Zameendar ki beti - Episode 5

زمیندار کی بیٹی 

قسط 5


میں صبح جب اٹھا تو ھمارے گھر کے سامنے بیری کے درخت تھے ان پر چڑیاں چہچہا رھی تھیں اور کوئل کی کوک سنائی دے رھی تھی میرا گاؤں میں آج ایک ھفتہ مکمل ھوگیا تھا

اور آج پہلی صبح میری آنکھ جلد کھل گئ تھی تو میں نے سوچا چلو مارننگ واک کرنے جاتا ھوں میں نے ٹی شرٹ پہنی اور پھر واش روم جاکر ھاتھ منہ دھویا اور باھر کا بڑا گیٹ کھوال اور باہر نکل گیا میرا کمرہ اوپر والے پورشن میں تھا اور ممی پاپا نیچے والے دو روم میں رھتے تھے اور گھر کے پچھلے گیٹ کیساتھ مامو سمیر کا روم تھا میرا ماموں ھمارے ساتھ رھتا تھا

کیونکہ انکی اپنی اولاد نہیں تھی اور انکی وائف پچھلے سال ھی چل بسی تھی

خیر سب گھر والے صبح کی وقت خواب خرگوش تھے تو میں نے جب اپنے روم کے گلاس ڈور سے لوگوں کو واک کرتے دیکھا تو میرا دل بھی واک کرنے کو کیا اور میں نکل گیا پھر اور یہ میری پہلی واک تھی میں سلو موشن میں گنگناتا ھوا ایک طرف بھاگتا ھوا جارہا تھا کھیتوں کی پگڈنڈیوں پر سرسبز گھاس میرے نرم پاؤں کو ٹھنڈک پہنچا رھی تھیں گھاس ھر سو ایک دلفریب نظارہ پیش کرتی جب ان پر پڑی شبنم چمک دمک دکھا رھی ھوتی میں پرندوں کے منفرد سنگیت اور شور کو سنتا ھوا اب اپنے کھیتوں سے نکل کر انعم شہزادی کے امردوں والے ایریا میں آ گیا تھا سامنے امرودوں کے کچھ پیڑ نظر آرھے تھے جو اپنی بہار کے کچے پکے امرودوں سے لدے ھوۓ تھے تو میں نے دل ھی دل میں سوچا

اچھا ذیشان کاکا یہ ھیں تیری محبوبہ انعم شہزادی کے امرودوں کے درخت اور ساتھ ھی میں نے ایک امرود توڑ لیا اور دانتوں تلے کڑچ کرکے اپنے منہ میں اسکا میٹھا پن محسوس کرنے لگا ہاۓ انعم تیری طرح تیرے سارے امرود بھی میٹھے ھیں پھر میرے دل نے کہا اوئے ظالماں اسے تو پتہ

ھی نہیں ھے اور تم اسے اپنی محبوبہ مان رھے ھو میں نے اسی پگڈنڈی کو پکڑا اور

سیدھا نہر کے پل کی طرف دوڑنے لگا امرودوں والی یہ وٹ جسے اردو میں پگڈنڈی یا ڈنڈی بولتے ھیں سیدھا ھمارے اور انعم کے کھیتوں کی طرف سے نکل کر ایک چھوٹی نہر پر چلی جاتی میں اسی وٹ پر دوڑتا جارھا تھا آس پاس بوڑھے جوان اور عورتیں بھی اس حسین صبح کا درشن کرتے ھوۓ میڈم پیس پر بھاگ رھی تھیں مجھے یہ نظارہ پہلی بار دیکھنے کو ملا تھا مجھے یقیں نہیں ھو رھا تھا کہ ھمارے پاکستان کے دیہاتی لوگ بھی واک کرنے کی اہمیت سے پوری طر ح سے واقف ھیں شکر ھے ان کو بھی احساس ھے فٹنس کا خیر کھلی فضاؤں میں خاص کرکے صبح کی رننگ کا اپنا ھی مزہ ھے جب بھاگتے ھوۓ آپکے پھیپھڑے تازہ ھوا حاصل کرتے ھیں اور سرسبز و شاداب فصلیں نظر کو بڑھا دیتی ھیں گاؤں کے افراد اسی وجہ سے تندرست اور توانا ھوتے ھیں کہ وہ کثرت سے واک کرتے ھیں اور شہر کے لوگ بہت کم واک کرتے ھیں اسی لئیے عمر سے بڑے انکے پیٹ ھوتے ھیں سارے نہیں تو بہت زیادہ لوگ موٹاپے کا شکار ھو جاتے ھیں اگرچہ اسمیں فاسٹ فوڈ اور میٹھے کا بہت زیادہ رول ھے گاؤں کے لوگ فاسٹ فوڈ کو بہت زیادہ نہیں کھاتے اور پہلے پہر ھی سو جاتے ھیں دوستو گاؤں میں رات اور دن کا الگ الگ پتہ چلتا ھے آسمان پر رات کو تارے ھوتے ھیں اور دن کو دوستوں کی محفل بھی میسر آجاتی ھے مگر شہر میں گزرتے وقت کا احساس نہیں ھوتا وقت سپیڈ سے گزرتا ھے اور مل بیٹھنے کی گھڑیاں بہت کم میسر آتی ھیں اسی لئیے ہر بندہ تنہائی اور ڈپریشن کا شکار رھتا گاؤں ہے ۔


