حساب بڑا سخت مضمون ہے تم ایسا کرو ابھی چلی جاؤ۔۔ تو میں نے کہا اتنی صبع جا کر کیا کرنا ہے امی جان ۔۔۔ کہ آپ کو معلوم ہی ہے کہ وہ بیگم صاحبہ کتنی لیٹ اُٹھتی ہے تو امی کہنے لگیں ۔۔ٹھیک ہے جس وقت مرضی ہے چلی جانا ۔۔۔ بس جاتے ہوئے مجھے ضرور بتا دینا۔۔۔۔۔۔
اس وقت میں اور امی راشدی صاحب کی بیگم کے ساتھ بیٹھیں تھیں اور میں کاکے کو کھلا رہی تھی کہ جبکہ ان کی بییی حسبِ معمول اپنی ماں کے ساتھ لگی بیٹھی تھی۔۔۔۔ کہ راشدی صاحب گھر میں داخل ہوئے اور امی کو دیکھ کر بولے آپ کیسی ہیں بہن جی؟ راشدی صاحب کو دیکھ کر امی نے پاس پڑی چادر سے اپنے سر اور چھاتیوں کو اچھی طرح سے ڈھانپ لیا ۔۔۔ اور کہنے لگیں ۔۔۔۔ ٹھیک ہوں بھائی صاحب۔۔۔ اور میں ان دونوں کی یہ ایکٹنگ دیکھ کر دل ہی دل میں بڑی محظوظ ہوئی ۔۔۔کہ اتنے میں امی نے راشدی صاحب سے کہا ۔۔۔ بھائی صاحب آپ سے ایک بات کہنی تھی؟ تو راشدی صاحب کہنے لگے حکم کیجئے بہن جی؟ اس پر امی نے اپنی نگاہ نیچ کیئے گردن جھکا کر بولیں۔۔۔ ۔۔۔۔۔ کہ بھائی صاحب صبو نے آج تھوڑا جلدی جانا ہے اس لیئے آپ ان بچوں کے لیئے مدرسے سے کسی کو بلا لیجئے ۔۔۔ اماں کی بات سن کر راشدی صاحب کا چہرہ بقعہء نو ر بن گیا ۔۔۔۔ اور وہ کچھ سوچتے ہوئے کہنے لگے۔۔۔۔ صبو بیٹی نے کس وقت جانا ہے؟ تو اماں کہنے لگیں کوئی گھنٹہ بعد۔۔۔ تو راشدی صاحب کہنے لگے ٹھیک ہے بہن جی ۔۔۔ میں بندوبست کر دیتا ہوں ۔۔۔۔ پھر وہ اپنی بیگم کی طرف مُڑے اور کہنے لگے ۔۔تم کیسی ہو نیک بخت؟ تو ان کی سست الوجود بیگم کہنے لگیں۔۔۔۔ ویسے تو میں ٹھیک ہوں لیکن ۔۔۔۔۔ نیند بہت آتی ہے۔۔۔تو راشدی صاحب کہنے لگے۔۔۔ نیند تو صحت کے لیئے اچھی ہوتی ہے آپ کو جب بھی نیند آئے سو جائیں ۔۔۔ پھر کہنے لگے ۔۔۔ایسی حالت میں اکثر خواتین کو بہت نیند آتی ہے اس کے ساتھ ہی انہوں نے امی کی طرف دیکھا اور کہنے لگے ۔۔ کیوں بہن جی میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔تو امی نے اسی حالت میں ۔۔ ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔ اس کے بعد راشدی صاحب پھر سے اپنی موٹی بیگم سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے۔۔بیگم آپ بے غم ہو کر سو جاؤ۔۔۔ گھرکی دیکھ بھال کے لیئے۔ مسرت بہن ہے نا۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی جناح کیپ سیدھی کی اور پھر گھر سے باہر چلے گئے،۔۔۔۔ان کے جانے کے بعد اماں دوپہر کا کھانا بنانے کے لیئے کچن میں گھس گئیں۔۔۔اور میں کاکے کو لیکر کر باہر آ گئی۔۔۔۔۔ اور پھر باہر نکل کر اس کمرے کا جائزہ لینے لگی کہ جہاں پر چودائی ہونا تھی۔۔۔ کمرے کا معائینہ کرنے کے بعد میں خاصی مایوس ہوئی کیونکہ کمرے میں چھپنے کے ل یئے مجھے کوئی خاص جگہ نظر نہ آئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ لیکن پھر اچانک ہی میری نظر کھڑکی پر چلی گئی۔۔۔۔ دیکھا تو اس پر چٹخی لگی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ اس لیئے میں آگے بڑھی ۔۔۔ کھڑکی کے بند پٹ کو تھوڑا سا کھول کر باقی کے آگے پردہ کر دیا۔پٹ اس لیئے کھولا کہ دیکھنے کے ساتھ ساتھ مجھے اندر کی آوازیں بھی سننا تھیں ۔یہ کام کر کے میں نے پلنگ کی طرف دیکھا تو محسوس ہوا کہ پلنگ اور کھڑکی کا بلکل ساتھ ساتھ تھے ۔۔ یا یوں کہیئے کہ پلنگ کھڑکی سے چند ہی انچ کے فاصلے پر بچھا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔یہ سب محسوس کرتے ہی ۔۔۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگ پڑا ۔۔۔کیونکہ ۔۔۔۔۔۔ آج میں اپنی امی کا ایک غیر محرم کے ساتھ چودائی شو دیکھنے جا رہی تھی ۔۔۔۔
ہر چیز اوکے کرنے کے بعد میں کاکے کو لیئے باہر آئی ۔۔۔اور پھر صحن سے گھوم کر کچن کی طرف چلی گئی۔ اس وقت تک ایک گھنٹہ ہو چکا تھا۔۔۔۔۔ چناچہ کچن میں داخل ہو کر میں امی سے بولی۔۔۔۔۔ امی میرے جانے کا وقت ہو گیا ہے۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ٹھیک ہے بچے کو تم اس کی ماں کو پکڑا آؤ۔۔ امی کی بات سن کر میں راشدی صاحب کی مسز کی طرف گئی ۔۔۔تو حسبِ معمول وہ انٹا غفیل ہو چکی تھی ۔۔۔ اس لیئے میں کاکے کو لیئے اُلٹے قدموں سے واپس آئی اور امی سے بولی ۔۔۔وہ تو سوئی ہوئی ہیں ۔۔اس پر امی نے اُٹھ کر میرے ہاتھ سے کاکے کو پکڑا۔۔۔۔ اورکہنے لگیں۔۔۔ ٹھیک ہے پتر تم جاؤ۔۔۔ اس طرح میں امی سے اجازت لیکر ان کے سامنے گھر سے باہرنکل گئی۔۔جیسے ہی گھر سے باہر نکلی تو دیکھا تو سامنے سے راشدی صاحب ایک چھوٹی سی بچی کو لیئے گھر میں داخل ہو رہے تھے۔۔ مجھے دیکھ کر بڑی شفقت سے پیش آئے ۔۔۔
ان کے گھر سے نکل کر میں دبے پاؤں چلتی ہوئی ساتھ والے گھر میں داخل ہو گئی ۔۔۔ اتفاق سے خاتونِ خانہ ۔۔۔ کہیں آگے پیچھے گئی ہوئی تھی۔۔ویسے بھی اگر وہ یہاں ہوتی بھی تو میں نے کوئی نہ کوئی بہانہ لگا کر چھت پر چلے جانا تھا ۔۔۔۔ اس لیئے میں ۔۔ سیڑھیاں چڑھ کے ان کے چھت پر پہنچ گئی۔۔۔ اور ایک کونے میں جا کر کھڑی ہو گئی جہاں سے راشدی صاحب کے گھر کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔ ۔۔۔پھر میں نے دیکھا کہ کچھ ہی دیر بعد وہ لڑکی کاکے کو لیکر باہر نکل گئی ۔۔۔۔ اور اس کے جانے کے چار پانچ منٹ بعد راشدی صاحب اپنے دروازے کی دہلیز پر آئے اور دروازے سے سر باہر نکال کر بڑی چور نگاہوں سے گلی میں جھانک کر دیکھا۔۔۔۔ پھر انہوں نے اپنا سر اندر کیا اور واپس مُڑکر دروازے کو کنڈی لگا دی۔۔۔ اس کے بعد وہ اپنی بیگم کے کمرے میں گئے ۔۔اور اپنی بیگم کو سوتا دیکھ کر ۔۔۔۔ انہیں قدموں سے واپس آگئے۔۔۔ اور پھر چودائی والے کمرے میں داخل ہو گئے ۔۔۔ جیسے ہی راشدی صاحب چودائی والے کمرے میں داخل ہوئے میں دبے پاؤں آگے بڑھی۔۔۔۔ان کے ہمسائیوں کی چھوٹی سی دیوار کو پھلانگ کر ۔۔۔راشدی صاحب کی چھت پر آ گئی ۔۔۔۔ اور پھر ان کی چھت سے ممٹی میں گئی اور پھر سیڑھیوں سے ہوتے ہوئے دبے پاؤں نیچے اترنے لگی۔۔۔۔۔ پھر وہاں سے چلتی ہوئی اسی کھڑکی کے پاس پہنچی ۔۔۔۔۔ اور ایک سائیڈ پر ہو کر اندر کا منظر دیکھنے لگی۔۔۔۔۔۔
