Zameendar ki beti - Episode 7


تو میں نے نادیہ سے کہا؛ کہ اس بات کا ذکر کسی سے مت کرنا.

تو وہ بولی؛ میں نے بھال کسی کو بتا کر مار کھانی ھے.

میں نے اسے ایک کس کی اور پانچ سو کا نوٹ اسکی مٹھی میں دے دیا وہ بولی...... نئیں ذیشان بھال آپ نے تو مجھے طوائف سمجھ لیا

میں نے اسکا گال اپنے ھاتھوں سے سہلانے لگا اور بولا؛ میری جان میں نے تجھے کب طوائف کہا آپ تو میری جان ھو آپ نے رضامندی کیساتھ مجھے موقعہ فراہم کیا کہ میں آپکے جسم کا رس پی سکوں

اور میں نے کہا کہ؛،،، تم اس سے کوئی چیز کھا لینا

تو وہ میرے ہاتھ سے پانچ سو پکڑ کر چلی

گئ اور شاہد بولا؛ سالے تو کدھر سے آ گیا سارے رنگ میں بھنگ ڈال دیا تم نے

تو میں بولا؛ جناب قسمت میں ایک سانولی

سلونی لڑکی کی پھدی مارنا لکھا تھا تو بس نکل آیا اس طرف تم مجھے چھوڑو اپنا

بتاؤ کتنی لڑکیوں کو چود چکے ھو اور سب سے پہلی بار کس کی ٹانگیں اٹھائیں تھیں آپ نے.؟

تو شاہد شرما کر بولا؛ یار یہ کونسا جیتو پاکستان پروگرام کا سوال ھے جو میں بڑے فخر سے بتادوں کہ میں کتنی لڑکیوں کی ٹانگیں اٹھا چکا ھوں،

تو میں بولا؛ یار دوستی بھی کوئی چیز ھوتی ھے تم بتا دو پھر میں بتا دیتا ھوں۔

شاہد بولا؛ اب تک صرف تین لڑکیوں کی ٹانگیں اٹھا چکا ھوں۔

میں بولا؛ کون کون سی

ھم اس وقت چلتے چلتے انعم کے امرودوں کے پودوں کی طرف چلے گئے اور امرود توڑ کر کھانے لگے اور پھر میرے اسرار پر شاہد بولا؛ کہ پہلی بار لبنی کی سیل توڑی تھی اور اسکی ٹانگیں اٹھائیں اور دوسری بار نادیہ کے ساتھ کیا تھا جب یہ مجھے ڈیرے پر اکیلے میں ملی تھی۔

میں لبنی کا نام سن کر پریشان ھوگیا اور بولا؛ اب تیسری کون ھے.

تو وہ بولا؛ کہ کہ تیسری لبنی کی ایک دوست ھے۔

تو میں پھر بڑے اشتیاق سے اسے پوچھنے لگا آپ کھل کر بتاؤ اس کا نام کیا تھا۔

تو وہ بولا ؛ یار ذیشان تم میرا سارا ڈیٹا اکٹھا کرنے لگ پڑے، چھوڑو اس بات کو کسی اور موضوع پر بات کر تے ھیں۔

تو میں بولا؛ اگر تم نے نہ بتایا تو میں تم سے ناراض ھو جاؤں گا

میری بات سن کر شاہد بولا؛

سالہ تو نادیہ اور لبنی کا تو پوچھ چکا اب کیوں تیسری کا نام سننے کے لئیے اتنا باؤلہ ھو چکا ھے۔

میں اٹھ کر شاہد کے پیچھے لگ گیا اور بولا؛ ٹھہرو تیری تو تجھے میں بتاتا ھوں اتنی بات سننا تھا کہ شاہد میرے آگے آگے اور میں اس کے پیچھے بھاگنے لگے مجھے غصہ آرہا تھا. کہ شاید شاہد نے انعم کو بھی چود ڈالا ھو اور اسی وجہ سے مجھے نہیں بتا رہا کہ میں انعم کو پسند کرتا ھوں جیسے میاں

صاحب کا ایک شعر ھے جو آپکی نذر کرتا ھوں۔

جو وی کسے دا عاشق ھوندا

اوسے دی اوہ گل کردا سو سو مکر بہانے کرکے اوہدے مرنے مردا

قصہ مختصر دوستو شاعر کہتا ھے

 جب پیار ھو جاتا ھے کسی سے تو دنیا کی سب باتیں اسی کی باتیں لگتی ھیں

ھم چھوٹے سے کھالے کے ساتھ بنی پگڈنڈی پر بھاگ رھے تھے گاؤں کی طرف اور شاہد بولا؛ بچو تو مجھ نہیں پکڑ سکتا میں ان کچے راستوں کا پکا کھلاڑی ھوں تو تم ٹھہرے شہری بابو پیزا ہٹ کی پیداوار۔