میں بھاگتا ھوا اب نہر کے قریب پہنچ چکا تھا میرے دل کی دھڑکن تیز چل رھی تھی اتنی دور سے بھاگتا ھوا آرہا تھا اور یہ دھڑکن اب اور بھی تیز ہوگئی جب سامنے سے انعم اور لبنی بھاگتی ھوئی آرھی تھیں اور لبنی اسکے آ گے آگے دوڑتی آرھی تھی اور انعم تھوڑی دھیرے دھیرے بھاگ رھی تھی اور بلیک کلر کی کٹ ان دونوں نے زیب تن کی ھوئی تھی دونوں کی عقابی نظروں نے مجھے دیکھ لیا اور میں اس سویر کو سلام پیش کرتے ھوۓ ان دونوں کے قریب جا کھڑا ھوا ہاۓ کیا منظر تھا دونوں طرف اکھڑی ھوئی سانسیں تھیں بس نظریں ایک

ھوئیں اور انعم ہانپتے ھوۓ بولی؛

اوۓ تو وی اسی سائیڈ تے واک کرنا ایں بہت سانس چڑھا ھوا ھے نکے فوجی کو


مجھے انعم کی بات سن کر بہت ھنسی آئی اور مجھے بہت اچھا لگا کیونکہ اس نے میری شناخت یاد رکھی کہ میں فوجی کا بیٹا ھوں

میں بولا؛ جناب آج ھی واک کرنے آیا ھوں اور آج صبح کا درشن بہت اچھا ھوا تمہارا چہرہ دیکھ لیا 


میری بات سن کر لبنی مسکرا دی اور بولی؛

واہ اے گلاں وی کرلینداے 


میں بولا؛ جی کرلیتا ھوں باتیں اگر کوئی کرنے دو 

تو پھر میری بات سن کر حیا کی لالی انعم کے گالوں پر امڈ آئی تھی وہ کچھ سبنھلتی تو میں نے کہا؛

مجھ سے دوستی کروگی

اور اپنا ھاتھ بڑھا دیا اسکی طرف وہ تو پہلے چھوئی موئی بن کر بیٹھی تھی بے چینی کے عالم میں اس نے بھی اپنا ہاتھ

میرے ہاتھ میں دے دیا اور بولی؛

میں ایسی ویسی لڑکی نہیں ھوں ذیشان اپنے باپ کی پگ ھوں، مجھے بدنام مت کرنا

میں بولا؛ میرا باپ فوجی ھے اور میں ایک فوجی کا خون ھوں محبت اور دوستی اصول کیساتھ کروں گا دھوکہ دینا میری فطرت نہیں اور آپ میرا چناؤ کرکے فخر محسوس کروگی میں بھی تمکو بہت پسند کرتا ھوں میری چاھت کا مان رکھنا۔


لبنی بولی؛ واہ ذیشان بھائی آپکا پرپوز کرنے کا انداز بہت پسند آیا

میں نے اسکا ہاتھ چھوڑا اور وہ آگے بڑھ گئیں اور بولیں؛

سوری ھم نے جاکر بھی دودھ بھی نکالنا ھے پھر ملاقات ھوگی

اور وہ چلی گئیں میں تھوڑا آگے گیا تو وہ اپنے گھر کو چل پڑیں...