جیسا کہ میرا اندازہ تھا۔۔۔۔۔۔اندر کا منظر بہت دل کش اور ہاٹ تھا۔۔۔۔ امی اور راشدی صاحب ایک دوسرے کے گلے سے لگے ہوئے تھے۔۔۔اور راشدی صاحب امی کے گالوں کو چوم کر کہہ رہے تھے۔۔۔۔مسرت تمہارے گال بڑے تپے ہوئے ہیں ۔۔۔اس پر امی نے ان کو جوابی پپی دی اور کہنے لگیں ۔۔۔ تم گالوں کی گرمی کی بات کر رہے ہو۔۔۔ زرا آگے بڑھ کر تو دیکھو۔۔۔۔ میرا تو پورا وجود ہی تپا ہوا ہے ۔۔اور اندر کی گرمی سے میرا برا حال ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امی کی بات سن کر راشد ی صاحب بولی ۔۔۔ تمہاری گرمی کے علاج کے لیئے میرے پاس بڑا سا کھیرا ہے۔جو اندر جاتے ہی تمہیں ٹھنڈ ڈال دے گا۔۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک بار پھر امی کے منہ سے اپنا منہ جوڑ لیا۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ کمرے کی فضا میں پوچ پوچ کی مخصوص آوازیں سنائی دینے لگیں ۔۔پھر کسنگ کرتے ہوئے راشدی صاحب نے اماں کو پلنگ پر لٹا دیا اور خود ان کے اوپر لیٹ کر ان کے منہ میں اپنی زبان ڈال دی ۔۔۔۔ اور دور سے میں نے دیکھا کہ راشدی صاحب ۔۔۔ اپنی زبان کو بار بار اماں کے منہ میں لا ۔۔ لے جا رہے تھے۔۔۔۔ یہ سین دیکھ کر میری بھی پھدی گرم ہونا شروع ہو گئی۔۔۔ لیکن میں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی اور چپ چاپ اندر کا نطارہ دیکھتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔ کافی دیر تک کسنگ کے بعد راشدی صاحب اوپر اُٹھے اور اپنی قمیض کو اتارنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر اماں بھی پلنگ سے نیچے اتریں ۔ اور انہوں نے بھی اپنے کپڑے اتارنا شروع کر دیئے۔۔۔ کچھ ہی دیر میں وہ دونوں ننگے ہو گئے تھے ۔۔۔۔ راشدی پلنگ پر جبکہ اماں نیچے فرش ننگی کھڑی تھیں ۔۔۔۔ واؤؤؤ۔۔۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ اماں کا جسم تھوڑا بھاری تھا ۔۔۔سینے پر بڑی بڑی چھاتیں تھیں ۔۔۔۔ اور ان چھاتیوں پر ۔۔ ان کے گہرے براؤن رنگ کے موٹے نپلز۔۔ اکڑے کھڑے تھے۔۔ چھاتیوں کے نیچے ان کا تھوڑا بڑا سا پیٹ تھا ۔۔۔اور پیٹ کے عین درمیان میں ایک دل کش گول سا گڑھا تھا ۔۔۔جسے پنجابی میں دُھنی اور اردو میں ناف کہتے ہیں۔۔۔۔۔ اس پیٹ کے نیچے ان کی کافی موٹی رانیں تھیں ۔۔۔اور یہ رانیں اس قدر موٹی تھیں کہ یہ آپس میں ملی ملی ہونے کی وجہ سے ۔۔۔۔ اماں کی خاص چیز ۔۔۔۔ یعنی کہ ان کی چوت ان کے پیچھے کو چھپی ہوئی تھی۔۔۔۔لیکن پھر بھی رانوں کے ختم ہونے پر چوت کے اوپر والے حصے کو دیکھ میرے اس اندازے کی تصدیق ہو گئی کہ اماں نے اپنی چوت کی تازہ شیو کی تھی۔۔۔۔
جاری ہے