میں بولا؛ تم رکو تو سہی میں نکالتا ھوں

تمہارا دیسی پن۔

ھم جب گاؤں کی پہلی گلی میں داخل ھوۓ تو سامنے سے لبنی آرھی تھی اپنے پانچ چھے بھینسوں کو لیکر جسے وہ نہر پر لے جاکر نہالتی اور کچھ دیر ان کو چراتی تھی اور پھر واپس اپنے باڑے میں لے جاتی تھی اور باندھ دیتی یہ اس کا روز کا معمول تھا اور آج وہ ھمیں دیکھ کر بولی کہ؛ کدھر بھاگ کر جارھے ھیں، ھمارے سانڈ بہت مستی چڑھی ھے تم دونوں کو

تو میں بولا؛ یہ شاہد بہت شرارتی ھے تم اسے بولو رک جاۓ

تو شاہد بولا؛ چل سالے تم سے پکڑا ھی نہیں گیا تم نہیں پکڑ سکتے

تو میں غصے سے شاہد کی دومعنی بات کا جواب دیتے ھوۓ بولا؛ کہ تمہیں تو عادت ھے پکڑنے کی میں بھلا کیوں پکڑوں۔

ھم ایک دوسرے کو پکڑنے کی خاطر لبنی شہزادی کی بھینسوں کے بیچ میں سے ادھر

ادھر بھاگ رھے تھے دوسری طرف کالا سوٹ سر پر حیا کا ڈوپٹہ پاؤں میں چم کا کھسہ

اور گورے گورے ہاتھوں میں ایک بڑا سا ڈندا ایسے پکڑا ھوا تھا۔ جیسے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کھلاڑی ثنا میر ھو اور بیٹنگ کرنے چلی ھو وہ ثنا میر تو نہیں تھی البتہ لبنی شہزادی گاؤں کی ایک الہڑ مٹیار تھی جو ھمارے باتوں سے لطف اندوز ھوتے ھوۓ بولی؛ ویکھو کھاں کیسے مستی چڑھی ھوئی ھے ان دونوں سانڈوں کو۔

لبنی کیساتھ میں اتنا فری نہیں تھا، مگر اسکی گلابی اردو سن کر بولا؛ اب سانڈ کو بھینس ملے تو اسکو کچھ بنے۔

تو وہ بولی؛ شرم نئیں آتی ایسی باتیں کرتے ھو تم

تو میں بولا؛ شرم تو بہت آتی ھے مگر جب حسن اپنا سراپا لیکر دستک دے رہا ھو تو ڈور کھولنے والا خود کو خوش نصیب ھی سمجھے گا۔

میں نے پوچھا؛ تم بتاؤ کدھر جارھی ھو اس وقت اور انعم کہاں ھے


انعم گھر پر ھے اسے بخار ھے اسی لئیے تو مجھے سب کچھ کرنا پڑ رہا ھے،،،،، اور ایک بوری بھینس کو ڈنڈا مارتے ھوۓ بولی،،،،،، میں انہیں نہر پر لیکر جا رھی ھوں کچھ دیر یہ ادھر گھاس چر لینگی پھر انکو واپس لے آئینگے،

تو میں بولا؛ یار ھم کو ایک اچھے گھر ضرورت ھے جو دودھ فروخت کرتے ھوں اور پانی سے پاک خالص دودھ بیچتے ھوں۔ تو وہ بولی؛ ذیشان ھمارا دودھ خالص ھوتا ھے تم لوگ ایک بار چیک کرلو

تو میں بولا؛ سہی کہا تم نے لبنی کسی دن چیک کروادو نہ تاکہ اندازہ ھو سکے کہ آپکا دودھ واقعی خالص ھے۔

تو وہ بولی؛ تم مجھ سے ڈنڈا کھاؤ گے تو پھر عقل آئے گی تمکو

تو میں بولا؛ اب بھلا میں نے کونسی غلط بات کردی دودھ چیک ھی تو کرنا ھے ارے یہ شاہد کدھر بھاگ گیا

تو وہ بولی؛ کہ شاہد بھی اس وقت اپنی بھینسوں کو نہر پر چرانے لے جاتا ھے آج شاید تمہارے ساتھ باتوں باتوں میں وہ لیٹ ھوگیا ھوگا تبھی تو جلدی گھر بھاگ

گیا....

میں نے کہا؛ تمہیں ڈر نہیں لگتا اکیلی جاتی ھو چاروں طرف فصلیں جوان ھیں مطلب کماد چری اور جوار وغیرہ۔

تو وہ بولی؛ کہ جب رات کو پانی لگاتی ھوں تب ڈر نئیں لگتا اب تو دن کی روشنی ھے اور میں نے شام سے پہلے پہلے واپس آنا ھے میں بولا؛ انعم کو بولو نہ کہ مجھے اس سے پیار ھوگیا ھے.