دراصل انعم سے ایک دو ملاقاتیں ھو چکی تھیں میری اور میں نے محسوس کیا کہ محبت کی چنگاری ادھر بھی سلگ رھی

ھے اسی لئیے میں نے پرپوز کردیا کہ ھوسکتا ھے انعم مان جاۓ میرا اندازہ سہی ثابت ھوا وہ بھی چوری چوری مجھے دیکھ رھی تھی اور میں بھی ۔


میں جب واپس آیا تو مما ناشتے کی میز پر میرا انتظار کر رھی تھیں ھم نے ناشتہ کیا اور پھر ابو پوچھنے لگے کہ؛

ذیشان بیٹا کیسے لگے گاؤں کے لوگ اور کیا تم خوش ھو یہاں

تو میں بولا؛ جی پاپا میں اس نئ شروعات سے بہت خوش ھوں تو پھر کیا پلان ھے ابا

جان

ابا جان بولے؛ پلان یہ ھے کہ کسان زمین کا سینہ چیر کر اناج اگاتا ھے، اور میں اس عمر میں زمیں کا سینا چیرنا میرے بس کی بات نہیں ھے

ماں بولی؛ میرا پتر بہت سیانا ایں آپے کرلے گا سب تسی فکرنہ کرو۔


ایک دن میں کھیتوں میں جوار کے کھیتوں سے ھوتا ھوا اپنے دوست شاہد کی طرف جارہا تھا دوپہر کا وقت تھا ستمبر کی نیم گرم دھوپ تھی اور اتنی زیادہ گرمی نہیں تھی فصلیں جوان ھو چکیں تھیں ان کے درمیاں سے گزرتے ھوۓ بھی خوف آتا تھا 


میں جب جوارکی فصل کے درمیان پہنچا تو مجھے ایک نسوانی آواز سنائی دی اور کچھ گڑ بڑ سی محسوس ھوئی اور میری چھٹی حس نے محسوس کیا کہ ضرور اس جوان فصل میں کوئی پریمی جوڑا ھے مگر ھے کدھر اس کا معلوم کرنا میرے لئیے مشکل تھا میں نے ان کی پیش قدمی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا میں نے کان لگا کر سنا تو مکئ

کی فصل میں کچھ کھسر پسر اب سسکیوں میں بدل چکی تھی مجھے اس طرح اوپن

ماحول میں اس طرح کی مدھوش سسکیاں بہت متاثر کر رھی تھیں میری عقل نے کام کیا میں نے نیچے بیٹھ کر جوار کے پودوں

کے درمیانی فاصلوں سے دیکھنا شرو ع کیا تو ایک طرف مجھے ایک لڑکی گھوڑی بنے ھوۓ نظر آئی.

مجھے تعجب ھورہا تھا کہ ایک تو پاگل اوپن سیکس کر رھے ھیں اور دوسرا یہ ڈر ذرا بھی نہیں کہ پکڑے جائینگے تو پھر کیا ھوگا

دور کسی نے کھیتوں میں ہل چالتے ھوۓ سرائیکی گانا لگایا ھوا تھا ونگاں لے بھانویں لے چھال سوہنا ڈھول چل دویں

چلئیے سنارے کول جسکی آواز دور تک جارھی تھی

میں سمجھ گیا کہ چودنے والا کوئی جدید قسم کا لونڈا ھے جسکو شاید معلوم تھا کہ ادھر کسی نے نہیں آنا اور لڑکی بھی شاید دیسی پورن سٹار تھی جو شاید سمجھ رھی تھی کہ ٹریکٹر پر لگے اس گانے کے شور میں بھلا کون سنے گا اسکی شہوت بھری سسکاریاں مگر اسے کیا معلوم تھا کہ آج چھاپہ پڑ چکا ھے

میں رینگتے رینگتے ان کے بہت قریب تر چلا گیا تھا میں نے جب دیکھا تو میرے حوش وحواس گم ھو گئے یہ لڑکا کوئی اور نہیں تھا میرا دوست نوابزادہ شاہد ھی

تھا

جاري ہے


*

Post a Comment (0)