تو وہ بولی تم خود بات کر چکے ھوں اس سے اب میری سفارش کی ضرورت نہیں ھے۔

تو میں بولا؛ یار تم بتادو بندہ واقعی معصوم ھے کھل کر نہیں کہہ سکتا۔

تو وہ بولی؛ ذیشان تم جاؤ کسی نے دیکھ لیا تو باتیں بنائینگے یہ گاؤں ھے شہر نہیں یہاں پر سر راہ لڑکی لڑکا باتیں کرینگے تو گاؤں کے لوگ انہیں اچھا نہیں سمجھتے تم گھر جاؤ اور دودھ کی بات بھی فائنل کرلو

اور اپنی محبوبہ کا حال احوال بھی پوچھ لو۔

تو میں بولا؛ کہ آپکی بات میں دم ھے۔ مجھے اسکی باتوں کی سمجھ لگ چکی تھی کہ وہ سہی کہہ رھی تھی اور میں انکے گھر چلا گیا انعم کا گھر ایک حویلی نما گھر تھا بہت کھلے کھلے روم تھے اور گھر کے ایک طرف بھینسوں کا اور بکریوں کا باڑہ تھا تو دوسری طرف انعم کے گھر کی باؤنڈری کی شکل میں گول کمرے اور صحن میں نیم کا درخت تھا۔ جب میں نے گیٹ پر دستک دی تو اندر سے انعم اور لبنی کی

ماں باہر نکلی سر پر چادر اور منہ پر نقاب سا کر کے بولی؛ بیٹا کون ھو تم اور کس سے ملنا ھے۔

تو میں بولا؛ جی وہ وہ چاچا شیرو صاحب ھیں گھر پر۔

تو وہ بولی؛ وہ گھر پر ھی ھیں۔

میں نے کہا؛ ان سے ملنا ھے۔

تو انہوں نے کہا؛ وہ سامنے برآمدے میں لیٹے ھیں چلے جاؤ انکے پاس،،،،،، تو میں چلا گیا اندر اور جاکر ایک موڑھے پر بیٹھ گیا اور سامنے چارپائی پر بیٹھے ایک شخص جو انعم کا باپ تھا

ان سے ہاتھ ملاتے ھوۓ تھوڑا اونچی آواز میں بولا؛ انکل جی میں ذیشان ھوں اور پچھلے دو ماہ سے آپکے ساتھ والے ڈیرے پر آباد ھوا ھوں وہاں کچھ زمین خریدی ھے اور آپکے ساتھ کچھ دعا سلام کرنے چلا آیا۔ انعم کا باپ کوئی چالیس پینتالیس سال کا تھا اسکو ہل چلاتے ھوۓ کچھ چوٹیں آئی

تھیں جسکی وجہ سے وہ ان فٹ تھے،

ذیشان کا نام سن کر انعم جلدی سے باہر آئی اور بولی؛ ذیشان تم اور یہاں

تو اسکی ماں بولی؛ انعم تم اسے جانتی ھو بیٹا۔

تو انعم بولی؛ ماں یہ ھمارے ساتھ کالج میں پڑھتے رھے ھیں

تو انعم کی ماں بولی؛ یہ بڑی اچھی بات ھے تو بیٹی پھر ان کے لئیے کوئی چاۓ

وغیرہ کا بندوبست کرو

وہ بولی؛ کہ ابھی لیکر آتی ھوں ماں جی۔

انعم اندر چلی گئ اور میں چاچا شیرو سے باتیں کرنے لگا اور سوچنے لگا کہ انعم نے بڑی مہارت سے میرے ساتھ کالس فیلو والا رشتہ جوڑ لیا ھے، میں بیٹھا ھوا چاچا شیرو سے باتیں کر رہا تھا تب انعم کولڈ ڈرنک لیکر آ گئ اور میرے سامنے والی چارپائی پر بیٹھ گئ اور اپنی انگلیاں مروڑتے ھوۓ میری طرف دیکھنے لگی اور اشارے سے پوچھنے لگی کہ آپ کس وجہ سے آۓ ھو اور وہ وجہ اب بیان بھی کرو کالے رنگ کا سوٹ اور گورے گورے پیر جس میں گولڈن رنگ کی پائل بہت خوبصورت لگ رھی تھی اور جس کا سراپا دیکھ کر مجھے ایک خمار سا چڑھ جاتا اور میں اپنے حواس کھو دیتا انعم نے کھانستے ھوۓ مجھے خیالی دنیا سے واپس موڑا تو ہڑبڑا کر بولا؛ جی انکل اصل میں میں اس سلسلے میں حاضر ھوا تھا کہ مجھے دودھ چاہئیے تھا آپ لوگ ھمیں دودھ دے دیا کرو اور جتنا بل بنے گا وہ ھم ھفتہ وار آپکو ادا کر دیا کرینگے میری بات سن کر انعم کی مما بولیں؛ بیٹا آپ جتنا چاھو دودھ لے جایا کرو ہمارا دودھ سارا پنڈ شوق سے لیکر جاتا ھے۔

آپ پیسوں کی فکر نہ کرنا ماسی پیسے تہانوں ہرہفتے مل جان گئے ویسے صرف ایک ماہ کی تو بات ھے پھر ھم فارم


جاری ہے 

*

Post a Comment (0)